تباہ حال آشیانوں سے دل چھلنی
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
نام نہاد این جی اوزاورانسانی حقوق کے یورپی مامے جوحقوق کی بات کرتے نہیں تھکتے نے دنیا کو شکنجے میں لے رکھا ہے اسی آڑ میں جہاں چاہتے ہیں جنگ مسلط کر دیتے ہیں جہاں چاہتے ہیں دو عملی کا اظہار کرتے ہیں جیسے غزہ جنگ میں کیا گیااور 7 اکتوبر 2022 کو شروع ہونے والی جنگ میں نسل کشی کی گئی اس کے باوجود غزہ کے مکین جھکے نہ بکے،دنیا مذمتوں میں لگی رہی کئی دین کے ٹھیکیداربھی تماشا دیکھتے رہے عالمی عدالتیں فیصلے دیتی رہیں اور اسرائیل فیصلوں کو پائوں تلے روندتا رہا بلی کے بچے کی موت پر رونے والے امریکہ سمیت تمام اس کے حواری خاموش مذمتیں کرتے رہے یہ سلسلہ چلتا رہا آج غزہ کے مکینوں کی واپسی پر آنکھوں سے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے جنگ بندی ہونے پر جشن بھی منایا گیا لیکن دنیا بتائے کہ لاکھوں کی تعداد میں غزہ کے باسیوں کی ہلاکتیں دنیا کے مردہ ضمیرکو جگا سکیں گی ان کے زخموں پرمرہم کون رکھے گا ننھے پھول جو بن کھلے مرجھا گئے کے والدین کو قرار کون دے گا کیا سہاگنوں کے سہاگ اجڑنے کا کوئی حساب دے گا کیا خاندان کے خاندان جو منوں مٹی تلے جا سوئے اور ان ہلاکتوں کے قصور واروں کو دنیا کیفر کردار تک پہنچائے گی کیا دنیا غزہ والوں کو بے یارومدد گار چھوڑ دے گی جس طرح جنگ کے دوران چھوڑا گیاتقریبا ڈیڑھ سال کی بھیانک جنگ کے بعد لاکھوں بے گھر فلسطینی خوشی، درد اور پشیمانی کے ساتھ پیدل سفر کرتے ہوئے شمالی غزہ پہنچے، بہت سے دل دہلا دینے والے مناظر اور ایک کلپ جس میں ایک لڑکی اپنی چھوٹی بہن کو کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے، وہ اور اس کے دوست اپنی عمر کی دوسری لڑکیوں کی طرح زندگی گزارنا چاہتے ہیں،عرب ٹی وی کے مطابق فاطمہ تھکی ہوئی اور ننگے پائوں دکھائی دے رہی تھی، وہ اپنی چھوٹی بہن کو لے جانے کی دشواری کی پروا نہیں کرتی، اس کی تمام امیدیں شمالی غزہ کی پٹی میں اپنے گھر واپس آنے کی تھیں،اس نے ویڈیو میں کہا کہ مجھے اپنی بہن سے محبت ہے، یہی وجہ ہے کہ شمالی غزہ میں جانے اور اپنے ساتھ اپنے گھر واپس آنے پر میں اپنی بہن کو ساتھ لائی غزہ میں واپسی پر مظلوموں کوایسا لگ رہا ہے جیسے ان کی روح اور زندگی ایک بار پھرلوٹ آئی ہے،اپنے گھروندے دوبارہ تعمیر کریں گے اسرائیل اور حماس کے درمیان سیز فائر اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے بعد لاکھوں بے گھر فلسطینی تباہ حال غزہ کے شمال کی طرف لوٹ رہے ہیں،تھکے ہارے ضرورہیں لیکن چہرے پر کوئی آثار نہیں کہ جس سے کسی کو شک ہو کہ وہ ہارے ہوئے ہیں آج بھی ان کے حوصلے بلند ہیں،اسرائیل اور حماس کے درمیان فائر بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کا مقصد 15 ماہ سے زائد عرصے سے جاری لڑائی کا خاتمہ ہے، غزہ میں بارود کی بارش کرنے کے بعد اب اسرائیل غرب اردن پر چڑھ دوڑا ہے، اسرائیلی ٹینکوں کی نگرانی میں لوگوں کی بڑی تعداد راہداری کے ذریعے شمال کی طرف جا رہے ہیں ،کچھ لوگ ضروری سامان کو اٹھائے ہوئے چل رہے تھے جنہیں دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان پر مظالم کے پہاڑ کس طرح گرائے گئے، بچھڑے پیاروں نے علاقے میں پہنچنے کے بعد ایک دوسرے کو گلے لگا لیا رقت آمیز مناظر بھی دیکھنے کو ملے غزہ والوں کے حوصلے آج بھی جواں ہیں ، کہا جاتا ہے کہ غزہ میں پہنچنے والوںکیلئے غزہ میں خوش آمدید کے بینر آویزاں کیے گئے، تباہ شدہ آشیانوں کو دیکھ کر فلسطینیوں کے آنکھوں سے آنسو نہیں تھم رہے معصوم بچے، لاچار خواتین اور نہتے مرد اسرائیلی حملوں میں زندگی کی جنگ ہار گئے،کئی معصوم بھوک برداشت نہیں کر پائے تو کچھ کو پینے کے لیے صاف پانی بھی نصیب نہ ہوا،انسان تو انسان جانوروں نے بھی غزہ میں جنگل کا قانوں دیکھا، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فلسطینیوں کے لئے الگ جگہ رہائشی منصوبے کے حوالے سے دیا جانے وا لے بیان سے یہ بات عیاں ہے کہ اسرائیل اور امریکہ غزہ پر مستقل قبضہ چاہتے ہیں ، اسرائیل نے امریکہ کی پشت پناہی سے غزہ میں ہزاروں فلسطینیوں کو شہید اور ایک لاکھ سے زائد کو زخمی کیایہ وہ تعداد ہے جو سامنے آ چکی جبکہ ملبے تلے ہزاروں افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہیں، امریکہ ہمیشہ اپنے مفادات کو عزیز رکھتا ہے اور اس کی دوستیاں، دشمنیاں اسی بات پر منحصر ہوتی ہیں،غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکہ نے تمام غیر ملکی امدادی پروگرام کو 90 روز کے لیے معطل کردیا،معطل کیے گئے پروگراموں میں یوکرین، اردن، تائیوان کی امداد کا پروگرام بھی شامل ہے۔ صرف اسرائیل اور مصر کو فوجی فنڈنگ میں استثنا حاصل ہے،رپورٹ کے مطابق یہ اقدام امریکی غیر ملکی امدادی پروگراموں کی کارکردگی اور مستقل مزاجی کا جائزہ لینے کے لیے 90 دن کے وقفے کا حصہ ہے، دوسری جانب امریکی وزارت خزانہ نے اسرائیلی آباد کاروں پر عائد پابندیاں ختم کردیں۔ 17 یہودیوں اور 16 تنظیموں کو بلیک لسٹ سے ہٹا دیا گیا جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ کس طرح اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا ہے امریکہ سمیت دنیا کے کسی بھی ملک کے ساتھ تعلقات کو برابری کی سطح پر استوار کرنے کے لئے کشکول لے کر دنیا میں گھومنے کا سلسلہ ختم کرنا ہوگاغزہ میں امن قائم ہونا چاہیے غزہ کے مکینوں کو اکیلا چھوڑنے سے انہیں مزید تباہی کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے،یہ بہت تلخ سوالات ہیں جن کا جواب کسی کے پاس نہیں کیونکہ فلسطینیوں کی نسل کشی میں ہم سب برابر کے شریک ہیں اوراللہ اس بارے ضرورپوچھے گا۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: اسرائیل اور چاہتے ہیں کے بعد غزہ کے
پڑھیں:
حکومتی خواب تعبیر سے محروم کیوں؟
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال ملک بھر میں مختلف تقریبات میں کبھی مایوسی کی باتیں نہیں کرتے بلکہ عوام کو اچھے خواب ہی دکھاتے ہیں۔ انھوں نے اپنے شہر کے لوگوں کو بتایا تھا کہ حکومت نے ملک کو دلدل سے نکالا جو اب اپنی اڑان بھر رہا ہے اور ہر طرف پاکستان کے چرچے ہو رہے ہیں۔
معرکہ حق میں کامیابی کے بعد پاکستان کا سر فخر سے بلند ہوا ہے اور مسلح افواج نے دنیا میں اپنا لوہا منوا لیا ہے اور اپنی کارکردگی سے پاکستان کا دفاع کیا اور پاکستان پر آنچ نہیں آنے دی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کراچی آرٹس کونسل میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وہاں بیٹھے سامعین کو یہ بتا کر حیران کر دیا تھا کہ سندھ کا مقابلہ کسی شہر یا صوبے سے نہیں بلکہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے اور یہ پاکستان کی کامیابی ہے۔ پورے ملک کو ایک ہو کر دنیا سے مقابلہ کرنا چاہیے اور آپس میں تقسیم نہیں ہونی چاہیے۔ ملک میں کہیں بھی تعمیری و ترقیاتی کام ہو رہا ہو یہ پاکستان کا نام روشن ہوتا ہے۔
غربت کے خاتمے کے عالمی دن پر لاہور میں ایک تقریب میں بتایا گیا کہ پاکستان میں ساڑھے دس کروڑ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جس کی اہم وجوہات ملک میں کرپشن اور مہنگائی ہے۔ ملک میں غربت کے خاتمے کے لیے نوجوانوں کو ہنرمند بنانا ہوگا۔ بیڈ گورننس، کرپشن، مہنگائی، بے روزگاری، کم وسائل، آمدن میں کمی اور سماجی ناہمواری کی وجہ سے دنیا میں مہنگائی ہوتی ہے۔ اس موقع پر یہ بھی کہا گیا کہ اگر آبادی میں مسلسل اضافہ ہوگا اور وسائل کم ہوں گے تو غربت میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس موقع پر بتایا گیا کہ پاکستان کی 41.7 فی صد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔
حکومتی عہدیداروں کے دعوؤں کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ معاشی صورت حال میں بہتری کی جو باتیں سرکاری طور پر ہو رہی ہیں، اس کے باوجود ملک کی تقریباً آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔احسن اقبال کے پاکستان سے متعلق اڑان کے بیان اور بلاول بھٹو کے سندھ کے دنیا سے مقابلے کے برعکس حقائق یکسر مختلف ہیں۔ جب ملک کی 41.7 فی صد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہو تو ایسے حالات میں حکمرانوں کے بیانات خواب ہی نظر آتے ہیں جن کی کبھی تعبیر نہیں ملتی۔ جب بڑوں کے بیانات ایسے ہوں تو ملک کے سب سے بڑے شہر کے میئر مرتضیٰ وہاب بھی کہاں پیچھے رہتے۔ انھوں نے بھی اپنے ہی شہر کے لوگوں کو خواب دکھا دیا کہ کراچی کو عالمی شہروں کی صف میں شامل کرائیں گے۔
کراچی پاکستان کا دل ہے اور ایک ایسا شہر جو معاشی سرگرمیوں، ثقافتی تنوع اور انسانی استقامت کی علامت ہو سندھ حکومت اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے وژن کے مطابق مستقبل میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوگا۔ انھوں نے یہ بات دنیا کے جدید شہر دبئی ایشیا پیسفک سیٹیز سمٹ سے خطاب میں کہی۔ میئر کراچی نے دبئی میں مزید کہا کہ کراچی میں منصوبے صرف سڑکوں، عمارتوں یا بنیادی ڈھانچے کی بہتری تک محدود نہیں بلکہ یہ انسانی وقار، مساوات اور انصاف کی بحالی کا سفر ہے۔
جنرل پرویز مشرف ملک میں تقریباً نو سال اقتدار میں رہے جن کا تعلق کراچی سے تھا اور سندھ میں 17 سالوں سے مسلسل برسر اقتدار پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو بھی کراچی میں پیدا ہوئے تھے اور دو بار اقتدار میں رہنے والی ان کی والدہ بے نظیر بھٹو بھی کراچی میں پیدا ہوئی تھیں مگر انھوں نے اپنے پیدائشی شہر کراچی کو ترجیح دی اور نہ ہی کراچی سے تعلق رکھنے والے بلاول بھٹو کراچی کو اہمیت و ترجیح نہیں دے رہے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے پیدائشی شہر کراچی کا حق ادا کیا تھا اور ایم کیو ایم کے سٹی ناظم سید مصطفیٰ کمال کو اتنے فنڈز دیے تھے کہ انھوں نے چار سالوں میں ترقی دلا کر دنیا کے 13 میگا سیٹیز میں کراچی کو شامل کرا دیا تھا جو کراچی کی ترقی کا دور تھا۔
مصطفیٰ کمال کا تعلق بھی کراچی سے تھا اور میئر کراچی کا تعلق بھی کراچی سے ہے اور وہ پیپلز پارٹی کے کراچی کے پہلے ناظم ہیں جو تقریباً دو سال سے اقتدار میں ہیں اور دبئی کی ایک تقریب میں یہ خواب دکھا رہے ہیں کہ ہم کراچی کو عالمی شہروں کی صف میں شامل کرائیں گے۔ میئر کراچی حکومت سے اپنے لیے آئینی اختیارات لے سکے اور کراچی کی ضرورت کے لیے ضروری فنڈ حاصل کر سکے۔
کراچی کی حالت ڈھکی چھپی نہیں جس کو 2008 میں جنرل مشرف کے بعد پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کی وفاقی حکومتوں نے اہمیت و ترجیح دی اور نہ ہی وفاق سے تین حکومتوں میں وہ فنڈز ملے جو ملنے ہی نہیں چاہیے تھے بلکہ وہ فنڈز کراچی کا حق تھا جس کے متعلق ایک ریٹائرڈ بیورو کریٹ یونس ڈھاگا تفصیلات بتا چکے ہیں۔
سندھ حکومت کی ترجیح کراچی رہا ہی نہیں کیونکہ ان کے نزدیک کراچی کمائی کا گڑھ اور سونے کی چڑیا ہے جو اپنی آمدنی سے ملک اور صوبے کو پال رہا ہے۔
صدر زرداری اور مراد علی شاہ کا تعلق کراچی سے نہیں مگر کراچی بلاول بھٹو، بے نظیر بھٹو اور صدر زرداری کی دونوں بیٹیوں کا پیدائشی شہر ہے اور ان پر کراچی کا حق ہے کہ کراچی والوں کو صرف خواب نہ دکھائیں۔ بلاول بھٹو دنیا کو چھوڑیں اور سندھ کا موازنہ پنجاب سے اور کراچی کا موازنہ لاہور سے کر لیں تو انھیں حقائق کا اندازہ ہو جائے گا۔ پنجاب کی ترقی پاکستان سے نہیں صوبہ پنجاب سے ہے۔ اندرون سندھ کے شہروں کی جو ابتر حالت ہے انھیں دیکھ کر کوئی نہیں مانے گا کہ سندھ کا مقابلہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے ہے۔ پاکستان اڑان بھر رہا ہوتا تو غربت میں کمی آتی اور سندھ حکومت کراچی کی سڑکیں ہی بنوا دے تو سڑکوں کی ترقی ہی نظر آ جائے گی۔