انگریزی اور اردو شاعری کا سنگم
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
اربابِ قلم کینیڈا نے 14 دسمبر 2024 کو ایجکس پبلک لائبریری، اونٹاریو میں ایک شان دار پروگرام کا انعقاد کیا جس کا عنوان ’’اردو اور انگریزی کا شاعری میں سنگم‘‘ تھا۔
اس تقریب کا مقصد ٹورنٹو کی کثیرالثقافتی کمیونٹی کی دو اہم زبانوں، اردو اور انگریزی، کے شعرا کے درمیان مکالمے کا فروغ تھا جس میں مشہور شعراء، اسکالرز، اور ادب کے شوقین افراد نے خیالات کا تبادلہ کیا، موضوعات پر بحث کی، اور شاعری کی آفاقی طاقت کو اجاگر کیا۔
تقریب کے مہمانِ خصوصی، جناب پیٹرک میڈ تھے، جو ایک مشہور انگریزی شاعر اور لفظ کی طاقت کے حامی ہیں۔ انہوں نے شاعری کے معاشرتی کردار اور ثقافتوں کو جوڑنے کی صلاحیت پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس پروگرام میں اونٹاریو پوئٹری سوسائٹی کی لیزا رینولڈز اور کئی مشہور اردو شعراء اور اسکالرز، جیسے کہ ڈاکٹر خالد سہیل، جناب شاہد اختر، محترمہ نزہت صدیقی، اور جناب منیر سامی بھی موجود تھے۔
اہم گفتگو اور شرکاء
1 ۔ شاعری کا معاشرتی کردار
جناب پیٹرک میڈ نے شاعری کی صداقت اور زخم بھر دینے والی خصوصیات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا،’’شاعری سچائی ہے۔ یہ تریاق ہے، یہ ایمان داری ہے، اور یہ تاریکی سے باہر نکلنے کا ایک ذریعہ ہے۔‘‘
لیزا رینولڈز نے کہا کہ شاعری ذاتی اور معاشرتی مسائل کو منفرد انداز میں حل کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
2 ۔ فطرت سے شاعری کی تحریک
پیٹرک نے بتایا کہ ان کا بچپن نیو فنڈلینڈ کے کارنر بروکس میں گزرا، جہاں فطرت کے مناظر نے ان کے شعری خیالات کو جلا بخشی۔
’’گرنے والے پتے، چڑھنے والی مکڑی، یا ایک لکڑی کا پل—یہ سب شاعری کے محرکات ہیں۔ ماں دھرتی ہماری واحد پناہ گاہ ہے، اور ہمیں اسے بچانے کی ضرورت ہے۔‘‘
3۔ شاعری کی اقسام اور ردھم
گفتگو شاعری کی اقسام پر مرکوز رہی۔ پیٹرک نے شمالی امریکا میں آزاد نظم کے ارتقاء پر روشنی ڈالی، جب کہ اردو شاعری کی روایتی ردھم اور اوزان کا ذکر کیا۔
’’ردھم شاعری میں رقص کی طرح ہے، یہ مثبت توانائی دیتا ہے۔ لیکن آزاد نظم تخلیقی صلاحیتوں کے نئے دروازے کھولتی ہے۔‘‘
فیصل عظیم نے اردو شاعری میں عروض کی اہمیت پر روشنی ڈالی، جس سے نظم کے ساختی حسن کو برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے۔
4 ۔ ثقافتوں کے درمیان مشترکہ موضوعات
پیٹرک نے اردو اشعار کے تراجم پیش کیے اور ان کا انگریزی شاعری سے موازنہ کیا۔ انہوں نے کہا:
’’ہم سب ایک جیسے انسانی جذبات کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، چاہے وہ اردو میں غزل کی شکل ہو یا انگریزی میں آزاد نظم۔‘‘
5 ۔ اے آئی(AI) اور شاعری
اے آئی کی مدد سے شاعری پر ایک دل چسپ بحث ہوئی۔ لیزا رینولڈز نے کہا کہ اے آئی انسانی تخلیق کی صداقت نہیں رکھتی، جب کہ عبید خان نے اے آئی کو ایک ٹول کے طور پر استعمال کرنے کی تجویز دی۔
پیٹرک نے کہا:
’’20 سیکنڈ میں اے آئی سے نظم بنانا خوف ناک ہے اور اس میں روح کی کمی ہے۔‘‘
شاہد اختر نے کہا کہ اے آئی کے ذریعے شاعری تخلیق کرکے اپنا نام دینا بے ایمانی ہے۔
6 ۔ مقبول ثقافت میں شاعری کا کردار
ڈاکٹر خالد سہیل نے بتایا کہ مشرقی ثقافت میں شعراء، موسیقار، اور گلوکار الگ الگ شخصیات ہیں، جب کہ مغرب میں یہ اکثر ایک ہی شخص ہوتا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا شعراء گیت نگاروں سے زیادہ عزت دار ہیں؟
پیٹرک نے کہا:
’’گیت نگار بھی شاعر ہیں، اور موسیقی زیادہ مقبول ہے۔‘‘
منیر سامی نے یاد دلایا کہ باب ڈلن اور لیونارڈ کوہن جیسے گیت نگاروں کو شاعری کے لیے عزت دی گئی، یہاں تک کہ ڈلن کو نوبیل انعام بھی ملا۔
7 ۔ نوجوان اور شاعری
سکندرابوالخیر نے شمالی امریکا میں نوجوانوں کی شاعری میں کم دل چسپی پر تشویش کا اظہار کیا۔
پیٹرک نے جواب دیا:
’’کبھی کبھی شاعری زندگی کے بعد کے مراحل میں شروع ہوتی ہے۔ ایسے پروگرام نوجوانوں کو شاعری کی طرف راغب کرسکتے ہیں۔‘‘
تارکین وطن شعراء کے چیلنجز
فیصل عظیم نے ان شاعروں کے مسائل پر روشنی ڈالی جو خود کو اپنی ثقافت سے کٹا ہوا محسوس کرتے ہیں اور اپنی نئی سرزمین میں مکمل طور پر ضم نہیں ہو پاتے۔
پیٹرک نے مشورہ دیا:
’’اپنی ثقافت سے جُڑے رہنا اور نئے ماحول کے بارے میں سیکھنا ضروری ہے۔ ایسے پروگرام اس خلا کو پر کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔‘‘
شاعری میں فکری خیالات
ڈاکٹر طاہر قاضی نے پوچھا کہ کیا شاعری میں عظیم فن کے لیے فکری یا فلسفیانہ علم ضروری ہے؟
پیٹرک نے کہا:
’’ہر شاعر کی اپنی منفرد سوچ ہوتی ہے۔ فلسفے کے اثرات رکھنے والے لوگ اپنے کام میں اسے ظاہر کرتے ہیں، لیکن یہ ضروری نہیں۔‘‘
اردو اور انگریزی میں غزلیں
فیصل عظیم نے اردو غزلوں کی ساخت اور خوب صورتی بیان کی اور جان ہالینڈر کا حوالہ دیا جنہوں نے انگریزی میں غزل کے تصور کو بیان کیا۔
پیٹرک نے کہا:
’’روایات کا احترام کرنا ضروری ہے، لیکن تخلیقی صلاحیتوں کے لیے اپنے دل کو کھولنا بھی اہم ہے۔‘‘
ان کے علاوہ جناب شاہ قرین اور سمرہ صاحبہ نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔ تقریب میں متعدد کتابیں بھی فروخت کی گئیں جن کی آمدنی وہاں موجود رفیوجی گرلز نامی ادارے کو عطیہ کی گئی۔
اختتامی لمحات
تقریب کا اختتام پیٹرک میڈ کی دو نظموں، ’’مکڑی‘‘ اور ’’باپ اور بیٹی‘‘ پر ہوا، جنہیں حاضرین نے زبردست داد دی۔
تقریب چائے، کافی، سموسے، اور کیک کے ساتھ خوشگوار ماحول میں اختتام پذیر ہوئی۔
مختصر یہ کہ ’’اردو اور انگریزی کا شاعری میں ملاپ‘‘ پروگرام نے دو شعری روایات کی مشترکہ اساس کو کام یابی سے پیش کیا اور ثقافتوں کے درمیان بامعنی مکالمے کو فروغ دیا۔ اربابِ قلم کینیڈا کی یہ کوشش ادب کی دنیا کو قریب لانے کی سمت ایک اہم قدم ثابت ہوگی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اردو اور انگریزی پر روشنی ڈالی پیٹرک نے کہا شاعری کی انہوں نے اے ا ئی
پڑھیں:
فلسطینی عوام سے اظہارِ یکجہتی، جامعہ اردو کراچی میں آئی ایس او کی احتجاجی ریلی
ریلی سے فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر صابر ابومریم، معروف مذہبی اسکالر مولانا شمس جعفری اور صدر آئی ایس او جامعہ اردو گلشن کیمپس نے خصوصی خطاب کیا اور مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا۔ اسلام ٹائمز۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن جامعہ اردو یونٹ کے زیرِ اہتمام فلسطینی عوام سے اظہارِ یکجہتی اور غزہ، لبنان، یمن و شام پر جاری امریکی و صیہونی جارحیت کے خلاف ایک احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا گیا، جو ایم ایس سی بلاک تک نکالی گئی۔ ریلی میں طلباء، اساتذہ، سماجی، سیاسی و مذہبی تنظیموں کے نمائندوں نے بھرپور شرکت کی۔ اس موقع پر فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر صابر ابومریم، معروف مذہبی اسکالر مولانا شمس جعفری اور صدر آئی ایس او جامعہ اردو گلشن کیمپس نے خصوصی خطاب کیا اور مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا۔ مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی مظالم، عالمی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہیں اور ان کے خلاف آواز اٹھانا ہر ذی شعور انسان کی ذمہ داری بن چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج دنیا غزہ میں ہونے والے ظلم و بربریت کو اپنے موبائل فونز پر براہ راست دیکھ رہی ہے، مگر عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں، جو باعثِ افسوس ہے۔ ریلی کے شرکاء نے فلسطینی پرچم، پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے، جن پر فلسطین کی حمایت اور صیہونی ریاست کے خلاف نعرے درج تھے۔ فضا "مردہ باد اسرائیل" اور "فلسطین زندہ باد" کے نعروں سے گونجتی رہی۔ اس موقع پر طلباء و طالبات کی جانب سے فلسطین کا ایک وسیع جھنڈا بھی فضا میں بلند کیا گیا، جس نے مظلوم فلسطینی عوام سے اظہارِ یکجہتی کا بھرپور منظر پیش کیا۔ ریلی کے اختتام پر دعا کی گئی کہ اللہ تعالیٰ مظلومینِ فلسطین کو صبر، طاقت اور آزادی عطا فرمائے اور عالمی ضمیر کو بیدار کرے۔