Nai Baat:
2025-11-03@14:50:58 GMT

ادب وصحافت کل اور آج، خالد احمد کی یاد میں

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

ادب وصحافت کل اور آج، خالد احمد کی یاد میں

لاہور پریس کلب کے زیراہتمام پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن پاکستان اورپاک میڈیا فاﺅنڈیشن اسلام آباد کے اشتراک سے ادب وصحافت کل، آج اورکل کے عنوان سے سیمینار کا انعقاد کیا گیا، سیمینار کو معروف صحافی،ادیب،شاعر ومترجم خالد احمد مرحوم کے نام کیاگیا۔سیمینار کی صدارت معروف صحافی،دانشور وتجزیہ نگار،سابق نگران وزیر اعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی نے کی۔مہمانان خصوصی میںسینئر صحافی سابق سینیٹر سید سجاد بخاری،صدرلاہورپریس کلب ارشد انصاری، سینئر صحافی خاورنعیم ہاشمی، اشرف سہیل، تمثیلہ چشتی، معروف ادیبہ بینا گوئندی،شوکت چودہری تھے ۔ ایک اہم موضوع پر سیمینار کے انعقاد کا سہرا ، جاوید آفتاب اور خواجہ آفتاب کے سر جاتا ہے جن کی کاوشوں سے یہ ممکن ہوا اس سیمنار میں خاکسار نے خالد احمد کی شخصیت ادب اور صحافت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں انجمن ترقی پسند مصنفین کا مشکور ہوں جنہوں نے آج ایک اہم موضوع پر ہم جیسے بے نامیوں کو بھی دعوت اظہار دے ڈالا اب یہاں صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ کہاں راجہ بھوج ، کہاں گنگو تیلی اس ضرب المثل کا مطلب چھوٹے سے بڑے کا کیا مقابلہ، ادنیٰ سے اعلیٰ کو کیا نسبت،کہاں خالد احمد اور کہاں ہم، لیکن یہ بات خوش آئند ہے جسے سراہا جانا چاہیے کہ ہم اپنے دانشوروں کو یاد کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
خالد احمد نہ صرف ایک بڑے ادیب اور صحافی تھے بلکہ درویش صفت انسان ہونے کے ساتھ زبان، ثقافت، سیاست، مذہب اور تاریخ پر دلچسپ انداز میں علم کا سرچشمہ تھے۔ وہ ہم جیسے متلاشیوں کے لیے ایک تحریک تھے۔ ان کی کمی شائد ہی کوئی پوری کر سکے جنہیں شائد ہی بھلایا جاسکے خالد احمد کی وفات ایک بہت بڑا نقصان ہے کیونکہ وہ چھوٹے لوگوں کے لیے علم، تجربے اور دانش کا سرچشمہ تھے۔ ان میں بر سر اقتدار طبقہ کے بارے سچ بولنے کا حوصلہ بھی تھا۔ ان کے جانے سے ایک بڑا خلا پیدا ہوا ہے۔ دعا ہے مرحوم کی روح کو سکون ملے،“۔
خالد احمد ایک بڑے انسان تھے جن کے بارے مجھ سے بہتر اس محفل میں جناب وجاہت مسعود(جو وہاں پہنچ نہ سکے) اور نجم سیٹھی جو نہ صرف انہیں بہت اچھی طرح جانتے ہیں بلکہ ساتھ میں وقت بھی بتایا ہے اور وہ اظہار بھی کریں گے۔ کیونکہ خالد احمد جیسے دانشور کا یہ معاشرہ، ملک اور اہل
صحافت مقروض ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی ادب اور صحافت کی خدمت میں بسر کر دی بنا کسی لالچ اور غرض کے، جناب خالد احمد نے کئی اخبارات میں صحافتی خدمات سرانجام دیں،انہوں نے دہشت گردی اور لسانیات سمیت کئی موضوعات پر لکھا۔الفاظ کی تاریخ اور معنی کے کھوج سے انہیں خاص دلچسپی تھی۔ خالداحمد ایک نامور مصنف اور ماہر لسانیات تھے۔ وہ خوبصورت روح اور علم سے بھرے ذہن کے مالک نے کرنٹ افیئرز سے لے کر تاریخ کے کم ڈسکس کئے جانے والے ابواب تک، مذاہب، زبانوں اور ثقافتوں کے علوم سے لے کر سماجی رویوں کی تشکیل کے پیچیدہ عوامل تک ہر موضوع پر عالمانہ گرفت رکھتے تھے تاہم زبانوں اور ثقافتوں کی باہمی رشتہ داریاں ان کی گفتگو کا پسندیدہ موضوع تھیں، وہ الفاظ کی انگلی پکڑ کر ان کے ماخذ بتانے پر ہی نہ رکتے بلکہ ایک سے دوسری، تیسری زبان میں ان کے مترادفات بتاتے اور زبانوں کے ایک دوسرے پر اثرات کے متعلق اپنا علم شیئر کرتے تو سننے والے خود کو صدیوں کے درمیان سفر کرتا محسوس کرتے، ثقافتوں اور نسلی گروہوں کی یگانگت کو اپنی روح میں اترتا محسوس کرتے تھے۔ فلسفیانہ افکار کے اعتبار سے وہ مارکسسٹ تھے جس کی بنا پر انہیں کئی طرح کے القابات بھی سہنا پڑے ۔خالد احمد اپنے بصیرت انگیز تجزیوں، مقامی اور غیر ملکی زبانوں اور ثقافتوں خصوصاً سائبیریا سے چلنے والی زبانوں کے سلسلہ اور وسط ایشیائی ثقافتوں کے بارے میں بے پناہ علم، تیز عقل، اور عمیق فکری گفتگو کے لیے اٹل لگن کے لیے مشہور تھے۔
خالد احمد 1943 میں ہندوستان کے تاریخی شہر جالندھر میں پیدا ہوئے تھے(لیکن انہوں نے کبھی اپنے کا ساتھ جالندھری نہیں لکھا اور نہ بولا)۔ تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان ہجرت کر کے لاہور آ گئے، لاہور سے تحصیلِ علم کے چند سفروں کے سوا پھر کہیں نہیں گئے تھے۔خالد احمد نے 1965 میں گورنمنٹ کالج (جی سی) لاہور سے گریجویشن کیا اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے (آنرز) مکمل کرنے سے پہلے یونیورسٹی کے اعزازی رول پر آئے۔ انہوں نے جرمن زبان میں ڈپلومہ بھی حاصل کیا۔ بعد میں، انہوں نے روسی زبان بھی سیکھی۔ 1970 میں ماسکو سٹیٹ یونیورسٹی سے اس زبان میں ڈپلومہ حاصل کیا، اور وہ روس اور مشرقی یورپ میں سرکاری عہدوں پر خدمات انجام دینے کے لیے چلے گئے۔بعد میں وہ واشنگٹن ڈی سی چلے گئے، جہاں وہ تھنک ٹینک ووڈرو ولسن سینٹر میں پاکستانی فیلو تھے۔ ووڈرو وِلسن سنٹر میں، انہوں نے ایک پروجیکٹ پر کام کیا جس کا عنوان تھا: ”پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد اور ایران، سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں سے اس کے روابط”، خالد احمد کے اس ریسرچ ورک کو پاکستان میں فرقہ وارانہ منافرت اور تشدد کے بنیادی مسئلے پر حرفِ آخِر تحریر سمجھا جاتا ہے۔
اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد،خالد احمد نے بیوروکریٹ بننے کا انتخاب کیا اور پاکستان کی فارن سروس میں شمولیت اختیار کی۔ لیکن سِول سروس ان کیلئے چھوٹا میدان تھا، بعد میں انہوں نے سول سروس چھوڑ دی اور صحافی بن گئے۔ پاکستان کے چند ممتاز صحافتی اداروں کے لیے کام کیا اور لکھتے رہے جن میں دی پاکستان ٹائمز، دی نیشن، دی فرنٹیئر پوسٹ، دی فرائیڈے ٹائمز شامل ہیں -خالد احمد نے ڈیلی ٹائمز اور ڈان کے ساتھ کئی سال کنسلٹنٹ ایڈیٹر کے طور پر بھی گزارے۔۔ ان کی آخری صحافتی مصروفیت نیوز ویک پاکستان اور اسٹینڈرڈ پاکستان کے ساتھ کنسلٹنگ ایڈیٹر کی حیثیت سے تھی۔
خالد احمد نے پاکستان میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر کئی کتابیں لکھیں جن میں سے
The State in Crisis، Pakistan: Behind the Ideological Mask (Facts Behind the Great Men We Dont Want to Know)،
Word for Word: Stories Behind Everyday Words We Use اور پاکستان میں دہشت گردی کا معمہ زیادہ ڈسکس ہوتی رہیں۔
حرف آخر اگر ہم صحافت کا موازنہ کرنے بیٹھیں تو سچ پوچھیے، خالد احمد کل تھے اور ہم جیسے آج ہیں۔ آج صحافت پریس ریلیز، میڈیا مینجمنٹ ،ذاتی تعلقات بنانے سے لیکر اپنے کام نکلوانے تک رہ گئی ہے ویسے بھی صحافت اس وقت اپنی موت اپ مر گئی تھی جس دن یہاں صحافت کو کاروبار سمجھتے ہوئے پراپرٹی ڈیلروں، ڈویلپرز اور بڑے تعلیمی کاروباری اداروں نے اسے اپنا لیا تھا، اب تو صحافی آپ کو خال ہی نظر آئیں گے لیکن پیرا شوٹر ہر جگہ چھائے نظر آئیں گے ۔یہ ایک بڑا تلخ موضوع ہے ،انجمن ترقی پسند منصفین ،لاہور پریس کلب اور دیگر تنظیموں سے گزارش ہے کہ اس موضوع پر الگ سے ایک سیشن رکھا جائے۔
سیمینار میں پڑھا گیا مضمون۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: خالد احمد نے پاکستان میں انہوں نے کے لیے

پڑھیں:

سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئندہ عدالتی ہفتے کے بینچز تشکیل

سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئندہ عدالتی ہفتے کے بینچز تشکیل WhatsAppFacebookTwitter 0 1 November, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(آئی پی ایس ) سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئندہ عدالتی ہفتے کے بینچز تشکیل دے دیئے گئے۔بینچ نمبر 1 چیف جسٹس یحیی خان آفریدی اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل ہوگا، بینچ نمبر 2 جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس علی باقر نجفی پر جبکہ بینچ نمبر 3 جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ اے ملک پر مشتمل ہوگا۔

آئینی بینچ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں قائم کیا گیا ہے، آئینی بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس عقیل احمد عباسی، جسٹس شکیل احمد اور جسٹس عامر فاروق شامل ہیں۔بینچ نمبر 5 جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس ملک شہزاد احمد خان پر مشتمل ہوگا۔بینچ نمبر 6 میں جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس محمد شفیع صدیقی اور جسٹس مینگل حسن اورنگزیب شامل ہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبربیرون ممالک کا ایجنڈا ہمارے خلاف کام کررہا ہے: مولانا فضل الرحمان بیرون ممالک کا ایجنڈا ہمارے خلاف کام کررہا ہے: مولانا فضل الرحمان پی ٹی آئی کی سابق قیادت کا حکومتی وزرا اور فضل الرحمان سے ملاقاتوں کا فیصلہ شاہ محمود قریشی سے سابق رہنمائوں کی ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی پاکستان کے بلال بن ثاقب دنیا کے بااثر ترین کرپٹو رہنما ئوں میں شامل اینٹی ٹیرف اشتہار پر صدر ٹرمپ سے معافی مانگ لی، کینیڈین وزیرِاعظم فورسز کی موثر کاروائیاں،عسکریت پسندوں کو اکتوبر میں تباہ کن نقصانات کا سامنا TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • پیکسار کمپنی کے ورکر کی غیرقانونی برطرفی قبول نہیں‘خالد خان
  • اداکار زاہد احمد نے سوشل میڈیا کو شیطان کا کام قرار دے دیا
  • شبیر احمد شاہ کی درخواست ضمانت کی مخالفت کرنے پر این آئی اے کی مذمت
  •  بدقسمتی سے اسمبلی فورمز کو احتجاج کا گڑھ بنا دیا گیا : ملک محمد احمد خان 
  • سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئندہ عدالتی ہفتے کے بینچز تشکیل
  • خطے میں کسی نے بدمعاشی ثابت کی تو پاکستان بھرپور جواب دے گا: ملک احمد خان
  • بدقسمتی سے اسمبلی فورمز کو احتجاج کا گڑھ بنا دیا گیا ہے: ملک محمد احمد خان
  • افغانستان کا معاملہ پیچیدہ، پاکستان نے بہت نقصان اٹھایا ہے، اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان
  • خالد مقبول صدیقی کا اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کیلئے پنجاب اسمبلی کی حمایت کا اعلان
  • حکمرانوں کو مانگنے اور کشکول اٹھانے کی عادت پڑ چکی ہے، حافظ تنویر احمد