ٹرمپ کا حکم نامہ، افغان پناہ گزینوں کیلئے امریکا روانگی کا دروازہ بند
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر پناہ گزین ویزا درخواستوں پر کام روک دیا گیا ہے جس کے باعث امریکا جانے کے لیے انتظار میں بیٹھے ہزاروں افغان شہریوں کے لیے امریکا جانے کا دروازہ بند ہوگیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی امیگریشن پالیسی کے نفاذ سے افغانستان میں امریکی مشن کی حمایت کرنے والے افغانوں پناہ گزینوں کی پروازیں بھی روک دی گئی ہیں، ان تمام افراد کو امریکا میں دوبارہ آباد ہونے کی منظوری دی گئی تھی۔
امریکی میڈیا کے مطابق افغان جنگ میں طالبان جنگجوؤں کے خلاف فضائی حملوں کی منظوری میں مدد دینے والے افغان فضائیہ کے قانونی مشیر ناصر اب بھی افغانستان میں ہیں جہاں وہ طالبان حکومت سے چھپ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق انہوں نے کہا کہ وہ ان ہزاروں افغان شہریوں کے ساتھ امریکا جانے کی کوششوں میں تھے لیکن اب صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو ایکشن کے باعث مجبور ہیں۔
صدر ٹرمپ کے اس حکم نامے نے دوبارہ آبادکاری کے پروگرام کو معطل کردیا جو کہ ہر سال ہزاروں قانونی پناہ گزینوں کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت دیتا ہے۔ اب بہت سے ایسے لوگ جنہوں نے امریکی جنگ میں ان کی مدد کی اور وہ اب نئی شروعات کی تلاش میں ہیں لیکن وہ مجبور ہیں۔
ایک سابق لیفٹیننٹ کرنل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر امریکی میڈیا کو بتایا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے میں نہ صرف افغانوں کے مفادات کو نظر انداز کیا گیا ہے بلکہ اس سے امریکی مفادات کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ دنیا اور امریکا کے اتحادی اب امریکی حکومت پر کیسے بھروسہ کرسکتے ہیں؟
افغانوں کی دوبارہ آبادکاری میں مدد کرنے والے امریکی رضاکار گروپوں کے اتحاد ’افغان اویک‘ کے صدر شان وان ڈیور نے ڈونلڈ ٹرمپ کے نئے حکم نامے کو امریکی حکومت اور فوج کی حمایت کرنے والے افغان شہریوں کے ساتھ غداری قرار دیا ہے اور کہا کہ یہ دل دہلا دینے والی خبر ہے۔
اپنے بیان میں انہوں نے مزید کہا کہ امریکا کی جانب سے افغان اتحادیوں کی حفاظت میں ناکامی دنیا کو خطرناک پیغام بھیجتی ہے کہ امریکا کے وعدے مشروط اور عارضی ہیں۔
واضح رہے کہ امریکی صدر کے اس حکم نامے سے قبل کم از کم 40 ہزار افغان شہری امریکا میں آباد ہونے کی کوششوں میں تھے لیکن اب ان کی پروازیں روک دی گئی ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق معطلی خاص طور پر ان 10 سے 15 ہزار افغانوں کے لیے تباہ کن ہے جن کی جانچ پڑتال بھی مکمل کی گئی تھی اور وہ پروازوں کی تیاری کر رہے تھے۔
امریکی میڈیا کے مطابق صدر بائیڈن کی دور میں سب سے زیادہ 1 لاکھ افغانوں کو امریکا میں پناہ دی گئی، صدر باراک اوباما کی صدارت میں تقریباً 85 ہزار افغان شہری امریکا منتقل ہوئے جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں صرف 11 ہزار افغانوں کو امریکا منتقل کیا گیا۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نئی امیگریشن پالیسی سے متعلق حکم نامے پر دستخط کیے تھے جس تحت 27 جنوری سے امریکا میں پناہ گزینوں کی آبادکاری کے لیے امریکی پناہ گزین داخلہ پروگرام کو معطل کیا گیا ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی میڈیا پناہ گزینوں امریکا میں ہزار افغان کے مطابق کے لیے
پڑھیں:
’عیسائیوں کا قتلِ عام‘: ٹرمپ کی نائجیریا کے خلاف فوجی کارروائی کی دھمکی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نائجیریا میں عیسائیوں کے قتلِ عام پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر نائجیریا کی حکومت نے فوری طور پر کارروائی نہ کی تو امریکا تیزی سے فوجی ایکشن لے گا۔
ٹرمپ نے ہفتے کی رات اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ٹروتھ سوشل“ پر بیان میں کہا کہ انہوں نے امریکی محکمہ دفاع کو حکم دیا ہے کہ وہ تیز اور فیصلہ کن فوجی کارروائی کی تیاری کرے۔ ٹرمپ کے مطابق، امریکا نائجیریا کو دی جانے والی تمام مالی امداد اور معاونت فی الفور بند کر دے گا۔
انہوں نے لکھا کہ اگر امریکا نے کارروائی کی تو وہ “گنز اَن بلیزنگ” یعنی پوری طاقت سے ہوگی تاکہ اُن دہشت گردوں کو مکمل طور پر ختم کیا جا سکے جو عیسائیوں کے خلاف ہولناک مظالم کر رہے ہیں۔
ٹرمپ نے نائجیریا کی حکومت کو “بدنام ملک” قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر اس نےجلدی ایکشن نہ لیا تو نتائج سنگین ہوں گے۔
ٹرمپ نے کہا کہ ، ”اگر ہم حملہ کریں گے تو وہ تیز، سخت اور میٹھا ہوگا، بالکل ویسا ہی جیسا یہ دہشت گرد ہمارے عزیز عیسائیوں پر کرتے ہیں!“
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق، امریکی محکمہ دفاع نے اس بیان پر کوئی تفصیلی تبصرہ نہیں کیا اور وائٹ ہاؤس نے بھی فوری ردعمل دینے سے گریز کیا۔ تاہم امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے سوشل میڈیا پر کہا کہ ”وزارتِ جنگ کارروائی کی تیاری کر رہی ہے۔ یا تو نائجیریا کی حکومت عیسائیوں کا تحفظ کرے، یا ہم ان دہشت گردوں کو ماریں گے جو یہ ظلم کر رہے ہیں۔“
خیال رہے کہ حال ہی میں ٹرمپ انتظامیہ نے نائجیریا کو دوبارہ اُن ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے جن پر مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کا الزام ہے۔ رائٹرز کے مطابق اس فہرست میں چین، میانمار، روس، شمالی کوریا اور پاکستان بھی شامل ہیں۔
دوسری جانب، نائجیریا کے صدر بولا احمد تینوبو نے ٹرمپ کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک مذہبی رواداری پر یقین رکھتا ہے۔ اُن کے مطابق، “نائجیریا کو مذہبی طور پر متعصب ملک قرار دینا حقیقت کے منافی ہے۔ حکومت سب شہریوں کے مذہبی اور شخصی حقوق کے تحفظ کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے۔”
نائجیریا کی وزارتِ خارجہ نے بھی اپنے بیان میں کہا کہ ملک دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف پرعزم ہے، اور امریکا سمیت عالمی برادری سے تعاون جاری رکھے گا۔
وزارت نے کہا کہ “ہم نسل، مذہب یا عقیدے سے بالاتر ہو کر ہر شہری کا تحفظ کرتے رہیں گے، کیونکہ تنوع ہی ہماری اصل طاقت ہے۔:
یاد رہے کہ نائجیریا میں بوکوحرام نامی شدت پسند تنظیم گزشتہ 15 سال سے دہشت گردی کر رہی ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ انسانی حقوق کے ماہرین کے مطابق، بوکوحرام کے زیادہ تر متاثرین مسلمان ہیں۔
تاہم ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ “ہزاروں عیسائیوں کو نائجیریا میں شدت پسند مسلمان قتل کر رہے ہیں”۔ لیکن انہوں نے اس الزام کے کوئی شواہد پیش نہیں کیے۔
ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد امریکی کانگریس میں موجود ری پبلکن اراکین نے ان کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نائجیریا میں “عیسائیوں پر بڑھتے مظالم” عالمی تشویش کا باعث ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق، اگر ٹرمپ کا یہ فوجی دھمکی نما بیان عملی جامہ پہنتا ہے تو افریقہ میں امریکا کی نئی فوجی مداخلت کا آغاز ہو سکتا ہے، ایک ایسے وقت میں جب خطے میں پہلے ہی امریکی اثر و رسوخ کمزور ہو چکا ہے۔
نائجیریا کی حکومت نے فی الحال امریکی صدر کے اس دھمکی آمیز بیان پر کوئی سرکاری ردعمل نہیں دیا۔