چین میں بیشتر جرمن کمپنیاں ترقی کرنے کے لئے پرعزم ہیں، جرمن چیمبر آف کامرس WhatsAppFacebookTwitter 0 25 January, 2025 سب نیوز

بیجنگ : چینی میڈیانے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ورلڈ اکنامک فورم کا سالانہ اجلاس 20 سے 24 جنوری  تک سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں چین کی جانب سے پیش کی گئیں تجاویز  پر تبصرہ کرتے ہوئے شمالی اور شمال مشرقی چین کے لیے چین میں جرمن چیمبر آف کامرس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اویانگ لیوین نے کہا  کہ وہ  خاص طور پر تجارتی رکاوٹوں کے خلاف چین کے موقف کی حمایت کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ  اس وقت، بیشتر جرمن کمپنیاں چین میں ترقی کرنے کے لئے پرعزم  ہیں .

 ڈیووس فورم میں چین نے جامع اقتصادی  عالمگیریت  کو فروغ دینے، عالمی اقتصادی ترقی کے لئے نئی قوت محرکہ کو تشکیل دینے، مشترکہ طور پر حقیقی کثیر الجہتی کو برقرار رکھنے   اور  موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے  چار تجاویز پیش کیں۔شرکاء  نے مانا  کہ یہ تجاویز جدت طرازی، ہم آہنگی، سبز ترقی اور اشتراک کے تصورات کی نمائندگی کرتی ہیں، جو تمام فریقوں کی مشترکہ ترقی کے مطالبات کے مطابق ہیں اور  یہ انفرادی ممالک کی طرف سے تعمیر کردہ ” اسمال یارڈ اینڈ ہائی فینس ”  پالیسی کے انسداد   اور ممالک کے مابین ترقیاتی خلا کو  کم کرنے میں بھی  مدد  دیں گی   جس سے  معاشی گلوبلائزیشن کے عمل کو بہتر بنا نے میں بھی مدد ملے گی . چین نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ اعلی معیار کی ترقی کو  فروغ دے گا ،

سبز معاشی اور معاشرتی ترقی  کو تیز کرے گا  اور کھلے پن کو وسعت دینا جاری رکھتے ہوئے  مزید غیر ملکی کاروباری اداروں کو چین میں سرمایہ کاری اور کاروبار کے لئے خوش آمدید کہے گا ۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2024 ء میں چین میں 59,080 نئے غیر ملکی  کاروباری ادارے قائم ہوئے جو سال بہ سال 9.9 فیصد  کا اضافہ تھا۔

جرمنی اور سنگاپور جیسی ترقی یافتہ معیشتوں کی جانب سے چین میں سرمایہ کاری میں اضافہ جاری رہا اور  متعدد بین الاقوامی تنظیموں اور اداروں نے چین کی اقتصادی ترقی کے بارے میں اپنی پیش گوئیوں کو بڑھایا  ہے۔ یہ سب چین کی اقتصادی ترقی کے امکانات پر دنیا کے تمام شعبوں کے اعتماد کی عکاسی  ہے ۔ توقع ہے کہ نئے سال میں چین دنیا میں مزید استحکام اور ترقی پیدا کرے گا  اور زیادہ  ممالک ترقی کے  مواقعوں میں شامل ہوں گے ۔

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: چین میں کے لئے

پڑھیں:

پاکستان، چین، بنگلا دیش: مشترکہ ترقی کے نئے راستے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

جنوبی ایشیا کے بدلتے ہوئے جغرافیائی، سیاسی اور اقتصادی تناظر میں پاکستان، چین اور بنگلا دیش کے مابین سہ فریقی ورکنگ گروپ کا قیام ایک خوش آئند اور تاریخی پیش رفت ہے۔ 19 جون 2025 کو چین کے شہر کنمنگ میں ہونے والا افتتاحی سہ فریقی اجلاس جہاں علاقائی روابط کے ایک نئے باب کا آغاز ہے، وہیں یہ جنوبی ایشیا میں تعاون، ترقی اور استحکام کی امید افزا علامت بھی ہے۔ اس اجلاس کی میزبانی چین نے کی اور پاکستان و بنگلا دیش کی اعلیٰ سفارتی قیادت کی شرکت نے اس کی اہمیت کو مزید اجاگر کیا۔ پاکستان کی سیکرٹری خارجہ آمنہ بلوچ، بنگلا دیش کے قائم مقام سیکرٹری خارجہ روح العالم صدیقی اور چین کے نائب وزیر خارجہ سن ویڈونگ نے نہ صرف سیاسی تعاون بلکہ تجارت، ڈیجیٹل معیشت، زراعت، تعلیم، ثقافت، ماحولیات اور سمندری سائنس جیسے شعبوں میں باہمی روابط بڑھانے پر اتفاق کیا۔ یہ پیش رفت اس وقت اور زیادہ اہمیت اختیار کر جاتی ہے جب ہم جنوبی ایشیائی خطے کے تاریخی مسائل کو دیکھتے ہیں۔ پاکستان اور بنگلا دیش کے ماضی کے تناؤ کے باوجود حالیہ برسوں میں تعلقات میں مثبت رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔ سیکرٹری خارجہ آمنہ بلوچ کا اپریل 2025 کا ڈھاکا دورہ گزشتہ 15 برسوں میں پہلا باضابطہ سفارتی رابطہ تھا، جس نے دوطرفہ اعتماد سازی کی فضا کو جنم دیا۔ اسی طرح حالیہ اعلیٰ سطحی ملاقاتیں، بشمول وزیر اعظم شہباز شریف اور بنگلا دیش کے چیف ایڈوائزر محمد یونس کے درمیان عالمی فورموں پر ملاقاتیں اس اعتماد کی مضبوطی کا پتا دیتی ہے۔ اس سہ فریقی ورکنگ گروپ کی تشکیل درحقیقت چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) کی اس اسٹرٹیجک سوچ سے جْڑی ہے، جو خطے کو معاشی اعتبار سے مربوط اور باہم منسلک دیکھنا چاہتی ہے۔ پاکستان اس وژن میں گوادر پورٹ اور سی پیک کے ذریعے ایک مرکز کی حیثیت رکھتا ہے، جبکہ بنگلا دیش کی تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت اسے مشرقی ایشیا کے لیے ایک قدرتی تجارتی دروازہ بناتی ہے۔ ایسے میں اگر یہ سہ فریقی تعاون مؤثر طریقے سے آگے بڑھتا ہے تو نہ صرف یہ ممالک خطے کے اقتصادی توازن کو مضبوط بنانے میں کامیاب ہوں گے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ایک متبادل ترقیاتی ماڈل پیش کیا جا سکے گا۔ یہ امر قابل تحسین ہے کہ اجلاس میں مشترکہ ورکنگ گروپ کے قیام پر اتفاق ہوا ہے جو طے شدہ شعبوں میں عملی پیش رفت کو ممکن بنائے گا۔ اگر یہ سلسلہ برقرار رہا تو مستقبل میں سارک جیسی غیر مؤثر علاقائی تنظیموں کے برعکس ایک فعال، عملی اور نتیجہ خیز علاقائی اتحاد کی بنیاد پڑ سکتی ہے۔ اسی تناظر میں ہمیں ماضی کے کچھ کامیاب علاقائی ماڈلز سے سیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ مثلاً آسیان ، جس نے جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر معاشی و سیاسی ترقی کا نیا باب رقم کیا۔ پاکستان، چین اور بنگلا دیش کا یہ تعاون بھی جنوبی ایشیا میں آسیان جیسا ماڈل تشکیل دے سکتا ہے، بشرطیکہ سیاسی عزم، تسلسل اور اعتماد سازی کو برقرار رکھا جائے۔ چین، پاکستان اور بنگلا دیش کے درمیان یہ سہ فریقی تعاون صرف ایک سفارتی اجلاس نہیں بلکہ علاقائی ہم آہنگی، باہمی ترقی اور مشترکہ مستقبل کی بنیاد ہے۔ حکومت ِ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس موقع کو بھرپور طریقے سے استعمال کرے اور اس میکانزم کو صرف دستاویزات کی حد تک محدود رکھنے کے بجائے اسے عملی اشتراک اور منصوبہ بندی کا مؤثر ذریعہ بنائے۔ یہ نہ صرف پاکستان کی اقتصادی ترقی کے لیے اہم ہوگا بلکہ خطے میں امن، استحکام اور عوامی فلاح کے نئے دروازے کھولنے کا سبب بنے گا۔

متعلقہ مضامین

  • وفاقی بجٹ 2025-26 کا اقتصادی منظرنامہ
  • اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری اسلام آباد کالج فار گرلز ایف سکس ٹو محمد حسیب کو گریڈ17میں ترقی مل گئی
  • پاکستان، چین، بنگلا دیش: مشترکہ ترقی کے نئے راستے
  • پاکستانی سفارتی مندوبین کا چین میں جِنکو سولر فیکٹری کا دورہ، گرین انرجی میں چین-پاکستان تعاون پر زور
  • جنگیں تو ہوں گی!
  • تعطیلات کے لیے بچت، جرمنوں کی اولین ترجیح
  • حکومت کا وژن جامع اورہمہ گیر ترقی کا حصول ہے، ملکی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی راہ ہموار کی گئی ہے، وفاقی وزیرخزانہ محمد اورنگزیب
  • تہذیبوں کے مابین باہمی سیکھنے  کے عمل کو جاری رکھنا چاہئے، چینی نائب وزیر اعظم
  • فرنٹیئر کسٹمز ایجنٹس ایسوسی ایشن کے وفد کی محمد سعید اسد سے ملاقات
  • این ڈی ایم اے کی بیشتر علاقوں میں 3 روز تک آندھی، طوفان اور بارشوں کی پیشگوئی