Jasarat News:
2025-11-05@00:59:02 GMT

بھارتی قومی ترانے سے سندھ کا نام نکالا جائے

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

بھارتی قومی ترانے سے سندھ کا نام نکالا جائے

جب بھی آپ نے بھارت کا قومی ترانہ سنا ہو تو اس کے تیسرے مصرعے کے دوسرے حرف سندھو پر غور کیا ہوگا۔ ہماری طرح آپ بھی سوچ رہے ہیں کہ سندھ کا بھارت سے کیا تعلق؟ سندھ تو پاکستان کا ایک صوبہ اور اس کا ایک اہم حصہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وادی سندھ ہمیشہ سے ہندوستان سے اپنی ایک الگ شناخت رکھتی ہے، وادی سندھ کی تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذیب ہے جس کا ہند یا ہندی تہذیب کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں ہے اور سندھ وہ واحد خطہ ہے جو مسلم خلافت کا حصہ رہا ہے، جہاں برصغیر کی پہلی اسلامی حکومت قائم ہوئی تھی۔ محمد بن قاسم کی آمد کے ساتھ سندھ کی سرحدیں ملتان تک تھیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت کے قومی ترانے میں سندھ کے لفظ پر حکومت پاکستان نے اعتراض کیوں نہیں کیا؟ اور یہ بات آن ریکارڈ ہے کہ 23 اکتوبر 2023 کو اتر پردیش کے چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ نے یہ بیان دیا کہ اگر شری رام جنم بھومی کو 500 سال بعد واپس لیا جاسکتا ہے تو بھارت سندھ کو جو اب پاکستان میں ہے کیوں واپس نہیں لے سکتا، یوگی ادتیہ ناتھ کا یہ بیان صرف پاکستان کے خلاف نہیں تھا بلکہ ساری مسلم امت کے خلاف تھا۔ اس لیے کہ یہودی اس بنیاد پر کہ 3 ہزار سال پہلے فلسطین میں ان کی حکومت تھی۔ آج فلسطین پر قبضہ کرنے کا بہانہ بنائے بیٹھے ہیں۔ اگر یہودیوں کا یہ دعویٰ مان لیا جائے تو جاپان بدھ مت کا پیروکار ہونے کے ناتے بنارس، سانچی، سارناتھ بلکہ سارے اتر پردیش پر قبضے کا حق رکھتا ہے۔ بھارت کا رویہ ہمیشہ سے پاکستان کے خلاف بلاوجہ دشمنی والا رہا ہے۔ یہاں تک کہ بھارت پاکستان کے تاریخی آثار قدیمہ پر رال ٹپکائے بیٹھا ہے۔ خاص کر موہن جودڑو اور ہڑپا پر۔ ان دونوں آثار کا آج تک ہندو تہذیب کے ساتھ کوئی رشتہ ثابت نہیں ہوا ہے۔ بلکہ موہن جو دڑو کی زبان کے بارے میں کہا گیا کہ یہ نہیں پڑھی جاسکی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسے پڑھنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ 1950 کی دہائی میں برصغیر پاک وہند کے ماہر لسانیات مولانا ابوالجلال ندوی (مرحوم) جوکہ قدیم زبانوں کے ماہر تھے انہوں نے دعویٰ کیا کہ موہن جو دڑو کی زبان دراصل پرانی عبرانی ہے اور موہن جودڑو کی تہذیب کا تعلق سیدنا ابراہیم ؑ کے دور سے ہے۔ اپنے اس دعوے کو درست قرار دینے کے لیے انہوں نے موہن جو دڑو اور ہڑپا کی مُہروں کے حروف تہجی اور پرانی عبرانی کے حروف تہجی کا موازنہ کیا ہے جس سے یہ ثابت ہوا کہ یہاں کے رہنے والے عبرانی زبان بولتے تھے جو کہ سیدنا ابراہیم ؑ کے زمانے کی زبان تھی، یہ انکشاف انہوں نے حکومت پاکستان کے سرکاری رسالے ’’ماہ نو‘‘ میں اور انجمن ترقی اردو پاکستان کے سہ ماہی رسالے ’’تاریخ وسیاسیات‘‘ کے نومبر 1953ء کے شماروں میں کیا تھا۔ ماہ نو کے1956ء کے اگست تا دسمبر کے شمارے میں اسی موضوع پر ان کے کئی مضامین شائع ہوئے اور انہوں نے مارچ تا دسمبر 1958 کے شماروں میں سندھی مہروں کے حوالے سے ایک سلسلہ وار مضمون لکھا تھا۔ خیر یہ تو ایک طویل اور تحقیق طلب موضوع ہے اس پر ساری دنیا میں بحث ہو رہی ہے۔ لیکن دنیا یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے کہ موہن جو دڑو کی زبان اس خطے کے رہنے والے ایک مسلمان ماہر لسانیات نے پڑھ لی ہے۔

ہمیں شکوہ تو حکومت پاکستان سے ہے کہ موہن جودڑو کے آثار سے نکلنے والے نوادرات آج تک بھارت کے میوزیم میں پڑے ہوئے ہیں اور پاکستان ان پر دعویٰ کر سکتا ہے لیکن آج تک پاکستان نے ان پر اپنا دعویٰ دائر نہیں کیا۔ اسی طرح ہڑپا سے نکلنے والے نوادرات بھی دہلی میوزیم میں ہی موجود ہیں۔ حکومت پاکستان نے ان پر بھی اپنے حق کا دعویٰ نہیں کیا ہے جبکہ بھارت موہن جودڑو پر فلمیں بھی بنا رہا ہے اور اسے اپنی تاریخ سے جوڑ بھی رہا ہے اور اپنا حق بھی جتا رہا ہے، حقیقت یہ ہے کہ لفظ انڈیا انڈس سے نکلا ہے انڈس ویلی یا وادی سندھ کا حق اس طرح پورے ہندوستان پر ثابت ہوتا ہے۔ سندھ ہند پر بھاری ہے۔ سندھ ہندوستان سے ہمیشہ ترقی یافتہ تھا کیونکہ دیبل کی بندرگاہ ہی سے دنیا کے ساتھ اس کا تجارتی رابطہ تھا یہ تجارت کی بہت بڑی منڈی ہے اور یہاں مختلف قسم کی تجارت ہوتی تھی۔ (سفرنامہ ابن حوقل، صفحہ: 230 یورپ)

ہم اہل سندھ ہمیشہ سے ہندوستان کو تہذیب سکھاتے رہے ہیں، پرانی تاریخ میں سندھ ہمیشہ ہند سے الگ رہا ہے اس کا کوئی تعلق ہندوستان کے ساتھ نہیں رہا، ہم یہاں تاریخ کے اوراق نہیں پلٹیں گے لیکن بی بی سی اور انڈیپنڈنٹ کے محققین سے گزارش کریں گے کہ وہ بھارتی پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر اپنی ساکھ کو داؤ پر نہ لگائیں تامل ناڈو کے اسکالر کا موہن جودڑو سے کیا تعلق۔۔؟ اور یوگی ادتیہ ناتھ اگر دریائے سندھ میں ڈبکی لگانا چاہتے ہیں تو حکومت پاکستان سے ویزے کی درخواست کریں اور جنوری اور دسمبر میں گلگت بلتستان میں بہتے ہوئے دریائے سندھ میں غوطہ لگائیں۔ حکومت پاکستان نے کبھی بھی موہن جودڑو اور ہڑپا کے نوادرات پر دعویٰ نہیں کیا۔ جبکہ عالمی قوانین کے تحت یہ پاکستان کا حق ہے۔ کیا حکومت پاکستان اس کے لیے تیار ہے؟ کہ وہ بھارت سے یہ مطالبہ کریں کہ وہ اپنا قومی ترانہ تبدیل کرے اور اس میں سے سندھ کا نام نکال دے، یاد رہے بھارت کا قومی ترانہ دراصل اس وقت کے برطانوی بادشاہ جارج پنجم کی شان میں لکھا گیا تھا۔ جو اب بھارت کا قومی ترانہ ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ آزاد کون ہوا پاکستان یا بھارت؟

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: حکومت پاکستان پاکستان نے پاکستان کے کہ موہن جو بھارت کا انہوں نے نہیں کیا کی زبان نہیں کی سندھ کا کے ساتھ رہا ہے دڑو کی ہے اور

پڑھیں:

تاجکستان سے بھارتی فوج کی بے دخلی، آینی ایئربیس کا قبضہ کھونے پر بھارت میں ہنگامہ کیوں؟

بھارت کو وسطی ایشیا میں اپنی واحد بیرونِ ملک موجودگی سے پسپائی اختیار کرنا پڑی ہے۔ تاجکستان نے بھارتی فوج جو دارالحکومت دوشنبے کے قریب واقع آینی ایئربیس استعمال کرنے کی اجازت واپس لے لی ہے۔ نئی دہلی نے تاجکستان میں اپنی اس موجودگی کو “اسٹریٹجک کامیابی” قرار دیا تھا۔ اب اس اڈے کا مکمل کنٹرول روسی افواج نے سنبھال لیا ہے جبکہ بھارت کے تمام اہلکار اور سازوسامان 2022 میں واپس بلا لیے گئے تھے۔

ذرائع کے مطابق بھارت اور تاجکستان کے درمیان 2002 میں ہونے والا معاہدہ چار سال قبل ختم ہوا، اور تاجکستان نے واضح طور پر بھارت کو اطلاع دی کہ فضائی اڈے کی لیز ختم ہو چکی ہے اور اس کی تجدید نہیں کی جائے گی۔

بھارتی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ تاجک حکومت کو روس اور چین کی جانب سے سخت دباؤ کا سامنا تھا کہ وہ “غیر علاقائی طاقت” یعنی بھارت کو مزید اپنے فوجی اڈے پر برداشت نہ کرے۔

آینی ایئربیس بھارت کے لیے نہ صرف وسطی ایشیا میں قدم جمانے کا ذریعہ تھی بلکہ پاکستان کے خلاف جارحانہ حکمتِ عملی کا ایک حصہ بھی تھی۔

یہ فضائی اڈہ افغانستان کے واخان کاریڈور کے قریب واقع ہے جو پاکستان کے شمالی علاقے سے متصل ہے۔ بھارتی فضائیہ نے ماضی میں یہاں لڑاکا طیارے اور ہیلی کاپٹر تعینات کیے تھے تاکہ بوقتِ جنگ پاکستان پر دباؤ ڈالا جا سکے۔

مگر اب روس اور چین کی شراکت سے بھارت کی یہ تمام منصوبہ بندی خاک میں مل چکی ہے۔

بھارتی تجزیہ کاروں کے مطابق تاجکستان کا یہ فیصلہ بھارت کے لیے ایک بڑا اسٹریٹجک دھچکا ہے، کیونکہ اس اڈے کے ذریعے بھارت وسطی ایشیا میں اپنی موجودگی ظاہر کر رہا تھا۔ تاہم، اب روس اور چین اس خلا کو پر کر چکے ہیں اور بھارت مکمل طور پر خطے سے باہر ہو گیا ہے۔

کانگریس رہنما جے رام رمیش نے بھی نریندر مودی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ آینی ایئربیس کا بند ہونا بھارت کی خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے۔ انہوں نے کہا کہ “یہ ہماری اسٹریٹجک سفارت کاری کے لیے ایک اور زبردست جھٹکا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مودی حکومت محض دکھاوے کی خارجہ پالیسی پر یقین رکھتی ہے۔”

ماہرین کا کہنا ہے کہ تاجکستان کے اس فیصلے نے وسطی ایشیا میں بھارت کی رسائی محدود کر دی ہے۔ اس خطے میں اب روس اور چین کا مکمل تسلط ہے، اور بھارت کے پاس نہ کوئی اسٹریٹجک بنیاد بچی ہے اور نہ کوئی مؤثر اثرورسوخ بچا ہے۔

دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق یہ واقعہ بھارتی عزائم کے لیے ایک سبق ہے کہ غیر ملکی زمین پر فوجی اڈے بنانے کی کوششیں صرف اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہیں جب بڑی طاقتیں آپ کے پیچھے کھڑی ہوں، اور اس وقت بھارت کو نہ واشنگٹن کا مکمل اعتماد حاصل ہے اور نہ ماسکو یا بیجنگ کا۔

یوں تاجکستان سے بھارتی فوج کا انخلا دراصل نئی دہلی کی “عظیم طاقت بننے” کی خواہش پر کاری ضرب ہے، جبکہ پاکستان کے لیے یہ ایک واضح سفارتی فتح ہے، کیونکہ خطے میں بھارت کے تمام تر اسٹریٹجک منصوبے ایک ایک کر کے ناکام ہوتے جا رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • بھارتی جوہری مواد سے تابکاری جاری
  • قومی ایئرلائن اور ایئر کرافٹ انجینئرز کے درمیان تنازعہ تاحال برقرار، درجنوں پروازیں متاثر
  • پیپلز پارٹی ڈاکوئوں کی سرپرستی بند کر ے، جئے قومی محاذ
  • بابا گورونانک کا 556 واں جنم دن، بھارت سے 2400 سکھ یاتری پاکستان پہنچ گئے
  • اہم انتظامی اختیارات پر بھارت کے کنٹرول کی وجہ سے کشمیر حکومت کے اختیارات بہت کم ہو گئے ہیں، عمر عبداللہ
  • پاکستان کے خلاف بھارتی کارروائی بے نقاب
  • آپریشن سندور کی بدترین ناکامی پر مودی سرکار شرمندہ، اپوزیشن نے بزدلی قرار دیدیا
  • آپریشن سندور پر مودی کی خاموشی سیاسی طوفان میں تبدیل
  • کراچی: نالہ متاثرین کو حکومت سندھ کی جانب سے پلاٹ فراہمی میں تاخیر، سپریم کورٹ سے نوٹس لینے کامطالبہ
  • تاجکستان سے بھارتی فوج کی بے دخلی، آینی ایئربیس کا قبضہ کھونے پر بھارت میں ہنگامہ کیوں؟