Nai Baat:
2025-06-11@19:31:17 GMT

پنجاب ،سی آئی اے ختم ’’آرگنائزڈ کرائم یونٹ‘‘ کیوں ؟

اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT

پنجاب ،سی آئی اے ختم ’’آرگنائزڈ کرائم یونٹ‘‘ کیوں ؟

کسی بھی معاشرے میں پولیس کیوں ضروری ہے اس کا جواب بظاہر تو بڑا سیدھا سادہ ہے کہ جب معاشرہ ہو گا تو اس میں باہمی لڑائی جھگڑے اور جرائم بھی ہوں گے جس کے لئے پولیس ضروری ہے لیکن اہم بات یہ ہے جیسے جیسے انسان نے ترقی کی ویسے ہی جرائم کی نوعیت بھی بدلتی گئی یوں پولیس میں مختلف شعبوں کے وجود نے جنم لیا ۔پنجاب پولیس امن و امان قائم اور قانون پر عملدرآمد کروانے کا پابند ادارہ ہے جو صوبہ پنجاب میں امن و امان برقرار رکھنے کا ذمہ دار ہے۔ انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب (آئی جی پنجاب) کے ماتحت کام کرتا ہے۔ یہ پولیس ایکٹ 1861 اور 2002 کے تحت صوبہ پنجاب، پاکستان میں مجرموں کے خلاف کارروائی کرکے تمام فوجداری مقدمات کو کنٹرول کرتا ہے۔23 جنوری 2023ء سے ڈاکٹر عثمان انور آئی جی پنجاب پولیس کام کر رہے ہیں۔ جرائم کی بدلتی نوعیت اور تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے پولیس میں نئے شعبوں کا قیام عمل میں لایا گیا جن میں اینٹی رائٹ فورس (ARF)،پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی (PSCA) کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی)فوجداری تحقیقاتی ایجنسی (سی آئی اے) خصوصی تحفظ یونٹ (SPU) پنجاب ایلیٹ فورس ،پنجاب باؤنڈری فورس ،پنجاب ریور پولیس ،پنجاب ٹریفک پولیس ،پنجاب ہائی وے پٹرول ،پنجاب ڈولفن فورس ،پنجاب کانسٹیبلری ۔
پولیس کا قیام 1861ء میں عمل میں آیا تھا۔۔!پاکستان میں پولیس کا محکمہ وفاقی، صوبائی اور علاقائی سطح پر مختلف حصوں میں تقسیم ہے جو امن و امان، ریاستی اجارہ داری، عوام الناس کے جان و مال کے تحفظ، جرائم کی روک تھام اور سرکاری محصولات کی وصولی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔مغل دور میں شہروں میں کوتوال (پولیس سٹیشن) میں داروغہ (پولیس انسپکٹر) اور دیہات میں چوکیدار نظام ہوتا تھا لیکن پاکستان میں موجودہ پولیس نظام، انگریز راج کی یاد ہے۔انگریزوں نے ہندوستان پر مکمل قبضہ کرنے کے بعد 17 اگست 1860ء کو ایک پولیس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 22 مارچ 1861ء کو ایک پولیس ایکٹ تشکیل دیا جس کی روشنی میں ملک گیر محکمہ پولیس قائم کیا۔ آج بھی پولیس کا محکمہ اسی ایکٹ پر قائم ہے اور اس کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔ 2002ء میں پولیس ایکٹ میں تبدیلی کی کوشش کی گئی جو کامیاب نہیں ہوئی۔
پاکستان پولیس کا باقاعدہ آغاز تو 1948ء کو ہوا لیکن موجودہ صوبوں میں سب سے پہلے انگریز دور میں تجرباتی طور پر سندھ میں 1843ء میں محکمہ پولیس کا آغاز ہوا تھا۔ پولیس ایکٹ کی منظوری کے بعد پنجاب میں 1861ء اور خیبرپختونخواہ میں 1889ئ، میں پولیس محکمے بنے۔ ون یونٹ کی تنسیخ کے بعد بلوچستان میں 1970ئ، گلگت و بلتستان میں 1972ء اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 1981ء میں پولیس کے محکمے قائم ہوئے۔ ان کے علاوہ پاکستان کے زیرِ انتظام آزاد کشمیر پولیس کا بھی الگ محکمہ ہے۔ پاکستان پولیس میں چار لاکھ کے قریب اہلکار ہیں جن میں سے ایک فیصد خواتین بتائی جاتی ہیں جن کی تعداد میں اضافہ وقت کی ضرورت ہے ۔
1857ء کی جنگ آزادی کے بعد جب برصغیر میں حکومت کے انتظامی امورکی کمان ایسٹ انڈیا کمپنی نے برطانوی حکومت کے حوالے کی تو شہروں میں امن و امان کے قیام کے ذمہ دارقدیم کوتوالی نظام کو تبدیل کر کے باقاعدہ پولیس کا نظام متعارف کروایا گیا۔ شہر لاہور کا پہلا تھانہ انار کلی کے علاقہ میں 1860ء سے بھی قبل قائم کیا گیا تھا ان دنوں اسے کوتوالی کی حیثیت حاصل ہوتی تھی۔ آج کل اُسے تھانہ پرانی انار کلی کے نام سے جانا جاتا ہے۔جبکہ کوتوالی تھانہ دہلی گیٹ کے سامنے ہے جسے سی آئی اے کا ہیڈ کوارٹر بھی کہا جاتا ہے ۔ لیکن وقت کی ضرورتوں کے تحت پنجاب بھر میں سی آئی اے پولیس ختم کردی گئی لاہور سمیت پنجاب بھر میں سی آئی اے پولیس ختم کر کے اسے آرگنائزڈ کرائم کا نام دے دیا گیا۔ محکمہ قانون پنجاب نے سی آئی اے پولیس ختم اور اسکی جگہ نیا کرائم یونٹ تشکیل اور پولیس آرڈر میں ترمیم کرتے ہوئے اس نئے آرگنائزڈ کرائم یونٹ کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا جس کے تحت اب سی آئی اے کی جگہ نئے آرگنائزڈ کرائم یونٹ قائم کیئے جائیں گے جس کے پہلے سربراہ ڈی آئی جی لیاقت ملک تھے جبکہ اس وقت ڈی آئی جی عمران کشور ہیں۔ ہر ضلع میں ایس پی کی سربراہی میں یہ کرائم یونٹ کام کرے گا اور مقامی سطح پر ایس ایچ او کے اختیارات حاصل ہوں گے جو سنگین نوعیت کے کرائم کی تفتیش اور انکوائری کرے گا۔
کرائم یونٹ کے قیام کا مقصد یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ یونٹ سنگین نوعیت کے مقدمات کی تفتیش کرنے کے ساتھ، ضلع کا پولیس سربراہ سنگین مقدمات کی تفتیش اس یونٹ کو منتقل کرے گا، سنگین مقدمات میں قتل، اجتماعی زیادتی، دہشت گردی، اغواء برائے تاوان، ڈکیتی قتل سمیت دیگر جرائم شامل ہیں۔
اس وقت اس شعبے کے پولیس آفیسر عمران کشور نے نہ صرف لاہور کو حقیقی معنوں میں امن کا گہوارہ بنانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے ہے بلکہ مصنوعی نہیں حقیقی بنیادوں پر شہر میں جرائم کی شرح میں کمی لاکر ادارے کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔ ڈی آئی جی عمران کشور کے پروفیشنلزم اور ماتحت دوست اقدامات اس با ت کا شاہد ہے کہ اس شعبے میں ایک بہترین افسر موجود ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ ان سے پنجاب کے آئی جی ڈاکٹر عثمان انور اور سی سی پی او بلال صدیق کمیانہ بھی خوش ہیں۔آپریشن پولیس کی طرح آرگنائزڈ کرائم یونٹ کے سربراہ ڈی آئی جی عمران کشور کی خدمات بھی مثالی ہیں۔ انہوں نے شہر سے بڑے بڑے نہ صرف گینگ کا خاتمہ کیا ہے بلکہ چیلنج سمجھے جانے والے مقدمات کو ٹریس کرکے حکومت کی گڈگورنس کا باعث بنے ہیں۔آرگنائزڈ کرائم یونٹ کی پوری ٹیم نے جس طرح دن رات لگن سے کام کر کے نہ صرف خطر ناک ڈاکوؤں کو گرفتار کیا ہے بلکہ اربوں روپے نقدی اور دیگر مال مسروقہ سامان برآمد کر کے متاثرین کو ریکارڈ ریکوریاں بھی دی ہیں جس سے آج لوگ لاہور پولیس کو دعائیں دے رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: ا رگنائزڈ کرائم یونٹ پولیس ایکٹ ڈی ا ئی جی میں پولیس سی ا ئی اے پولیس کا جرائم کی پولیس ا کام کر کے بعد

پڑھیں:

پاکستان میں مون سون کی بارشیں کب شروع ہوں گی؟

ڈائریکٹر جنرل محکمہ موسمیات مہر صاحبزاد خان نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ رواں سال مون سون سیزن 15 جون سے 15 ستمبر تک جاری رہے گا۔ اگرچہ یہ سیزن عمومی طور پر 3 ماہ پر محیط ہوتا ہے، تاہم اس سال اس کے جلد آغاز اور تاخیر سے اختتام کے امکانات بھی موجود ہیں۔

ڈی جی موسمیات کے مطابق شمال مشرقی پنجاب، کشمیر، اور ملک کے دیگر وسطی و جنوبی حصوں میں شدید بارشوں کا امکان ہے، جبکہ گلگت بلتستان اور شمالی خیبر پختونخوا میں بارشیں معمول سے کم ہوں گی، مگر درجۂ حرارت بلند رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے مون سون 2025: معمول سے زیادہ بارشیں، سیلاب اور اربن فلڈنگ کا خطرہ، محکمہ موسمیات

دوسری طرف چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ ملک میں 26 یا 27 جون کو مون سون کے داخل ہونے کا امکان ہے، مون سون کا سیزن جولائی سے 15 ستمبر تک چلتا ہے تاہم اس سال تین چار روز قبل آئے گا۔ اور  رواں سال مون سون میں زیادہ بارشیں متوقع ہیں۔

اسی طرح سینیٹر شیری رحمان کی زیر صدارت سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کے اجلاس میں بھی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے حکام نے  اپنی بریفنگ میں بتایا تھا کہ پاکستان میں زیادہ تر مون سون بارشیں شمالی اور مشرقی پنجاب میں ہوں گی، گلیشئرز کے پگھلنے سے لوکل فلڈز، نالوں میں طغیانی آئے گی۔ حکام نے امکان ظاہر کیا کہ پنجاب میں راجن پور اور ڈی جی خان میں بھی زیادہ بارشیں ہوسکتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے رواں سال معمول سے زیادہ مون سون بارشیں متوقع ہیں، محکمہ موسمیات

بریفنگ میں مزید بتایا گیا تھا کہ پنجاب میں 344 ملی میٹر بارش ہوتی ہے تاہم اس بار 388 ملی میٹر بارش ہو سکتی ہے۔ شمالی مشرقی پنجاب میں بارش 50 فیصد زیادہ ہوگی جبکہ جنوبی پنجاب میں بھی زیادہ بارش ہوگی۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ شمالی خیبر پختونخوا میں کم جبکہ جنوبی خیبر پختونخوا میں معمول یا معمول سے کچھ زیادہ بارشیں ہوں گی۔ اسی طرح چترال اور گلیشیر والے علاقوں میں بارش کم ہونے کا امکان ہے۔

حکام کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں عام طور پر 243 ملی میٹر بارش ہوتی ہے تاہم  اس سال 300 ملی میٹر بارش ہو سکتی ہے۔ آزاد کشمیر میں بھی زیادہ بارش ہو گی۔ بلوچستان میں کم بارش ہوگی اور درجہ حرارت زیادہ ہوگا۔ مون سون میں کلاؤڈ برسٹ بھی زیادہ ہوں گے۔

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مون سون 2025 مون سون پاکستان

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں مون سون کی بارشیں کب شروع ہوں گی؟
  • بجٹ میں پٹرول کی بجائے بیماریوں کی وجہ بننے والے الٹرا پراسیسڈ خوراک پر ٹیکس کیوں نہیں ۔ مائرین صحت کا حکومت سے مطالبہ
  •  پاکستان کو انسدادِ دہشتگردی کمیٹی کا نائب سربراہ کیوں بنایا؟بھارت کا سلامتی کونسل سے شکوہ
  • وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب تنخواہ نہیں لیتیں، عظمیٰ بخاری
  • غزہ پر اسرائیلی جارحیت جاری، شہداء کی تعداد 55 ہزار سے تجاوز کر گئی
  • پاکستان کو مسلسل بجٹ خسارے کا سامنا کیوں ہے؟
  •  برطانیہ میں اسرائیلی نیوی کے یونٹ کے خلاف جنگی جرائم کی شکایت دائر
  • پنجاب پولیس کے 2 شیر دل جوانوں کا نہتے غریب مزدور پر بیچ چورہے تشدد، شرمناک ویڈیو بھی سامنے آگئی
  • ۔200 یونٹس کے ریٹ کا 201 یونٹ پر یکدم بدل جانا مصیبت ہے، سعد رفیق
  • 200 یونٹس استعمال کے ریٹ کا 201 یونٹ پر یکدم بدل جانا مصیبت ہے