سپریم کورٹ: 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف کیس میں فل کورٹ کی تشکیل کی استدعا پر نوٹس جاری WhatsAppFacebookTwitter 0 27 January, 2025 سب نیوز

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف دائر درخواستوں کی ابتدائی سماعت پر وکلا کی جانب سے فل کورٹ کی تشکیل کی استدعا پر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 3 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی ہے۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے فل کورٹ کی تشکیل اور عدالتی کارروائی براہ راست نشر کرنے کی درخواست سمیت 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف مرکزی درخواستوں پر بھی نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا ہے۔

چھبیسویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 8 رکنی بینچ نے کی، درخواست گزاروں کی جانب سے26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف فل کورٹ بینچ تشکیل دینے کی استدعا پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ابھی آپ کے خواہشات کے مطابق فل کورٹ نہیں بن سکتا، آئینی بینچ میں ججز کی نامزدگی جوڈیشل کمیشن کرتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل کے مطابق جوڈیشل کمشن نے جن ججز کو آئینی بینچ کے لیے نامزد کیا وہ سب اس بینچ کا حصہ ہیں، ججز کی نامزدگی جوڈیشل کمیشن جبکہ کیسز کی سماعت کا تعین 3 رکنی کمیٹی کرتی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس کمیٹی کے سربراہ جسٹس امین الدین خان ہیں جبکہ وہ خود اور جسٹس محمد علی مظہر اس کے رکن ہیں، وکلا سے مکالمہ کرتے ہوئے جسٹس محمد علی مظہر فل کورٹ کے معاملے پر آپ خود کنفیوز ہیں، اس بینچ کو ہی فل کورٹ سمجھیں۔

وکلا کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ لگتا ہے آپ پہلے دن سے ہی لڑنےکے موڈ میں ہیں، جس پر وکیل فیصل صدیقی کا جواب تھا کہ وہ کسی سے لڑنا نہیں چاہتے، جسٹس امین الدین بولے؛ اگر کوئی فریق بحث کرنے کو تیار نہیں تو عدالت حکم جاری کرے گی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے وکلا کو کہا کہ سمجھ نہیں آرہی کہ آپ ہچکچاہٹ کا کیوں شکار ہیں، جو اس بینچ کے سامنے بحث نہیں کرنا چاہتا وہ پیچھے بیٹھ جائے، جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ فل کورٹ تشکیل دینے پر پابندی تو کوئی نہیں ہے۔

وکیل فیصل صدیقی کا موقف تھا کہ 26ویں ترمیم اختیارات کی تقسیم کے اصول کیخلاف ہے، وکیل عزیر بھنڈاری بولے؛ 26ویں ترمیم کی منظوری کے وقت ایوان نامکمل تھا، عدالتی استفسار پر فیصل صدیقی نے بتایا کہ 26ویں ترمیم کے لیے کل ارکان قومی اسمبلی پر ووٹنگ کے بجائے دستیاب ارکان پر ووٹنگ ہوئی تھی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ دستیاب ارکان کا جو ٹوٹل بنا وہ مکمل ایوان کے دوتہائی پر پورا اترتا تھا، جس پر فیصل صدیقی بولے؛ گنتی انہوں نے پوری کرہی لی تھی ہم یہ مسئلہ نہیں اٹھا رہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا ایوان میں تمام صوبوں کی نمائندگی مکمل تھی، فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا کی سینیٹ میں نمائندگی مکمل نہیں تھی، خیبرپختونخواہ کی حد تک سینیٹ انتخابات رہتے تھے۔

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ایک وکیل کہہ رہا ہے جوڈیشل آرڈر سے فل کورٹ بنائیں، دوسرے وکیل کہہ رہے ہیں فل کورٹ کیلئے ریفر کر دیں، پہلے آپس میں تو فائنل کر لیں کہ کرنا کیا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ اگر فل کورٹ بن گیا پھر آپ نیا اعتراض کر دیں گے، فل کورٹ میں آپ کہیں گے آئینی بنچ والوں کو الگ کریں،

دوران سماعت جسٹس منصورعلی شاہ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے وکیل توفیق آصف کا موقف تھاکہ کچھ دیرپہلے ہی فل کورٹ کے لیے جوڈیشل آرڈر ہوا ہے، جس پر جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ فل کورٹ کے حوالے سے کیا آرڈر ہوا ہے دکھائیں، توفیق آصف نے جواب دیا کہ ابھی فیصلہ سنایا گیا ہے کاپی نہیں ملی۔

جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ جوڈیشل آرڈر کمیٹی کے پاس چلا جائے گا، فیصلے میں کیا لکھا ہے دیکھے بغیر کیسے پتا چلے گا، فل کورٹ کا معاملہ چیف جسٹس کے پاس ہی جاسکتا ہے.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف جسٹس جمال مندوخیل نے جسٹس محمد علی مظہر کی استدعا پر فیصل صدیقی سپریم کورٹ نوٹس جاری کورٹ کے کے لیے تھا کہ

پڑھیں:

فرانس کی سپریم کورٹ نے بشار الاسد کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کر دئیے

اپنے ریمارکس میں فرانسوی چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ چونکہ بشار الاسد دسمبر 2024ء میں اپنے عہدے سے ہٹائے جانے کیبعد اب صدر نہیں رہے، اسلئے ممکن ہے کہ کسی نئے مقدمے میں ان کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے جائیں یا کیے جا چکے ہوں۔ اسلام ٹائمز۔ آج فرانس کی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ کسی بھی سربراہ مملکت کے صدارتی استثنیٰ کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ جس کے بعد پیرس کے تحقیقاتی ججوں کی جانب سے شام کے سابق صدر "بشار الاسد" کی گرفتاری کا جارہ کردہ حکم منسوخ ہو گیا۔ یاد رہے کہ فرانسوی حکام نے نومبر 2023ء میں بشار الاسد کی گرفتاری کا حکم جاری کیا تھا۔ مذکورہ عدالت نے بشار الاسد پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے 21 اگست 2013ء کو دمشق کے علاقے مشرقی غوطہ میں کیمیائی ہتھیار استعمال کئے۔ حالانکہ اس وقت کی شامی حکومت نے اس فرانسوی الزام کو مسترد کرتے ہوئے باغیوں کو واقعے کا قصوروار ٹھہرایا۔ فرانس کی عدالتی نظام نے اس کیس کی عالمی قانونی دائرہ اختیار (Universal Jurisdiction) کے تحت سماعت کی، جو سنگین جرائم کے خلاف کارروائی کی اجازت دیتا ہے، چاہے ان جرائم کا کہیں بھی ارتکاب کیا جائے۔ اس سلسلے میں فرانس کے چیف جسٹس "کرسٹوف سولارڈ" نے کھلی عدالت کے اجلاس کے اختتام پر اعلان کیا کہ چونکہ بشار الاسد دسمبر 2024ء میں اپنے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد اب صدر نہیں رہے، اس لئے ممکن ہے کہ کسی نئے مقدمے میں ان کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے جائیں یا کیے جا چکے ہوں۔ لہٰذا ان کے خلاف قانونی تحقیقات جاری رہ سکتی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ضرورت محسوس ہوئی تو 27ویں آئینی ترمیم بھی ہو جائے گی، قمر زمان کائرہ
  • فرانس کی سپریم کورٹ نے بشار الاسد کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کر دئیے
  • سپریم کورٹ نے ضمانت مسترد ہونے کے بعد ملزم کی فوری گرفتاری لازمی قراردیدی
  • عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ ہونے سے متعلق چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا فیصلہ جاری
  • ضمانت قبل ازگرفتاری مسترد ہونے کے بعد فوری گرفتاری ضروری ہے،چیف جسٹس  پاکستان  نے فیصلہ جاری کردیا
  • ریاست آسام میں بلڈوزر کارروائی پر سپریم کورٹ آف انڈیا برہم، توہین عدالت کا نوٹس جاری
  • توہینِ مذہب کے الزامات: اسلام آباد ہائیکورٹ نے کمیشن کی تشکیل پر عملدرآمد روک دیا
  • توہینِ مذہب الزامات پر کمیشن تشکیل دینے کے فیصلے کیخلاف اپیل قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ
  • انضمام ختم کرنے یا ایف سی آر بحالی سے متعلق افواہیں بے بنیاد ہیں، کمیٹی اجلاس کا اعلامیہ
  • سپریم کورٹ: چیف لینڈ کمشنر پنجاب بنام ایڈمنسٹریٹو اوقاف ڈیپارٹمنٹ بہاولپور کیس کا فیصلہ جاری