اداروں سے ملازمین کی چھانٹیاں اور ملکی ذرائع ابلاغ کی بے حسی
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
میڈیا کو محنت کشوں سے مطلب نہیں، رپورٹنگ یکم مئی تک محدود ہے کے عنوان سے ایک رپورٹ قاضی سراج (مرحوم) نے شائع کی تھی۔ مرحوم نے لکھا تھا کہ پاکستان کے بڑے روزنامے جن کی اشاعت لاکھوں میں بتائی جاتی ہے‘ میں محنت کشوں کی خبروں کو نظر انداز کیا جاتا ہے‘ بڑے روزنامے مزدوروں کی خبریں جب ہی شائع کرتے ہیں کہ جب بڑا حادثہ ہوجائے۔ روزنامہ جسارت اول روز سے مظلوم طبقوں کی نمائندگی کرتا ہے‘ روزنامہ جسارت 1991ء سے صفحہ محنت شائع کررہا ہے جس میں محنت کش برادری کی خبریں بلاامتیاز شائع کی جاتی ہیں‘ برصغیر میں صرف روزنامہ جسارت ہی صفحہ محنت شائع کرتا ہے۔ قاضی سراج کو اللہ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔ مرحوم ہمیشہ ملکی میڈیا کا محنت کشوں کے ساتھ رویوں پرلکھتے تھے۔ ملک کے چوتھے ستون میڈیا کے ایک بڑے پرنٹ اور الیکٹرانک چینل حکومت کی آشیرواد سے روزانہ کی بنیاد پروفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ پالیسی کی خبریں شہ سرخیوں میں شایع/نشر کرتا ہے۔ سوائے یوم مئی کے مجال ہے جو ملازمین کے حقوق کے بارے میں خبر جاری کرے۔ جن حکمرانوں سے ملک کے دوچار چھوٹے چھوٹے ادارے نہیں چل سکتے وہ ملک چلانے کا دعوی کیونکر کرسکتے ہیں لیکن ایسا تو برسہا برس سے ہورہا ہے، پاکستان اسٹیل کو تباہ کردیا گیا، شپ یارڈ تباہی کے قریب ہے کے ای ایس سی نہیں چل سکی ، پی ٹی سی ایل نہیں چلا سکے بیچ دی ، ریلوے بیچنے کی باتیں ہوتی رہیں اور پی آئی اے کو تو بیچنے کے لیے رکھ ہی دیا۔ لیکن اب پتا چلا کہ ان حکمرانوں کے بس میں تو کوئی ادارہ چلانا یا اسے بیچنا بھی نہیں ہے۔ وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ متعلق کمیٹی نے چوتھے مرحلہ میں وزارت مواصلات، ریلوے، تخفیف غربت و سماجی تحفظ، ریونیو ڈویژن، پٹرولیم ڈویژن اور ان سے منسلک محکموں کی رائٹ سائزنگ کا جائزہ لینے کا فیصلہ کر لیا۔ وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ پالیسی تحت وفاقی وزارتوں اور ڈویژنوں اور ان کے محکموں میں گریڈ ایک سے 22تک کی 4816 پوسٹوں کو ختم (Abolished) اور 1954پوسٹوں کو متروک (dying) قرار دے دیا گیا۔ مجموعی طور پر 6770پوسٹیں ختم کی گئی ہیں۔ پاکستان پوسٹ میں گریڈ ایک تا 15 کی مزید 1511 پوسٹوں کو ختم (Abolish) کر دیا گیا۔ ادارے کے ہیڈکوارٹر سے جاری سرکلر کے مطابق قبل ازیں 2000 پوسٹوں کو ختم اور 105پوسٹوں کو متروک ( dying) قرار دیا جا چکا ہے۔ اس طرح اب تک مجموعی طور پر ادارے سے 3616 پوسٹیں ختم کی جا چکی ہیں۔ وزارت صنعت و پیداوار کے مطابق حکومت 16 اداروں کی بندش یا نجکاری پر غور کر رہی ہے، جس میں نیشنل فرٹیلائزر کمپنی (NFC)، پاکستان آٹوموبائل کارپوریشن (PACO)، اور نیشنل پروڈکٹیویٹی آرگنائزیش (NPO) اور یوٹیلیٹی اسٹورز آرگنائزیشن جیسے اہم ادارے شامل ہیں۔ مزید یہ کہ ’’ہم آئندہ 6 ماہ میں ان اداروں کی کارکردگی کو قریب سے مانیٹر کرتے رہیں گے۔ اگر وہ کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے تو ہم انہیں بند کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے،‘‘ وزارت ہا ئوسنگ و تعمیرات کے ذ یلی ادارے نیشنل کنسٹر کشن کمپنی(NCL)کو بند کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔ آئندہ یہ ادارہ کوئی نیا پراجیکٹ شروع نہیں کرے گا۔ پاک انوائر مینٹل پلاننگ اینڈ آرکیٹکچرل کنسلٹنگ (PEPAC) کو بھی بند کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔ یہ ادارہ بھی آئندہ کوئی نیا پراجیکٹ شروع نہیں کرے گا۔ پاک پی ڈبلیو ڈی کو 30 جون 2025 تک بند کرنے منظوری دی گئی۔ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے 4 اداروں کونسل فار ورکس اینڈ ہاوسنگ ریسرچ (سی ڈبلیو ایچ آر)، پاکستان کونسل فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (پی سی ایس ٹی)، سائینٹیفک ٹیکنالوجیکل ڈویلپمنٹ کارپوریشن (سٹیڈک) اور کاسمیٹک اتھارٹی آف پاکستان کو بند کرنے اور پوسٹیں ختم کرنے کا کہا گیا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ اورنگزیب نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے ڈیڑھ لاکھ خالی اسامیاں ختم کر دی ہیں، پہلے مرحلے میں 80 اداروں کو کم کر کے 40کر دیاگیا، وزارت امور کشمیر وگلگت بلتستان اور وزارت سیفران کو ضم کر دیاگیا اور وزارت کیڈ کو ختم کر دیا، مجموعی طور پر 43 وزارتوں اور ان کے ماتحت 400 اداروں میں رائٹ سائزنگ 30 جون 2025 تک مرحلہ وار مکمل کر لی جائے گی، رائٹ سائزنگ کے پہلے 3 مراحل مکمل کر لیے اور ان پر عملدرآمد جاری ہے، اس سے 900ارب روپے کے سالانہ حکومتی اخراجات میں خاطر خواہ کمی ہو گی، ایس او ایز اصلاحات میں کسی بھی وزارت کو استثنیٰ حاصل نہیں، ہمارے فیصلوں کے اثرات آئندہ مالی سال میں دکھائی دیں گے۔ اس وقت وفاقی حکومت کے سول ملازمین کی کل تعداد 5 لاکھ 90 ہزار 585 ہے جن میں سے گریڈ ایک سے سولہ تک کے ملازمین کی تعداد 5 لاکھ 63 ہزار 574 ہے جبکہ گریڈ 17 سے 22تک کے افسران کی تعداد27ہزار 11 ہے۔ وزارت خزانہ کی طرف سے وفاقی سرکاری اداروں میں مستقل پوسٹوں کو ختم کرنے کا مراسلہ جاری کیا گیا ہے۔ 2014 میں جب میاں نوازشریف وزیر اعظم تھے تو ایک خطاب میں انہوں نے کہا تھا کہ ہمارا کام ادارے چلانا نہیں ہے۔ اب ان کے بھائی وزیر اعظم کہتے ہیں کہ ادارے بیچنے ہیں۔ مقصد یہ ہوا کہ ن لیگ بے روزگاری کی بادشاہ ہے۔ ایک طرف اسامیاں ختم کرنے سے نوجوانوں کے لیے روزگار کے دروازے بند ہو جائیں گے تو دوسری جانب جو روزگار سے لگے ہوئے ہیں ان کی روزی روٹی چھینی جا رہی ہے۔ سیکڑوں ملکی اخبارات اور سوشل میڈیا ہونے کے باوجود کوئی بھی محنت کشوں کی خبروں کو شائع کرنے کو تیار نہیں ہے۔ قاضی صاحب مرحوم کی رپورٹ میں میرے بھی تاثرات تھے کہ صفحہ محنت نے سماج کے ایک آئینہ کے طور پر خدمات انجام دیں‘ محنت کشوں کے اصل مسائل اور خبروں کو بالکل صحیح انداز میں پیش کرتا ہے۔ جسارت چونکہ محنت کشوں کا ترجمان ہے، اس لیے ٹریڈ یونینز اور اس کے قائدین کے بارے میں معلومات کا ایک اہم ماخذ و ذریعہ تصور ہوتا ہے اور اس کی یہ اہمیت نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔ روزنامہ جسارت کا صفحہ محنت اور محنت کش طبقہ لازم و ملزوم ہیں جس طرح صفحہ محنت کو اس تاریخ سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح مزدور تحریک کو جسارت کے بغیر مکمل تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اس بڑے کام کی انجام دہی کے لیے انچارج صفحہ محنت اور ان کی پوری ٹیم کو مبارکباد دیتا ہوں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کی رائٹ سائزنگ وفاقی حکومت حکومت کی کرتا ہے کر دیا اور ان
پڑھیں:
مساوی محنت پھر بھی عورت کو اجرت کم کیوں، دنیا بھر میں یہ فرق کتنا؟
دنیا کے بیشتر ممالک میں آج بھی خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کم اجرت دی جاتی ہے حالانکہ وہ مساوی کام کر رہی ہوتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: دنیا بھر میں خواتین کھلاڑیوں کو امتیازی سلوک کا سامنا، اقوام متحدہ نے کیا حل بتایا؟
اقوام متحدہ کے ادارے یو این ویمن نے ’مساوی اجرت کے عالمی دن‘ کے موقعے پر حکومتوں، آجروں اور محنت کش تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاشی ناانصافی کے خاتمے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کریں۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اوسطاً خواتین کو دنیا بھر میں مردوں کے مقابلے میں 20 فیصد کم تنخواہ دی جاتی ہے جب کہ اقلیتی نسلی گروہوں، معذور خواتین اور مہاجر خواتین کے ساتھ یہ فرق اس سے بھی کہیں زیادہ ہوتا ہے۔
مزید پڑھیے: مخصوص ایام میں خواتین ایتھلیٹس کو درپیش چیلنجز: کھیل کے میدان میں ایک پوشیدہ آزمائش
اجرت یا تنخواہ کی یہ تفریق نہ صرف خواتین کی معاشی خودمختاری کو متاثر کرتی ہے بلکہ جامع اور پائیدار ترقی کے راستے میں بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
یو این ویمن نے واضح کیا ہے کہ مساوی اجرت محض ایک سماجی یا معاشی مطالبہ نہیں بلکہ ایک بنیادی انسانی حق ہے جس کی توثیق آئی ایل او کنونشن 100 اور اقوام متحدہ کے چارٹر میں کی گئی ہے۔
ادارے کا کہنا ہے کہ جب خواتین کو کم اجرت دی جاتی ہے تو یہ نہ صرف معاشی امتیاز ہے بلکہ انصاف، برابری اور باہمی تعاون کے اصولوں کی خلاف ورزی بھی ہے۔
مزید پڑھیں: دنیا میں کتنی خواتین جنسی یا جسمانی تشدد کا شکار، المناک حقائق
30 سال قبل، حکومتوں نے بیجنگ پلیٹ فارم فار ایکشن میں مساوی اجرت کے لیے قانون سازی اور عملدرآمد کا وعدہ کیا تھا جسے بعد ازاں پائیدار ترقی کے 2030 ایجنڈے میں شامل کیا گیا۔
مگر اب جبکہ سنہ 2030 صرف 5 سال دور ہے یو این ویمن نے زور دیا ہے کہ رفتار بڑھائی جائے۔
حل کیا ہے؟ اقوام متحدہ کی سفارشاتیو این ویمن نے درج ذیل ٹھوس اقدامات کی تجویز دی ہے۔ ان اقدامات میں شامل ہے کہ حکومتیں مضبوط قوانین اور پالیسیاں متعارف کرائیں جو اجرت میں صنفی تفریق کو ختم کریں، آجر ادارے شفاف تنخواہی نظام اپنائیں اور صنفی مساوات پر مبنی آڈٹ کرائیں، محنت کش تنظیمیں اجتماعی سودے بازی اور سماجی مکالمے کو فروغ دیں اور تحقیقاتی ادارے اور نجی شعبہ ڈیٹا شفافیت اور احتساب میں کردار ادا کریں۔
یو این ویمن، عالمی ادارہ محنت اور او ای سی ڈی کے ساتھ مل کر ’مساوی اجرت اتحاد ‘ کی قیادت کر رہا ہے جو اس عالمی مسئلے کے حل کے لیے سرکاری و نجی سطح پر شراکت داری کو فروغ دیتا ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ وعدے کو عمل میں بدلا جائےیو این ویمن نے عالمی رہنماؤں کو یاد دلایا ہے کہ اجرت میں برابری کی مخالفت دراصل انصاف کے اصولوں پر حملہ ہے۔
ادارے نے مطالبہ کیا ہے کہ تمام متعلقہ فریقین جراتمندانہ اقدامات کے ساتھ اس ناہمواری کو ختم کرنے کے لیے دوبارہ پرعزم ہوں تاکہ خواتین کو بھی وہی معاشی احترام ملے جو مردوں کو حاصل ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
خواتین سے امتیازی سلوک خواتین سے ناروا سلوک خواتین کی کم اجرت خواتین کے ساتھ غیر مساوی سلوک مرد عورت میں تفریق