بھارت کے 76واں یوم جمہوریہ کی تقریب میں ثقافتی اور عسکری طاقت کا مظاہرہ
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
صدر جمہوریہ ہند نے 76ویں یوم جمہوریہ کے موقعے پر قومی پرچم لہرایا، اسکے بعد قومی ترانہ اور 21 توپوں کی سلامی دی گئی۔ یوم جمہوریہ پریڈ کا آغاز 300 فنکاروں کے ایک گروپ کیطرف سے دیسی سازوسامان کیساتھ ہوا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت آج اپنا 76واں یوم جمہوریہ منا رہا ہے۔ یوم جمہوریہ کی مرکزی تقریب دہلی میں کرتویہ پتھ پر منعقد کی گئی جو ملک بھر میں توجہ کا مرکزی رہی۔ تقریب میں ملک کی ثقافت اور عسکری طاقت کا شاندار مظاہرہ کیا گیا۔ اس سال یوم جموریہ کی تقریبات میں انڈونیشیا کے صدر پرابوو سوبیانتو نے مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کی۔ صدر دروپدی مرمو پریڈ نے تقریب کی صدارت کی اور پریڈ میں حصہ لینے والی فوجی ٹکڑیوں کی سلامی لی۔ اس سال کی تقریب میں تقریباً 10,000 خصوصی مہمانوں نے شرکت کی اور پریڈ کا مشاہدہ کیا۔ پہلی بار تینوں افواج کی جھانکی میں مسلح افواج کے درمیان انضمام کا مظاہرہ کیا گیا۔ اس کا موضوع "مضبوط اور محفوظ ہندوستان" تھا۔ اس جھانکی میں جوائنٹ آپریشنز روم کو دکھایا گیا جو تینوں افواج کے بیچ نیٹ ورکنگ اور مواصلات کی سہولت فراہم کرتا ہے۔
صدر جمہوریہ ہند دروپدی مرمو نے کرتویہ پتھ پر 76ویں یوم جمہوریہ کے موقعے پر قومی پرچم لہرایا۔ اس کے بعد قومی ترانہ اور 21 توپوں کی سلامی دی گئی۔ یوم جمہوریہ پریڈ 2025ء کا آغاز 300 فنکاروں کے ایک گروپ کی طرف سے دیسی سازوسامان کے ساتھ ہوا۔ فن کاروں کے اس گروپ نے وزارت ثقافت کی جانب سے موسیقی کا مظاہرہ کیا جس میں مختلف موسیقی کے آلات کا استعمال کیا گیا۔ 76ویں یوم جمہوریہ میں انڈونیشین ملٹری اکیڈمی (اکمل) کے 190 رکنی بینڈ اور مارچ کرنے والے دستے نے بھی کرتویہ پرتھ پر پریڈ کی۔ اس تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کرنے والے انڈونیشیا کے صدر پرابوو سوبیانتو نے اپنے دستے کی سلامی لی۔ برہموس میزائل اور پیناکا ملٹی لانچر راکٹ سسٹم کو بھی یوم جمہوریہ کی نمائشی پریڈ کے دوران دکھایا گیا۔
76ویں یوم جمہوریہ کے موقعہ پر فضائیہ نے پریڈ کے دوران فلائی پاسٹ پیش کیا۔ اس میں کل 40 طیارے شامل تھے جن میں 22 لڑاکا طیارے، 11 ٹرانسپورٹ طیارے اور 7 ہیلی کاپٹر شامل تھے۔ اس کے علاوہ 3 اپاچی ہیلی کاپٹروں نے بھی مظاہرہ کیا۔ اس دوران امریکہ نے ہندوستان کو یوم جمہوریہ پر مبارکباد پیش کی۔ اپنے پیغام میں امریکی حکومت نے کہا کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی بنیاد کے طور پر ہندوستان کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ایک بیان میں کہا کہ امریکہ بھارت کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے اور ہندوستان امریکہ تعلقات نئی بلندیوں پر پہنچ رہے ہیں۔ روبیو نے اپنے بیان میں کہا کہ امریکہ کی جانب سے میں ہندوستان کے لوگوں کو ان کے ملک کے یوم جمہوریہ پر مبارکباد دیتا ہوں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: یوم جمہوریہ پر مظاہرہ کیا کی سلامی
پڑھیں:
تاریخ کی نئی سمت
ایک امیدکی کرن تھی، غزہ کا امن معاہدہ کہ اس کے بعد جنگ کے بادل چھٹ جائیں گے، مگر ایسا لگ نہیں رہا ہے۔ غزہ امن معاہدے کے فوراً بعد امریکا نے روسی تیل کمپنیوں پر پابندی عائد کردی، یوں ٹرمپ اور پیوتن کے مابین ہنگری میں ہونے والی ملاقات ملتوی ہوگئی۔
پیوتن صاحب اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ پچھلے دورکا صدر ٹرمپ واپس آئے گا لیکن ایسا نہ ہوسکا کیونکہ صدر ٹرمپ جو پہلے روس کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں تھا، تھک گیا اور اب وہ یوکرین کے ساتھ اسی طرح کھڑے ہیں جیسے جوبائیڈن کھڑا تھا۔
نیٹو آج بھی یوکرین کے ساتھ ہے۔ روس کی تیل کمپنیوں پر امریکی پابندی کے بعد، ہندوستان نے اندرونی طور پر امریکا کو یہ یقین دلایا ہے کہ وہ روس سے تیل نہیں خریدیں گے اور ایسا ہی وعدہ چین نے بھی کیا ہے، توکیا ایسا کہنا درست ہوگا کہ جو اتحاد چین نے امریکا کے خلاف بنایا تھا۔
لگ بھگ دو مہینے قبل تقریباً تیس ممالک کے سربراہان کی بیجنگ میں میزبانی کی وہ اس امیج کو برقرار نہ رکھ سکا۔ البتہ چین کی تیز رفتار ٹیکنالوجی نے امریکا کو پریشان ضرورکردیا ہے۔ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی میں امریکا کے بعد چین ہی سب سے بڑا نام ہے۔ اس سال کی سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ صدر ٹرمپ اور چین کے صدرکی ملاقات ہے۔
اس منظر نامے میں روس اب نیوکلیئر جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ روس کا یہ اسٹیٹمنٹ دنیا کو ایک خطرناک موڑ پر لاسکتا ہے اور ایسا ہو بھی رہا ہے۔ روس کبھی یہ بیان جاری کرتا ہے کہ انھوں نے اپنے ایٹمی میزائلوں کا رخ برطانیہ کے مخصوص شہروں کی طرف کردیا ہے، پھر وہ جرمنی کو اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دیتے ہیں۔
نیٹو اور یورپین یونین کی تیاری مکمل ہے اگر روس نے کوئی پہل کی۔ کچھ ہی دن قبل روس کے ڈرون نے پولینڈ کی سرحدیں پارکیں اور ایک دو دن پہلے ہی نیٹو نے یورپین یونین کی حدود میں داخل ہوتا روس کا ڈرون مارگرا یا۔
ہندوستان اور پاکستان کشیدگی میں اب افغانستان بھی حصہ دار بن گیا ہے ۔ ہم نے جو ماضی میں غلطیاں کی تھیں، ان سے ہم سبق تو ضرور سیکھ رہے ہیں لیکن وقت بہت گزر چکا ہے۔ پاکستان کے بارے میں یہ خیال آرائی کی جاتی ہے کہ اندرونی مسائل کے باعث جنگ جھیل نہیں سکے گا اور (خاکم بدہن) پاکستان ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔
یہ تمام خیالات افغان پالیسی سے جڑے تھے۔ جس طرح سے انگریز یہاں اپنے وفاداروں کو جاگیریں بطور انعام بانٹتے تھے، اسی طرح سے ہم نے بھی افغانوں اور ان کے پاکستانی ہم نشینوں اور حامی شرفاء کی ایک نسل تیارکی جنھیں پڑھایا اور یقین دلایا گیا کہ افغانستان کبھی غلام نہیں رہا اور افغان جنگجو قوم ہے۔
ہم نے یہاں مدرسوں میں افغانوں اور پاکستانیوں کی ایک ایسی نسل تیارکی جوکل تک سائیکل چلاتے تھے اور آج درجنوں مسلح محافظوں کے ہجوم میں لگژری گاڑیوں اورڈالوں پر سواری کرتے ہیں ۔
افغان پالیسی کا دیمک ہمیں اندرونی طور پر لگا،اب ہمارے ہر شہر، قصبوں اور گاؤں میں ان کے مفادات کا تحفظ کرنے والے لوگ موجود ہیں، افغان تو حکومت افغانستان میں کرتے تھے، ان کے کاروبار پاکستان میں تھے اور وہ رہتے بھی پاکستان میں تھے۔
پاکستان کے خلاف قوتیں جہاں بھی موجود تھیں، وہاں ہندوستان نے اپنے مراسم بڑھائے۔ ہندوستان نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بڑھائے ، جب ٹرمپ صاحب نے اپنے کارڈزکھیلے تو پتا چلا کہ دوست کو ن اور دشمن کون! جو دوست بن کرکام کررہے تھے، وہ ڈبل گیم کھیل رہے تھے ۔
فرض کریں کہ اگر امریکا کی پالیسی ہندوستان کے حوالے سے اب بھی ویسی ہی ہوتی جیسی کہ جوبائیڈن کے دورِ میں تھی تو یقیناً پاکستان آج بہت مشکل میں ہوتا ، آج پاکستان کے ساتھ امریکا بھی ہے اور چین بھی۔ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہمیشہ ہی اچھے رہے لیکن اب ان میں مزید مضبوطی پیدا ہوئی ہے۔
اپنی صف میں ہم نے دراصل ایک دشمن کی پہچان کی ہے۔ وہ دشمن جو بھائی بنا رہا لیکن اب ہندوستان کی گود میں بیٹھا ہے ۔ اور طالبان کو یہ سمجھ آگیا ہے کہ اگر وہ حدیں پارکرتا ہے تو پاکستان ان کی حکومت کو ختم کرسکتا ہے۔ اب ہندوستان میں آنے والے انتخابات میں مودی کی شکست واضح نظر آرہی ہے ۔
ہندوستان کے اندر متبادل قیادت ابھرنے والی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں برِصغیر ہیں، دونوں کی تاریخ ایک ہے، دونوں نے حملہ آوروں کا مقابلہ کیا ہے، لہٰذا دونوں ممالک کے درمیان امن ہونا چاہیے۔ دونوں ممالک کے درمیان جنگ میں دنیا خوش ہوگی لیکن دونوں ممالک کی عوام نہیں۔ افغانستان بھی امن کے ساتھ رہنا چا ہتا ہے، ’ہاں‘ اگر طالبان اور انتہاپسند افغانستان کا ماضی بن جائیں۔
مودی صاحب جو ہندوستان کو دنیا کی چوتھی طاقت بنانا چاہتا تھا وہ اب ہندوستان کی معیشت کے لیے خود مسئلہ بن چکے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ نریندر مودی کے دور میں ہندوستان کی معیشت مضبوط ہوئی مگر اب ہندوستان کی تجارت کو مشکلات کا سامنا ہے اور وجہ ہے امریکا کی ناراضگی۔
گزشتہ تین چار برسوں میں پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ بہتری کے حوالے سے ہماری معیشت نے وہ ٹارگٹ تو حاصل نہیں کیا لیکن مستحکم ضرور ہوئی ہے اور ترقی کی رفتار بھی بہتر ہے۔
افغانستان والے گوریلا وار کے ماہر ہیں۔ وہ پاکستان کے ساتھ روایتی جنگ نہیں لڑ سکتے۔ ہندوستان کا افغانستان کے ساتھ مل کر جنگ لڑنا آسان نہیں۔ جنگ کے لیے جذبہ ہونا لازمی ہے اور اس حوالے سے ہندوستان کی فوج بہت کمزور ہے۔
اسی جذبے کی تحت پاکستان کے افواج آج دنیا میں سرخرو ہیں۔ مودی صاحب کی ہٹ دھرمی کو ٹرمپ صاحب ایک ہی وار میں توڑ دیا۔ یہ چرچا پوری دنیا میں عام ہے۔ہندوستان نے اپنے اتحادیوں کو بری طرح سے نالاں کیا ہے، جن پتوں پر ان کو ناز تھا آج وہ ہی پتے ہوا دینے لگے۔
نادرن افغانستان، محمد شاہ مسعود اب ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔ ایک لبرل اور اعتدال پسند افغانستان کی نگاہیں ہم پر مرکوز ہیں۔ ہمیں ان ماڈرن افغانستان کی بات کرنے والی قوتوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔
پاکستان کی سیاست میں ایک نئی فالٹ لائن پیدا ہوئی ہے۔ موجودہ حکومت یقینا ایک ہائبرڈ گورنمنٹ ہے اور بری حکمرانی ہے سکہ رائج الوقت لیکن اس وقت کوئی نعم البدل نہیں اور اگر ہے بھی تو تباہی ہے،کیونکہ ان کے تانے بانے بھی طالبان سے ملتے ہیں۔
نو مئی کا واقعہ یا اسلام آباد پر حملے ان تمام کاروائیوں میں افغان بھی ملوث تھا۔نئے بین الاقوامی اتحاد بن بھی رہے ہیں اور ٹوٹ بھی رہے ہیں۔ یوکرین کی جنگ کے تناظر میں یہاں بہت کچھ بدل گیا ہے۔
ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے اس دور میں ہمیں اپنی بقاء کے لیے اتنی ہی تیزی سے تبدیلیاں لانی ہونگی۔ یقینا پاکستان آگے بڑھے گا، بہ شرط کہ ہم اپنی تاریخ کی سمت درست کریں۔