ملک ریاض کے حوالے سے کالم لکھتے ہوئے اس کا نام سوچنے لگا تو پہلے دو تین نام ایسے آئے کہ انہیں منتخب کرتے ہوئے ہچکچاہٹ ہوئی، جیسے پہلے سوچا کہ ففٹی شیڈز آف ملک ریاض رکھا جائے، پھر خیال آیا کہ اس نام سے موجود فلمیں خاصی متنازع ہیں تو قارئین اس طرف بات کو نہ لے جائیں۔
اگلی سرخی ذہن میں آئی ’دس چہروں والا انسان‘، مقصد ان کی زندگی کے مختلف پہلو اور پرت در پرت شخصیت کی طرف اشارہ کرنا تھا۔ پھر خیال آیا کہ کہیں لوگ یہ نہ سمجھیں کہ انڈین دیومالائی داستانوں کے ولن راون کی طرف اشارہ ہے۔
آخر یہ طے کیاکہ نائن زندگیوں والا ملک ریاض ( Nine Lives of Malik) ہی رکھا جائے۔ بنیادی طور پر یہ قدیمی انگلش محاورہ بلیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے کہ نائن لائیوز آف کیٹ۔ اسپین میں نائن یعنی نو کے بجائے سات کا عدد استعمال ہوتا ہے۔ مِتھ یہ ہے کہ بلی موت اور خطرے کو دھوکا دے دیتی ہے، اپنے وجدان، تیز ریفلیکسز اور غیر معمولی قوت فیصلہ کی بنا پر۔ جس کسی نے گھر میں بلیاں پالی ہوں، انہیں اس کا اندازہ ہوگا۔
تو کیا یہ تصور کیا جائے کہ ملک ریاض ایک بار پھر اپنی بری قسمت کو جل دے جائیں گے، وہ بیچ سمندر جس منجدھار میں پھنسے ہیں، کیا اس سے ایک بار پھر نکل پائیں گے؟ آپ اپنی رائے دے سکتے ہیں، میں نے تو اپنے کالم کی سرخی یہ رکھ کر ایک طرح سے اپنی سوچ بتا دی ہے۔
ملک ریاض کی زندگی ڈرامائی نشیب و فراز سے معمور ہے۔ وہ حقیقی معنوں میں ایک سیلف میڈ ہیں یعنی زیرو سے اربوں کھربوں بنانے والے۔ یہ سب کس طرح بنائے گئے، یہ بھی کھلا راز ہے، ہر کوئی جانتا ہے۔ کالم لکھنے سے پہلے ریسرچ کرتے ہوئے کئی لوگوں سے بات کی، جن میں لاہور اور اسلام آباد کے بعض پراپرٹی ڈیلرز بھی شامل تھے۔ ایسے بھی جو ملک صاحب کے مداح ہیں اور ان کے طور طریقوں کو کاپی کرنا چاہتے ہیں۔ ہر ایک کی زبان پر ملک ریاض کے حوالے سے وہ داستانیں اور ان کہی کہانیاں ہیں جنہیں ہم شائع نہیں کرسکتے کہ ایسے الفاظ چاہے سچے ہی کیوں نہ ہوں، انہیں قانونی طور پر ثابت کرنا دشوار ہوتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق سیالکوٹ سے ہے، ایک ٹھیکے دار گھر میں جنم ہوا، مگر مالی حالات اتنے ابتر تھے کہ جونیئر کلرک کی نوکری کرنا پڑی۔ ان کی زندگی کا یہ دور بڑا کٹھن تھا۔ گزر بسر مشکل ہوگئی تھی۔ ملک ریاض خود اپنے انٹرویوز میں کئی واقعات سناتے ہیں، جیسے بیٹی کے علاج کے لیے گھریلو برتن بیچنے پڑے۔ اضافی پیسوں کے لیے دیواروں پر قلعی یعنی چونے سے سفیدی کرنا، سڑک پر تارکول (سرائیکی میں ہم اسے لُک کہتے ہیں) بچھانا وغیرہ۔
کالم نگار مظہر برلاس نے روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے کالم میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ ہاشمی نامی ایک شخص کا ملک ریاض کی زندگی میں بڑا اہم کردار ہے، وہ ان کے گھر ان برے دنوں میں راشن ڈلواتے رہے۔ مظہر برلاس کے مطابق بہت بعد میں جب ہاشمی صاحب کا انتقال ہوگیا تو ایک دن ایک شخص لمبی سی شاندار گاڑی میں ہاشمی کے گھر آیا اور کہاکہ والدہ محترمہ سے کہیں ماموں ریاض آیا ہے۔ آنے والا شخص ملک ریاض تھا جو اس دوران بے حد کامیاب بزنس مین اور کروڑوں اربوں میں کھیل رہے تھا۔
اس واقعے کے راوی کےمطابق ملک ریاض نے اپنے محسن کی فیملی کو بحریہ ٹاؤن میں دس مرلے کا ایک شاندار گھر تحفے کے طور پر دیا۔ ہاشمی صاحب کے بیٹوں کے اکاؤنٹس میں بڑی رقم ڈلوا دی اور انہیں بحریہ ٹاؤن ہی میں بڑے مشاہرے پر ملازمت دلوا دی۔ یہ کہانی بظاہر فلمی اور ڈرامائی محسوس ہوتی ہے، مگر بہرحال کئی لوگ ایسی کہانیاں سناتے ہیں اور یہ ملک ریاض کا ایک شیڈ یا چہرہ ہے۔ مہربان، احسان شناس۔ واللہ اعلم بالصواب۔
ان کا ایک ایسا ہی ایک چہرہ یا زندگی کا شیڈ غریبوں کی مدد کے منصوبے ہیں۔ بحریہ ٹاؤن دسترخوان جس کے تحت مبینہ طور پر دو لاکھ لوگوں کو روزانہ کھانا کھلایا جاتا ہے، بحریہ اسپتال میں بہت سے مستحق افراد کا مفت علاج، صومالی قذاقوں کی قید میں جانے والے پاکستانیوں کی مدد اور اس طرح کے بہت سے دیگر کام۔
ملک ریاض کی کہانی مگر صرف یہی نہیں ہے، اس میں بہت سے ناخوشگوار اور سیاہ ابواب بھی ہیں۔ ایسی کہانیوں کی کمی نہیں جو ملک ریاض اور بحریہ ٹاؤن کے استحصال، دھوکہ دہی اور سنگدلانہ اپروچ کی تفصیل سناتے ہیں۔ ملک صاحب کے ناقدین ان کے مفت دستر خوان وغیرہ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ لوٹ مار کرکے ایک چھوٹا حصہ چیئریٹی کرنے سے وہ رقم حلال نہیں ہوجاتی۔
لاہور ایئرپورٹ کے ایک سابق مینیجر نے گزشتہ دنوں اپنی کہانی سنائی، ان کی مرحومہ بیوی نے بحریہ ٹاؤن لاہور میں ایک پلاٹ لیا اور انتظامیہ سے کہاکہ مجھے تمام ڈیوز بتا دیں، میں سب اکٹھے پیشگی ادا کر دیتی ہوں۔ انہوں نے بتائے گئے پانچ برسوں کے تمام واجبات یکمشت دے دیے۔ اس کے باوجود جب دو ڈھائی برس بعد ان کے خاوند پلاٹ بیچنے کی نیت سے پتا کرنے گئے تو معلوم ہوا کہ چند ہزار کے کسی نامعلوم سے واجبات کا بہانہ کرکے ان کا پلاٹ کینسل کردیا گیا۔ انہوں نے خاصا شور مچایا تو بحریہ ٹاؤن آرچرڈ میں انہیں کسی کونے کھدرے میں پلاٹ دے دیا گیا۔ انہوں نے احتجاج کیاکہ مین بحریہ والا پلاٹ تو ایک کروڑ کے لگ بھگ ہوگا جبکہ یہ پلاٹ تو بیس پچیس لاکھ سے زیادہ نہیں۔ انہیں جواب ملا کہ پلاٹ مل گیا ہے تو غنیمت سمجھیں۔
اس طرح کی کہانیاں بے شمار لوگ سناتے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں کی تو شنوائی بھی نہیں ہوئی۔ خود میرا ایک دوست جو امریکی شہر شکاگو میں مقیم ہے، اس کے اپنے پلاٹ کے ساتھ ایسا ہوا۔ اس کا اصل پلاٹ کینسل کرکے شور مچانے پر کسی دور افتادہ کونے کھدرے میں پلاٹ مل گیا، اس کی اصل قیمت سے کئی گنا کم مالیت والا۔
ملک ریاض کا ایک چہرہ اس کی حیران کن کامیابی ہے۔ ایک عجیب وغریب داستان۔ ایک جونیئر کلرک کس طرح ملک کے امیر ترین آدمیوں میں سے ایک بنا۔ معمولی ٹھیکے داری سے پراپرٹی ٹائیکون بنا۔ اتنا طاقتور کہ ملک کا سب سے بڑا میڈیا ہاؤس اس کا نام تک نہیں لے سکتا۔ کسی بھی اخبار میں اس کے خلاف خبر نہیں لگتی، کسی چینل پر خبر نہیں چلتی۔
ایک طویل عرصے تک صرف ڈان اخبار ہی میں بحریہ ٹاؤن کے خلاف کوئی جائز، قانونی، واقعتاً درست خبر بمشکل لگ سکتی تھی، اس کے علاوہ کوئی اور اخبار اس کے لیے تیار نہیں تھا۔ ملک ریاض کی اس بے پناہ طاقت کے پیچھے بحریہ ٹاؤن کی اشتہاری دولت بھی تھی، مگر اس سے زیادہ ان کے سول اور غیر سول حلقوں میں موجود بے پناہ تعلقات اور اثرورسوخ کارفرما تھا۔
یہ بھی ایک الگ کہانی ہے کہ کس طرح ایک پرائیویٹ سوسائٹی کے نام کے ساتھ بحریہ کا لفظ نتھی ہوا۔ نیوی والے اس کے ساتھ نہیں ہیں مگر اپنا نام وہ واپس نہیں لے سکے۔ ملک ریاض کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کے ادارے میں بڑے بڑے سول اور ملٹری ریٹائرڈ افسروں کو ملازمت دی جاتی رہی۔ مشہور شاعر ضمیر جعفری کے صاحبزادے احتشام ضمیر (مرحوم) جو اہم حساس ادارے میں اہم ذمہ داریوں سے ریٹائر ہوئے، وہ بھی بحریہ ٹاؤن کے ملازم رہے۔ ایسے لوگوں کی بڑی تعداد ہے۔ کہاجاتا ہے کہ کئی ریٹائرڈ ججز اور بیوروکریٹس بھی شامل ہیں۔
میڈیا کے بھی بہت سے جغادری نام ملک ریاض کے زیراثر سمجھے جاتے ہیں۔ ایک زمانے میں ان کے نام سے روزنامہ جناح میں کالم بھی چھپا کرتا تھا جو مبینہ طور پر ملک کے ایک نامور کالم نگار، اینکر لکھا کرتے تھے، وہی جن کی شہرت کہانی کے انداز میں ڈرامائی کالم لکھنا ہے۔ ایک بار کسی کتابوں کی دکان پر ملک ریاض کے ان کالموں کا مجموعہ بھی دیکھا۔ معلوم نہیں ملک ریاض کس دل اور منہ سے اسے اپنی کتاب کہتے ہوں گے؟ روزنامہ جناح کے مالک ملک ریاض کے انتہائی قریبی عزیز تھے، یہ اخبار مگر بحریہ ٹاؤن کی دولت کے باوجود ناکام ہوا اور پھر یہ کسی اور کو دے دیا گیا۔
ملک ریاض کی بحریہ ٹاؤن کی شہرت نوے کے عشرے میں ہوئی۔ اس زمانے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے اہم رہنماؤں، حتیٰ کہ قیادت سے قریبی تعلقات قائم ہوئے۔ لاہور کے صحافتی حلقوں میں یہ بات مشہور ہے کہ ملک ریاض کی تجوری سے ملک کے بیشتر سیاستدان اور سیاسی جماعتیں مستفید ہوئیں۔
بحریہ ٹاؤن لاہور میں عظیم الشان بلاول ہاؤس کے بارے میں بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ ملک صاحب کا زرداری صاحب کو تحفہ ہے۔ پی پی والے ظاہر ہے اس کی تردید کرتے ہیں۔ اسی طرح کی باتیں ن لیگ کے اعلیٰ سطح کے رہنماؤں کے بارے میں بھی کہی جاتی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک ریاض کے تعلقات تحریک انصاف کے رہنماؤں سے بھی رہے۔ عثمان بزدار جب وزیراعلیٰ پنجاب تھے تو ملک ریاض کا طوطی بولتا تھا۔ رنگ روڈ کو بحریہ ٹاؤن کے کچھ حصے سے گزر کر جانا تھا، اس میں غیرمعمولی التوا ہوتا رہا، وجہ بحریہ ٹاؤن کو فائدہ پہنچانا تھا۔ وزیراعظم عمران خان لاہور آئے، انہوں نے صحافیوں کے سامنے کمشنر لاہور کو حکم جاری کردیا کہ اسے مکمل کیا جائے۔ وہ روڈ تب بھی مکمل نہ ہوئی اور ادھوری رہی۔
تحریک انصاف کے حلقوں میں مقبول اینکر، یوٹیوبر عمران ریاض خان نے اس پر ایک پورا پروگرام عثمان بزدار کے خلاف داغ دیا، مگر کچھ بھی نہ ہوا۔ ن لیگ کے حامی بعض سینیئر اخبارنویسوں کا کہنا ہے کہ دراصل عمران خان نے انتظامیہ کو ایسا کرنے سے روک دیا تھا بلکہ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر لاہور کا تبادلہ بھی کرا دیا تھا۔ واللہ اعلم۔
190 ملین پاؤنڈ کے کیس کا فیصلہ تو ابھی آیا ہے جس میں یہ کہا گیا کہ وزیراعظم عمران خان نے ملک ریاض کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا تھا اور اسے فائدہ پہنچانے کے بدلے سوہاوہ میں ملک ریاض سے اراضی لی تھی۔ تحریک انصاف البتہ اس کی تردید کرتی ہے اور ایک بالکل ہی مختلف بیانیہ پیش کرتی ہے۔ تحریک انصاف کی بات ممکن ہے درست ہو، مگر بہرحال عمران خان کو ملک ریاض جیسے کردار کے ساتھ یہ معاملات کرنے ہی نہیں چاہیے تھے۔
ویسے ایک دلچسپ بات لاہور کے ایک سینیئر ایڈیٹر نے بتائی، ان کے بقول چار پانچ سال قبل سوہاوہ کا ایک ریٹائر فوجی ان کے پاس دفتر آیا، اس کے پاس دستاویزات تھیں اور اس کا الزام تھا کہ ملک ریاض نے اس کی زمینوں پر قبضہ کیا ہے اور یہی زمینیں اب القادر یونیورسٹی کو عطیہ دے رہے ہیں۔ لاہور بیٹھے صحافی کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ ایسے ہائی پروفائل کیس میں پنگا لے اور سوہاوہ کی زمینوں کے مسئلے کی سچائی جانے۔ اس طرح کے الزامات در الزامات ملک ریاض پر ہیں۔ انہوں نے کبھی ان کی وضاحت کی زحمت نہیں فرمائی اور ایک طرح سے انہیں اگنور کرتے رہے۔
ایک وجہ وہی نو زندگیوں والی صلاحیت ہے۔ ملک ریاض ہر قسم کے بحران اور مشکل سے بچ کر نکلتے رہے ہیں۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری ان کے درپے ہوگئے تھے، ملک ریاض اس قدر زچ آئے کہ ایک روز انہوں نے افتخار چوہدری کے بیٹے ارسلان کے خلاف پریس کانفرنس کر ڈالی کہ اس نے ان سے کروڑوں کے تحائف لیے ہیں۔ یہ خبر بم شیل ثابت ہوئی۔ انہی دنوں لاہور کے ایک ٹی وی چینل سے ان کا انٹرویو نشر ہوا، مگر انٹرویو کے چند گھنٹوں کے بعد آف اسکرین ویڈیو بھی سامنے آگئی جس سے لگا کہ یہ سب مینجڈ اور پلانٹڈ انٹرویو تھا۔ اس سے بھی بہت شور مچا، کچھ عرصے کے لیے اس انٹرویو کے اینکرز کی ساکھ بھی متاثر ہوئی، پھر ہر کوئی بھول بھال گیا۔
افتخار چوہدری والا معاملہ یوں لگ رہا تھا کہ ملک ریاض کے گلے پڑ گیا ہے، پھر اچانک ہی سب کچھ ٹھیک ہوگیا۔ نجانے کیوں، نجانے کیسے؟ صحافی لوگ کم بخت ہر معاملے میں کچھ نہ کچھ کریدتے رہتے ہیں اور بے شک اخبار، ٹی وی پر نہ کہہ سکیں، نجی محفلوں میں ان کی گستاخانہ زبان بہت کچھ اگلتی رہتی ہے۔ ایسی ہی ایک کہانی افتخار چوہدری اور ملک ریاض کی ایک مبینہ ملاقات کی بھی ہے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کتنا سچ، کتنا جھوٹ ہے۔ یہ بہرحال امر واقعہ ہے کہ ملک ریاض یہاں سے بچ نکلے۔
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ چند دنوں کے چیف جسٹس بنے تھے، ملک ریاض کو خطرہ تھا کہ کہیں ان کے خلاف وہ فیصلہ نہ کر دیں۔ وہ تمام دن ملک صاحب ملک سے باہر رہے اور ان کے پینل پر موجود ملک کے چوٹی کے وکلا صاحبان چیف جسٹس جواد خواجہ سے کیس میں مہلت لیتے رہے، یوں یہ مشکل بھی ٹل گئی۔
مسلم لیگ ن کے تیسرے دور حکومت میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بھی ملک صاحب کے پیچھے پڑ گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ تب انہوں نے کراچی، سندھ میں پناہ لیے رکھی، جہاں ان کے دیرینہ مہربان آصف زرداری کا راج چلتا تھا، یہ وقت بھی گزر ہی گیا۔
جنرل راحیل شریف جب آرمی چیف تھے، تب یہ افواہ اڑی تھی کہ اسٹیبلشمنٹ نے ملک ریاض کا مکو ٹھپنے کا ارادہ کرلیا ہے، مگر تب ہی بحریہ ٹاؤن کراچی لانچ ہوئی اور دروغ برگردن راوی ایک سو ارب سے زیادہ اس میں انویسٹ ہوگئے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ذمہ داران نے سوچا کہ اگر ملک کو دبوچا گیا تو ملکی معیشت کو شدید دھچکا پہنچے گا، یوں ملک صاحب گیلے ہاتھ میں دبے صابن کی ٹکی کی طرح پھسل کر نکل گئے۔
ملک ریاض کے لیے سب سے مشکل وقت ایک متنازع چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں آیا جب سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کی جانب سے کوڑیوں کے مول بحریہ ٹاؤن کراچی کو دی گئی زمین کے معاملے کی تحقیق کی۔ اس بینچ کے جج صاحبان پر ن لیگی معترض رہے ہیں، مگر یہ واحد موقع ہے جب ملک ریاض کی گردن بری طرح پھنس گئی، وہ کسی بھی قسم کا سمجھوتہ کرنے، مینجمنٹ کرنے میں ناکام رہے، سپریم کورٹ نے 421 ارب کا جرمانہ عائد کیا اور یہ رقم ماہانہ قسطوں میں دینے کا حکم جاری کیا۔ چند ایک اقساط کی ادائیگی ہوئی، پھر اس فیصلے پر بھی عملدرآمد نہ ہوا، مگر بہرحال یہ ملک صاحب کے گلے کا سخت نوکیلا کانٹا ہی ثابت ہوا۔ 190 ملین پاؤنڈ کیس بھی دراصل اسی فیصلے سے جڑا ہے۔
ملک ریاض کی زندگی کا ایک سب سے مشکل اور اب تک شائد سب سے سنگین فیز آج کل چل رہا ہے۔ 190 ملین پاؤنڈ کیس میں ان کے بارے میں خبریں آئیں کہ وہ وعدہ معاف گواہ بنیں گے۔ ملک ریاض نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس کے بعد ہی ان پر مشکلات کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ اگلے روز اپنی ویڈیو میں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ضبط کیے ہوئے ہیں لیکن اگر ان کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو پچھلے پچیس تیس برسوں کا سب کچا چٹھا ثبوتوں کے ساتھ سامنے آ جائےگا۔
خیر یہ تو جب سامنے آئےگا، تب ہی کچھ کہا جا سکتا ہے۔ یہ البتہ حقیقت ہے کہ ملک ریاض مشکل میں ہیں۔ 190 ملین پاؤنڈ کیس میں وہ پیش نہیں ہوئے، ملک سے باہر رہے۔ انہیں اشتہاری قرار دے کر ان کی ملکیتی اراضی نیلام کرنے کا حکم جاری ہوچکا۔
ملک ریاض نے دبئی میں ایک بڑا پراپرٹی پراجیکٹ شروع کیا ہے، دو روز قبل قومی احتساب بیورو (نیب) نے اس حوالے سے پاکستانیوں کو خبردار کیا ہے کہ جس نے اس میں سرمایہ کاری کی، اسے منی لانڈرنگ سمجھا جائےگا۔ یوں لگ رہا ہے کہ ملک ریاض کی جان جلدی نہیں چھوٹ پائے گی اور شائد انہیں اگلے چند برس ملک سے باہر رہنا پڑےگا۔
ملک ریاض کی یہ کہانی دلچسپ ہے اور ڈرامائی بھی۔ اس کے بہت سے حصے لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہیں، معلوم نہیں کبھی وہ گمشدہ ٹکڑے سامنے آ بھی پائیں گے یا نہیں۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ ملک صاحب کا اختتام کیا ہوگا؟ قدرت کی لافانی قوت ہی یہ جانتی ہے۔ ہم تو صرف اندازے ہی لگا سکتے ہیں، خام اندازے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔
190 ملین پاؤنڈ کیس بحریہ ٹاؤن پراپرٹی ٹائیکون حکومت دبئی سپریم کورٹ قسمت قومی احتساب بیورو ملک ریاض میڈیا نیب.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 190 ملین پاؤنڈ کیس بحریہ ٹاؤن پراپرٹی ٹائیکون حکومت سپریم کورٹ قومی احتساب بیورو ملک ریاض میڈیا ملین پاؤنڈ کیس ہے کہ ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کے تحریک انصاف ملک ریاض نے ملک صاحب کے ملک ریاض کے کے بارے میں ملک ریاض کی ملک ریاض کا سناتے ہیں کی زندگی حوالے سے چیف جسٹس انہوں نے کے خلاف میں ایک کے ساتھ کیس میں کا ایک کے لیے بہت سے اور اس تھا کہ یہ بھی کے ایک ہے اور ملک کے اور ان
پڑھیں:
ابرار احمد وکٹ لینے کے بعد جشن منانے والا اسٹائل کیوں چھوڑ رہے ہیں؟
پاکستان کے مسٹری بولر ابرار احمد وکٹ لینے کے بعد جشن منانے والا اسٹائل کیوں چھوڑ رہے ہیں؟ وجہ بتا دی۔
ابرار احمد کا وکٹ لینے کے بعد سر ہلانے والا اسٹائل خاصا مشہور ہوا ہے، کچھ لوگوں نے اس اسٹائل پر تنقید بھی کی۔
لاہور میں نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے ابرار احمد نے کہا کہ میں نے پی ایس ایل کے پچھلے ایڈیشن میں سلیبریشن اسٹائل شروع کیا، جنوبی افریقا میں بھی سر ہلاتا تھا لیکن کوئی مسئلہ نہیں ہوا، چیمپئنز ٹرافی میں بھارت کے خلاف میچ میں کچھ زیادہ مسئلہ ہو گیا میرا ارادہ تھا کہ میں اپنے اسٹائل کو جاری رکھوں گا لیکن شائد کچھ لوگوں کو اچھا نہیں لگ رہا تھا۔
ابرار احمد نے کہا کہ میں کسی کی دل آزاری نہیں کرنا چاہتا، اس لیے میں نے کہا کہ یہ اسٹائل چھوڑ دیتا ہوں، مجھے نئے بال کے ساتھ ڈیتھ اور مڈل اوورز میں بھی بولنگ کرنا ہوتی ہے، اس لیے میں نے مہارت کو بہتر بنانے کے لیے کام کیا جس کا فائدہ ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم بہت اچھی ہے، ایک جیت سے مومنٹم بن جائے گا، ویوین رچرڈز لیجنڈ ہیں ان کے الفاظ ہمارے لیے بڑی اہمیت رکھتے ہیں، وہ ہمیں متحرک رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مارک چیپمین کو یہاں کنڈیشنز کا علم ہے، انہوں نے بہت رنز کیے ہیں، اُمید ہے وہ اسی طرح رنز کریں گے جیسے کہ وہ کرتے آ رہے ہیں۔
ابرار احمد نے اس عزم کا اظہار کیا کہ مجھے تینوں فارمیٹ کا بہترین بولر بننا ہے، اس کے لیے فٹنس کو مزید بہتر بناؤں گا جبکہ مجھے اندازہ ہے کہ بیٹنگ میں اچھا کرنا بہت ضروری ہے، اگلے 6 ماہ میں بیٹنگ پر کام کروں گا۔
Post Views: 2