WE News:
2025-09-18@12:02:22 GMT

کیا آپ بھی اپنا نام بدلنا چاہتے ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT

کیا آپ بھی اپنا نام بدلنا چاہتے ہیں؟

 تہذیب یافتہ گھرانوں کی یہ روایت چلی آرہی ہے کہ جب بھی کسی نومولود کی آمد ہوتی ہے، تو اس کی تذکیر و تانیث کو مد نظر رکھتے ہوئے خاندان کے بزرگ افراد کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ  اس کو ایک نام دیں۔ یہ نام پرانے آباء کا بھی ہوسکتا ہے، کسی مذہبی و سیاسی پیشوا کا بھی ہو سکتا ہے اور کسی دوسری زبان سے مستعار لیکر بھی رکھا جا سکتا ہے۔  جیسے کہ حسنین کریمین کے نام طبرانی زبان میں شبر و شبیر تھے، عربی میں حسنؑ و حسینؑ ہوگئے اسی طرح نئے دور اور اُردو کی بات کی جائے تو ترکش نام یاماچ اُردو میں شجاع بنتا ہے۔ اب آپ اپنے نومولود کے لیے اپنی پسند کے مطابق کوئی بھی نام رکھ سکتے ہیں۔

یہ نومولود اسم بہ مسمیٰ ہوگا یا نہیں، یہ مستقبل بعید کا مسئلہ ہے

مختلف علاقوں اور قوموں میں نام رکھنے کا راز و انداز الگ اور نرالا بھی ہے، جیسے سمندر خان، دریا خان، گاما، ماجھا، ڈینو وغیرہ وغیرہ یہاں کچھ نام تو خاندان والوں نے رکھے ہیں اور باقی نام معاشرے نے بگاڑ  کر بنا دیے ہیں، ان دیے گئے ناموں میں آپ کی مرضی شامل تھی یا نہیں یہ تو  آپ ہی جانتے ہیں۔

لیکن آپ اپنا نام خود بھی رکھتے ہیں۔ جیسے لکھاری اپنا قلمی نام رکھ لیتے ہیں، مثال کے طور پر سید احمد شاہ  کا قلمی نام احمد فراز ہے۔ ان کا قلمی نام اس قدر مقبول ہوا کہ وہ خود کہتے ہیں۔

اور فرازؔ چاہییں کتنی محبتیں تجھے
ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا

 پڑوسی ملک بھارت کے بڑے اداکار عبد الرشید نے بھی اپنا فلمی نام سلمان خان رکھا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ جو افراد بیرون ملک  سفر کرتے ہیں، وہ اس ملک کے لحاظ سے اپنے نام میں جدت لاتے ہیں اور ان کے نام جیسی مطابقت یا مشابہت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن اس کے لیے آپ کو ایک مشور ہ دیتے ہیں۔ جب بھی کوئی نام اپنے لیے  پسند کریں اس کے معنی ضرور پتہ کرلیں اور نام کا صنف سے تعلق بھی واضح کرلیں۔

آج کل چین میں ہوں تو یہاں اگر آپ بینک جائیں یا ویزہ کی تاریخ بڑھانے جائیں تو وہ آپ سے باقاعدہ پوچھتے ہیں کہ کیا  آپکا کوئی چینی نام بھی ہے۔ اگر آپ نے اپنا کوئی چینی نام رکھا ہو تو وہ آپ کی دستاویزات کا حصہ بن جاتا ہے۔ لیکن کچھ افراد بنا سوچے سمجھے، دیکھے بھالے اور بنا پوچھے ہی کوئی نام رکھ لیتے ہیں اور پھر اس کے ملک کے افراد ان کے نئے نام کا مطلب جان کر آپ کا تمسخر اُڑاتے نظر آتے ہیں۔

جیسا کہ بہت سے غیر ملکیوں کے لیے ایک چینی نام رکھنا اچھا اور دلچسپ ہے، جیسا کہ ّلی بائیٗ نامی کینیڈین لڑکی (لی بائی، مرد، ایک ہزار سال پہلے ایک قدیم چینی شاعر تھا)، زاؤ زاؤ نامی ایک امریکی لڑکا (زاؤ زاؤ ایک جنگجو تھا جو دو ہزار سال پہلے چین میں شاہی اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتا تھا) وغیرہ  شامل ہیں۔ پھر جب چینی لوگ ان غیر ملکیوں کو اپنے ذہنوں میں قدیم چینی شخصیات کے ساتھ جوڑتے ہیں تو وہ اس ہنسی میں لوٹ پوٹ جاتے ہیں۔

اگر آپ چین میں آئیں اور کوئی آپ کو کہے کہ جناب! آپ اپنا نام چاؤ  بن شان رکھ لیں تو ضرور اس نام کے حوالے سے معلومات لیں کیونکہ یہ چین کا سب سے بڑا مزاحیہ کردار ہے، اور یہ نام بھی اب مزاح کے ساتھ جڑ چکا ہے یہ بالکل ہمارے ببو برال، امانت چن جیسا ہے۔ اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ یہ نام رکھنے سے لوگ آپ میں کس کی شخصیت تلاش کریں گے۔

یعنی  آپ کی حرکات و سکنات عوام کو آپ کے بارے رائے قائم کرنے کے لیے بہتر ثبوت فراہم کریں گی اور  نام کی نمود بھی خوب ہوگی،  لیکن خیال رکھیے نمود و نمائش اور شہرت طلبی آپ کو کہیں اس حد تک نہ لا کھڑا کرے۔

ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بد نام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا

ایک اور اہم بات اور وہ یہ ہے کہ آپ میں بہت سے افراد گھر میں اپنے بچوں کو ٹونی، ببلی اور پتہ نہیں کیا کیا کچھ کہہ کر یقیناً پیار سے بلاتے ہیں لیکن آپ ہی وہ پہلے افراد ہوتے ہیں جو دیگر افراد کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ آپ کے بچے کو کسی بھی اُلٹے سیدھے نام سے پکار سکتے ہیں۔ اس بات کو یقینی بنانا آپ کی ہی ذمہ داری ہے کہ آپ نے جب بچے کو ایک بہترین نام دیا ہے تو پھر اسی نام سے پکاریں تاکہ دیگر افراد بھی نام بگاڑنے کی جرات نہ کر پائیں۔

آج آپ اپنے بچوں کو اچھے نام دیں اور درست نام سے پکاریں تویقیناً کل یہ نہ تو آپ کا اور نہ ہی خاندان کا نام بدنام کریں گے اور یقیناً اپنے حسب و نسب کا بہترین اور عمدہ انداز میں خیال رکھیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وقار حیدر

تہذیب نام.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: تہذیب

پڑھیں:

بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن

DUBAI:

’’ یہ انڈینز تو بڑا ایٹیٹیوڈ دکھا رہے ہیں، ہم کیوں ہاتھ ملانے کیلیے کھڑے رہیں‘‘

جب میدان میں پاکستانی کرکٹرز  ایک دوسرے سے یہ بات کر رہے تھے تو ٹیم مینجمنٹ نے انھیں وہیں رکنے کا کہا، اس پر وہ تلملا گئے لیکن عدم عدولی نہیں کی، بعد میں جب مائیک ہیسن اور سلمان علی آغا بھارتی ڈریسنگ روم کی طرف گئے تو انھیں دیکھ کر ایک سپورٹ اسٹاف رکن نے دروازہ ایسے بند کیا جیسے کوئی ناراض پڑوسن کرتی ہے۔ 

تقریب تقسیم انعامات میں پاکستانی کپتان احتجاجاً نہیں گئے جبکہ انفرادی ایوارڈز لینے کیلیے ڈائریکٹر انٹرنیشنل پی سی بی عثمان واہلہ اور  ٹیم منیجر نوید اکرم چیمہ نے شاہین آفریدی کوجانے کا کہہ دیا، انھیں زیادہ چھکوں کا ایوارڈ دیا گیا۔ 

بھارتی رویے کو اپنی بے عزتی قرار دیتے ہوئے کھلاڑیوں نے فیصلہ کیا تو وہ آئندہ بھی کسی انڈین پریزینٹر کو انٹرویو دیں گے نہ ایوارڈ لینے جائیں گے، اتنا بڑا واقعہ ہو گیا لیکن کافی دیر تک پی سی بی کا کوئی ردعمل سامنے نہ آیا۔ 

چیئرمین محسن نقوی نے جب استفسار کیا تو  انھیں مناسب جواب نہ ملا، انھوں نے فوری طور پر ریفری اینڈی پائی کرافٹ کو ایشیا کپ سے ہٹانے کیلیے آئی سی سی کو خط لکھنے کی ہدایت دی، بعد ازاں سستی برتنے پر عثمان واہلہ کو معطل کر دیا گیا۔ 

اب یہ نہیں پتا کہ معطلی پکی یا کسی ایس ایچ او کی طرح دکھاوے کی ہے، اس تمام واقعے میں بھارت کا کردار بے حد منفی رہا،بھارتی حکومت پاکستان سے جنگ ہارنے اور6 جہاز تباہ ہونے کی وجہ سے سخت تنقید کی زد میں ہے۔ 

اس نے کرکٹ کی آڑ لے کر اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کی، نفرت کے عالمی چیمپئن بھارتیوں کی سوچ دیکھیں کہ ایک کھیل میں جیت پر بھنگڑے ڈال رہے ہیں ، جنگ میں ہار اور مسلسل جھوٹی باتیں کرنے پر اپنی حکومت سے استفسار نہیں کیا جا رہا، یہ معاملہ اب جلد ختم ہونے والا نہیں لگ رہا۔ 

پی سی بی نے سوچ لیا ہے کہ اگر پائی کرافٹ کو نہ ہٹایا گیا تو ٹیم ایشیا کپ کے بقیہ میچز سے دستبردار ہو جائے گی، میچ ریفری کا کام ڈسپلن کی پابندی کروانا ہوتا ہے ، وہ اکثر کھلاڑیوں کو غلطیوں پر سزائیں دیتا ہے، اب خود غلط کیا تو اسے بھی سزا ملنی چاہیے۔ 

پائی کرافٹ کو کیا حق حاصل تھا کہ وہ سلمان علی آغا سے کہتے کہ سوریا کمار یادیو سے ہاتھ نہ ملانا، شاید انھیں اس کی ہدایت ملی ہو گی، بطور ریفری یہ ان کا کام تھا کہ کرکٹ کی روایات پر عمل یقینی بناتے ، الٹا وہ خود پارٹی بن گئے۔ 

شاید آئی پی ایل میں کام ملنے کی لالچ یا کوئی اور وجہ ہو، میچ کے بعد بھی بھارتی کرکٹرز نے جب مصافحے سے گریز کیا تو ریفری خاموش تماشائی بنے رہے،پاکستان کو اب سخت اسٹینڈ لینا ہی ہوگا، البتہ آئی سی سی کے سربراہ جے شاہ ہیں، کیا وہ اپنے ملک بھارت کی سہولت کاری کرنے والے ریفری کے خلاف کوئی کارروائی کر سکیں گے؟

کھیل اقوام کو قریب لاتے ہیں لیکن موجودہ بھارتی حکومت ایسا چاہتی ہی نہیں ہے، اس لیے نفرت کے بیج مسلسل بوئے جارہے ہیں، کپتانوں کی میڈیا کانفرنس میں محسن نقوی اور سلمان علی آغا سے ہاتھ ملانے پر سوریا کمار کو غدار تک کا لقب مل گیا تھا۔ 

ایسے میں کھلاڑیوں نے آئندہ دور رہنے میں ہی عافیت سمجھی انھیں بھی اپنے بورڈ اور اسے حکومت سے ایسا کرنے کی ہدایت ملی ہوگی، جس ٹیم کا کوچ گوتم گمبھیر جیسا متعصب شخص ہو اس سے آپ خیر کی کیا امید رکھ سکتے ہیں۔ 

جس طرح بھارتی کپتان نے پہلگام واقعے کا میچ کے بعد تقریب تقسیم انعامات میں ذکر کرتے ہوئے اپنی افواج کو خراج تحسین پیش کیا اسی پر ان کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، آئی سی سی نے سیاست کو کھیل میں لانے پر ماضی میں عثمان خواجہ کو نہیں چھوڑا تو اب اسے  سوریا کیخلاف بھی ایکشن لینا ہوگا، پی سی بی کی دھمکی سیریس ہے۔ 

ریفری کو نہ ہٹایا گیا تو ایشیا کپ پاکستان کی عدم موجودگی میں دلچسپی سے محروم  ہو جائے گا، اس کا منفی اثر آگے آنے والی کرکٹ پر بھی پڑے گا، بھارت کو ورلڈکپ کی میزبانی بھی کرناہے تب بھی اسے مسائل ہوں گے۔ 

اب یہ جے شاہ کیلیے ٹیسٹ کیس ہے دیکھنا ہوگا وہ کرتے کیا ہیں،البتہ ان سے کسی سخت فیصلے کی امید کم ہی ہے،ویسے ہمیں خود کو بھی بہتر بنانا ہوگا، اگر ٹیم کی کارکردگی اچھی ہوتی تو کیا بھارت ایسی حرکت کر سکتا تھا؟

ہمارے کھلاڑی خود مذاق کا نشانہ بن رہے ہیں، پی سی بی کو اس واقعے کے ساتھ ٹیم کی شرمناک کارکردگی بھی ذہن میں رکھنی چاہیے، پلیئرز کوئی فائٹ تو کرتے ، کسی کلب لیول کی ٹیم جیسی کارکردگی دکھائی، کیا پاکستان اب صرف عمان اور یو اے ای جیسے حریفوں کو ہرانے والی سائیڈ بن گئی ہے؟

آئی پی ایل سے بھارت کو جو ٹیلنٹ ملا وہ اس کے لیے انٹرنیشنل سطح پر پرفارم بھی کر رہا ہے،پی ایس ایل کا ٹیلنٹ کیوں عالمی سطح پر اچھا کھیل پیش نہیں کر پاتا؟ ہم نے معمولی کھلاڑیوں کو سپراسٹار بنا دیا۔ 

فہیم اشرف جیسوں کو ہم آل راؤنڈر کہتے ہیں، اسی لیے یہ حال ہے، بابر اور رضوان کو اسٹرائیک ریٹ کا کہہ کر ڈراپ کیا گیا،صرف بھارت سے میچ میں ڈاٹ بالز دیکھ لیں تو اندازہ ہو گا کہ کوئی فرق نہیں پڑا۔

بنیادی مسائل برقرار ہیں، اب ٹیمیں 300 رنز ٹی ٹوئنٹی میچ میں بنا رہی ہیں، ہم 100 رنز بھی بمشکل بنا پاتے ہیں، ہمارا اوپنر صفر پر متواتر آؤٹ ہو کر وکٹیں لینے میں کامیاب رہتا ہے اور سب سے اہم فاسٹ بولر کوئی وکٹ نہ لیتے ہوئے دوسرا بڑا اسکورر بن جاتا ہے۔

یہ ہو کیا رہا ہے؟ کیا واقعی ملک میں ٹیلنٹ ختم ہو گیا یا باصلاحیت کرکٹرز کو مواقع نہیں مل رہے، بورڈ کو اس کا جائزہ لینا چاہیے، کہاں گئے وہ مینٹورز جو 50 لاکھ روپے ماہانہ لے کر ملک کو نیا ٹیلنٹ دینے کے دعوے کر رہے تھے، بھارت  نے یقینی طور پر غلط کیا لیکن ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے کہ کرکٹ میں ہم کہاں جا رہے ہیں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

متعلقہ مضامین

  • ساف انڈر17 فٹبال چیمپئن شپ: پاکستان اپنا دوسرا میچ جمعہ کو کھیلے گا
  • اب ایل ڈبلیو ایم سی ورکرز بھی "اپنی چھت اپنا گھر" کاخواب حقیقت میں بدل سکیں گے
  • اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں ٹوٹ جا ئوں گا تو یہ غلط فہمی ہے ، عمران خان
  • زینت امان کو اپنا آپ کبھی خوبصورت کیوں نہ لگا؟ 70 کی دہائی کی گلیمر کوئین کا انکشاف
  • تعلیم اور ٹیکنالوجی میں ترقی کر کے ہی امت اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرسکتی ہے، حافظ نعیم
  • لاڈلا بیٹا شادی کے بعد ’’کھٹکنے‘‘ کیوں لگتا ہے؟
  • سپریم کورٹ نے ریٹائرڈ ججز کی بیواؤں کو سیکیورٹی دینے کا اپنا فیصلہ واپس لے لیا
  • ایشیا کپ، اگلے چند گھنٹوں میں پی سی بی اپنا مؤقف دے گا
  • بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن 
  • بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن