سندھ بلڈنگ، سینٹرل میں اورنگزیب سسٹم کے چرچے ، دھندے گندے
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
سندھ بلڈنگ میں گزشتہ دنوں تبادلہ کے باوجود بھی بلڈنگ انسپکٹر اورنگزیب کا نافذ کردہ سسٹم ناصرف موجود ہے بلکہ کینیڈین شہریت کے حامل ڈائریکٹر ڈیمالشن عبدل سجاد خان سے گٹھ جوڑ کرنے کے بعد منہدم عمارتوں کی ازسرنو تعمیر شروع کروا دی ہے اور ساتھ ہی کمزور بنیادوں کی پرانی عمارتوں پر بالائی منزلوں کی تعمیر بھی شروع کروا رکھی ہے اورنگزیب سسٹم کا طریقہ واردات کچھ اس طرح سے ہے کہ سب سے پہلے لاکھوں روپے وصول نے بعد غیر قانونی تعمیر کا اجازت نامہ جاری کیا جاتا ہے پھر عمارت کے تکمیل کے مراحل میں داخل ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے اور جوں ہی عمارت کا کام مکمل ہوتا ہے تو سسٹم کے نافذ کردہ ڈیمالشن اسکواڈ کی ٹیم توڑ پھوڑ کرنے والے سازو سامان سے لیس ہوکر عمارت پر پہنچ جاتے ہیں طلب کی گئی رقم ملنے کے بعد عمارت کو کلیئر قرار دے دیا جاتا ہے اور سامنے کے حصے میں کھڑکیوں کے آس پاس نمائشی توڑ پھوڑ کرنے کے بعد مخصوص زاویوں سے تصاویر بنا کر عدلیہ اور سول سوسائٹی کو گمراہ کیا جاتا ہے اور پھر کچھ ہی دنوں بعد دوبارہ رقوم وصول کرنے کے بعد ازسرنو تعمیر کی اجازت دے دی جاتی ہے وسطی میں نافذ اورنگزیب سسٹم نے حفاظتی پیکج بھی متعارف کروا رکھا ہے جس کے تحت بننے والی عمارتوں کو انہدام سے محفوظ رکھنے کی ضمانت دی جاتی ہے اس وقت بھی ناظم آباد میں پلاٹ نمبر 5E 8/18 اور 3H 8/41 پر سسٹم کے حفاظتی پیکج میں خلاف ضابطہ تعمیرات جاری ہیں۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: جاتا ہے کے بعد ہے اور
پڑھیں:
جنسی درندے، بھیڑیئے اور دین کا لبادہ
اسلام ٹائمز: مدارس دینیہ و مراکز میں کم سن بچوں کیساتھ زیادتی کے واقعات و سانحات اس قدر عام فعل بن چکا ہے کہ کوئی شہر ایسے سکینڈلز سے محفوظ نہیں، شاید ہی کوئی شہر بچ گیا ہو، جہاں باقاعدہ ایف آئی آرز درج نا کی گئی ہوں، مگر اسکی روک تھام کیلئے کہیں سے کوئی موثر آواز نہیں سنائی دیتی۔ جو بے حد افسوسناک و خطرناک ہے، معاشرے کی تعلیم و تربیت اور تہذیب کا ذمہ چونکہ دین کے ٹھیکیداروں کے سپرد ہی سمجھا جاتا ہے۔ لہذا یہ مسئلہ ہماری سوسائٹی میں جوں کا توں ہی رہنے کا اندیشہ ہے۔ بہتر یہی ہے کہ خاندان کے ایک بچے کو حافظ قرآن بنا کر بخشوانے کے چکر میں اپنے لعل و گوہر کو جہنم کے گڑھے میں مت پھینکیں۔ تحریر: ارشاد حسین ناصر
پاکستان میں اس وقت جہاں اور بہت سے ایشوز میڈیا پر دیکھے، سنے اور پڑھے جا رہے ہیں، وہاں ایک اہم ایشو ایسا ہے، جس پر سوشل میڈیا کے مختلف ذرائع اپنا نکتہ نظر پیش کر رہے ہیں، مگر چھوٹی چھوٹی سی بات پر ہنگامنہ کھڑا کر دینے پر تیار مذہبی عناصر کو اس ایشو پر بات کرنا مدارس کو بدنام کرنا لگتا ہے۔ ایسے ایشو کو سامنے لانا دینی حلقوں کی برائی کرنے کے مترادف محسوس کیا جاتا ہے، جبکہ یہ ایشو تقریباً ہر دن کسی نا کسی علاقے میں ایسے ہی سامنے آتا ہے، مگر تھوڑا سا ہائی لایٹ ہونے کے بعد دبا دیا جاتا ہے۔ ہم جس ایشو پر بات کر رہے ہیں، وہ مدارس و مساجد میں بچوں، کم سن بچیوں کیساتھ ہونے والی جنسی زیادتی، ہراسمنٹ اور مدارس میں رائج تشدد کا ہونا ہے۔ حالیہ دنوں میں سوات کے ایک مدرسہ میں ایک کم سن طالبعلم کو اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ اس کی موت واقع ہوگئی، کم سن طالبعلم سے دراصل جنسی ہوس کو پورا کرنے کی وجہ سے تشدد کیا جاتا تھا، تاکہ وہ مار کے ڈرسے خود کو قاری کے رحم و کرم پر چھوڑ دے اور قاری جسے بھیڑیا کہنا زیادہ مناسب ہے، اسے اپنی شہوت مٹانے کیلئے صبح مساء نوچتا رہے اور اسے کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔
سوات کا یہ واقعہ جس میں ایک بارہ سال کا بچہ جان سے چلا گیا، کوئی پہلا واقعہ نہیں اور نہ ہی آخری ہے۔ یہ واقعات روزانہ کی بنیاد پر کسی نہ کسی مدرسہ، اسکول اور دیگر مقامات پر ہوتے ہیں، جہاں والدین بچوں کو تعلیم و تربیت کیلئے بھیجتے ہیں، اعتماد کرتے ہیں۔ پاکستانی مدارس میں چونکہ آج بھی پرانے طرز کی سختی ہوتی ہے، اساتذہ عمومی طور پر غیر شادی شدہ جوان ہوتے ہیں، شادی شدہ بھی ہوں تو تو کم عمر بچوں کیساتھ مستقل رہنے کی وجہ سے ان میں شہوانیت ابھر آتی ہے اور وہ اپنے شہوانی جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتے۔ نتیجتاً یہ سلسلہ دراز ہو جاتا ہے، ہر ایک بچہ ایسا نہیں ہوتا کہ وہ مزاحمت کرے، اکثر بچے کم عمری میں اپنے استاد کے رعب و دبدبہ میں ہوتے ہیں۔ اسکولز کی نسبت مدارس میں آج بھی بچوں کو بدترین طریقہ سے مارا جاتا ہے، سختی کی جاتی ہے، ڈنڈے سوٹے، پلاسٹک کے پائیپ اور نا جانے کیسے کیسے طریقہ سے سبق یاد کروانے کیلئے تشدد کیا جاتا ہے۔
جس کی وجہ سے بچوں کے ذہن میں خوف بیٹھ جاتا ہے، جبکہ بچوں کو والدین یا سرپرستوں کی جانب سے بھی سخت تاکید کی جاتی ہے کہ وہ دین کے عالم و فاضل بننے کیلئے سختیاں جھیلیں، اسی میں بہتری ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ دینی اداروں سے وابستہ لوگ اس طرح کی نازیبا حرکات کرتے ہیں، ان پر پرچے اور ایف آئی آرز بھی کٹتی ہیں، گرفتاریاں بھی ہوتی ہیں، مگر نتیجہ وہ نہیں نکلتا، جو ایسے ہی کسی جرم کرنے والے عام آدمی کیساتھ نکلتا ہے، عام آدمی تو بچوں کیساتھ بدفعلی کرکے جیل جا کر ذلیل و رسوا ہو جاتا ہے، جبکہ کسی مسجد کا ملاں اگر پکڑا جائے تو اہل محلہ اسے خاموشی سے مسجد سے رات کے اندھیرے میں بہ حفاظت نکال دیتے ہیں، تاکہ مسجد اور متاثرہ بچہ کی بدنامی نا ہو، بہت ہی کم کیسز میں جب کچھ حد سے آگے بڑھ جائے تو کیس سامنے آتا ہے، ورنہ ملاں، قاری کسی دوسرے محلے کی مسجد میں جا کر مصلیٰ سنبھال لیتا ہے، مجموعی طور پر ایسا ہی دیکھنے میں آتا ہے۔
ایک اور پہلو یہ ہوتا ہے کہ مدارس نیٹ ورک ہر فرقہ و مکتب کے الگ الگ ہیں اور ان کے بورڈ بھی اپنے اپنے ہیں، لہذا جب کسی مکتب یا فرقہ کے مدرسہ میں ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو عمومی طور پر اس فرقہ و بورڈ والے بہر صورت اسے جھوٹا الزام، اسلام کے خلاف سازش اور دینی مدارس کے خلاف عالمی سازش کا حصہ ثابت کرنے کی پوری کوشش ہوتی ہے، ایسا بھی ہوتا آرہا ہے کہ ایسے واقعات کے شرمناک مناظر کو ریکارڈ کیا جاتا ہے، جو لیک ہو جاتے ہیں، اس کے باوجود ملاں کے ہم فرقہ اس کی حمایت میں نکل آتے ہیں۔ عجیب ہے کہ یہاں معمولی بات پر توہین توہین کا کھیل کھیلنے والے سب کچھ دیکھتے ہوئے کبھی مسجد کے تقدس کیلئے سراپا احتجاج نہیں ہوتے، کبھی محراب کی توہین پر جلاو گھیراو نہیں کرتے، کبھی قرآن کی بے حرمتی پر جیتے جی کسی ملزم کو آگ و خون میں نہیں نہلاتے، جبکہ بہت سے واقعات میں ایسی ویڈیوز اور تصاویر دیکھنے کو ملتی ہیں، جن میں قاری یا مدرس سامنے قرآن رکھ کے سبق پڑھا رہا ہے اور ساتھ بچے یا بچی کیساتھ جنسی استحصال کرر ہا ہے۔
محراب مسجد جہاں نمازیں پڑھائی جاتی ہیں، جس کی اسلام میں قدر و منزلت ہے، اس کو جنسی استحصال اور زنا خانہ میں تبدیل کرنے والے کے خلاف سراپا احتجاج نہیں ہوتے۔ سوشل میڈیا ایسی ویڈیوز سے بھرا پڑا ہے، جن میں واضح طور پر مسجد، مدرسہ، محراب، منبر کی توہین، قرآن کی بے حرمتی کا قانون لگنا چاہیئے، مگر اس میں انہیں دین کے خلاف سازش کی بو آنے لگتی ہے۔ حقیقت میں تو دین کے خلاف جنسی بھیڑیا نما قاری اور مسجد کا ملاں کرتا ہے، جس پر دین کے نام پر اعتماد کیا جاتا ہے اور کم سن نابالغ بچے اور بچیوں کو اس کے پاس بھیجا جاتا ہے اور وہ اس اعتماد کا بیڑا غرق کرتا ہے۔ اس کے اس عمل سے اسلام بدنام ہوتا ہے، مسجد و مدرسہ اور اس کے دیگر اساتذہ پر بھی انگلیاں اٹھتی ہیں۔ اصولی طور پر اس درندے کے خلاف بذات خود مدرسہ کے بورڈ کو ایکشن لینا چاہیئے اور اس مدرسہ کی رجسٹریشن کینسل کرکے اس ملاں کو نشان عبرت بنا دیا جائے، تاکہ وہ کسی دوسرے علاقے میں جا کر اپنا دھندہ نا کرسکے۔
مجھے یاد ہے کہ چند سال پہلے ہی لاہور کے ایک نامور مدرسہ و دینی جماعت سے وابستہ بڑے مفتی اور استاد پر الزام لگا تو اس نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر اس کی تردید کی اور اسے سازش قرار دیا۔ اس کے ہم فرقہ بھی میدان میں نکلے اور پریس کانفرنسیں کرنے لگے کہ یہ سازش ہے۔ بعد ازاں اس عمل کی ویڈیوز سامنے آئیں تو ملاں جی نے فرار کیا، جسے بعد ازاں گرفتار کر لیا گیا، اس لیے کہ ایک ویڈیو نہیں تھی، تین چار کلپس تھے، جن سے کچھ بھی پردہ نہیں رہا تھا۔ یہ ایک مثال ہے، جس میں ایک بڑے مفتی کی جنسی ویڈیوز سامنے آنے کے بعد اس کے ہم مکتبوں نے باقاعدہ احتجاج بھی کیا، پریس کانفرنسز بھی کیں۔ ایسے ان گنت واقعات اس دھرتی پر وقوع پذیر ہوچکے ہیں، ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ اس لیے کہ کبھی بھی کسی ایک واقعہ میں کسی مجرم کو سزا نہیں ملی، عدالتیں بھی دین کے نام پر بنے جتھوں سے بلیک میل ہوتی ہیں، انہیں ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔
اول تو عدالتی کارروائی سے قبل ہی معاملات کنٹرول میں لائے جا چکے ہوتے ہیں، متاثرہ فیملی کو کسی نا کسی طریقہ سے رام کر لیا جاتا ہے، جیسے ایک دو برس قبل ایک کیس جڑانوالہ کے علاقے میں ہوا تھا، اس میں ملاں اور متاثرہ بچہ ایک ہی گروہ سے تھے، جسے بچانے کیلئے لاہور سے ایک نامور ملاں کے صاحبزادے فوری طور پر اپنے گروہ کے ملاں کو بچانے کیلئے میدان میں آن کھڑے ہوئے اور اندر کھاتے مل ملا کر چپکے سے صلح کروا دی۔ پاکستان میں دینی جماعتوں پر عام عوام کا اعتماد اسی وجہ سے نہیں بنتا کہ یہ منافقت، دوغلا پن اور دوہرا معیار بنائے ہوئے ہیں، ان کے اپنے معیارات اور کلیے و قاعدے ہیں، جن سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں، جس کی وجہ سے پاکستان کی اسلام پسند اکثریت ان نام نہاد دینی جماعتوں کو الیکشن میں آگے نہیں آنے دیتی۔
بہرحال مدارس دینیہ و مراکز میں کم سن بچوں کیساتھ زیادتی کے واقعات و سانحات اس قدر عام فعل بن چکا ہے کہ کوئی شہر ایسے سکینڈلز سے محفوظ نہیں، شاید ہی کوئی شہر بچ گیا ہو، جہاں باقاعدہ ایف آئی آرز درج نا کی گئی ہوں، مگر اس کی روک تھام کیلئے کہیں سے کوئی موثر آواز نہیں سنائی دیتی۔ جو بے حد افسوسناک و خطرناک ہے، معاشرے کی تعلیم و تربیت اور تہذیب کا ذمہ چونکہ دین کے ٹھیکیداروں کے سپرد ہی سمجھا جاتا ہے۔ لہذا یہ مسئلہ ہماری سوسائٹی میں جوں کا توں ہی رہنے کا اندیشہ ہے۔ بہتر یہی ہے کہ خاندان کے ایک بچے کو حافظ قرآن بنا کر بخشوانے کے چکر میں اپنے لعل و گوہر کو جہنم کے گڑھے میں مت پھینکیں۔