کراچی میں قوت سماعت کی ڈیوائس کی قیمت میں اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
کراچی:
قوت سماعت سے محروم یا متاثرہونے والے افراد کے لیے کانوں میں لگائے جانے والے آلات انتہائی مہنگے ہوگئے، مختلف اقسام کے یہ آلات بیرون ممالک سے درآمد کیے جاتے ہیں۔
ایکسپریس کے مطابق دکان دارحضرات نے بتایا کہ ان آلات کی قیمت میں 30 سے50 فیصد اضافہ ہوا ہے، پاکستان میں مختلف عوامل کی وجہ سے سماعت کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے جس میں نوجوانوں میں موبائل کا مسلسل استعمال، ٹریفک کا شور، فضائی آلودگی، نامناسب علاج اور دیگرعوامل شامل ہیں۔
ماہرین کے مطابق کراچی کے بعد لاہور اور فیصل آباد جیسے بڑے شہروں میں بے تحاشہ ٹریفک شورکی وجہ سے قوت سماعت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق ٹریفک پولیس کے 75 فیصد اہلکار سماعت کے مسائل کا شکار ہیں، دوران حمل خواتین کومختلف انفیکیشن کی وجہ سے نوزائیدہ بچوں میں سماعت کی خرابی بھی بڑھ رہی ہے، تقریباً 3 فیصد سماعت کی خرابی کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، کان میں مختلف انفیکشن کا باعث بننے والے عوامل اور پیدائشی پیچیدگیاں ان مسائل کی اہم وجوہات ہیں۔
گزشتہ تین برسوں میں سماعت کے مسائل میں مبتلا بچوں کی تعداد میں مبینہ طور پر30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ہمدرد میڈیکل یونیورسٹی کراچی کے پروفیسر آف ای این ٹی ڈاکٹر سمیر قریشی نے بتایا کہ ڈالرکی وجہ سے آلہ سماعت کی قیمت 30 سے 50 فیصد اضافہ ہوا ہے، تمام آلات بیرون ممالک سے درآمد کیے جاتے ہیں، مقامی سطح پر میڈیکل ڈیوائس تیار نہیں کی جاتی، ڈالرکی قیمتوں کی وجہ سے آلہ سماعت کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تین قسم کے مریضوں کو آلہ سماعت لگائے جاتے ہیں، ان میں زائد العمرافراد کی Presbycusis بیماری کی وجہ سے سماعت شدید متاثر ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے ان کو آلہ سماعت لگایا جاتا ہے جبکہ دوسرے وہ مریض ہیں جن کے کانوں کی ہڈیاں کمزور ہوجاتی ہیں ان کو آلہ سماعت کی ضرورت ہوتی ہے، تیسرے وہ مریض ہیں جن کے کان کا پردہ پھٹ گیا ہو اور وہ کان کے پردے کا آپریشن نہیں کرانا چاہتے، ایسے مریضوں کو بھی آلہ سماعت کی ضرورت ہوتی ہے۔
ای این ٹی سرجن اور پی ایم اے کی سابقہ سیکریٹری جنرل ڈاکٹرقیصر سجاد نے ایکسپریس ٹریبون کو بتایا کہ سماعت کے آلے کی قیمت میں 40 سے 50 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے غریب مریض آلہ سماعت نہیں لگوا سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس ایسے غریب مریض آتے ہیں جن کی پاس آلہ سماعت کے پیسے نہیں ہوتے اور آلہ سماعت کے بغیر زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں، جب سماعت متاثر ہونے کے بعد آلہ سماعت کی ضرورت پڑتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سماعت متاثر ہونے کی ایک وجہ زائدالعمر افراد ہیں جبکہ دوسرے وہ لوگ جو مسلسل شور شرابے میں اپنی زندگی گزارتے ہیں، شور شرابے کی وجہ سے سننے کی رگ شدید متاثر ہوجاتی ہے اور آڈیو ٹیسٹ کے بعد ڈاکٹر ایسے مریضوں کو آلہ تجویز کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جس طرح آنکھوں کی نظرکا چشمہ اپٹومیڑی سے چیک کروا کر نمبر لیا جاتا ہے ایسی طرح کانوں کی سماعت متاثر ہونے کے بعد آڈیو ٹیسٹ کے بعد آلہ تجویزکیا جاتا ہے۔
انہوں نے اس تاثرکوغلط قرار دیا کہ ازخود سماعت کا آلہ استعمال نہ کریں کیونکہ اس کے مزید نقصانات ہوسکتے ہیں۔
ڈاکٹر قیصر سجاد نے بتایا کہ کانوں کی سماعت متاثر ہونے سے آلہ سماعت کے استعمال میں اضافہ ہوگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹریفک کے شور سے سب سے زیادہ ٹریفک پولیس اہلکار متاثر ہوتے ہیں، حکومت نے ان اہلکاروں کو کوئی حفاظتی کٹس یا سامان فراہم نہیں کیا جو حکومت کی ذمہ داری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شور کثرت سے ہینڈ فری استعمال کرنے اور دیگر وجوہات کی بنا پر ہر سال کراچی سمیت ملک بھر میں ایک اندازے کے مطابق سالانہ 3 سے 5 فیصد افراد کان کے امراض خصوصاً اونچا سننے کی بیماری میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
ایکسپورٹ کے کام سے وابستہ ایک کمپنی کے مینیجر اور کلفٹن کے رہائشی عرفان احمد نے بتایا کہ وہ کراچی بندرگاہ پر ایکسپورٹ کا کام کرتے ہیں، سارا دن ان کو کام کے سلسلے میں مختلف مقامات جانا ہوتا ہے، ٹریفیک کے شور اور کئی وجوہات کی بنا پر کان کی سماعت متاثر ہوئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ موٹر سائیکل پر سفر کرتے ہیں جس کی وجہ سے ٹیلی فون سننے کے لیے ہینڈ فری کا استعمال کرتے ہیں، آواز کم ہونے کی صورت میں میں نے ای این ٹی ڈاکٹر سے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے کان کا آلہ لگانے کی تجویر دی جس کے بعد میں نے متعلقہ ڈاکٹر کی رائے پر دونوں کان کے آلہ 35 ہزار روپے میں خریدے، مارکیٹ میں مختلف کوالٹی کے لحاظ سے مہنگی اورکم قیمتوں پر کان کے آلہ سماعت دستیاب تھے۔
نارتھ کراچی کی رہائشی 55 سالہ خاتون شاہدہ بیگم نے بتایا کہ کان کے پردے میں خرابی کی وجہ سے وہ گزشتہ 20 برسوں سے آلہ سماعت استعمال کررہی ہیں، 2 سال میں آلے کی قیمتوں میں 30 سے 50 فیصد اضافہ ہوا ہے، ایک آلہ کی قیمت 5 ہزار سے بڑھ کر7 ہزار روپے ہوگئی ہے، آلہ بمشکل ایک سے دو سال تک قابل استعمال ہوتا ہے، میرا تعلق غریب گھرانے سے ہے، ایک مخیر خاندان کان کا آلہ مجھے خرید کر دے دیتا ہے۔
صدر میں کان کے آلہ سماعت فروخت کرنے والے ایک دکان دار رحیم بیگ نے بتایا کہ کان کے تمام آلہ بیرون ملک سے درآمد کیے جاتے ہیں، یہ آلہ سماعت 3 ہزار سے لے کر ایک لاکھ روپے سے زائد میں دستیاب ہے، ڈالر کی قیمت میں اتارچڑھاوکی وجہ سے اس کے قیمت میں 30 سے 50 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، کم سماعت والے افراد اپنی مالی پوزیشن کے حساب سے آلہ خریدتے ہیں اور مختلف این جی اوز کے تحت چلنے والے مخیر حضرات کے تعاون سے غریب مریضوں میں مفت آلہ سماعت تقسیم کرتے ہیں۔
عالمی سطح پر تسلیم شدہ برانڈز سے مختلف قسم کے اعلیٰ کوالٹی کی سماعت ایڈز دستیاب ہیں، جو سماعت کے متنوع سطح کوپورا کرتی ہیں اورجدید خصوصیات پیش کرتی ہیں، یہاں کچھ نمایاں اختیارات کا خلاصہ ہے، ان میں سے بہت سے برانڈزکراچی، لاہور اوراسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں فٹنگ اورایڈجسٹمنٹ کے لیے معاون خدمات کے ساتھ دستیاب ہیں۔
قوت سماعت کے آلے کی قیمت خصوصیات کی بنیاد پر مختلف ہوتی ہیں، پریمیم آپشنز کے مقابلے انٹری لیول کے ماڈلز زیادہ سستی ہیں، اگر آپ خریداری پر غورکر رہے ہیں، توبہتر ہے کہ آپ اپنی ضروریات کے لیے موزوں ترین آلہ تلاش کرنے کے لیے سماعت کے ماہر سے رجوع کریں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ان کا کہنا تھا کہ سماعت متاثر ہونے سے آلہ سماعت آلہ سماعت کی نے بتایا کہ قوت سماعت میں مختلف میں اضافہ کی وجہ سے سے 50 فیصد کے مطابق کرتے ہیں انہوں نے کی سماعت جاتے ہیں سماعت کے کی قیمت کو آلہ کے بعد کان کے کے لیے
پڑھیں:
مہنگائی پر قابو پا لیا‘ ملکی معیشت درست سمت میں ہے‘وزیر خزانہ نے اقتصادی سروے پیش کردیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد(نمائندہ جسارت) وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت مہنگائی پر قابو پاچکی ہے جب کہ ملکی معیشت درست سمت میں جارہی ہے۔قومی اقتصادی سروے 25-2024ء پیش کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ عالمی سطح پر مجموعی پیداوار کی شرح کم ہوئی ہے اور گلوبل جی ڈی پی کا نمو 2.8 فی صد ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملکی مجموعی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے جو کہ پاکستان کی معاشی ترقی کا نشان ہے۔محمد اورنگزیبکا کہنا تھاکہ پاکستانی معاشی بحالی کو عالمی منظر نامے کے تناظر میں دیکھا جائے گا۔ 2 سال قبل (2023ء میں) ہماری مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) گروتھ منفی تھی اور مہنگائی کی شرح 29 فی صد سے بلند ہو چکی تھی، جس کے بعد حکومت نے بڑے فیصلے کیے، جس کے نتیجے میں ملکی معیشت اب بتدریج بہتر سے بہتر ہوتی جارہی ہے۔وزیر خزانہ نے کہاکہ افراط زر میں ریکارڈ کمی ہوئی ہے اور مہنگائی کی شرح کم ہوکر اب 4.6 فی صد پر آچکی ہے،ہم معیشت کا ڈی این اے بدلنا چاہ رہے ہیں، جس کے لیے کچھ اسٹرکچرل ریفارمز ناگزیر ہیں، ٹیکس اصلاحات سب کے سامنے ہیں، ڈاکٹر شمشاد اختر نے معاشی اصلاحات کا پروگرام شروع کیا ہے، ان کی تعریف کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ انرجی اصلاحات کو اویس لغاری اور علی پرویز ملک تیزی سے آگے بڑھا رہے ہیں، ڈیسکوز کے بورڈ نجی شعبے سے لائے ہیں، اس سے کارکردگی بہتر ہو رہی ہے، 1.27ٹریلن روپے کے گردشی قرضے کے حل کے لیے بینکوں سے معاہدہ بھی ہوا ہے، نگراں حکومت میں ہونے والے اچھے اقدامات کو سراہتا ہوں،حکومتی اقدامات کے نتیجے میں پالیسی ریٹ 22 فیصد سے کم ہوکر 11 فیصد پر آگیا ہے، 24 ایس او ایزکو پرائیویٹائزیشن کے حوالے کیا ہے۔ پچھلے سال پالیسی ریٹ نیچے آنے سے ڈیبٹ سروسنگ کی مد میں کافی بچت ہوئی، پنشن ریفارمز کے تحت ڈیفائنڈ کنٹری بیوشن پنشن سسٹم کی طرف جاچکے ہیں، لیکیج کا روکنا بہت ضروری ہے، اس سلسلے میں رائٹ سائزنگ کی جارہی ہیں۔ محمد اورنگزیب کے بقول 43 وزارتیں اور 400 اٹیچ ڈیپارٹمنٹس کی رائٹ سائرنگ کی جارہی ہے، بجٹ میں بتاؤں گا کہ اسے آگے کیسے لے کر جائیں گے، اسے مرحلہ وار آگے لے کر جارہے ہیں، ہم وزارتوں اور محکموں کو ضم کررہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ مشینری اور ٹرانسپورٹ کی گروتھ بڑھی ہے، ترسیلات زر میں اصافہ ہوا ہے، 37 سے38 ارب ڈالر اس سال ترسیلات زر رہنے کا امکان ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ گلوبل جی ڈی پی گروتھ مسلسل گروٹ کا شکار رہی ہے، رواں سال ہماری جی ڈی کی گروتھ 2.7 فیصد ہے، عالمی مہنگائی میں اضافے کے باوجود ہماری مہنگائی میں کمی ریکارڈ ہوئی ہے،رواں سال تک شرح سود میں بھی خاطر خواہ کمی ہوئی ہے، وزیراعظم شہباز شریف نے نگران سے پہلے ایس بی اے کے ذریعے اچھے فیصلے کیے۔انہوں نے کہا کہ نگراں حکومت نے معاشی میدان میں اچھے اقدامات لیے گئے، جولائی سے مئی کے دوران 26فیصد ٹیکس میں اضافہ ہوا ہے، 74 فیصد ریٹیلرز رجسٹریشن مزید ہوئی ہے، ہم اب مزید قرضے نہیں لینا چاہتے ہیں، اگر لیں گے تو اپنی شرائط پر لیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں قرضوں کی ادائیگیوں میں جتنا بھی بچے گا اس کو دیگر سیکٹر میں لے جائیں گے، صنعتوں کی گروتھ میں 6 فیصد تک اضافہ ہوا ہے، خدمات کے شعبے میں 2فیصد سے زاید کا اضافہ ہوا، رئیل اسٹیٹ اور تعمیرات کے شعبے میں3 فیصد تک اضافہ ہوا ہے، زرعی شعبے محض 0.6 فیصد تک بڑھا ہے۔وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ حکومت نے ایف بی آر کی کارکردگی بہتر کرنے کے لیے اصلاحات کی ہیں، ہر ٹرانسفارمیشن کے لیے 2 سے 3 سال درکار ہوتے ہیں، پاور سیکٹر اصلاحات میں ایک سال میں تاریخی ریکوری ہوئی ہے، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی گورننس میں بہتری آئی ہے، رواں مالی سال امپورٹس میں 12 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مشینری کی امپورٹ 16.5 فیصد اضافہ ہوا۔انہوں نے کہا کہ مشینری کی امپورٹ میں اضافہ معیشت کے لیے خوش آئند ہے،2 سال کے دوران ترسیلات زر میں تقریباً 10 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ بیرون ملک پاکستانی روشن ڈیجیٹل اکاونٹس کے ذریعے سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔محمد اورنگزیب نے کہا کہ رواں مالی سال انفرادی فائلرز کی تعداد میں دگنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ حکومت پرائیویٹ سیکٹر سے آئندہ اپنی شرائط پر قرض لے گی۔ پالیسی ریٹ 22 فیصد سے کم ہوکر11 فیصد پر آگیا ہے۔ قرضوں کی شرح68فیصد سے کم ہوکر65 فیصد پر آچکی ہیں۔ رواں مالی سال کے دوران ملک کے زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ ہوا ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کا مقصد معاشی استحکام لانا ہے، ٹیکنالوجی کے زیادہ استعمال سے ٹیکس محصولات میں اضافہ ہوا ہے، ٹیکس ٹوجی ڈی پی5 سال کی بلندترین سطح پرپہنچ گیا، ٹیکس اصلاحات میں ٹیکنالوجی کا بہت استعمال ہے، اب تک کی کارکردگی بہتر ہے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں، بھارتی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے آئی ایم ایف بورڈ میں پاکستان کی شدید مخالفت کی، بھارت کی کوشش تھی کہ آئی ایم ایف بورڈ کا اجلاس نہ ہو، بھارت کی کوشش تھی آئی ایم ایف بورڈ میں پاکستان کے ایجنڈے کو شامل نہ کیا جائے ، مگر پاکستان نے آئی ایم ایف شرائط پر مکمل عملدرآمد کیا۔وزیر خزانہ کے مطابق پاسکو کرپشن کا گڑھ تھا، ہم نے اچھا فیصلہ کیا اور اس سے نکل گئے ہیں، درآمدات میں16 فیصد اضافے کی وجہ زرعی شعبے کی مشینری کی درآمدات میں اضافہ ہے، موڈیز کا آؤٹ لک پاکستان سے متعلق بہتر ہوا ہے، آئی ایم ایف کی حالیہ قسط نے دشمنوں کی سازشوں کو ناکام ثابت کردیا۔محمد اورنگزیب نے کہا کہ پاک فورسز نے بھارت کو جو شکست دی ہے، اسی طرح معاشی محاذ پر بھی جنگ چل رہی تھی، بھارت کے اکنامک ڈائریکٹر نے بہت کوشش کی کہ اجلاس نہ ہو اور اگر ہو تو ہمارا معاملہ ایجنڈے پر نہ ہو۔انہوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ کا اجلاس اگست میں ہوگا، این ایف سی ایوارڈ میں آبادی کا فارمولا تبدیل کرنے پر غور ہوگا، صوبوں سے مشاورت ہوگی، اگر پاکستان کی آبادی 40 کروڑ تک پہنچ گئی تو کیا ہوگا ؟ ہمیں اس بارے میں سوچنا ہوگا۔ اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے بتایا کہ رواں سال کرنٹ اکاؤنٹ1.9ارب ڈالر سرپلس رہاہے، جون تک ترسیلات زر38ارب ڈالرتک جانے کا امکان ہے جب کہ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس8لاکھ سے تجاوز کرگئے،ان کردار اہم ہے، جولائی سے مئی تک ٹیکس ریونیو میں 26فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔وفاقی وزیرکا کہنا تھا کہ انکم ٹیکس فائلرز37لاکھ سے تجاوز کرگئے، ہائی ویلیو فائلرزمیں178فیصداضافہ ہوا، اس عرصے کے دوران سکوک اور طویل مدتی قرضوں کی میچورٹی میں بھی اضافہ ہوا ہے، ہم قرض بہ لحاظ جی ڈی پی کو65فیصد سے نیچے لانا چاہتے ہیں، ڈیبٹ منیجمنٹ آفس کو بہتر بنارہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ مالی سال کے دوران انڈسٹری کی گروتھ4.8فیصد رہی، کیمیکلز،آئرن اسٹیل کے شعبے نیچے گئے ہیں۔ سروسز کے شعبے نے2.9فیصد پر گروتھ کی۔ پچھلے سال یہ2.2فیصد تھا، انفارمیشن اور کمیونیکیشن شعبے نے6.5فیصد پر گروتھ کی۔ اسی طرح کنسٹرکشن اور رئیل اسٹیٹ3.5فیصد،فوڈ سروسز4.1فیصد اضافہ ہوا۔ ٹرانسپورٹ بھی بڑھی ہے۔وزیر خزانہ نے بتایا کہ زراعت نے0.6فیصد گروتھ کی، لائیواسٹاک نے4.7فیصد پر گروتھ کی جب کہ ہدف 3فیصد تھا۔ رواں مالی سال کے دوران چاول، مکئی سمیت بڑی فصلوں میں حکومتی مداخلت ختم کی، زرعی شعبے کے قرضوں میں بھی اضافہ ہوا، زرعی قرضے2 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افواج پاکستان نے بھارت کے خلاف اپنا لوہا منوایا ہے، دوسری طرف اقتصادی محاذ پر بھی جنگ چل رہی تھی، معاشی سیکورٹی قومی سلامتی کے لیے انتہائی اہم ہے۔وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ لوکل سرمایہ کار آئیں گے تو غیرملکی سرمایہ کاری بھی آئے گی، ایس آئی ایف سی پر توجہ ہے،یہ گیم چینجر ثابت ہوگا، ہمارامقامی وسائل پر دارومدار ہونا چاہیے، اگلے سال ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے منصوبے شروع کریں گے۔اقتصادی سروے پیش کرنے کے دوران سیکرٹری خزانہ نے بتایا کہ جتنا اخراجات پر کٹ لگایا ہے اس سے زیادہ کٹوتی ممکن نہیں تھی، آپ آج منگل کو بجٹ میں دیکھیں گے، مالیاتی خسارہ بھی 2022ء کا دیکھیں اور آج کا دیکھیں تو واضح فرق نظر آئے گا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم پرائمری سرپلس کی بات کرتے ہیں، اگر پرائمری سرپلس کا نمبر اتنا زیادہ ہے تو پھر یا ریونیو بہت بڑھ گیا ہے یا اخراجات بہت کم ہوگئے ہیں۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 14 فیصد تک لے کر جانا ہے،ہمارے ہمسایے ملک بھارت میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 18 فیصد ہے۔بجلی کی لوڈشیڈنگ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جہاں لوگ بل نہیں دیں گے وہاں لوڈ شیڈنگ تو ہوگی۔علاوہ ازیں وفاقی حکومت کے مجموعی قرضوں کا حجم رواں مالی سال 25-2024ء کے پہلے 9 ماہ میں 76 ہزار 7 ارب روپے تک پہنچ گیا۔قومی اقتصادی سروے 25-2024 ء کے مطابق مارچ کے اختتام تک حکومت کے مجموعی قرضوں کا حجم 76 ہزار 7 ارب روپے ہوگیا ہے، جس میں ملکی قرضوں کا حجم 51 ہزار 518 ارب روپے اور بیرونی قرضوں کا حجم 24 ہزار 489 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا۔ سروے میں بتایا گیا کہ مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں سرکاری قرضوں پر سود کی ادائیگی کا حجم 6 ہزار 439 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا، جس میں 5 ہزار 783 ارب روپے ملکی اور 656 ارب روپے بیرونی قرضوں پر ادا کیا گیا۔مزید بتایا گیا کہ اس مدت میں حکومت نے ایک ٹریلین روپے کی حکومتی سیکورٹیز کی خریداری کی مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں 1.6 ٹریلین روپے کے شریعہ کمپلائنس سکوک جاری کیے۔اقتصادی سروے کے مطابق اس دورانیے میں مجموعی طور پر 5.1 ارب ڈالر کی بیرونی معاونت موصول ہوئی، جس میں 2.8 ارب ڈالر کثیر الجہتی شراکت داروں اور 0.3 ارب ڈالر دوطرفہ شراکت داروں نے فراہم کیا۔حکومت نے نیا پاکستان سرٹیفکیٹ سے 1.5 ارب ڈالر اور کمرشل بینکوں سے 0.56 ارب ڈالر کے قرضے حاصل کیے۔سروے کے مطابق عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کے توسیعی فنڈ سہولت کے تحت پاکستان کو 1.03 ارب ڈالر کی معاونت حاصل ہوئی۔