Daily Ausaf:
2025-07-05@23:16:28 GMT

چیئرمین پی ٹی آئی کامذاکرات کے حوالے سے اہم اعلان

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے مذاکرات کے حوالے سے اہم اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ کل حکومت کے ساتھ مذاکرات میں نہیں بیٹھیں گے، اس حوالے سے باضابطہ آگاہ بھی کردیا ہے۔

اسد قیصر و میڈیا نمائندگان کے ہمراہ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہاکہ یہ حکومت جب سے آئی ہے، جلد بازی میں قانون پاس کروا رہے ہیں۔ اس بل (پیکا ایکٹ) کے تحت جس کو بھی چاہے فیک نیوز کے زمرے میں اٹھا لیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم میڈیا کے جائز حقوق کے ساتھ کھڑے ہیں۔ میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہے۔ میڈیا کے ذریعے ہمیں مسائل کے بارے میں پتا چلتا ہے اور آج اسی کی آواز دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ آج اگر یہ قانون پاس بھی ہوجاتا ہے تب بھی اس کو عدالت میں چیلنج کریں گے، امید ہے عدلیہ اس کو سنے گی۔ کرم کے مسئلے پر تمام سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر آگئی ہیں۔چیئرمین پی ٹی آئی کا مزید کہنا تھا کہ مذاکرات کے حوالے سے ہم نے 7 دن کا وقت دیا تھا۔ ہم حکومت کے ساتھ کل کی میٹنگ میں نہیں بیٹھیں گے ، سیکرٹری سپیکر کو بھی آگاہ کردیا ہے۔

اسد قیصر نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت جو قوانین لا رہی ہے وہ بنیادی طور پر سول مارشل لا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پیکا ایکٹ میں ترامیم کے بل کی مذمت کرتے ہیں۔ ہم اس کے خلاف ملک گیر تحریک میں شامل ہوں گے۔ ہم میڈیا سمیت سب پارٹیوں کو بلائیں گے اور آئین و قانون کی حکمرانی کے لئے آواز بلند کریں گے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: چیئرمین پی ٹی ا ئی حوالے سے کہا کہ نے کہا

پڑھیں:

پی ٹی آئی اور مفاہمت کا سیاسی ایجنڈا

پی ٹی آئی بنیادی طورپر اس وقت ایک سیاسی راستے کی تلاش میں ہے تاکہ وہ دوبارہ سرگرم ہوکر اپنی سیاسی سرگرمیوں کے آغاز کو یقینی بناسکے اور دوسری طرف جیلوں میں قید بانی پی ٹی آئی سمیت دیگر راہنماؤں کی رہائی کو بھی ممکن بنایا جاسکے۔لیکن فی الحال ایسے ہی محسوس ہوتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی کے سیاسی اور قانونی ریلیف کے امکانات محدود ہیں ۔

جولوگ پس پردہ بات چیت کی مدد سے اسٹیبلیشمنٹ،پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کے درمیان مفاہمت پر مبنی کوئی درمیانی راستہ تلاش کرنے کی کوشش کررہے تھے ان کو بھی تاحال ناکامی یا مشکلات کا سامنا ہے۔ جو لوگ پی ٹی آئی کے اندر رہتے ہوئے اسٹیبلیشمنٹ کی مدد سے آگے بڑھنے کی سیاسی حکمت عملی رکھتے ہیں وہ بھی بانی پی ٹی آئی کو کوئی ریلیف نہیں دلوا سکے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے اپنے اندر اسٹیبلیشمنٹ سے مفاہمت کی بنیاد پر آگے بڑھنے والوں کو سخت تنقید کا سامنا ہے۔پارٹی کی سطح پر ایک مضبوط گروپ اسٹیبلیشمنٹ سمیت حکومت کے ساتھ بھی مذاکرات کا حامی ہے اور اس طبقہ کے بقول ہمیں دونوں سطحوں پر مذاکرات کرنے ہوں گے اور دروازہ کسی بھی سطح پر بند نہیں کرنا چاہیے۔جب کہ اس کے برعکس بانی پی ٹی آئی کا موقف یہ ہے کہ مذاکرات اسی سے ہوں گے جو طاقت اور فیصلہ کا اختیار رکھتے ہیں یعنی اسٹیبلیشمنٹ کے سوا کسی اور یا حکومت سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ یہ بے اختیار لوگ ہیں ۔

حال ہی میں پی ٹی آئی کے پرانے اور نظریاتی ساتھیوں جو اس وقت جیلوں میں ہیں ان میں مخدوم شاہ محمود قریشی،ڈاکٹر یاسمین راشد،میاں محمود الرشید، اعجاز چوہدری اور عمر سرفراز چیمہ نے ایک خط کی مدد سے حالیہ سیاسی بحران اور پی ٹی آئی کو درپیش مشکلات کے حل میں مذاکرات ہی کے راستے کو واحد سیاسی آپشن قرار دیا ہے اور ان کے بقول مذاکرات کے راستے سے جتنا سیاسی فرار اختیار کیا جائے گا سیاسی بحران کم نہیں بلکہ اور زیادہ بڑھے گا۔ان راہنماؤں نے بھی اسی نقطہ پر زور دیا ہے کہ ہمیں سیاسی دروازے بند کرنے کے بجائے اسٹیبلیشمنٹ اور حکومت دونوں کے ساتھ اپنے ایجنڈے پر بات چیت یا مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور اس تاثر کی نفی کرنی چاہیے کہ ہم حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار نہیں ہیں۔

پی ٹی آئی کے ان راہنماؤں نے اپنے خط میں یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ ان کی بانی پی ٹی آئی کے ساتھ ملاقات بھی کروائی جائے تاکہ ہم ان کی مدد سے مذاکرات کا ایک بڑے سیاسی فریم ورک کو حتمی شکل دے سکیں اور وہ خود بھی ان مذاکراتی عمل کا حصہ بننے کے خواہش مند ہیں۔

ان راہنماؤں کی حکمت عملی بانی پی ٹی آئی کی حکمت عملی یا محض اسٹیبلیشمنٹ سے مذاکرات کی سوچ کے برعکس ہے ۔دیکھنا ہوگا کہ بانی پی ٹی آئی اپنے ان اہم راہنماؤں کی حکمت عملی سے کس حد تک متفق ہوتے ہیں اور حکومت سے مذاکرات کا راستہ اختیار کرتے ہیں لیکن پی ٹی آئی کے ان راہنماؤں کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ حکومت جو بھی پی ٹی آئی کو سیاسی یا قانونی سطح پر ریلیف ممکن بنائے گی اس میں اول وہ حکومتی شرائط پر مبنی ہوگی اور دوئم ان کو بھی حتمی فیصلہ کرنے سے قبل اسٹیلشمنٹ ہی کی طرف دیکھنا ہوگا۔لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی کو حکومت سے اپنی شرائط پر بات چیت ضرور کرنا چاہیے تاکہ اس تاثر کی پی ٹی آئی نفی کرے کہ وہ حکومت سے بات چیت کے لیے تیار نہیں ۔پی ٹی آئی راہنماؤں کو یقینی طور پر بانی پی ٹی آئی کی مشاورت کے ساتھ اپنے مذاکرات اور ان کی اپنی شرائط یا نکات کا فریم ورک بنا کر حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ دونوں سے بات چیت کرنی چاہیے۔ حکومت کے ساتھ بات چیت فرنٹ لائن اور اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ یقینی طور پر پس پردہ ہوگی۔

سیاست میں سیاسی جماعت اور قیادت کا کام ہی مشکل وقت پر یا دروازوں کے بند ہونے کی صورت میں دروازوں کے کھولنے اور نئے مفاہمت کے امکانات کو پید ا کرنا ہوتا ہے اور اس کے لیے سیاسی لچک پیدا کرنا اور توازن پر مبنی حکمت عملی کی بھی بڑی سیاسی اہمیت ہوتی ہے۔پی ٹی آئی کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی سینئر قیادت اور بانی پی ٹی آئی کے درمیان مشاورت کا عمل بند ہے اور اگر واقعی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ مفاہمت چاہتی ہے تو اسے اس بند دروازے کو کھولنا ہوگا۔

حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو سمجھنا ہوگا کہ مذاکرات اور ڈکٹیشن یا مسلط کردہ ایجنڈے میں بنیادی نوعیت کا فرق ہوتا ہے اور اگر دونوں اطراف سے مفاہمت کے لیے کھلے ذہن اور کھلے دل کے ساتھ مذاکراتی عمل آگے نہیں بڑھے گا تو کچھ بھی بہتر نتیجہ نہیں نکل سکے گا۔اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ڈکٹیشن ، دباؤ اور ڈرا کر مذاکرات کے مصنوعی عمل سے استحکام کی سیاست کی طرف بڑھا جاسکتا ہے وہ غلطی پر ہے۔ اسی طرح جب تک ہم ایک جماعت کے سیاسی وجود کو قبول نہیں کریں گے اور اسے طاقت کی بنیاد پر ختم کرنے کی حکمت عملی کو اختیار کریں گے تو یہ حکمت عملی نہ تو کسی کو ماضی میں کوئی مثبت نتیجہ دے سکی اور نہ ہی آج اورنہ ہی مستقبل میںدے سکے گی۔

اس لیے اگر پی ٹی آئی کی جیل میں موجود قیادت نے اپنے خط کی مدد سے ایک سیاسی راستہ نکالنے کی بات کی ہے تو پی ٹی آئی ،بانی پی ٹی آئی سمیت خود حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کو اس پیش کش کا سیاسی فائدہ اٹھانا چاہیے۔ایک طرف اگر بانی پی ٹی آئی کو اپنے سخت موقف میں لچک پیدا کرنی ہے تو دوسری طرف حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کو بھی اپنے سخت موقف میں لچک پیدا کرکے تعاون کے امکانات پیدا کرنے ہوں گے۔ اگر حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو اسے اس کے لیے یقینی طور پر سازگار حالات بھی پیدا کرکے ماحول میں موجود سیاسی تلخیوں کو کم کرنا ہوگا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی کی موجودہ سیاسی سطح پر قیادت جو پارلیمنٹ کے اندر یا پارلیمنٹ سے باہر ہے اس نے اپنی سیاسی حکمت عملیوں میں کافی مایوس کیا ہے اور ان ہی کی داخلی شخصی لڑائیوں کی وجہ سے پارٹی کمزور بھی ہوئی اور تقسیم بھی ۔ پی ٹی آئی کی پارلیمانی سیاست اچھی بھلی عددی تعداد کے باوجود پارلیمانی سیاست میں کوئی بڑے سیاسی دباؤ کی سیاست پیدا نہیں کرسکی۔

ملک کے سیاسی ،سماجی، معاشی، انتظامی، گورننس، دہشت گردی یا سیکیورٹی کے سنگین مسائل کا ہمیں سامنا ہے اس کا ہمیں دیانت داری سے ادراک کرناچاہیے اور ان مسائل کے حل کے لیے سب ہی فریقوں کو سر جوڑ کر آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔ مسئلہ کا یہ حل نہیں کہ ہم ایک دوسرے کے خلاف سیاسی لنگوٹ کس کر میدان میں کود پڑیں ۔ہمیں ایک دوسرے کی اہمیت کو قبول کرکے آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنا ہے ۔ایسے موقع پر جب داخلی کے ساتھ ساتھ علاقائی سیاست کے مسائل بالخصوص بھارت کی طرف سے ملنے والی دھمکیوں کی موجودگی میں ہمیں اپنے داخلی سیاسی اور معاشی استحکام پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔

کیونکہ اگر ہم نے اس وقت کی موجودہ صورتحال میں اپنے گھر کے معاملات میںدرستگی نہیں کی اور پہلے سے موجود سیاسی تلخیوں یا سیاسی دشمنیوں کو کم نہیں کیا تو اس کا جہاں نقصان ہمیں داخلی محاذ پر ہوگا وہیں دشمن ہماری داخلی کمزوریوں یا داخلی خلیج،ٹکراؤ اورتقسیم کا فائدہ اٹھا کر ہمیں مختلف حکمت عملیوں ہی کے تحت کمزور کرسکتا ہے یا اپنی جارحیت دکھا سکتا ہے۔اس لیے اب بھی وقت ہے کہ پاکستان کا ریاستی،حکومتی اور سیاسی نظام ماضی کے دائرے کار سے باہر نکل کر موجودہ حقایق کو تسلیم کرکے نئی مضبوط حکمت عملیوں کو اختیار کرے جو ریاست کے مفاد میں ہو۔

متعلقہ مضامین

  • فاسٹ بولر شاہنواز دھانی کی ماتم کرتے ہوئے ویڈیو وائرل
  • گورنرخیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی کا پشاور صدر میں نویں محرم الحرام کے مرکزی ماتمی جلوس کا دورہ
  • بانی چیئرمین کی اجازت کے بغیر مذاکرات نہیں ہوسکتے، علی محمد خان
  • تحریک انصاف کے مرکزی رہنما علی محمد خان مذاکرات کے حوالے سے کھل کر بول پڑے
  • عمران خان نے ذہنی طور فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ جیل میں رہ لیں گے مگر سمجھوتہ نہیں کریں گے، نجم سیٹھی
  • پارٹی کو تجویز دی ہے حکومت میں شامل ہوں یا عوام میں جائیں، یوسف گیلانی
  • ایف بی آر آرٹیکل 37اے اور 37بی کے کالے قانون کو مسترد کرتے ہین ، پائما
  • پی ٹی آئی اور مفاہمت کا سیاسی ایجنڈا
  • قطر میں غزہ جنگ بندی مذاکرات؛ حماس رہنماؤں کو ذاتی اسلحہ بھی حوالے کرنے کا حکم
  • عمران خان اپنی ہی جماعت کی سیاست کے باعث جیل میں ہیں، شرجیل میمن