Daily Ausaf:
2025-04-26@03:34:47 GMT

علمی زوال کا شکار قومیں ترقی نہیں کر سکتیں

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

طبقاتی نظام کی طرح ہمارا تعلیمی نظام بھی بٹا ہوا ہے۔کہتے ہیں جو قوم اچھی تعلیم سے بہرہ ور نہ ہو،وہ اچھے شعور سے بھی بہرہ ور نہیں ہوتی۔آگہی کے سب راستے اس پر بند ہو جاتے ہیں۔حکومتوں کے کئی دور آئے،کئی جماعتیں برسر اقتدار رہیں مگر کوئی جماعت بھی اپنی توجہ تعلیمی نظام کی بہتری کے لئے مرکوز نہیں کر سکی۔ اسی لئے ہم آزادی کے 77 سال گزرنے کے باوجود بحیثیت قوم آج بھی انحطاط پذیر ہیں۔وہ قومیں کبھی ترقی نہیں کر سکتیں جو علمی زوال کا شکار ہوں۔ یہ’’انحطاط‘‘ کیوں ہے،اس کے اسباب کیا ہیں ؟ آئیے اس کے متعلق کچھ بات کرتے ہیں۔ دیکھنا پڑے گا تعلیمی اداروں میں ہم اپنے بچوں کو کیا سکھا رہے ہیں۔کیا پڑھا رہے ہیں؟ ان کی تربیت کیسی ہو رہی ہے؟ ہم انہیں کامیاب بنانا چاہتے ہیں یا ان کے اندر حسد اور غیر سنجیدگی فروغ دے رہے ہیں۔ملک میں ناقص تعلیمی نظام کی بدولت ہم قوم نہیں،ہجوم بن رہے ہیں جو شعور و ادب سے قطعی ناآشنا ہے۔کیونکہ شعور تربیت سے آتا ہے۔تعلیم نے ہی شعور دینا ہوتا ہے اور ادب سکھانا ہوتا ہے۔بدقسمتی سے پاکستان تعلیم کے شعبے میں آج دنیا کے دیگر ممالک سے بہت پیچھے ہے۔وطن عزیز میں آج بھی انگریزوں کا قائم کردہ وہی تعلیمی ڈھانچہ موجود ہے جس کے ذریعے ہم کلرک ہی پیدا کر سکتے ہیں۔ تعلیمی ڈھانچے کی اسی خرابی کے نتیجے میں آج ہم سائنس اور تخلیق کے شعبے میں دنیا کے بہت سے ترقی پذیر ممالک سے ناصرف بہت پیچھے رہ گئے ہیں بلکہ ادراک رکھتے ہوئے بھی نہیں سوچ رہے کہ انحطاط پذیر اس تعلیمی نظام نے ہی ہمیں دنیا سے بہت پیچھے چھوڑ رکھا ہے۔پاکستان میں آج بھی طبقاتی نظامِ تعلیم موجود ہے جس میں ایک طرف او لیول اور کیمرج سسٹم کے اسکولز ہیں،جن سے صرف دولت مند طبقے کے بچے ہی فیض یاب ہو سکتے ہیں۔تو دوسری جانب سرکاری سکول ہیں جو غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے بچوں کی پہنچ میں تو ہیں لیکن ان کی جو حالت زار ہے،اس سے سبھی واقف ہیں۔ ملک بھر میں موجود اکثر اسکولوں کی عمارتیں انتہائی خستہ حالی کا شکار ہیں،ایسے بھی سکول ہیں جہاں واش روم اور بیٹھنے کے لئے کرسیاں نہیں۔ بہت سے اسکول ایسے بھی ہیں جو برسوں سے اساتذہ سے محروم چلے آرہے ہیں۔ سہولیات کے فقدان اور ناقص معیار تعلیم کے باعث غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے بہت سے ذہین طلبا ء بھی تعلیمی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔امیر اور غریب کے تعلیمی معیار میں اس واضح فرق کی وجہ سے غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے طالب علم کے آگے بڑھنے کا عمل رک جاتا ہے اور وہ ترقی کا ارتقائی مرحلہ طے نہیں کر پاتا۔ جس کے نتیجے میں پورے ملک پر او لیول اور کیمرج تعلیم حاصل کرنے والوں کا راج رہتا ہے۔جسے نہ تو غریب کے مسائل کا اندازہ ہوتا ہے،نہ ہی وہ انہیں حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ہمارے ملک میں تعلیم کو ایک الگ ہی انداز سے دیکھا جاتا ہے جبکہ حصول علم کا طریقہ بھی باقی دنیا سے الگ ہے۔ ہمارے معاشرے میں آج بھی تعلیم کو حصول روزگار کا ذریعہ تصور کیا جاتا ہے،حالانکہ تعلیم کو علم و دانش کا ذریعہ سمجھا جانا چاہیے۔جہاں ناقص ذریعہ تعلیم ہو گا وہاں ہم رومی اور رازی جیسے عظیم لوگ پیدا ہونے کی امید نہیں لگا سکتے۔علم کے لئے آج وہ جستجو نہیں جس کے لئے مشرق کے مسلمان مغرب اور مغرب کے مسلمان مشرق کی خاک چھانتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں سائنسدان نہیں،خادم پیدا ہوتے ہیں،اسی لئے ہمارا سارا انحصار دوسرے ملکوں پر ہوتا ہے۔کسی ٹیکنالوجی کی ضرورت ہو تو دوسرے ملکوں سے منگوانی پڑتی ہے۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہمارے نوجوان صرف روزگار حاصل کرنے کے لئے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔یہ پاکستان کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے۔پاکستان میں بعض ایسے علاقے بھی ہیں جو آج بھی تعلیمی اداروں سے محروم ہیں۔کہیں اسکول نہیں،اسکول ہیں تو کالج نہیں۔ وہ نصاب اور معیار تعلیم نہیں جو طالب علموں کے لئے سود مند ثابت ہو سکے۔ تقدیر بدلنے کے لئے ہمیں اچھی تعلیم کی ضرورت ہے۔ لیکن طبقاتی تقسیم کے باعث ہم تعلیمی میدان میں انتہائی گراوٹ کا شکار ہو گئے ہیں۔تسلیم شدہ امر ہے اقوام کی ترقی صرف علم و تحقیق میں مضمر ہے۔معاشرہ کوئی بھی ہو،ترقی کے لئے اسے ہمیشہ تعلیم اور اس کے نظام کے فروغ کے لئے کوشاں رہنا ہوتا ہے۔تحقیق اور مطالعہ سے ہمیں آگاہی حاصل ہوتی ہے کہ آگے بڑھنا ہے،زندگی میں کامیاب ہونا ہے تو اس کے لئے تعلیم لازم ہے۔ موجودہ نظام تعلیم پر غور کریں تو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ آج کے تعلیمی ادارے ایک دوسرے کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ اس بھاگ دوڑ نے تعلیمی نظام کا حلیہ ہی بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔ موجودہ تعلیمی نظام نے طالب علموں کو رٹا لگانے اور سلیکٹیڈ سٹڈی میں مصروف رکھا ہوا ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ غور وفکر اور مشاہدے کو طالب علم اپنی زندگی کا حاصل بنائیں۔ اس کے عادی بن جائیں لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔ محض نوکری کے لئے تعلیم حاصل نہیں کرنی چاہیے۔بلکہ تعلیم ایسی چیز ہے جو انسان کو معاشرے میں اس کی پہچان کراتی ہے۔ دکھ کی بات ہے ہمارے تعلیمی نظام پر غیر پیشہ ورانہ افراد کی کثیر تعداد قابض ہے۔تعلیمی منصوبوں پر اگرچہ حکومت اپنے بجٹ کا کثیر حصہ خرچ کرتی ہے لیکن اس کے پھر بھی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جب نئی حکومت آتی ہے تو سابقہ حکومت کی تعلیمی پالیسیوں کو نظرانداز کر کے نئی پالیسیاں بنانا شروع کر دیتی ہے۔ تعلیم کی طبقاتی بنیادوں پر تقسیم ہمارے ملک کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ملک کے اندر تعلیمی نظام کے بگاڑ کی وجہ بھی یہی طبقاتی تقسیم ہے۔ پھر یہ کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں طالب علموں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے اور سہولتیں انتہائی کم۔ جہاں سہولتیں بہت کم ہوں گی، وہاں بہت سارے مسائل بھی پیدا ہوں گے۔جس سے بگاڑ آتا ہے۔ سیاسی مداخلت نے بھی ہمارے تعلیمی نظام کو انتہائی نقصان پہنچایا ہے۔ تعلیمی نظام کو درپیش مسائل میں سیاسی مداخلت بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اساتذہ کی تقرریاں اور تبادلے جہاں سیاسی بنیادوں پر ہونے لگیں تو پھر کوئی نظام کیسے چلے گا؟ سیاسی مداخلت سے اساتذہ کی عزت نفس بھی مجروح ہوتی ہے۔اس طرح سے تعلیمی نظام میں گڑ بڑ پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے اور نتیجہ بہت بڑے ’’بلاسٹ‘‘ کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے۔سلیبس کی تشکیل اور ترتیب و تدوین کا معاملہ بھی ہمیشہ زیر بحث رہا ہے۔پرائمری مڈل اور ہائی کلاسز کے سلیبس کو اگر دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق ماہر اور تجربہ کار اساتذہ اور دانشوروں کی زیر نگرانی ترتیب دیا جائے تو ہائی لیول تک اچھی تعلیم کی بنیاد پڑ سکتی ہے۔بنیاد اچھی اور مضبوط ہو گی تو کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر اس کے بہتر نتائج نکلیں گے۔تمام تر تعلیمی پالیسیاں ایسی بننی چاہئیں جنہیں کوئی تبدیل نہ کر سکے تاکہ یہ تسلسل کے ساتھ سالہا سال چلتی رہیں۔یوں معیار تعلیم میں بہتری آسکتی ہے۔اگر ہم اپنے تعلیمی نظام کو بہتر کرنے میں کامیاب ہو گئے تو سمجھیں بہت بڑا معرکہ سر کر لیا۔ اچھے تعلیمی نظام میں ہی ہماری نجات ہے۔موجودہ نظام تعلیم ہمیں غور و فکر کی دعوت دے رہا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: تعلیمی نظام طالب علم ہوتا ہے رہے ہیں نظام کی نہیں کر کا شکار ہیں جو کے لئے ہے اور آج بھی

پڑھیں:

بھارت میں زیر تعلیم کشمیری نوجوانوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں، فاروق رحمانی

حریت رہنما کا کہنا ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں کشمیری نوجوانوں، سیاسی کارکنوں کو اندھا دھند گرفتاریوں اور جھوٹے مقدمات کے اندراج یا ماورائے عدالت قتل سے پہلگام حملے کی تحقیقات میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔ اسلام ٹائمز۔ کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد جموں و کشمیر شاخ کے سینئر رہنما اور جموں و کشمیر پیپلز فریڈم لیگ کے چیئرمین محمد فاروق رحمانی نے بھارت میں زیر تعلیم کشمیری نوجوانوں اور کشمیری تاجروں کی زندگیوں کو لاحق خطرات اور انہیں درپیش شدید مشکلات پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق محمد فاروق رحمانی نے اسلام آباد سے جاری ایک بیان میں پہلگام حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا کہ مقبوضہ علاقے میں ہزاروں کی تعداد میں کشمیری نوجوانوں، طلبا یا سیاسی کارکنوں کو اندھا دھند گرفتار اور جھوٹے مقدمات کے اندراج یا ماورائے عدالت قتل سے پہلگام حملے کی تحقیقات میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ بھارتی پولیس، فوج اور پیراملٹری اہلکار واقعے کے ملزمان کی تلاش میں بوکھلاہٹ کا شکار ہیں اور انہوں نے ضلع اسلام آباد اور جموں و کشمیر کے دیگر حصوں میں ہزاروں کشمیریوں اور سیاسی کارکنوں کو گرفتار کیا ہے۔ محمد فاروق رحمانی نے کہا کہ 22 اپریل کے سانحہ کی منصفانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی بجائے بھارتی ایجنسیاں اور نام نہاد قانون نافذ کرنے والے ادارے کشمیری مسلمانوں کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی فورسز شہریوں اور سیاسی کارکنوں کی جان اور عزت و وقار کو خطرے میں ڈال رہے ہیں اور گھروں پر چھاپوں اور دوران تفتیش انہیں غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہر کشمیری اس ناخوشگوار واقعے پر صدمے کا شکار ہے اور وہ بھارتی حکومت کے وحشیانہ اقدامات کی مذمت کرتا ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل سے اپیل کی کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال کا فوری نوٹس لیں کیونکہ بھارت پہلگام واقعے کی آڑ میں کشمیریوں کو جعلی مقابلوں میں شہید اور انہیں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت میں زیر تعلیم کشمیری نوجوانوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں، فاروق رحمانی
  • بھارت کا سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنا ظالمانہ اقدام ہے: شازیہ مری
  • اولاد کی تعلیم و تربیت
  • جب تک صوبے مضبوط نہیں بنائیں گے ملک ترقی نہیں کر سکتا: ارباب عثمان
  • امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی و سماجی خدمات
  • بلوچستان کی قابل فخر آئی ٹی یونیورسٹی جہاں طلبہ وطالبات پُرامن ماحول تعلیم حاصل کر رہے ہیں
  • کراچی کی مشہور لسّی جو پنجاب سے آئے مہمان بھی پسند کرتے ہیں
  • کم عمری کی شادی حاملہ خواتین میں موت کا بڑا سبب، ڈبلیو ایچ او
  • پاکستان سے بےدخلی کے بعد ہزارہا افغان طالبات تعلیم سے محروم
  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ