مسلمانوں کی زبوں حالی کا مجرم کون؟
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
معصوم مرادآبادی
مسلمانوں کے تعلق سے ملک کے موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو وہ کئی اعتبارسے بہت پریشان کن ہیں۔ یوں توآزادی کے بعد سے ہی یہ تکلیف دہ سلسلہ جاری ہے ۔اس کا سبب ملک کی تقسیم کا افسوس ناک واقعہ ہے ۔فرقہ وارانہ فسادات، منفی پروپیگنڈے نے انھیں حرف غلط بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔ فرقہ پرست اور فسطائی طاقتیں انھیں دیوار سے لگانے میں مسلسل مصروف رہی ہیں، لیکن ان حالات سے لڑنے کے لیے مسلمانوں کو جس حکمت سے کام لینا چاہئے تھا، وہ نہیں لیا گیا۔ اس عرصے میں مسلم قیادت نے بھی انھیں محض جذباتی مسائل میں الجھاکر مخالفین کے ایجنڈے کو دانستہ یا نادانستہ طورپر پورا کیا۔ اس عرصے میں مسلمانوں کی عملی قوت کو بروئے کارلانے کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ اس کی ذمہ داری اس مسلم قیادت پرزیادہ عائد ہوتی ہے جس نے صالح قیادت کاکردار ادا کرنے کی بجائے مسلمانوں کو ایک سیاسی ریوڑ کی طرح اپنے حقیر مفادات کے لیے استعمال کیا۔
مسلمانوں میں سیاسی اور سماجی شعور کے فقدان نے ایک ایسی صورتحال کو جنم دیا ہے ، جس کا کوئی مداوا نظر نہیں آتا۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسلمان سیاسی، سماجی،تعلیمی اور معاشی بھنور میں پھنس گئے ہیں۔ ملک کی آزادی میں بے مثال اور سرفروشانہ خدمات انجام دینے کے باوجود آج ملک میں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔وہ بیگانوں جیسی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔وہ سیکولر پارٹیاں جنھیں مسلمانوں نے اپنا مسیحا سمجھا تھا، انھوں نے انھیں منجھدار میں چھوڑ دیا ہے ۔ ان کا ووٹ حاصل کرنے کے باوجود ان کی بدحالی دور کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ آنجہانی اندرا گاندھی کے دور میں ‘وزیراعظم کا پندرہ نکاتی پروگرام’ کی بہت دھوم تھی،جو اقلیتوں کی فلاح وبہبود کے لیے وضع کیا گیا تھا اور ریاستوں کو اس کے نفاذ کی ذمہ داری سوپنی گئی تھی، لیکن اس کا نتیجہ صفر ہی رہا۔البتہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کی وزارت عظمیٰ کے زمانے میں سچر کمیٹی بنائی گئی، جس نے ملک گیر سطح پر مسلمانوں کی سیاسی، سماجی،معاشی اور تعلیمی بدحالی کا جائزہ لے کر بڑی دردناک تصویر پیش کی۔ اس کمیٹی کی کوکھ سے ملک میں پہلی بار اقلیتی امور کی مرکزی وزارت وجودمیں آئی، جس نے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی اور فنی استعداد کو فروغ دینے کے لیے کچھ عملی اقدامات کئے ، لیکن مودی سرکار کے اقتدار میں آنے کے بعد اس وزارت کے بال وپر پوری طرح کتر دئیے گئے اور اس کا وزیر بھی کسی غیر مسلم کو بنادیا گیا۔ موجودہ حکومت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس میں مسلمانوں ی کوئی نمائندگی نہیں ہے ۔ نہ ہی اس حکومت کو مسلمانوں سے کوئی سروکار ہے ۔ وہ مسلم مسائل پر گفتگو کرنا بھی پسندنہیں کرتی کیونکہ اس کے نزدیک یہ ‘نازبرداری’ ہے ۔آج مسلمان دوہرائے پر کھڑے ہیں۔ نہ تو ان کے پاس کوئی مضبوط قیادت ہے اور نہ ہی مستقبل کی کوئی منصوبہ بندی۔ جو کچھ ٹوٹی پھوٹی قیادت تھی، اسے داروگیر کے مراحل سے دوچار کرکے عضو معطل بنادیا گیا ہے ۔حکومت صرف ہندوراشٹر کے منصوبے میں رنگ بھرنے میں لگی ہوئی ہے ۔ گزشتہ دس برسوں سے جب سے ملک میں اقتدار تبدیل ہوا ہے تب سے صورتحال بہت سنگین ہوگئی ہے ۔ اس حکومت نے مسلمانوں کو اجنبی بنانے کی کامیاب کوششیں کی ہیں۔ ان کے پرسنل لاء پر حملہ کرکے یکساں سول کوڈکی راہ ہموار کی جاری ہیں۔مسلمانوں کی شدید مخالفت کے باوجود طلاق ثلاثہ کو قابل سزا جرم قرار دے دیا گیا ہے ۔ مذہب کی تبلیغ جس کی اجازت ملک کا آئین بھی دیتا ہے ، اس پر پہرے بٹھادئیے گئے ہیں اور جو لوگ اس کام میں مصروف تھے ، انھیں سنگین دفعات کے تحت جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ ‘لوجہاد’کی نام نہاد اصطلاح وضع کرکے بین المذاہب شادیوں پر پابندی لگادی گئی ہے ۔ کھربوں روپوں کے اوقاف کا تیاپانچہ کرنے کے لیے وقف ایکٹ میں ترمیم کی جارہی ہے ۔اوقاف کو ‘زمین مافیا’ کہا جارہا ہے ۔ سب سے خطرنا ک حملے مسجدوں،مزاروں اور درگاہوں پر ہورہے ہیں۔ ہر عالیشان مسجد کے نیچے ایک مندر ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے ۔ ملک کی عدلیہ اس کام میں معاون کا کردار اداکررہی ہے ۔ غرضیکہ ان حالات پر نظر ڈالئے تو خوف وہراس کے سوا کچھ پیدا نہیں ہوتا مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ حالات چاہے کتنے ہی سنگین کیوں نہ ہوں، ان کے آگے سپر نہیں ڈالنا چاہئے ۔مایوسی کفر ہے اور ناامیدی گناہ۔مگر سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مخالفین کی سازشوں اور منافقین کی یورشوں کے باوجود مسلمان اپنی دنیا میں مست ہے ۔ صرف چند لوگ ہیں جو حالات کی کلائی موڑنے کی سعی ناکام کرتے رہتے ہیں، مگر موجودہ ماحول میں عام مسلمانوں کے اندر جو بیداری نظر آنی چاہئے ،اس کی زبردست کمی محسوس ہوتی ہے ۔ کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ مسلمان اپنی صفوں کو درست کریں؟یہاں سب سے بڑاسوال یہی ہے کہ آخرمسلمان کریں تو کیا کریں اور وہمسلمان امت واحدہ اور صالحہ کیسے بنیں؟ اس کے لیے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ مسلمان اپنے کردار کو درست کریں۔ ان کے اندر اسلامی تعلیمات کو اختیار کرنے کی کمی سب سے زیادہ ہے ۔ جھوٹ فریب، بے ایمانی اور بدمعاملگی ان کی پہچان بن گئی ہے ۔ وہ مسلمان جو کسی زمانے میں سچائی اور ایمانداری کا پیکرکہلاتے تھے ، بے ایمانی، جھوٹ، فریب اور سودخوری جیسے گناہوں میں ڈوب گئے ہیں۔ بظاہر اسلامی وضع قطع اختیار کرنے والے لوگوں کے معاملات بھی درست نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نصرت الٰہی سے محروم ہیں۔ ان کی عبادتیں اور دعائیں رائیگاں جارہی ہیں۔ سب سے زیادہ ضروری ہے کہ مسلمان اپنے کردار کو اسلام کے سانچے میں ڈھالیں۔ دوسرے ان کے اندرجو فروعی اختلافات ہیں انھیں دور کیا جائے۔ علمائے کرام کی جو توانائی مسلکی تنازعات میں صرف ہوتی ہے ، وہ مسلمانوں کو تعلیم یافتہ اور باشعور بنانے میں صرف کی جائے ۔
ذات پات کے نظام اور رعصبیت کو ختم کرکے سب کو ایک ڈوری میں پرویا جائے ۔مسلمانوں میں تعلیم کا زبردست فقدان ہے ۔ اس کے ساتھ مسلم آبادیوں میں طبی سہولتوں کی بہت کمی ہے ۔ متمول مسلمان اپنی دولت شادیوں اور مکانوں کی تعمیر پر خرچ کرنے کی بجائے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور مسلم علاقوں میں نرسنگ ہوم کھولنے پر خرچ کریں۔ یہ کام پیشہ ورانہ بنیادوں پر بھی کیا جاسکتا ہے ۔مجلس اتحاد المسلمین نے حیدرآباد میں اعلیٰ تعلیم کے اداروں اور بہترین اسپتالوں کا جو جال پھیلایا ہے ، اس سے وہاں کے لوگ بہت استفادہ کررہے ہیں۔ برادرم اسدالدین اویسی نے ایک روز حیدرآباد میں مجھے ان اداروں کا نظارہ کرایا تو میں حیرت زدہ رہ گیا۔ کاش شمالی ہند کے مسلمان بھی اس کی پیروی کرسکتے ۔شمالی ہند میں جماعت اسلامی نے دہلی کے اوکھلا علاقہ میں الشفاء اسپتال قائم کرکے ایک اچھی پہل کی ہے ۔ایسے مزید اسپتال کھولنے چاہئیں۔مسلم خواتین بچوں کی پیدائش کے دوران سرکاری اسپتالوں میں جن رسوائیوں سے دوچار ہوتی ہیں، ان کا
ازالہ اپنے میٹرنٹی ہوم کھول کرکیا جاسکتا ہے ۔اپنے بچوں کی تربیت پر خاص دھیان دینے کی ضرورت ہے کہ وہ کس قسم کے ماحول میں رہتے ہیں اور ان کا رابطہ کن ہم جولیوں کے ساتھ ہے ۔مسلم علاقوں میں گالی گفتاری کا ماحول عام ہوتا ہے ، جس کا بہت برا اثر ذہنی اور شعوری تربیت پر پڑتا ہے ۔ رات گئے تک نوجوان لڑکے خواہ مخواہ سڑکوں پر مٹرگشتی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ آوارگی بہت سے مسائل کو جنم دیتی ہے ۔ اس سے حتی المقدور اپنے بچوں کو محفوظ رکھیں۔ ایک بڑا مسئلہ مسلم دانشوروں کے درمیان تال میل قایم کرنے کا بھی ہے ۔ ان کی صلاحیتوں سے بھی فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ علمائے کرام کو چاہئے کہ اختلافی موضوعات کی بجائے ان موضوعات پر گفتگو کریں جس سے اتحاد بین المسلمین کا تصور عام ہو۔ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کی روش ترک کردینی چاہئے ،کون جنت میں جائے گا، کون دوزخ کا ایندھن بنے گا، اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کو کرنے دیں کہ یہ اسی کا اختیار ہے ۔ ان امور پر عمل پیرا ہوکر ہی امت واحدہ اور امت صالحہ کا مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: ہے کہ مسلمان مسلمانوں کی مسلمانوں کو کے باوجود دیا گیا کے لیے
پڑھیں:
پاکستان کرکٹ زندہ باد
کراچی:’’ ہیلو، میچ دیکھ رہے ہو ٹی وی پر، اگر نہیں تو دیکھو کتنا کراؤڈ ہے،ٹکٹ تو مل ہی نہیں رہے تھے ، بچے، جوان، بوڑھے سب ہی قذافی اسٹیڈیم میں کھیل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، مگر تم لوگ تو کہتے ہو پاکستان میں کرکٹ ختم ہو گئی، اس کا حال بھی ہاکی والا ہو جائے گا،لوگ اب کرکٹ میں دلچسپی ہی نہیں لیتے۔
اگر ایسا ہے تو لاہور کا اسٹیڈیم کیوں بھرا ہوا ہے؟ راولپنڈی میں ہاؤس فل کیوں تھا؟ میری بات یاد رکھنا کرکٹ پاکستانیوں کے ڈی این اے میں شامل ہے، اسے کوئی نہیں نکال سکتا۔
اگر کسی بچے کا امتحان میں رزلٹ اچھا نہ آئے تو گھر والے ناراض تو ہوتے ہیں مگر اسے ڈس اون نہیں کر دیتے، اگر اس وقت برا بھلا ہی کہتے رہیں تو وہ آئندہ بھی ڈفر ہی رہے گا لیکن حوصلہ افزائی کریں تو بہتری کے بہت زیادہ چانسز ہوتے ہیں، اس لیے اپنی ٹیم کو سپورٹ کیا کرو۔
تم میڈیا والوں اور سابق کرکٹرز کا بس چلے تو ملکی کرکٹ بند ہی کرا دو لیکن یہ یاد رکھنا کہ اسپورٹس میڈیا ،چینلز اور سابق کرکٹرز کی بھی اب تک روزی روٹی اسی کھیل کی وجہ سے ہے، اگر یہ بند تو یہ سب کیا کریں گے؟
بات سمجھے یا نہیں، اگر نہیں تو میں واٹس ایپ پر اس میچ میں موجود کراؤڈ کی ویڈیو بھیجوں گا وہ دیکھ لینا،پاکستان میں کرکٹ کبھی ختم نہیں ہو سکتی، پاکستان کرکٹ زندہ باد ‘‘ ۔
اکثر اسٹیڈیم میں موجود دوست کالز کر کے میچ پر ہی تبصرہ کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان واقف کار بزرگ کا فون الگ ہی بات کیلیے آیا، وہ میرے کالمز پڑھتے ہیں، چند ماہ قبل کسی سے نمبر لے کر فون کرنے لگے تو رابطہ قائم ہو گیا، میں نے ان کی باتیں سنیں تو کافی حد تک درست لگیں۔
ہم نے جنوبی افریقہ کو ٹی ٹوئنٹی سیریز میں ہرا دیا، واقعی خوشی کی بات ہے لیکن اگر گزشتہ چند برسوں کا جائزہ لیں تو ٹیم کی کارکردگی خاصی مایوس کن رہی ہے،خاص طور پر بڑے ایونٹس میں تو ہم بہت پیچھے رہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایسا لگنے لگا کہ خدانخواستہ اب ملکی کرکٹ اختتام کے قریب ہے، کوئی بہتری نہیں آ سکتی،لوگوں نے کرکٹ میں دلچسپی لینا ختم کر دی ہے۔
البتہ ٹھنڈے دل سے سوچیں تو یہ سوچ ٹھیک نہیں لگتی، اب بھی یہ پاکستان کا سب سے مقبول کھیل ہے، اربوں روپے اسپانسر شپ سے مل جاتے ہیں، کرکٹرز بھی کروڑپتی بن چکے، اگر ملک میں کرکٹ کا شوق نہیں ہوتا تو کوئی اسپانسر کیوں سامنے آتا؟
ٹیم کے کھیل میں بہتری لانے کیلیے کوششیں لازمی ہیں لیکن ساتھ ہمیں بھی اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہمیں نجم سیٹھی یا ذکا اشرف پسند نہیں تھے تو ان کے دور میں کرکٹ تباہ ہوتی نظر آتی تھی، آج محسن نقوی کو جو لوگ پسند نہیں کرتے وہ انھیں قصور وار قرار دیتے ہیں۔
اگر حقیقت دیکھیں تو ہماری کرکٹ ان کے چیئرمین بننے سے پہلے بھی ایسی ہی تھی، پہلے ہم کون سے ورلڈکپ جیت رہے تھے، ہم کو کپتان پسند نہیں ہے تو اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، سب کو اپنا چیئرمین بورڈ، کپتان اور کھلاڑی چاہیئں، ایسا نہ ہو تو انھیں کچھ اچھا نہیں لگتا۔
یقینی طور پر سلمان علی آغا کو بطور کھلاڑی اور کپتان بہتری لانے کی ضرورت ہے لیکن جب وہ نہیں تھے تو کیا ایک، دو مواقع کے سوا ہم بھارت کو ہمیشہ ہرا دیتے تھے؟
مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے دور میں لوگوں کی ذہن سازی آسان ہو چکی، پہلے روایتی میڈیا پھر بھی تھوڑا بہت خیال کرتا تھااب تو چند ہزار یا لاکھ روپے دو اور اپنے بندے کی کیمپئن چلوا لو، پہلے پوری ٹیم پر ایک ’’ سایا ‘‘ چھایا ہوا تھا، اس کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا تھا، نئے کھلاڑیوں کی انٹری بند تھی۔
پھر برطانیہ سے آنے والی ایک کہانی نے ’’ سائے ‘‘ کو دھندلا کر دیا لیکن سوشل میڈیا تو برقرار ہے ناں وہاں کام جاری ہے، آپ یہ دیکھیں کہ علی ترین سالانہ ایک ارب 8 کروڑ روپے کی پی ایس ایل فرنچائز فیس سے تنگ آکر ری بڈنگ میں جانا چاہتے ہیں۔
لیکن سوشل میڈیا پر سادہ لوح افراد کو یہ بیانیہ سنایا گیا کہ وہ تو ہیرو ہے، ملتان سلطانز کا اونر ہونے کے باوجود لیگ کی خامیوں کو اجاگر کیا اس لیے زیرعتاب آ گیا۔
یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ یہ ’’ ہیرو ‘‘ اس سے پہلے کیوں چپ تھا،ویلوایشن سے قبل کیوں یہ یاد آیا،اسی طرح محمد رضوان کو اب اگر ون ڈے میں کپتانی سے ہٹایا گیا تو یہ خبریں پھیلا دی گئیں کہ چونکہ اس نے 2 سال پہلے پی ایس ایل میں سیروگیٹ کمپنیز کی تشہیر سے انکار کیا تو انتقامی کارروائی کی گئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا والوں نے اسے سچ بھی مان لیا، کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ بھائی واقعہ تو برسوں پہلے ہوا تھا اب کیوں سزا دی گئی اور اسے ٹیم سے تونکالا بھی نہیں گیا، یا اب تو پی ایس ایل نہ ہی پاکستانی کرکٹ کی کوئی سیروگیٹ کمپنی اسپانسر ہے، پھر کیوں کسی کو رضوان سے مسئلہ ہے؟
پی سی بی والے میرے چاچا یا ماما نہیں لگتے، میں کسی کی حمایت نہیں کر رہا لیکن آپ ہی بتائیں کہ گولیمار کراچی میں اگر ایک سابق کپتان کا سیروگیٹ کمپنی کی تشہیر والا بل بورڈ لگا ہے تو اس سے پی سی بی کا کیا تعلق۔
خیر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ چیئرمین محسن نقوی ہوں یا نجم سیٹھی، کپتان سلمان علی آغا ہو یا بابر اعظم اس سے فرق نہیں پڑتا، اصل بات پاکستان اور پاکستان کرکٹ ٹیم ہے، اسے دیکھیں، شخصیات کی پسند نا پسندیدگی کو چھوڑ کر جو خامیاں ہیں انھیں ٹھیک کرنے میں مدد دیں۔
میں بھی اکثر جوش میں آ کر سخت باتیں کر جاتا ہوں لیکن پھر یہی خیال آتا ہے کہ اس کھیل کی وجہ سے ہی میں نے دنیا دیکھی، میرا ذریعہ معاش بھی یہی ہے، اگر کبھی اس پر برا وقت آیا تو مجھے ساتھ چھوڑنا چاہیے یا اپنے طور پر جو مدد ہو وہ کرنی چاہیے؟
ہم سب کو بھی ایسا ہی سوچنے کی ضرورت ہے، ابھی ہم ایک سیریز جیت گئے، ممکن ہے کل پھر کوئی ہار جائیں لیکن اس سے ملک میں کرکٹ ختم تو نہیں ہو گی، ٹیلنٹ کم کیوں مل رہا ہے؟ بہتری کیسے آئے گی؟
ہمیں ان امور پر سوچنا چاہیے، اگر ایسا کیا اور بورڈ نے بھی ساتھ دیا تو یقین مانیے مسائل حل ہو جائیں گے لیکن ہم جذباتی قوم ہیں، یادداشت بھی کمزور ہے، دوسروں کو کیا کہیں ہو سکتا ہے میں خود کل کوئی میچ ہارنے پر ڈنڈا (قلم یا مائیک) لے کر کھلاڑیوں اور بورڈ کے پیچھے پڑ جاؤں، یہ اجتماعی مسئلہ ہے جس دن حل ہوا یقینی طور پر معاملات درست ہونے لگیں گے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)