سپریم کورٹ میں آجکل کافی سیاست نظر آرہی ہے۔ ویسے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ججز میں اختلاف کے ہم کافی حد تک عادی ہو چکے ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ کس کی کہاں ہمدردیاں ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ نام دیکھ کر فیصلے کا اندازہ ہو جاتا ہے۔
افسوسناک امر ہے کہ سب کے بارے میں رائے بن گئی ہے کہ کون کس سیاسی جماعت کا حامی ہے اور کس کا مخالف۔ یہ بھی کافی حد تک معلوم ہے کہ کون 26ویں آئینی ترمیم کے حق میں ہے، کون اس ترمیم کے حق میں نہیں ہے۔ سیاسی سمجھ بوجھ اور عدالتی خبروں پر نظر رکھنے والا بتا سکتا ہے کہ اگر فل کورٹ بنے گا تو کیا فیصلہ ہوگا؟ اگر لارجر بنچ بنے گا تو کیا فیصلہ ہوگا؟ اگر آئینی بنچ سنے گا تو کیا فیصلہ ہوگا؟
بہر حال سپریم کورٹ میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی نے ایک فیصلہ دیا ہے۔اس فیصلے نے ایڈیشنل رجسٹرار سے توہین عدالت ختم کر کے بظاہر یہ تلوار کمیٹی کے ممبران پر لٹکا دی ہے۔ محترم جج صاحبان نے فل کورٹ بنانے کے جیو ڈیشیل احکامات دیے ہیں۔ کہا ہے کہ ان کے بنچ سے کیس لینے کے معاملے پر فل کورٹ بنایا جائے تا کہ یہ طے کیا جا سکے کہ کیا دونوں ججز کمیٹیوں کے پاس ان کے بنچ سے کیس واپس لینے کا اختیار تھا بھی یا نہیں۔
ایک سوال ہے کہ اگر فل کورٹ یہ طے کرتا ہے کہ دونوں ججز کمیٹی کے ارکان کے پاس کیس واپس لینے کا اختیار نہیںتھا تو پھر کیا دونوں ججز کمیٹی کے ارکان نے جسٹس منصور علی شاہ کی عدالت کی توہین کی ہے؟ اس طرح چیف جسٹس آئینی بنچ کے سربراہ اور دو سنیئر ججز توہین عدالت کے کٹہرے میںکھڑے ہو جائیں گے۔
اس ملک میں ایک نیا آئینی بحران پیدا ہو جائے گا۔ سپریم کورٹ کے ججز اپنے ہی چیف جسٹس اور دیگر ججز کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کر دیں گے۔ ایک رائے یہ ہے کہ اگر ججز پر توہین عدالت لگ جائے تو وہ جج نہیں رہ سکتے، اس طرح یہ چاروں جج سپریم کورٹ سے فارغ بھی ہو جائیں گے۔
اس سے پہلے سپریم کورٹ نے جیوڈیشل فیصلے سے چیف جسٹس بحال تو کیا ہے اور ایک جیوڈیشل فیصلے سے چیف جسٹس کو نکالا بھی ہے۔ ویسے جیوڈیشل فیصلے سے چیف جسٹس کو نکالنے کی روائت موجود ہے۔ سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف ان کے ہی ساتھی ججز نے کوئٹہ بنچ سے فیصلہ دیکر ان کو معزول کیا تھا۔ آج بھی ہمیں ایسی ہی کوئی صورتحال لگ رہی ہے۔
یہ رائے بھی موجود ہے کہ جب ایک دفعہ فل کورٹ بن جائے گا، پھر وہ کیا دیکھتا ہے؟ کیا سماعت کرتا ہے؟ اس کو روکنا عملی طو رپر نا ممکن ہوگا۔ فل کورٹ اکثریت کی بنیاد پر کوئی بھی فیصلہ کر سکتا ہے۔ وہ 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف بھی سماعت شروع کر سکتا ہے۔ اس لیے فل کورٹ بنوانے کی شروع سے کوشش کی جا رہی ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد بھی فل کورٹ بنوانے کی کوشش کی گئی تھی۔ فل کورٹ بنوانے کے احکامات بھی دیے گئے تھے لیکن فل کورٹ نہیں بن سکا تھا۔ اس لیے فل کورٹ کی خواہش کوئی نئی نہیں ہے۔
جب سے 26ویں آئینی ترمیم پاس ہوئی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ فل کورٹ بنوانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تا ہم اب انھوں نے اس ضمن میں ایک جیوڈیشل آرڈر کر دیا ہے۔ویسے تو سماعت کے دوران ریمارکس میں واضح کیا تھا کہ وہ اس کیس کو ججز کمیٹی کے اختیار تک ہی محدود رکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن ایک رائے یہی ہے کہ جب فل کورٹ بن جائے گا تو پھر بات وہاں رکے گی نہیں۔ 26ویں ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران بھی فل کورٹ بنانے کا مطالبہ سامنے آیا لیکن آئینی بنچ نے یہ مطالبہ مسترد کر دیا اور واضح کیا کہ اب آئین میں فل کورٹ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اب آئینی بنچ ہی آئینی مقدمات سن سکتا ہے۔ آپ آئینی بنچ کو ہی فل کورٹ سمجھیں۔ اب یہ ایک اہم بات ہے۔
اگر 26ویں آئینی ترمیم کے بعد فل کورٹ کا تصور ہی ختم ہو گیاہے، اب ایک آئینی بنچ ہے۔ اور ایک عام مقدمات کے لیے سپریم کورٹ ہے۔ ایسے میں دونوں کو ملا کر فل کورٹ کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ اگر آئین وقانون کی تشریح کا معاملہ ہے تو اسے آئینی بنچ سنے گا۔ اگر عام سماعت ہے تو عام بنچ بنے گا۔
اب دونوں کو ملا کر فل کورٹ کیسے بنایا جائے گا۔ کیا ایک جیوڈیشل آرڈر فل کورٹ کے لیے راہ ہموار کر سکتا ہے۔ کیا جو چیز آئینی طو رپر ممکن نہیں۔ اسے ایک جیوڈیشل آردڑ کے ذریعے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ دلیل موجود ہے کہ آئین میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا ہوا کہ فل کورٹ نہیں بن سکتا۔ بنچز کو تقسیم کیا گیا ہے۔ لیکن فل کورٹ نہ بنانے کا نہیں کہا گیا۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ محترم جسٹس منصور علی شاہ کے بنچ نے فل کورٹ بنانے کا کہا ہی کیوں ہے؟ ان کے بنچ سے مقدمہ لیا گیا تو اس کیس کا فیصلہ خودکرنا چاہیے تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ ججز کمیٹی کے ممبر ججز ذمے دار ہیں تو فیصلہ صادر کردیتے۔ یہ معاملہ فل کورٹ کو کیوں بھجوایا گیا۔ کچھ دوستوں کی رائے کہ ان کے بینچ کا فیصلہ لارجر بنچ سے ختم ہو سکتا ہے۔ جیسے ایڈیشنل رجسٹرار کے توہین عدالت کے شو کاز پر ایک لارجر بنچ بن گیا تھا لیکن فل کورٹ سے کارروائی ختم نہیں ہوسکتی ۔ یہاں سوال یہ بھی ہے کہ اب بھی ایک لارجر بنچ فل کورٹ بنانے کا حکم بھی ختم کر سکتا ہے۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر ایک عدالت کے پاس کسی درخواست کا دائرہ سماعت نہ ہو۔ آئین وقانون اسے اس درخواست کی سماعت کی اجازت نہ دیتا ہو۔ اسے قانونی زبان میں void jurisdictionکہتے ہیں تو کیا کیا جائے؟ اگر کسی عدالت کو غلطی سے ایسی درخواست سماعت کے لیے مقرر ہو جائے جو اس کے دائرہ اختیار میں نہ ہو تو کیا کیا جائے؟ میں سمجھتا ہوں قانون بہت واضح ہے کہ void jurisdictionکی عدالت کا فیصلہ بھی void ہی ہے۔
یعنی غیر قانونی ہی ہے۔ اس لیے جب ججزکمیٹی نے یہ محسوس کیا کہ یہ کیس جسٹس منصور علی شاہ کے بنچ کے سماعت کے دائرہ کار میں نہیں آتاتو انھوں نے تبدیل کر دیا۔ اس میں اتنے طوفان والی کیا بات ہے۔ کیا ایک جج کو کسی خاص کیس کو اپنی بنچ میں رکھنے کی ضد کرنی چاہیے۔ ہم ماتحت عدلیہ میں روز دیکھتے ہیں ،کیس ایک عدالت سے دوسری عدالت میں ٹرانسفر کیے جاتے ہیں۔
وہاں تو عدلیہ کی آزادی پر کوئی قد غن نہیں آتی۔ یہ کیسی منطق ہے کہ ماتحت عدلیہ ہائی کورٹس میں اگر کیس ایک عدالت سے دوسری عدالت یا ایک بنچ سے دوسرے بنچ میں منتقل کیا جائے تو کوئی بات نہیں۔ لیکن اگر سپریم کورٹ میں ایسا کیا جائے تو معاملہ الٹ جاتا ہے۔ ایک نظام عدل میں دو قانون کیسے چل سکتے ہیں۔ ماتحت عدلیہ کے لیے اور قانون اور سپریم کورٹ کے لیے الگ قانون۔ بہر حال ججز کے باہمی اختلافات ان کے فیصلوں میں نظر آنا کوئی اچھی بات نہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جسٹس منصور علی شاہ 26ویں ا ئینی ترمیم فل کورٹ بنوانے فل کورٹ بنانے ججز کمیٹی کے توہین عدالت سپریم کورٹ فل کورٹ کی کر سکتا ہے فل کورٹ بن لارجر بنچ ہے کہ اگر کیا جائے بنایا جا بنانے کا سماعت کے ترمیم کے چیف جسٹس جائے گا کے خلاف نہیں ہے ہے کہ ا کیا جا کے بنچ تو کیا
پڑھیں:
سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ:’’صدر کو اختیار حاصل ہے‘‘ ججز ٹرانسفر آئین و قانون کے مطابق قرار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 3ججز کے تبادلے سے متعلق تاریخی مقدمے کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا ہے کہ جسٹس سرفراز ڈوگر کا تبادلہ مکمل طور پر آئین اور قانون کے مطابق کیا گیا۔
عدالت عظمیٰ کے اکثریتی فیصلے میں عدالت نے واضح کیا کہ ججز کے تبادلے کو کسی طور پر نئی تقرری نہیں سمجھا جا سکتا اور نہ ہی اس پر اعتراض کی کوئی قانونی گنجائش موجود ہے۔ عدالت کا یہ فیصلہ ایک طویل قانونی بحث کے بعد سامنے آیا ہے جس میں عدالتی خودمختاری، آئینی اختیارات اور ججز کی سنیارٹی جیسے اہم نکات زیر غور آئے۔
سپریم کورٹ نے اپنے اکثریتی فیصلے میں کہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سرفراز ڈوگر، جسٹس آصف اور جسٹس خادم حسین سومرو کے تبادلے کے نوٹیفکیشنز کو کالعدم قرار نہیں دیا جا رہا۔ اس کے ساتھ ہی سنیارٹی سے متعلق معاملات صدر مملکت کو بھیج دیے گئے ہیں تاکہ وہ جلد از جلد اس معاملے کو نمٹا سکیں۔ جب تک سنیارٹی کا فیصلہ نہیں ہوتا، جسٹس سرفراز ڈوگر قائم مقام چیف جسٹس کے طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہیں گے۔
فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 200 کو بنیادی حوالہ بنایا گیا ہے، جس کے تحت صدر پاکستان کو ججز کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری میں منتقل کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ عدالت نے کہا کہ یہ اختیار مکمل طور پر آزاد ہے اور کسی قانون کے تحت اس پر قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔ آرٹیکل 200 کے تحت دیا گیا تبادلے کا میکانزم جج کی رضا مندی سے مشروط ہے اور اس کے بعد متعلقہ دونوں ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان سے مشاورت لازمی ہے۔
عدالتی فیصلے میں واضح کیا گیا کہ اگر جج تبادلے کے لیے رضامند نہ ہو تو یہ عمل وہیں رک جاتا ہے۔ جب جج آمادہ ہو جائے تو تبادلہ ممکن ہے، لیکن اس کے باوجود چیف جسٹس آف پاکستان اور دونوں متعلقہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کی رائے ضروری ہے تاکہ عدالتی مفاد، انتظامی ضروریات اور عوامی بھلائی کو مدنظر رکھا جا سکے۔
عدالت نے اس مؤقف کو مسترد کر دیا کہ جج کا ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں تبادلہ نئی تقرری کے مترادف ہوتا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تقرری اور تبادلہ آئینی طور پر 2الگ معاملات ہیں اور جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا دائرہ کار صرف تقرریوں تک محدود ہے۔ اس کے برعکس، تبادلے کا اختیار آئینی طور پر صدر کو حاصل ہے، جو جوڈیشل کمیشن کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ ایکٹ 2010 کی دفعہ 3 کے تحت ججز کی زیادہ سے زیادہ تعداد کا تعین ضرور کیا گیا ہے، تاہم عدالت نے قرار دیا کہ یہ قانون آئینی اختیارات کو محدود نہیں کر سکتا۔ یعنی صدر کے پاس تبادلے کے جو اختیارات ہیں، وہ اس ایکٹ کی کسی شق سے مشروط یا محدود نہیں ہو سکتے۔
دوسری جانب جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شکیل احمد نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے رائے دی کہ ججز کے تبادلے کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کے مترادف ہے اور اسے آئینی دائرہ کار سے تجاوز تصور کیا جانا چاہیے۔ اختلافی فیصلے میں اس مؤقف کو بھی تقویت دی گئی کہ ججز کو سزا کے طور پر اسلام آباد ہائی کورٹ منتقل کیا گیا، جو عدالتی آزادی پر حملہ ہے۔
جسٹس افغان نے اختلافی رائے سناتے ہوئے ایک شعر بھی پڑھا:
امن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
واضح رہے کہ یہ فیصلہ اس وقت سنایا گیا جب سپریم کورٹ نے طویل سماعتوں کے بعد آج کیس کا فیصلہ محفوظ کیاتھا۔ سماعت کے دوران وکیل ادریس اشرف نے آئین کے آرٹیکل 175 اور 200 میں ہم آہنگی کی درخواست کی، جب کہ اٹارنی جنرل نے واضح کیا کہ ججز کے تبادلے کا مکمل طریقہ آئین میں دیا گیا ہے اور وزیر اعظم یا صدر کا کردار محدود نوعیت کا ہے۔
دلائل کے دوران سابق اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے مؤقف اختیار کیا کہ عدالت تبادلے کو نئی تقرری سے تعبیر نہ کرے،تاہم عدالت نے نشاندہی کی کہ ان کی پٹیشن میں ججز کو ڈیپوٹیشنسٹ کہا گیا ہے، جو آئینی طور پر غلط تصور کیا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5ججز نے ججز کے تبادلے اور سنیارٹی کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جن میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق جہانگیری، جسٹس اعجاز اسحاق اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز شامل تھے۔ اس کے علاوہ بانی پی ٹی آئی اور کراچی بار کی جانب سے بھی اس معاملے پر الگ الگ درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔