پنجاب ،سی آئی اے ختم ’’آرگنائزڈ کرائم یونٹ‘‘ کیوں ؟
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
کسی بھی معاشرے میں پولیس کیوں ضروری ہے اس کا جواب بظاہر تو بڑا سیدھا سادہ ہے کہ جب معاشرہ ہو گا تو اس میں باہمی لڑائی جھگڑے اور جرائم بھی ہوں گے جس کے لئے پولیس ضروری ہے لیکن اہم بات یہ ہے جیسے جیسے انسان نے ترقی کی ویسے ہی جرائم کی نوعیت بھی بدلتی گئی یوں پولیس میں مختلف شعبوں کے وجود نے جنم لیا ۔پنجاب پولیس امن و امان قائم اور قانون پر عملدرآمد کروانے کا پابند ادارہ ہے جو صوبہ پنجاب میں امن و امان برقرار رکھنے کا ذمہ دار ہے۔ انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب (آئی جی پنجاب) کے ماتحت کام کرتا ہے۔ یہ پولیس ایکٹ 1861 اور 2002 کے تحت صوبہ پنجاب، پاکستان میں مجرموں کے خلاف کارروائی کرکے تمام فوجداری مقدمات کو کنٹرول کرتا ہے۔23 جنوری 2023ء سے ڈاکٹر عثمان انور آئی جی پنجاب پولیس کام کر رہے ہیں۔ جرائم کی بدلتی نوعیت اور تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے پولیس میں نئے شعبوں کا قیام عمل میں لایا گیا جن میں اینٹی رائٹ فورس (ARF)،پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی (PSCA) کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی)فوجداری تحقیقاتی ایجنسی (سی آئی اے) خصوصی تحفظ یونٹ (SPU) پنجاب ایلیٹ فورس ،پنجاب باؤنڈری فورس ،پنجاب ریور پولیس ،پنجاب ٹریفک پولیس ،پنجاب ہائی وے پٹرول ،پنجاب ڈولفن فورس ،پنجاب کانسٹیبلری ۔
پولیس کا قیام 1861ء میں عمل میں آیا تھا۔۔!پاکستان میں پولیس کا محکمہ وفاقی، صوبائی اور علاقائی سطح پر مختلف حصوں میں تقسیم ہے جو امن و امان، ریاستی اجارہ داری، عوام الناس کے جان و مال کے تحفظ، جرائم کی روک تھام اور سرکاری محصولات کی وصولی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔مغل دور میں شہروں میں کوتوال (پولیس سٹیشن) میں داروغہ (پولیس انسپکٹر) اور دیہات میں چوکیدار نظام ہوتا تھا لیکن پاکستان میں موجودہ پولیس نظام، انگریز راج کی یاد ہے۔انگریزوں نے ہندوستان پر مکمل قبضہ کرنے کے بعد 17 اگست 1860ء کو ایک پولیس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 22 مارچ 1861ء کو ایک پولیس ایکٹ تشکیل دیا جس کی روشنی میں ملک گیر محکمہ پولیس قائم کیا۔ آج بھی پولیس کا محکمہ اسی ایکٹ پر قائم ہے اور اس کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔ 2002ء میں پولیس ایکٹ میں تبدیلی کی کوشش کی گئی جو کامیاب نہیں ہوئی۔
پاکستان پولیس کا باقاعدہ آغاز تو 1948ء کو ہوا لیکن موجودہ صوبوں میں سب سے پہلے انگریز دور میں تجرباتی طور پر سندھ میں 1843ء میں محکمہ پولیس کا آغاز ہوا تھا۔ پولیس ایکٹ کی منظوری کے بعد پنجاب میں 1861ء اور خیبرپختونخواہ میں 1889ئ، میں پولیس محکمے بنے۔ ون یونٹ کی تنسیخ کے بعد بلوچستان میں 1970ئ، گلگت و بلتستان میں 1972ء اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 1981ء میں پولیس کے محکمے قائم ہوئے۔ ان کے علاوہ پاکستان کے زیرِ انتظام آزاد کشمیر پولیس کا بھی الگ محکمہ ہے۔ پاکستان پولیس میں چار لاکھ کے قریب اہلکار ہیں جن میں سے ایک فیصد خواتین بتائی جاتی ہیں جن کی تعداد میں اضافہ وقت کی ضرورت ہے ۔
1857ء کی جنگ آزادی کے بعد جب برصغیر میں حکومت کے انتظامی امورکی کمان ایسٹ انڈیا کمپنی نے برطانوی حکومت کے حوالے کی تو شہروں میں امن و امان کے قیام کے ذمہ دارقدیم کوتوالی نظام کو تبدیل کر کے باقاعدہ پولیس کا نظام متعارف کروایا گیا۔ شہر لاہور کا پہلا تھانہ انار کلی کے علاقہ میں 1860ء سے بھی قبل قائم کیا گیا تھا ان دنوں اسے کوتوالی کی حیثیت حاصل ہوتی تھی۔ آج کل اُسے تھانہ پرانی انار کلی کے نام سے جانا جاتا ہے۔جبکہ کوتوالی تھانہ دہلی گیٹ کے سامنے ہے جسے سی آئی اے کا ہیڈ کوارٹر بھی کہا جاتا ہے ۔ لیکن وقت کی ضرورتوں کے تحت پنجاب بھر میں سی آئی اے پولیس ختم کردی گئی لاہور سمیت پنجاب بھر میں سی آئی اے پولیس ختم کر کے اسے آرگنائزڈ کرائم کا نام دے دیا گیا۔ محکمہ قانون پنجاب نے سی آئی اے پولیس ختم اور اسکی جگہ نیا کرائم یونٹ تشکیل اور پولیس آرڈر میں ترمیم کرتے ہوئے اس نئے آرگنائزڈ کرائم یونٹ کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا جس کے تحت اب سی آئی اے کی جگہ نئے آرگنائزڈ کرائم یونٹ قائم کیئے جائیں گے جس کے پہلے سربراہ ڈی آئی جی لیاقت ملک تھے جبکہ اس وقت ڈی آئی جی عمران کشور ہیں۔ ہر ضلع میں ایس پی کی سربراہی میں یہ کرائم یونٹ کام کرے گا اور مقامی سطح پر ایس ایچ او کے اختیارات حاصل ہوں گے جو سنگین نوعیت کے کرائم کی تفتیش اور انکوائری کرے گا۔
کرائم یونٹ کے قیام کا مقصد یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ یونٹ سنگین نوعیت کے مقدمات کی تفتیش کرنے کے ساتھ، ضلع کا پولیس سربراہ سنگین مقدمات کی تفتیش اس یونٹ کو منتقل کرے گا، سنگین مقدمات میں قتل، اجتماعی زیادتی، دہشت گردی، اغواء برائے تاوان، ڈکیتی قتل سمیت دیگر جرائم شامل ہیں۔
اس وقت اس شعبے کے پولیس آفیسر عمران کشور نے نہ صرف لاہور کو حقیقی معنوں میں امن کا گہوارہ بنانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے ہے بلکہ مصنوعی نہیں حقیقی بنیادوں پر شہر میں جرائم کی شرح میں کمی لاکر ادارے کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔ ڈی آئی جی عمران کشور کے پروفیشنلزم اور ماتحت دوست اقدامات اس با ت کا شاہد ہے کہ اس شعبے میں ایک بہترین افسر موجود ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ ان سے پنجاب کے آئی جی ڈاکٹر عثمان انور اور سی سی پی او بلال صدیق کمیانہ بھی خوش ہیں۔آپریشن پولیس کی طرح آرگنائزڈ کرائم یونٹ کے سربراہ ڈی آئی جی عمران کشور کی خدمات بھی مثالی ہیں۔ انہوں نے شہر سے بڑے بڑے نہ صرف گینگ کا خاتمہ کیا ہے بلکہ چیلنج سمجھے جانے والے مقدمات کو ٹریس کرکے حکومت کی گڈگورنس کا باعث بنے ہیں۔آرگنائزڈ کرائم یونٹ کی پوری ٹیم نے جس طرح دن رات لگن سے کام کر کے نہ صرف خطر ناک ڈاکوؤں کو گرفتار کیا ہے بلکہ اربوں روپے نقدی اور دیگر مال مسروقہ سامان برآمد کر کے متاثرین کو ریکارڈ ریکوریاں بھی دی ہیں جس سے آج لوگ لاہور پولیس کو دعائیں دے رہے ہیں۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: ا رگنائزڈ کرائم یونٹ پولیس ایکٹ ڈی ا ئی جی میں پولیس سی ا ئی اے پولیس کا جرائم کی پولیس ا کام کر کے بعد
پڑھیں:
امریکہ پاکستان سے تیل کا معاہدہ کیوں کر رہا ہے؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 اگست 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کو پاکستان کے تیل کے ذخائر کی مشترکہ ترقی کے لیے ایک نئے معاہدے کا اعلان کیا کیونکہ دونوں ممالک تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو وسعت دینے پر کام کر رہے ہیں۔
ٹرمپ نے اپنے پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں لکھا، "ہم نے ابھی پاکستان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت پاکستان اور امریکہ اپنے تیل کے بڑے ذخائر کو ترقی دینے کے لیے مل کر کام کریں گے۔
"یہ بہرحال واضح نہیں ہو سکا کہ ٹرمپ کس "بڑے پیمانے پر" تیل کے ذخائر کا حوالہ دے رہے تھے۔ سینٹرل بینک کے اعداد و شمار کے مطابق تیل پاکستان کی سب سے بڑی درآمدی شے ہے، جو پاکستان کی کل درآمدی اخراجات کا تقریباً 20 فیصد ہے۔
(جاری ہے)
اس میں سے زیادہ تر تیل مشرق وسطیٰ کے ممالک سے آتا ہے۔
اس کے باوجود، ٹرمپ نے اس معاہدے کو ممکنہ طویل مدتی توانائی کی شراکت داری کے لیے "ایک اہم آغاز" قرار دیا۔
اس شراکت داری کا اعلان ٹرمپ نے جمعرات کو وائٹ ہاؤس کی جانب سے پاکستان کے ساتھ وسیع تر تجارتی معاہدے کا اعلان کرنے سے قبل کیا تھا۔ اس کے فوراً بعد امریکا میں پاکستانی درآمدات پر 19 فیصد ٹیرف کی شرح کا اعلان بھی کر دیا گیا، جو کہ پہلے کی 29 فیصد کی شرح سے کم ہے۔
پاکستان کا 'تاریخی معاہدے' کا خیر مقدمدونوں ممالک نے پاک امریکہ تجارتی معاہدے کو بھی سراہا ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے اسے ایک "تاریخی معاہدہ" قرار دیا اور کہا یہ "ہمارے بڑھتے ہوئے تعاون کو مزید بڑھا دے گا۔"پاکستان کی وزارت خزانہ کے مطابق یہ معاہدہ "خاص طور پر توانائی، کانوں اور معدنیات، آئی ٹی، کریپٹو کرنسی اور دیگر شعبوں میں اقتصادی تعاون کے ایک نئے دور کا آغاز ہے۔"
اس کے علاوہ جمعہ کو پاکستان نے ٹیرف کی نئی شرح کا بھی خیرمقدم کیا، وزارت خزانہ نے اسے امریکہ کی جانب سے "متوازن اور مستقبل کے حوالے سے دور اندیشانہ" قرار دیا۔
نیویارک میں مقیم بین الاقوامی امور کے ماہر عظیم خالد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "یہ پیشرفت پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں ایک دلچسپ تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے، روایتی طور پر جغرافیائی سیاسی اور تزویراتی شراکت داری سے زیادہ اقتصادی طور پر مرکوز تعاون کی طرف۔"
امریکہ نے بھارت پر 25 فیصد ٹیرف عائد کیا ہے جبکہ پاکستان پر اس کی شرح کم رکھی ہے۔
تیل کے معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے ٹرمپ نے نئی دہلی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ بھارت ایک دن پاکستانی تیل خرید سکتا ہے۔''کون جانتا ہے، شاید وہ کسی دن بھارت کو تیل بیچ رہے ہوں گے!‘‘
دریں اثناء روئٹرز نیوز ایجنسی نے جمعہ کو رپورٹ کیا کہ پاکستان کی سب سے بڑی آئل ریفائنر Cnergyico نے کہا کہ وہ اپنے تجارتی پارٹنر Vitol کے ذریعے اکتوبر میں 10 لاکھ بیرل امریکی خام تیل درآمد کرے گا، جو کہ ایک ڈچ توانائی اور اجناس کی تجارتی کمپنی ہے۔
Cnergyico کے وائس چیئرمین اسامہ قریشی نے روئٹرز کو بتایا، "اگر یہ تجارتی طور پر قابل عمل اور دستیاب ہے، تو ہم ماہانہ کم از کم ایک کارگو درآمد کر سکتے ہیں۔"
جہاں تک پاکستانی تیل کا تعلق ہے، اس معاہدے سے پہلے پاکستان نے اس کی تلاش میں کئی ناکام کوششیں کی ہیں۔ پاکستان کے قابل بازیافت روایتی خام تیل کے ذخائر کا تخمینہ 234 ملین سے 353 ملین بیرل تک ہے، جس سے یہ ملک تیل کے ذخائر کے لحاظ سے دنیا میں تقریباً 50ویں نمبر پر ہے۔
توانائی، بلوچستان میں سکیورٹی سے منسلکخیال کیا جاتا ہے کہ غیر استعمال شدہ تیل کے ذخائر بلوچستان میں موجود ہیں، جبکہ سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اس کے اضافی امکانات ہیں۔ بلوچستان میں وسائل کی ڈیولپمنٹ بہت سے سکیورٹی مسائل کے ساتھ جڑی ہے کیونکہ اسے ایک مسلح باغی تحریک کے مرکز کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
بلوچ باغی پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے صوبے کے قدرتی وسائل کے حصول کو معاشی استحصال کی ایک شکل سمجھتے ہیں اور اکثر اس قسم کے منصوبوں کو حملوں سے نشانہ بناتے ہیں۔
تجارتی قانون کے ماہر اسامہ ملک کے مطابق بلوچستان سے تیل نکالنے سے مقامی آبادی خو کو مزید تنہا محسوس کر سکتی ہے۔ جو پہلے ہی چین کی جانب سے صوبے میں معدنی وسائل کی تلاش سے ناراض ہے۔
ماہرین حالیہ معاہدے کے بارے میں محتاط انداز میں پرامید ہیں کیونکہ اس سے سرمایہ کاری راغب کی جا سکتی ہے اور تیل نکالنے کی جدید ٹیکنالوجیز سمیت نئے فیلڈ سروے میں سہولت فراہم ہو سکتی ہے۔
تاہم، تصدیق شدہ ذخائر اور ضروری بنیادی ڈھانچے کے بغیر پیٹرولیم مصنوعات کا حصول غیر یقینی ہے۔سکیورٹی تجزیہ کار قمر چیمہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "جب امریکی کمپنیاں بلوچستان میں آئی گی، تو یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ وہاں شورش اپنے عروج پر نہیں ہوگی۔"
انہوں نے مزید کہا، "جیسے جیسے ان گروپوں کی حمایت کم ہوتی جائے گی، یہ شورش میں کمی یا ممکنہ خاتمے کا باعث بنے گی۔
" پاکستان میں امریکہ کے جیو پولیٹیکل مفادات کیا ہیں؟ایران اور افغانستان سے تعلقات کے پیش نظر امریکہ کے بلوچستان میں تزویراتی مفادات ہیں۔
چیمہ نے کہا، "واشنگٹن بلوچستان میں اپنی موجودگی قائم کرنے پر توجہ مرکوز کر رہا ہے، جو معدنیات سے مالا مال ہے اور ایران سے قریب ہونے کی وجہ سے اہم اسٹریٹجک اہمیت کا حامل ہے۔
"واشنگٹن بلوچستان کو ایرانی سرگرمیوں کے لیے ایک ممکنہ نگرانی اور دباؤ کے مقام کے طور پر دیکھتا ہے، خاص طور پر ایران کے جوہری پروگرام اور اس کے علاقائی اثر و رسوخ کے حوالے سے جاری کشیدگی کے دوران۔
اس معاہدے کے ممکنہ اثرات بھی ہیں کیونکہ واشنگٹن کا مقصد چین پر پاکستان کے بڑھتے ہوئے انحصار کو کم کرنا ہے۔
تجارتی قانون کے ماہر ملک نے کہا، "اسلام آباد کو توانائی اور معدنیات کے شعبے میں قابل ذکر چینی سرمایہ کاری اور امریکہ کی جانب سے مستقبل کی سرمایہ کاری کے درمیان بھی توازن قائم کرنا ہوگا۔
"چین پاکستان میں ریل اور روڈ روابط کی ترقی کے لیے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ 65 بلین ڈالر کے چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) منصوبے کا مقصد چینی سامان کو سنکیانگ کے علاقے سے پاکستان کے پہاڑی علاقوں سے گزارتے ہوئے بلوچستان کی گوادر بندرگاہ پر بحیرہ عرب تک پہنچانا ہے۔
بین الاقوامی امور کے ماہر خالد نے کہا، "چین کے نقطہ نظر سے، امریکی کمپنیوں کا پاکستان کے وسائل کی تلاش کے شعبے میں داخلہ چینی تیل اور معدنیات کی فرموں کے لیے ایک مسابقتی چیلنج ہے۔
پھر بھی، پاکستان اور چین کے تعلقات کی تاریخی گہرائی کو دیکھتے ہوئے، یہ صورت حال تنازعے کے بجائے سفارتی پل کا کام کر سکتی ہے۔"سکیورٹی ماہر قمر چیمہ کا خیال ہے کہ پاکستان فوجی سازوسامان کے لیے چین پر اور میکرو اکنامک استحکام کے لیے، خاص طور پر آئی ایم ایف کے ذریعے امریکہ پر انحصار کرتا ہے۔
چیمہ کے بقول اس معاہدے سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان اقتصادی شراکت داری کو مضبوط کرنے کا امکان ہے۔ "اس کے ساتھ امریکہ خطے میں بھارت کے علاوہ ایک متبادل اتحادی قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔"
ادارت: عرفان آفتاب / شکور رحیم