Daily Ausaf:
2025-09-18@13:41:09 GMT

علمی زوال کا شکار قومیں ترقی نہیں کر سکتیں

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

طبقاتی نظام کی طرح ہمارا تعلیمی نظام بھی بٹا ہوا ہے۔کہتے ہیں جو قوم اچھی تعلیم سے بہرہ ور نہ ہو،وہ اچھے شعور سے بھی بہرہ ور نہیں ہوتی۔آگہی کے سب راستے اس پر بند ہو جاتے ہیں۔حکومتوں کے کئی دور آئے،کئی جماعتیں برسر اقتدار رہیں مگر کوئی جماعت بھی اپنی توجہ تعلیمی نظام کی بہتری کے لئے مرکوز نہیں کر سکی۔ اسی لئے ہم آزادی کے 77 سال گزرنے کے باوجود بحیثیت قوم آج بھی انحطاط پذیر ہیں۔وہ قومیں کبھی ترقی نہیں کر سکتیں جو علمی زوال کا شکار ہوں۔ یہ’’انحطاط‘‘ کیوں ہے،اس کے اسباب کیا ہیں ؟ آئیے اس کے متعلق کچھ بات کرتے ہیں۔ دیکھنا پڑے گا تعلیمی اداروں میں ہم اپنے بچوں کو کیا سکھا رہے ہیں۔کیا پڑھا رہے ہیں؟ ان کی تربیت کیسی ہو رہی ہے؟ ہم انہیں کامیاب بنانا چاہتے ہیں یا ان کے اندر حسد اور غیر سنجیدگی فروغ دے رہے ہیں۔ملک میں ناقص تعلیمی نظام کی بدولت ہم قوم نہیں،ہجوم بن رہے ہیں جو شعور و ادب سے قطعی ناآشنا ہے۔کیونکہ شعور تربیت سے آتا ہے۔تعلیم نے ہی شعور دینا ہوتا ہے اور ادب سکھانا ہوتا ہے۔بدقسمتی سے پاکستان تعلیم کے شعبے میں آج دنیا کے دیگر ممالک سے بہت پیچھے ہے۔وطن عزیز میں آج بھی انگریزوں کا قائم کردہ وہی تعلیمی ڈھانچہ موجود ہے جس کے ذریعے ہم کلرک ہی پیدا کر سکتے ہیں۔ تعلیمی ڈھانچے کی اسی خرابی کے نتیجے میں آج ہم سائنس اور تخلیق کے شعبے میں دنیا کے بہت سے ترقی پذیر ممالک سے ناصرف بہت پیچھے رہ گئے ہیں بلکہ ادراک رکھتے ہوئے بھی نہیں سوچ رہے کہ انحطاط پذیر اس تعلیمی نظام نے ہی ہمیں دنیا سے بہت پیچھے چھوڑ رکھا ہے۔پاکستان میں آج بھی طبقاتی نظامِ تعلیم موجود ہے جس میں ایک طرف او لیول اور کیمرج سسٹم کے اسکولز ہیں،جن سے صرف دولت مند طبقے کے بچے ہی فیض یاب ہو سکتے ہیں۔تو دوسری جانب سرکاری سکول ہیں جو غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے بچوں کی پہنچ میں تو ہیں لیکن ان کی جو حالت زار ہے،اس سے سبھی واقف ہیں۔ ملک بھر میں موجود اکثر اسکولوں کی عمارتیں انتہائی خستہ حالی کا شکار ہیں،ایسے بھی سکول ہیں جہاں واش روم اور بیٹھنے کے لئے کرسیاں نہیں۔ بہت سے اسکول ایسے بھی ہیں جو برسوں سے اساتذہ سے محروم چلے آرہے ہیں۔ سہولیات کے فقدان اور ناقص معیار تعلیم کے باعث غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے بہت سے ذہین طلبا ء بھی تعلیمی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔امیر اور غریب کے تعلیمی معیار میں اس واضح فرق کی وجہ سے غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے طالب علم کے آگے بڑھنے کا عمل رک جاتا ہے اور وہ ترقی کا ارتقائی مرحلہ طے نہیں کر پاتا۔ جس کے نتیجے میں پورے ملک پر او لیول اور کیمرج تعلیم حاصل کرنے والوں کا راج رہتا ہے۔جسے نہ تو غریب کے مسائل کا اندازہ ہوتا ہے،نہ ہی وہ انہیں حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ہمارے ملک میں تعلیم کو ایک الگ ہی انداز سے دیکھا جاتا ہے جبکہ حصول علم کا طریقہ بھی باقی دنیا سے الگ ہے۔ ہمارے معاشرے میں آج بھی تعلیم کو حصول روزگار کا ذریعہ تصور کیا جاتا ہے،حالانکہ تعلیم کو علم و دانش کا ذریعہ سمجھا جانا چاہیے۔جہاں ناقص ذریعہ تعلیم ہو گا وہاں ہم رومی اور رازی جیسے عظیم لوگ پیدا ہونے کی امید نہیں لگا سکتے۔علم کے لئے آج وہ جستجو نہیں جس کے لئے مشرق کے مسلمان مغرب اور مغرب کے مسلمان مشرق کی خاک چھانتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں سائنسدان نہیں،خادم پیدا ہوتے ہیں،اسی لئے ہمارا سارا انحصار دوسرے ملکوں پر ہوتا ہے۔کسی ٹیکنالوجی کی ضرورت ہو تو دوسرے ملکوں سے منگوانی پڑتی ہے۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہمارے نوجوان صرف روزگار حاصل کرنے کے لئے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔یہ پاکستان کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے۔پاکستان میں بعض ایسے علاقے بھی ہیں جو آج بھی تعلیمی اداروں سے محروم ہیں۔کہیں اسکول نہیں،اسکول ہیں تو کالج نہیں۔ وہ نصاب اور معیار تعلیم نہیں جو طالب علموں کے لئے سود مند ثابت ہو سکے۔ تقدیر بدلنے کے لئے ہمیں اچھی تعلیم کی ضرورت ہے۔ لیکن طبقاتی تقسیم کے باعث ہم تعلیمی میدان میں انتہائی گراوٹ کا شکار ہو گئے ہیں۔تسلیم شدہ امر ہے اقوام کی ترقی صرف علم و تحقیق میں مضمر ہے۔معاشرہ کوئی بھی ہو،ترقی کے لئے اسے ہمیشہ تعلیم اور اس کے نظام کے فروغ کے لئے کوشاں رہنا ہوتا ہے۔تحقیق اور مطالعہ سے ہمیں آگاہی حاصل ہوتی ہے کہ آگے بڑھنا ہے،زندگی میں کامیاب ہونا ہے تو اس کے لئے تعلیم لازم ہے۔ موجودہ نظام تعلیم پر غور کریں تو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ آج کے تعلیمی ادارے ایک دوسرے کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ اس بھاگ دوڑ نے تعلیمی نظام کا حلیہ ہی بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔ موجودہ تعلیمی نظام نے طالب علموں کو رٹا لگانے اور سلیکٹیڈ سٹڈی میں مصروف رکھا ہوا ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ غور وفکر اور مشاہدے کو طالب علم اپنی زندگی کا حاصل بنائیں۔ اس کے عادی بن جائیں لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔ محض نوکری کے لئے تعلیم حاصل نہیں کرنی چاہیے۔بلکہ تعلیم ایسی چیز ہے جو انسان کو معاشرے میں اس کی پہچان کراتی ہے۔ دکھ کی بات ہے ہمارے تعلیمی نظام پر غیر پیشہ ورانہ افراد کی کثیر تعداد قابض ہے۔تعلیمی منصوبوں پر اگرچہ حکومت اپنے بجٹ کا کثیر حصہ خرچ کرتی ہے لیکن اس کے پھر بھی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جب نئی حکومت آتی ہے تو سابقہ حکومت کی تعلیمی پالیسیوں کو نظرانداز کر کے نئی پالیسیاں بنانا شروع کر دیتی ہے۔ تعلیم کی طبقاتی بنیادوں پر تقسیم ہمارے ملک کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ملک کے اندر تعلیمی نظام کے بگاڑ کی وجہ بھی یہی طبقاتی تقسیم ہے۔ پھر یہ کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں طالب علموں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے اور سہولتیں انتہائی کم۔ جہاں سہولتیں بہت کم ہوں گی، وہاں بہت سارے مسائل بھی پیدا ہوں گے۔جس سے بگاڑ آتا ہے۔ سیاسی مداخلت نے بھی ہمارے تعلیمی نظام کو انتہائی نقصان پہنچایا ہے۔ تعلیمی نظام کو درپیش مسائل میں سیاسی مداخلت بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اساتذہ کی تقرریاں اور تبادلے جہاں سیاسی بنیادوں پر ہونے لگیں تو پھر کوئی نظام کیسے چلے گا؟ سیاسی مداخلت سے اساتذہ کی عزت نفس بھی مجروح ہوتی ہے۔اس طرح سے تعلیمی نظام میں گڑ بڑ پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے اور نتیجہ بہت بڑے ’’بلاسٹ‘‘ کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے۔سلیبس کی تشکیل اور ترتیب و تدوین کا معاملہ بھی ہمیشہ زیر بحث رہا ہے۔پرائمری مڈل اور ہائی کلاسز کے سلیبس کو اگر دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق ماہر اور تجربہ کار اساتذہ اور دانشوروں کی زیر نگرانی ترتیب دیا جائے تو ہائی لیول تک اچھی تعلیم کی بنیاد پڑ سکتی ہے۔بنیاد اچھی اور مضبوط ہو گی تو کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر اس کے بہتر نتائج نکلیں گے۔تمام تر تعلیمی پالیسیاں ایسی بننی چاہئیں جنہیں کوئی تبدیل نہ کر سکے تاکہ یہ تسلسل کے ساتھ سالہا سال چلتی رہیں۔یوں معیار تعلیم میں بہتری آسکتی ہے۔اگر ہم اپنے تعلیمی نظام کو بہتر کرنے میں کامیاب ہو گئے تو سمجھیں بہت بڑا معرکہ سر کر لیا۔ اچھے تعلیمی نظام میں ہی ہماری نجات ہے۔موجودہ نظام تعلیم ہمیں غور و فکر کی دعوت دے رہا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: تعلیمی نظام طالب علم ہوتا ہے رہے ہیں نظام کی نہیں کر کا شکار ہیں جو کے لئے ہے اور آج بھی

پڑھیں:

جمہوریت کو درپیش چیلنجز

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان میں سیاست، جمہوریت اور نظام کو مختلف نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ آج پاکستان کے داخلی اور خارجی محاذ پر بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ 15 ستمبر کو پوری دنیا میں عالمی یوم جمہوریت کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ جمہوری ریاستیں اپنے اپنے ملک میں پہلے سے موجود جمہوریت کو نہ صرف اور زیادہ مضبوط کریں بلکہ اس نظام کو عوام کے مفادات کے تابع کر کے اس کی ساکھ کو بہتر بنائیں۔ اگرچہ دنیا کے نظاموں میں جمہوریت کوئی آئیڈیل نظام نہیں ہے۔ لیکن آج کی جدید ریاستوں میں جو بھی نظام ریاست کو چلارہے ہیں ان میں جمہوری نظام ہی کو اہمیت دی جاتی ہے۔ جمہوریت کے مقابلے میں بادشاہت اور آمریت کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ یہ لوگوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت نہیں دیتے بالخصوص سیاسی اور جمہوری آزادیوں کو کسی بھی سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اب جب دنیا بھر میں عالمی یوم جمہوریت منایا گیا ہے ایسے میں پاکستان میں حقیقی جمہوریت ہم سے کافی دور کھڑی نظر آتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ نظام جمہوری کم اور ایک ہائبرڈ یا مرکزیت پر کھڑا نظام ہے جہاں غیر جمہوری حکمرانی کا رواج ہے۔ پس پردہ طاقتوں کو فوقیت حاصل ہے اور عملی طور پر نظام بڑی طاقتوں کے تابع نظر آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارا جمہوری نظام طاقتوروں خوشنودی دی اور سیاسی مفادات کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ اس نظام میں عام آدمی کی حیثیت محض ایک نماشائی کی ہے۔ جمہوری نظام کی بنیادی خصوصیت شفاف انتخابات کا عمل ہے جہاں لوگ اپنی قیادت کا انتخاب کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں شفاف انتخابات محض ایک خواب لگتا ہے۔ یہاں انتخابات کے نام پر سلیکشن ہوتی ہے اور اشرافیہ اپنی مرضی اور مفادات کے تابع حکمرانوں کا چناؤ کرتی ہے۔ اسی لیے ہمارا انتخابی نظام عوامی تائید و حمایت سے محروم نظر آتا ہے۔ عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور جمہوری عمل کا تسلسل جمہوریت کو زیادہ مستحکم کرنے کا سبب بنتا ہے۔ لیکن پاکستان کی کہانی مختلف ہے، یہاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جمہوریت اپنی افادیت کھوتی جا رہی ہے۔ اس وقت پاکستان میں ایک ہائبرڈ طرز کا جمہوری نظام ہے جہاں غیر جمہوری قوتیں اصل اختیارات کی مالک ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ عملاً اس ملک میں جمہوری نظام سکڑ رہا ہے اور جمہوریت کو پاکستان میں شدید خطرات لاحق ہیں۔ جمہوری طرز حکمرانی میں آزاد عدلیہ، میڈیا کی آزادی، اظہار رائے کی آزادی، مضبوط سیاسی جماعتیں، آئین اور قانون کے تابع انتظامی ڈھانچہ اور سول سوسائٹی کی موجودگی اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تمام سیاسی اور جمہوری ادارے یا آئینی ادارے کمزور ہو رہے ہیں یا ان کو جان بوجھ کر کمزور اور مفلوج بنایا جا رہا ہے۔ اسی طرح جمہوری نظام میں اچھی حکمرانی کا نظام عام آدمی کے مفادات کے تابع ہوتا ہے اور لوگ اس نظام کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ لیکن آج اس جدید دور میں ہمارا ایک بڑا بحران تسلسل کے ساتھ گورننس کی ناکامی کا ہے۔ جس نے ہمیں قانون کی حکمرانی سے بھی بہت دور کر دیا ہے۔ انسانی حقوق کے تقدس کا خیال کرنے کے بجائے طاقت کے زور پر انسانی حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے اور متبادل آوازوں کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ طاقت کے استعمال کی حکمت عملی نے لوگوں کو ریاست اور حکومت کے خلاف کر دیا ہے۔ لوگ کو لگتا ہے کہ یہ نام نہاد جمہوری نظام ہمارے مسائل حل کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ جمہوریت میں متبادل آوازوں کو سنا جاتا ہے اور ان کو اہمیت دی جاتی ہے لیکن یہاں متبادل آوازوں کو دشمنی کے طور پر دیکھا اور سمجھا جاتا ہے۔ جو لوگ ریاست اور حکمرانی کے نظام کو چیلنج کرتے ہیں ان کودشمن سمجھا جاتا ہے۔ یہ سوچ اور فکر لوگوں کو جمہوریت کے قریب لانے کے بجائے ان کو اس نظام سے دور کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ مسئلہ محض ریاست اور حکمرانی کے نظام کا ہی نہیں بلکہ ہماری سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادتوں کی ناکامی کا بھی ہے۔ سیاسی جماعتوں اور پس پردہ طاقتوں کے باہمی گٹھ جوڑ نے بھی جمہوری نظام کو داخلی محاذ پر بہت زیادہ کمزور کر دیا ہے۔ اس وقت بھی ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں جن میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نمایاں ہیں۔ وہ غیر سیاسی طاقتوں کی سہولت کاری کی بنیاد پر حکومت میں ہیں۔ سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ عوام کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ اصل حیثیت پس پردہ طاقتوں کی ہے اور انہی کی مدد اور مہربانی سے وہ اقتدار کا حصہ بن سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں عوام میں اپنی جڑیں مضبوط بنانے کے بجائے پس پردہ طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے پر توجہ دیتی ہیں۔ اس وقت بھی حکومت میں شامل بہت سے وزرا پس پردہ طاقتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہائبرڈ نظام کی حمایت کر رہے ہیں اور ان کے بقول پاکستان کی سیاسی بقا اسی ہائبرڈ نظام کے ساتھ وابستہ ہے اور اسی کے تحت ہمیں جمہوری نظام کو آگے بڑھانا ہوگا۔ ملک میں سیاسی انتہا پسندی یا مذہبی انتہا پسندی کا غلبہ ہے اس کی وجہ بھی جمہوری نظام سے دوری ہے۔ کیونکہ آپ جب طاقت کی بنیاد پر نظام چلائیں گے تو اس سے انتہا پسندی اور پرتشدد رجحانات کو تقویت ملتی ہے۔ اس ملک میں مارشل لا ہو یا جمہوریت یا ہائبرڈ طرزِ حکمرانی یہ ماڈل ہمیں ترقی کی طرف نہیں لے جا سکے گا۔ ماضی میں یہ تمام تجربات ناکام ہوئے ہیں اور ہمیں اپنی سابقہ اور موجودہ ناکامیوں سے ضرور سبق سیکھنا چاہیے۔ اس ملک مسائل کا واحد حل آئین اور قانون اور جمہوری طرز عمل کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ پس پردہ قوتوں کو بھی یہ بات سمجھنی ہوگی ہم تضادات کی بنیاد پر اس ملک کو نہیں چلا سکیں گے۔ اس لیے ابھی وقت ہے کہ ہم اپنی سیاسی ترجیحات کا ازسر نو تعین کریں اور جمہوری نظام کی بنیاد پر آگے بڑھنے کی کوشش کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنائیں۔ جمہوری نظام بنیادی طور پر کمزور افراد کی آواز ہوتا ہے اور کمزور افراد اس نظام کو اپنی سیاسی طاقت سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر ہمیں جمہوریت کے نام پر عام آدمی کا استحصال کرنا ہے یا اسے کمزور رکھنا ہے تو اسے کوئی بھی جمہوری نظام ماننے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ پاکستان میں جمہوری نظام کی ناکامی میں سب سے غلطیاں ہوئی ہیں اور سب کو اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی کرنا چاہیے۔ ایک دوسرے پر الزام لگانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ اور زیادہ بگاڑ پیدا ہوں گے۔ اس لیے اس کے موقع پر ہمیں اس عزم کا اظہار کرنا چاہیے کہ ہم اپنی اپنی سطح پر جمہوریت کے حق میں آواز اٹھائیں گے اور طاقتوروں پر زور دیں گے ریاست اور حکمرانی کے نظام کو چلانے کے لیے جمہوریت ہی کو اپنی طاقت بنایا جائے۔ پاکستان میں جمہوریت اسی صورت میں مضبوط ہوگی جب سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت جمہوری بنیادوں پر نہ صرف خود آگے بڑھنے کی کوشش کرے گی بلکہ دوسروں کو بھی جمہوری خطوط پر استوار کریں گی۔ یہ عمل مسلسل جدوجہد کا نام ہے اور یہ کام سیاسی اور قانونی دائرۂ کار میں رہتے ہوئے ایک بڑی مزاحمت کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔ یہ بات سمجھنی ہوگی کہ آج دنیا بھر میں جب جمہوریت اور جمہوری نظام کی درجہ بندی کی جاتی ہے تو ہم دنیا کی فہرست میں بہت پیچھے کھڑے نظر آتے ہیں اور ہماری اجتماعی ناکامی کا حصہ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • تاریخ گواہ ہے کہ قربانیوں سے جنم لینے والی تحریکیں کبھی دبائی نہیں جا سکتیں، عزیر احمد غزالی
  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • رانا مشہود سے یونیسف کی نمائندہ کی ملاقات، مختلف امورپر غور
  • قومیں سڑکوں سے بنتی ہیں
  • ڈیجیٹل یوتھ ہب نوجوانوں کومصنوعی ذہانت پر مبنی وسائل تک ذاتی رسائی فراہم کرے گا، چیئرمین وزیراعظم یوتھ پروگرام سے یونیسف کی نمائندہ کی ملاقات
  • تعلیم اور ٹیکنالوجی میں ترقی کر کے ہی امت اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرسکتی ہے، حافظ نعیم
  • 20 سال میں ریلوے کا زوال، ٹرینوں کی تعداد آدھی رہ گئی، سیکرٹری ریلوے کا انکشاف
  • خیبرپختونخوا: محکمہ تعلیم کے ملازمین کی تعلیمی چھٹی کا غلط استعمال بے نقاب
  • جامعات میںداخلوں کی کمی ‘ایک چیلنج
  • ’’سائنس آن ویلز‘‘سیریز کا دوسرا پروگرام اسلام آباد میں کامیابی سے منعقد ، چینی صدر کے ’’ہم نصیب معاشرے‘‘کے وژن کا عملی عکس