Nai Baat:
2025-06-09@21:26:25 GMT

امریکہ سے وابستہ توقعات؟

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

امریکہ سے وابستہ توقعات؟

دنیا کے مشہور و معروف جنگلوں میں چھوٹے سے چھوٹے جانور سے لے کر قوی الجثہ ہر قسم کے جانور پائے جاتے ہیں، کچھ زیادہ وقت پانی میں گزارنا پسند کرتے ہیں جیسے دریائی گھوڑا، کہنے کو تو اسے گھوڑا کہا جاتا ہے لیکن جسامت میں وہ ہاتھی سے کم نہیں ہوتا، ہاتھی اپنا زیادہ وقت خشکی پر گزارتا ہے لیکن اسے پانی سے خاص رغبت ہے، وہ حالت غصہ میں ہو یا رومانوی موڈ میں، خشکی اور پانی دونوں میں ایک جیسی پرفارمنس دے سکتا ہے۔ غصے کی حالت میں یا پاگل پن کی حدود میں داخل ہاتھی اپنی راہ میں آنے والی ہر چیز کو اپنی سونڈ میں لپیٹ کر زمین پر پٹخ دیتا ہے۔ بڑے سے بڑے درخت کو آن واحد میں جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔ ہاتھی کی عمر اسی سے سو برس کے درمیان ہوتی ہے، ضعیف یا بیمار ہاتھی دور سے چلتا ہوا آ رہا ہو تو عام آدمی کو اس کی اندرونی حالت کا اندازہ نہیں ہو سکتا لیکن اس کی نگرانی پر مامور مہاوت پہلی نظر میں جانچ لیتا ہے کہ اتنا بڑا جسم اور بے پناہ طاقت رکھنے والے جانور کے اندر کیا ٹوٹ پھوٹ ہو چکی ہے۔

بڑے اور طاقتور ملک ہاتھی جیسی طاقتور معیشت رکھتے ہیں لیکن وہ کس وقت کس حال میں ہے اس کا اندازہ اتنی آسانی سے نہیں لگایا جا سکتا۔ ایسی معیشتوں کو ڈوبتے ڈوبتے بھی کافی عرصہ لگ جاتا ہے۔ اس اثناء میں کئی ایسے موقعے بھی مل جاتے ہیں جن سے ڈوبتی ہوئی معیشت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ڈوبتے ہوئے شخص کو پانی دو سے تین مرتبہ اچھال کر پھینکتا ہے، حواس برقرار رکھنے والا ہاتھ پائوں مارنا نہ چھوڑ دے تو ڈوبنے سے بچ سکتا ہے۔ حواس باختہ ہو جائے تو ڈوب جاتا ہے۔
امریکی معیشت ایسے ہی حالات سے دوچار ہے۔ نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک سمجھدار مہاوت کی طرح اقتدار میں آنے سے قبل ہی اس کا احساس ہو چکا تھا۔ وہ صرف ایک سیاست دان ہی نہیں دنیا میں ایک کامیاب بزنس مین کی پہچان بھی رکھتے ہیں اور ایک بڑی بزنس امپائر کو کامیابی سے چلاتے رہے ہیں، اس سے بہتر اس وقت کوئی نہیں جانتا کہ امریکہ کو آج ایک ایک ڈالر کی کس قدر ضرورت ہے، غیر ضروری جنگوں کو روکنے کا نعرہ اسی لئے لگایا گیا اور اب جبکہ وہ امریکہ کو ایک مرتبہ پھر عظیم ریاست بنانے کا نعرہ لگا چکے ہیں، ان کی کامیابی کا دارومدار معیشت کے میدان میں کامیابیوں یا ناکامیوں سے جڑا ہے۔ نئی حکومت کے پہلے سو دن اہم سمجھے جاتے ہیں۔ اس عرصہ میں حکومتی سفر کے راستوں اور منزل کا تعین ہو جاتا ہے، ٹرمپ نے پہلے دس روز میں پچاس روز کا سفر طے کر لیا ہے، انہوں نے ہنگامی طور پر کچھ فیصلے کئے ہیں جو امریکی نقطہ نظر سے مثبت ہیں۔ یہ اور بات کہ آدھی دنیا کو وہ فیصلے پسند نہ ہوں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا کے نوے ممالک میں یو ایس ایڈ کے پروگرام تین ماہ کے لئے بند کر دیئے ہیں جبکہ صرف دو ملکوں، اسرائیل اور مصر کو استثنا حاصل ہے۔ اس حوالے سے پاکستان میں چلنے والے 33 پراجیکٹ اس کی زد میں آئے ہیں۔ ان میں تعلیم کے شعبہ کے 4، صحت سے منسلک 4، زراعت سے وابستہ 5، گورننس سے متعلق 11، معیشت سے جڑے 4 اور انرجی سیکٹر کے 5پراجیکٹ ہیں۔ تین ماہ ان پراجیکٹس کا جائزہ لینے کے بعد امریکی حکومت اپنی ترجیحات کے مطابق فیصلہ کرے گی کہ کون کون سے پراجیکٹ جاری رکھے جا سکتے ہیں اور کون کون سے پراجیکٹ بند کئے جائیں گے۔ یہ معاملہ صرف پاکستان کے حوالے سے نہیں دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ان پراجیکٹس کو اس انداز میں دیکھا جائے گا۔ ایک اضافی نکتہ یہ ہوگا کہ نئی صف بندیوں میں امریکہ کی نئی ضروریات کیا ہیں اور کون سا ملک امریکہ کے ساتھ کہاں تک چل سکتا ہے۔

عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے آسٹریلیا اور بھارت سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات سے ملاقات کی۔ اب بھارت کے وزیراعظم مودی وہ پہلے وزیراعظم ہو سکتے ہیں جو امریکہ کا دورہ کریں۔ ان کے دورہ امریکہ کی تفصیلات طے ہونے سے قبل ہی ٹرمپ نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ بھارت سے کیا چاہتا ہے۔ بھارت کو بتا دیا گیا ہے کہ کم از کم 32ارب ڈالر کی امریکہ سے خریداری کرے تاکہ امریکہ اور بھارت کی تجارت میں توازن قائم ہو سکے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی راستہ دکھا دیا گیا ہے کہ بھارت اسلحہ کی خریداری کرے کیونکہ اگر غیر ضروری جنگیں ختم کرنا ہے تو پھر امریکی اسلحے کو گوداموں میں پڑے رہنے سے بھی بچانا ایک ضرورت ہے۔ گزشتہ دس روز میں جاری ہونے والے ویزوں میں ستر فیصد بھارت کو دس فیصد چین کو جبکہ باقی دنیا کو بیس فیصد میں حصہ دیا گیا ہے۔ امریکی پالیسی کا ایک رخ یہ بھی ہے۔
ایک طرف نوزائیدہ ٹرمپ حکومت اپنی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی، ٹرمپ چین اور بعض دیگر ممالک کے ٹیرف میں اضافے کی بات کر رہے تھے کہ اسی اثنا میں چین نے اے آئی کا مہلک وار کر دیا۔ چین کی اس ضرب سے درجن بھر سے زائد اے آئی کے شعبے میں کام کرنے والی کمپنیوں کو سیکڑوں ارب ڈالر کا نقصان ہو گیا، انہیں اس نقصان سے سنبھلنے میں کچھ وقت لگے گا کچھ عجب نہیں اسی دوران کسی اور شعبے میں ضرب لگا دی جائے۔

ڈونلڈ ٹرمپ اس سے قبل اعلان کر چکے تھے کہ وہ چاہیں گے کہ اپنے پہلے سو دنوں میں چین کا دورہ کریں۔ اب دیکھنا ہے وہ یہ دورہ اپنی پہلی منصوبہ بندی کے مطابق کرتے ہیں یا نئی صورتحال کے مطابق نئی حکمت عملی ترتیب دیتے ہیں۔ آئی ٹی کے شعبہ میں ایک درخشندہ ستارہ قرار پانے والے ایلون مسک کے خلاف ایک نیا محاذ سامنے آ چکا ہے جنہیں ان کی ٹرمپ کے ساتھ قربت ایک آنکھ نہ بھاتی تھی وہ اپنی کامیاب چال چل گئے ہیں۔ انہوں نے وائٹ ہائوس میں اپنا دفتر بنانے کا خواب دیکھنے والے ای لون مسک کو وائٹ ہائوس بدر کرا دیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی چیف آف سٹاف سوزی نے ہدایات جاری کر دی ہیں کہ ایلون مسک سڑک کے پار آئیزن پاور بلڈنگ میں اپنے درجن بھر سٹاف کے ساتھ بیٹھیں گے اور وہ براہ راست صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو رپورٹ بھی نہیں کریں گے۔ یاد رہے یہ وہی ایلون مسک ہیں جنہوں نے کئی سو ارب ڈالر ٹرمپ کی انتخابی مہم پر خرچ کئے، انہیں ٹرمپ کے انتہائی قریبی اور قابل اعتماد شخصیتوں میں شمار کیا جا رہا تھا۔ اقتدار میں آنے کے بعد وہ پہلے شخص ہیں جن کے قدموں تلے سے زمین کھینچ لی گئی ہے۔ اس سے اندازہ کیجئے جس شخص نے اس کا عشر عشیر بھی ٹرمپ کی خدمت نہیں کی وہ اس کا کیسا قریبی یا کتنا معتمد ہو سکتا ہے۔ ایسی شخصیت یا گروپ سے کس قدر توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں جو امریکہ کا ملک ریاض بھی نہیں۔ ادھر میاں منشا بھی نہیں وہ پاکستان کو کیا دے سکتا ہے؟ امریکہ سے وابستہ توقعات کچھ غیر منطقی ہیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ جاتا ہے سکتا ہے کے ساتھ

پڑھیں:

امریکا بزورِ قوت بھارت کو مذاکرات کے لیے قائل کر سکتا ہے، بلاول بھٹو

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تمام تصفیہ طلب امور پر بات چیت کا خواہاں ہے۔

یہ بھی پڑھیں:بھارت نے ہمارے خلاف جوہری میزائل استعمال کرکے نیوکلیئر جنگ کا خطرہ کھڑا کردیا، بلاول بھٹو

انہوں نے یہ بیان واشنگٹن میں امریکی قانون سازوں سے ملاقات کے دوران دیا، جہاں انہوں نے جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے لیے مذاکرات کی اہمیت پر زور دیا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے اور بھارت کے ساتھ تمام مسائل پر بات چیت کرنا چاہتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی خواہش ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تمام مسائل کا حل مذاکرات کے ذریعے تلاش کیا جائے۔

انہوں نے امریکی قانون سازوں سے اپیل کی کہ وہ پاکستان کے ’امن مشن‘ کی حمایت کریں اور خطے میں ممکنہ تنازع سے بچنے کے لیے مذاکرات کو فروغ دیں۔

یہ بھی پڑھیں:جنوبی ایشیا میں پائیدار امن مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل سے جڑا ہے، بلاول بھٹو زرداری

بلاول نے کہا کہ اگر امریکا امن کے لیے اپنی طاقت استعمال کرے تو وہ بھارت کو قائل کر سکتا ہے کہ مسائل کا حل مذاکرات میں ہے۔

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ کشمیر کا مسئلہ تمام فریقین کے مفاد میں ہے اور اس کا حل خطے میں پائیدار امن کے لیے ضروری ہے۔

بلاول نے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تمام مسائل پر بات چیت کے لیے تیار ہے اور عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ اس عمل میں معاونت کرے۔

بلاول بھٹو زرداری نے امریکی قانون سازوں سے ملاقات کے دوران کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تمام مسائل پر بات چیت کا خواہاں ہے اور اس کے لیے عالمی برادری کی حمایت ضروری ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا بلاول بھٹو بھارت پاکستانی وفد مذاکرات واشنگٹن

متعلقہ مضامین

  • بھارت غیر جانبدارانہ تحقیقات اور ٹرمپ کی مصالحت سے انکاری ہے، بلاول بھٹو
  • کوئٹہ، بلوچستان کے اخباری صنعت سے وابستہ افراد کا احتجاج عید کے دوران بھی جاری
  • بھارت سندھ طاس معاہدہ معطل نہیں کر سکتا، پانی روکنا اعلان جنگ ہوگا، بلاول بھٹو
  • بھارت سندھ طاس معاہدہ معطل نہیں کر سکتا، پانی روکنا اعلانِ جنگ ہوگا، بلاول بھٹو
  • امریکہ سے تجارتی کشیدگی کے باعث چینی برآمدات متاثر
  • بھارت ظلم و تشدد کے ذریعے کشمیریوں کے جذبہ حریت کو کمزور نہیں کر سکتا، حریت کانفرنس
  • چین کا عروج مغرب نہیں روک سکتا
  • بھارتی وزیراعظم دھمکی آمیز رویہ اپنائے ہوئے ہیں، پاک بھارت تنازع ایٹمی جنگ میں بدل سکتا ہے، بلاول بھٹو
  • امریکا بزورِ قوت بھارت کو مذاکرات کے لیے قائل کر سکتا ہے، بلاول بھٹو
  • ٹرمپ نے جنگ ٹالنے میں مدد کی، امریکہ بھارت کو مذاکرات کی میز پر لائے: بلاول