Nai Baat:
2025-06-09@13:23:34 GMT

ادب وصحافت کل اور آج، خالد احمد کی یاد میں

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

ادب وصحافت کل اور آج، خالد احمد کی یاد میں

لاہور پریس کلب کے زیراہتمام پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن پاکستان اورپاک میڈیا فاﺅنڈیشن اسلام آباد کے اشتراک سے ادب وصحافت کل، آج اورکل کے عنوان سے سیمینار کا انعقاد کیا گیا، سیمینار کو معروف صحافی،ادیب،شاعر ومترجم خالد احمد مرحوم کے نام کیاگیا۔سیمینار کی صدارت معروف صحافی،دانشور وتجزیہ نگار،سابق نگران وزیر اعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی نے کی۔مہمانان خصوصی میںسینئر صحافی سابق سینیٹر سید سجاد بخاری،صدرلاہورپریس کلب ارشد انصاری، سینئر صحافی خاورنعیم ہاشمی، اشرف سہیل، تمثیلہ چشتی، معروف ادیبہ بینا گوئندی،شوکت چودہری تھے ۔ ایک اہم موضوع پر سیمینار کے انعقاد کا سہرا ، جاوید آفتاب اور خواجہ آفتاب کے سر جاتا ہے جن کی کاوشوں سے یہ ممکن ہوا اس سیمنار میں خاکسار نے خالد احمد کی شخصیت ادب اور صحافت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں انجمن ترقی پسند مصنفین کا مشکور ہوں جنہوں نے آج ایک اہم موضوع پر ہم جیسے بے نامیوں کو بھی دعوت اظہار دے ڈالا اب یہاں صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ کہاں راجہ بھوج ، کہاں گنگو تیلی اس ضرب المثل کا مطلب چھوٹے سے بڑے کا کیا مقابلہ، ادنیٰ سے اعلیٰ کو کیا نسبت،کہاں خالد احمد اور کہاں ہم، لیکن یہ بات خوش آئند ہے جسے سراہا جانا چاہیے کہ ہم اپنے دانشوروں کو یاد کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
خالد احمد نہ صرف ایک بڑے ادیب اور صحافی تھے بلکہ درویش صفت انسان ہونے کے ساتھ زبان، ثقافت، سیاست، مذہب اور تاریخ پر دلچسپ انداز میں علم کا سرچشمہ تھے۔ وہ ہم جیسے متلاشیوں کے لیے ایک تحریک تھے۔ ان کی کمی شائد ہی کوئی پوری کر سکے جنہیں شائد ہی بھلایا جاسکے خالد احمد کی وفات ایک بہت بڑا نقصان ہے کیونکہ وہ چھوٹے لوگوں کے لیے علم، تجربے اور دانش کا سرچشمہ تھے۔ ان میں بر سر اقتدار طبقہ کے بارے سچ بولنے کا حوصلہ بھی تھا۔ ان کے جانے سے ایک بڑا خلا پیدا ہوا ہے۔ دعا ہے مرحوم کی روح کو سکون ملے،“۔
خالد احمد ایک بڑے انسان تھے جن کے بارے مجھ سے بہتر اس محفل میں جناب وجاہت مسعود(جو وہاں پہنچ نہ سکے) اور نجم سیٹھی جو نہ صرف انہیں بہت اچھی طرح جانتے ہیں بلکہ ساتھ میں وقت بھی بتایا ہے اور وہ اظہار بھی کریں گے۔ کیونکہ خالد احمد جیسے دانشور کا یہ معاشرہ، ملک اور اہل
صحافت مقروض ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی ادب اور صحافت کی خدمت میں بسر کر دی بنا کسی لالچ اور غرض کے، جناب خالد احمد نے کئی اخبارات میں صحافتی خدمات سرانجام دیں،انہوں نے دہشت گردی اور لسانیات سمیت کئی موضوعات پر لکھا۔الفاظ کی تاریخ اور معنی کے کھوج سے انہیں خاص دلچسپی تھی۔ خالداحمد ایک نامور مصنف اور ماہر لسانیات تھے۔ وہ خوبصورت روح اور علم سے بھرے ذہن کے مالک نے کرنٹ افیئرز سے لے کر تاریخ کے کم ڈسکس کئے جانے والے ابواب تک، مذاہب، زبانوں اور ثقافتوں کے علوم سے لے کر سماجی رویوں کی تشکیل کے پیچیدہ عوامل تک ہر موضوع پر عالمانہ گرفت رکھتے تھے تاہم زبانوں اور ثقافتوں کی باہمی رشتہ داریاں ان کی گفتگو کا پسندیدہ موضوع تھیں، وہ الفاظ کی انگلی پکڑ کر ان کے ماخذ بتانے پر ہی نہ رکتے بلکہ ایک سے دوسری، تیسری زبان میں ان کے مترادفات بتاتے اور زبانوں کے ایک دوسرے پر اثرات کے متعلق اپنا علم شیئر کرتے تو سننے والے خود کو صدیوں کے درمیان سفر کرتا محسوس کرتے، ثقافتوں اور نسلی گروہوں کی یگانگت کو اپنی روح میں اترتا محسوس کرتے تھے۔ فلسفیانہ افکار کے اعتبار سے وہ مارکسسٹ تھے جس کی بنا پر انہیں کئی طرح کے القابات بھی سہنا پڑے ۔خالد احمد اپنے بصیرت انگیز تجزیوں، مقامی اور غیر ملکی زبانوں اور ثقافتوں خصوصاً سائبیریا سے چلنے والی زبانوں کے سلسلہ اور وسط ایشیائی ثقافتوں کے بارے میں بے پناہ علم، تیز عقل، اور عمیق فکری گفتگو کے لیے اٹل لگن کے لیے مشہور تھے۔
خالد احمد 1943 میں ہندوستان کے تاریخی شہر جالندھر میں پیدا ہوئے تھے(لیکن انہوں نے کبھی اپنے کا ساتھ جالندھری نہیں لکھا اور نہ بولا)۔ تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان ہجرت کر کے لاہور آ گئے، لاہور سے تحصیلِ علم کے چند سفروں کے سوا پھر کہیں نہیں گئے تھے۔خالد احمد نے 1965 میں گورنمنٹ کالج (جی سی) لاہور سے گریجویشن کیا اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے (آنرز) مکمل کرنے سے پہلے یونیورسٹی کے اعزازی رول پر آئے۔ انہوں نے جرمن زبان میں ڈپلومہ بھی حاصل کیا۔ بعد میں، انہوں نے روسی زبان بھی سیکھی۔ 1970 میں ماسکو سٹیٹ یونیورسٹی سے اس زبان میں ڈپلومہ حاصل کیا، اور وہ روس اور مشرقی یورپ میں سرکاری عہدوں پر خدمات انجام دینے کے لیے چلے گئے۔بعد میں وہ واشنگٹن ڈی سی چلے گئے، جہاں وہ تھنک ٹینک ووڈرو ولسن سینٹر میں پاکستانی فیلو تھے۔ ووڈرو وِلسن سنٹر میں، انہوں نے ایک پروجیکٹ پر کام کیا جس کا عنوان تھا: ”پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد اور ایران، سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں سے اس کے روابط”، خالد احمد کے اس ریسرچ ورک کو پاکستان میں فرقہ وارانہ منافرت اور تشدد کے بنیادی مسئلے پر حرفِ آخِر تحریر سمجھا جاتا ہے۔
اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد،خالد احمد نے بیوروکریٹ بننے کا انتخاب کیا اور پاکستان کی فارن سروس میں شمولیت اختیار کی۔ لیکن سِول سروس ان کیلئے چھوٹا میدان تھا، بعد میں انہوں نے سول سروس چھوڑ دی اور صحافی بن گئے۔ پاکستان کے چند ممتاز صحافتی اداروں کے لیے کام کیا اور لکھتے رہے جن میں دی پاکستان ٹائمز، دی نیشن، دی فرنٹیئر پوسٹ، دی فرائیڈے ٹائمز شامل ہیں -خالد احمد نے ڈیلی ٹائمز اور ڈان کے ساتھ کئی سال کنسلٹنٹ ایڈیٹر کے طور پر بھی گزارے۔۔ ان کی آخری صحافتی مصروفیت نیوز ویک پاکستان اور اسٹینڈرڈ پاکستان کے ساتھ کنسلٹنگ ایڈیٹر کی حیثیت سے تھی۔
خالد احمد نے پاکستان میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر کئی کتابیں لکھیں جن میں سے
The State in Crisis، Pakistan: Behind the Ideological Mask (Facts Behind the Great Men We Dont Want to Know)،
Word for Word: Stories Behind Everyday Words We Use اور پاکستان میں دہشت گردی کا معمہ زیادہ ڈسکس ہوتی رہیں۔
حرف آخر اگر ہم صحافت کا موازنہ کرنے بیٹھیں تو سچ پوچھیے، خالد احمد کل تھے اور ہم جیسے آج ہیں۔ آج صحافت پریس ریلیز، میڈیا مینجمنٹ ،ذاتی تعلقات بنانے سے لیکر اپنے کام نکلوانے تک رہ گئی ہے ویسے بھی صحافت اس وقت اپنی موت اپ مر گئی تھی جس دن یہاں صحافت کو کاروبار سمجھتے ہوئے پراپرٹی ڈیلروں، ڈویلپرز اور بڑے تعلیمی کاروباری اداروں نے اسے اپنا لیا تھا، اب تو صحافی آپ کو خال ہی نظر آئیں گے لیکن پیرا شوٹر ہر جگہ چھائے نظر آئیں گے ۔یہ ایک بڑا تلخ موضوع ہے ،انجمن ترقی پسند منصفین ،لاہور پریس کلب اور دیگر تنظیموں سے گزارش ہے کہ اس موضوع پر الگ سے ایک سیشن رکھا جائے۔
سیمینار میں پڑھا گیا مضمون۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: خالد احمد نے پاکستان میں انہوں نے کے لیے

پڑھیں:

پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک غیر مؤثر ہے، ان کے پاس تیاری ہے نہ عوامی حمایت،رانا ثنا

وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو دعوت دی ہے کہ وہ ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے ایک میز پر بیٹھیں، چارٹر آف اکانومی پر متفق ہوں۔

عید الاضحٰی کی نماز کی ادائیگی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان معاشی استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوچکا ہے تاہم اسے درپیش چیلنجز سے نکالنے کے لیے قومی یکجہتی، سیاسی اتفاق اور معاشی ایجنڈے پر ہم آہنگی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اس وقت معاشی بدحالی سے نکل کر معاشی استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے جو ہمارے بزرگوں کا خواب تھا۔

انہوں نے کہا کہ قوم کی یکجہتی اور سیاسی قیادت کے دلیرانہ فیصلوں کے باعث پاکستان ایک مرتبہ پھر ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ماہ بھارت نے بلا جواز اور تکبر میں آ کر پاکستان پر حملہ کرنے کی کوشش کی مگر پاکستانی مسلح افواج نے عوام کی حمایت سے دشمن کو منہ توڑ جواب دیا اور اس کا غرور خاک میں ملا دیا۔

انہوں نے کہا کہ معرکہ حق کے نام سے جاری آپریشن بنیان مرصوص میں تاریخی کامیابی حاصل ہوئی اور پاکستان دنیا کے سامنے ایک مضبوط ایٹمی طاقت کے طور پر ابھرا۔

انہوں نے کہا کہ اس کامیابی پر فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور سپاہی تک سب مبارک باد کے مستحق ہیں۔

رانا ثناء اللہ نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان نے معاشی ترقی کی راہ پر قدم رکھ دیا ہے۔

انہوں نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو دعوت دی کہ وہ ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے ایک میز پر بیٹھیں اورچارٹر آف اکانومی پر متفق ہوں جیسا کہ 6 سے 10 مئی کے دوران پوری قوم نے اتفاق و یکجہتی کا مظاہرہ کیا تھا۔

انہوں نے واضح کیا کہ سیاست بعد کا کام ہے، سب سے پہلے معیشت کو سنوارنا ضروری ہے کیونکہ 24 کروڑ عوام مہنگائی اور افراط زر کے چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں۔

رانا ثناء اللہ نے اپوزیشن رہنماؤں سے اپیل کی کہ وہ وزیراعظم کی دعوت قبول کرتے ہوئے ایک غیر جانبدار الیکشن کمیشن کی تشکیل پر اتفاق کریں تاکہ آئندہ انتخابات شفاف ہوں اور کسی کو اعتراض نہ ہو۔

وزیر اعظم کے مشیر نے کہا کہ عالمی سطح پر پاکستان کو عزت و وقار حاصل ہوا ہے، وہ ممالک جو پہلے پاکستان سے روگردانی کرتے تھے، آج اس کی بات سننے پر مجبور ہیں۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ہم ذاتی اور گروہی مفادات میں الجھے رہے تو یہ قومی مفاد کے خلاف ہوگا۔ عوام کو چاہیے کہ وہ سیاسی جماعتوں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ قومی مفادات کو ترجیح دیں۔

پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک پر تبصرہ کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ان کی تحریک غیر مؤثر ہے کیونکہ نہ ان کے پاس تیاری ہے اور نہ ہی انہیں عوامی حمایت حاصل ہے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان اگر اپنی رہائی کو ملک کی معاشی ترقی سے مشروط کریں گے تو یہ ملک کے ساتھ زیادتی ہوگی۔

ہندوستانی عزائم پر بات کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مودی حکومت آر ایس ایس کے شدت پسندانہ ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اوروہ پاکستان اور مسلمانوں کی دشمن ہے۔

انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ بھارت اب دوبارہ حملے کی جرات نہیں کرے گا، تاہم پاکستان میں دہشت گردی کے ذریعے عدم استحکام پیدا کرنے کی سازشیں جاری رہیں گی۔

انہوں نے کہا کہ فوج نے اپنا کام بخوبی انجام دیا ہے، اب سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملکی ترقی کے لیے متحد ہوجائیں۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) بلدیاتی انتخابات کو سنجیدگی سے لے رہی ہے اور نئے بلدیاتی ایکٹ کے بعد انتخابات میں بھرپور حصہ لے گی، انہوں نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں گے۔

رانا ثناء اللہ نے بتایا کہ پنجاب حکومت کسان کارڈ، مزدورکارڈ اور معذور کارڈ جیسے فلاحی منصوبوں پر کام کر رہی ہے تاکہ عام آدمی کی زندگی میں بہتری لائی جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں ہی ایٹمی دھماکے سمیت بڑے قومی منصوبے مکمل ہوئے اوروزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز ایک نئی سوچ کے ساتھ عوامی خدمت کے لیے میدان میں ہیں۔

 

متعلقہ مضامین

  • پاکستان سمجھتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا ہو یا دہشتگردی کا، جنگ ان مسائل کا حل نہیں ہے؛ بلاول بھٹو
  • بھارت کو بین الاقوامی معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم کرنے کا کوئی اختیار نہیں
  • بلاول بھٹو: بھارت سے مسائل کا واحد حل مسئلہ کشمیر کا حل ہے
  • ہندوتوا نظریہ پورے خطے کے امن و استحکام کیلئے خطرہ بن چکا ہے:صدر آصف زرداری
  • اسرائیل بے گناہ فلسطینیوں کو قتل کر رہا ہے، مولانا شعیب احمد
  • امید ہے بجٹ میں ریلیف ملے گا اور جمہوریت کے ثمرات عوام تک پہنچیں گے:خالد مقبول صدیقی
  • پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک غیر مؤثر ہے، ان کے پاس تیاری ہے نہ عوامی حمایت،رانا ثنا
  • ملکی سیاسی حالات خراب ہو رہے ہیں: شیخ رشید احمد
  • کشمیری حقیقی عید تب منائیں گے جب وہ بھارتی غلامی کا طوق توڑ دیں گے، غلام احمد گلزار
  • مودی حکومت کے ذریعہ "وقف پورٹل" کا قیام غیر قانونی ہے، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی