اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 فروری 2025ء) جامن کو جامنی رنگ دینے والے اجزا اور ایک سادہ فلٹر پر مبنی کم خرچ اور ماحول دوست سینسر اپنا رنگ بدلتے ہوئے دودھ کی تازگی یا خرابی کو ظاہر کرتا ہے۔

سائنسی تحقیق کے جریدے 'فوڈ کیمسٹری‘ میں شائع کردہ ریسرچ پیپر کے مطابق ماہرین نے پہلے مکمل پکے ہوئے جامن کے گودے سے ایک قدرتی جزو 'اینتھوسائنِن‘ (اے سی این) نکالا، پھر اس میں بعض کیمیکل ملا کر اسے فلٹر پیپر سے گزارا تاکہ یہ خالص حالت میں حاصل ہو سکے۔

بعد ازاں جامن والے مائع کو بہنے یا اڑنے سے بچانے کے لیے ایک فلٹر پیپر پر پھیلا کر رکھا گیا، اور اسے کیکڑوں اور جھینگوں کے بیرونی خول سے حاصل شدہ خاص شکر 'کائٹوسان‘ کے محلول میں ڈبویا گیا۔

(جاری ہے)

اے سی این کی رنگا رنگ دنیا

پھلوں کی سرخی، پھولوں کی رنگت اور سبزیوں کا روپ، اے سی این کی وجہ سے ہی ہوتا ہے۔ یہ پانی میں آسانی سے حل ہو جاتے ہیں اور قدرتی ڈائی کا اہم ذریعہ بھی ہیں جو غذا میں بھی استعمال ہوتی ہے اور فوڈ کلر کہا جاتا ہے۔

اے سی این تیزاب اور الکلی سے حساس ہوتے ہیں جن کی موجودگی میں ان کا رنگ بدل جاتا ہے۔ اسی خاصیت نے ماہرین کو جامن سے اخذ کردہ اے سی این کے انتخاب پر مجبور کیا کیونکہ اس سے بنا سینسر خراب دودھ کی موجودگی میں اپنا رنگ بدل لیتا ہے۔

دودھ کی تازگی اور پی ایچ

پی ایچ یا 'پوٹینشل آف ہائیڈروجن‘ کسی بھی شے میں تیزابیت یا الکلیت جانچنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ دودھ میں پی ایچ کی مقدار ہی اس کے تازہ یا باسی ہونے کی اہم علامت ہے۔

دودھ بکری کا ہو یا بھینس کا، اگر تازہ ہو گا تو اس کی پی ایچ مقدار 6.

5 سے 6.9 کے درمیان ہی رہتی ہے۔ دودھ میں مضرِ صحت بیکٹیریا جتنے زیادہ ہوں گے وہ تیزابیت کو اتنا ہی بڑھاتے ہیں اور دودھ کی پی ایچ کو 4.4 سے 4.5 تک پہنچا کر اسے مکمل طور پر ناقابل استعمال بنا دیتے ہیں۔

اس انوکھے کاغذی سینسر کو آزمانے کے لیے لاہور کے بازار سے دودھ کے تین نمونے لیے گئے۔ اگلے مرحلے میں جامن کے ای سی این والے فلٹر کو پٹیوں کو صورت میں کاٹ کر دودھ میں تین روز تک ڈبویا گیا، جبکہ باریک کائٹوسائن پردے کی بدولت سینسر کا کام کرنے والا اے سی این اپنی جگہ موجود رہا۔

مختلف اوقات کے وقفے سے فلٹر سینسر کو بار بار دیکھا گیا اس دوران دودھ خراب ہونے لگا، جس سے کاغذی فلٹر کا رنگ بدلنے لگا اور ہلکے بنفشی سے بالکل سفید ہو گیا جو بتا رہا تھا کہ دودھ خراب ہو چکا ہے۔

رنگوں میں تبدیلی کا تعین کمپیوٹر سافٹ ویئر سے بھی کیا گیا، جس میں سرخ، سبز اور نیلی (آر جی بی) رنگت میں کمی بیشی کا جائزہ بھی لیا گیا۔

اگرچہ دودھ کے ڈبوں پر حد استعمال کی تاریخ درج ہوتی ہے لیکن اب بھی بالخصوص دودھ کے معاملے میں اسے مبہم قرار دیا جاتا ہے جبکہ رنگ بدلتا کاغذی سینسر حقیقی وقت میں دودھ کی خرابی کو درست انداز میں ظاہر کرتا ہے۔

کم خرچ، ماحول دوست اور قابل اعتبار

جامنی کاغذی سینسر نہ صرف دودھ کی تازگی اور معیار کا تعین کرتا ہے بلکہ کئی لحاظ سے دیگر روایتی سینسر سے بھی مؤثر ہے۔ شعبہ کیمیا، یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور کے محقق ڈاکٹر نعیم شبیر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس میں کیمیائی ڈائی یا مصنوعی پالیمر کی بجائے پھل کا گودا استعمال کیا گیا ہے۔

علاوہ ازیں یہ 'بایو ڈیگریڈیبل‘ ہونے کی بنا پر ایک ماحول دوست ایجاد بھی ہے، جو خود تلف ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ عام فرد بھی بدلتی رنگت سے معلوم کر سکتا ہے کہ ڈبہ بند دودھ قابل استعمال ہے یا نہیں۔

ردی کی ٹوکری اور 'یوریکا لمحہ‘

تاریخ میں کئی ایجادات اتفاقیہ ہوئی ہیں اور جامنی سینسر کی داستان بھی کچھ اتنی ہی دلچسپ ہے۔

محمد نعیم بشیر بتاتے ہیں، ''منصوبے کے تحت ہمارا مقصد مختلف بایو پالیمر یعنی پولی کیپرو لیپٹن یا کائٹوسن استعمال کرتے ہوئے ایسے نینو فائبر بنانا تھا جس میں جامن کا جزو ایک عرصے تک محفوظ رکھا جا سکے۔ منصوبہ بنایا گیا کہ اس کے لیے کائٹوسائن یا ایسے ہی دیگر پالیمر کو باریک ترین ریشوں میں ڈھالا جائے اور ایک پٹی سی بنا کر اس پر جامن کے جزو کو رکھا جائے جو اس ایجاد کا دل اور قدرتی سینسر بھی ہے۔

‘‘

موزوں میٹیریئل کے انتخاب میں سب سے بڑی ایک مشکل سامنے آئی کہ اس پر اے سی این ٹھہر نہیں پا رہا تھا اور کھلے ماحول کے عام درجہ حرارت میں تیزی سے بکھر رہا تھا۔ مختلف نینو فائبر اور دیگر اقسام کے کئی بایو پالیمرز تجربات سے گزارے گئے اور ہر مرتبہ ناکامی کا سامنا ہوا کیونکہ جامن کا جزو اپنی افادیت کھو چکا تھا۔

تجربے کے شروع میں ماہرین نے جامن سے حاصل شدہ محلول کو ایک عام فلٹر پیپر سے گزارا تھا اور ایک مرتبہ استعمال کے بعد فلٹر پیپر کو ردی کی ٹوکری میں پھینکتے جاتے رہے تھے۔

تین چار روز بعد جب ٹوکری خالی کی گئی تو وہ یہ جان کر حیران رہ گئے کہ معمولی سمجھے جانے والے فلٹر پیپر پر جامنی اجزا موجود تھے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے محمد نعیم شبیر نے بتایا، ''ہم جان کر حیران رہ گئے کہ اس کا رنگ تبدیل نہیں ہوا تھا جس کا مطلب ہے کہ سینسر والا محلول اپنی افادیت کے ساتھ موجود تھا۔ تو ہمیں احساس ہوا کہ جس چیز میں ہم خود کو کھپا رہے تھے، یعنی جو پائیداری مہنگے پالیمرز میں ڈھونڈ رہے تھے وہ تو ہمیں ایک سادہ سے کاغذ سے مل سکتی ہے۔

تو اس اتفاق کے بعد ہم نے ایک آسان، ماحول دوست اور کم خرچ کاغذ سے وہی کام لیا جس کے لیے پہلے درجنوں میٹیریئل آزمائے جا چکے تھے۔‘‘

اگرچہ پاکستان میں ڈبے کے دودھ کی کھپت بہت کم ہے، کیونکہ زیادہ تر کھلا دودھ ہی فروخت ہوتا ہے۔ تاہم یہ ایجاد بین الاقوامی مارکیٹ میں اپنا اہم کردار ادا کرتے ہوئے ہر سال اربوں لیٹر دودھ کی بچت کی وجہ بن سکتی ہے۔

یہ سینسر کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد کے لاہور کیمپس میں واقع 'انٹرڈسپلنری ریسرچ سینٹر ان بایومٹیریلز‘ (آئی آر سی بی ایم) اور یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور، ڈویژن آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ کیمیا کی مشترکہ کاوش ہے۔ اس کے مرکزی محقق محمد نعیم شبیر ہیں جب کہ سپروائزر ڈاکٹر محمد اکرم اور ڈاکٹر محمد اسلم ہیں۔

سینسر کی تیاری اور تحقیق اور جانچ کے تمام مراحل کامسیٹس یونیورسٹی میں واقع آئی آر سی بی ایم میں ڈاکٹر محمد اکرم کی نگرانی میں انجام دیے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ اس منصوبے کے جملہ حقوق آئی آر سی بی ایم کو ہی حاصل ہیں۔ اس منصوبے کے لیے مالی وسائل بھی اسی ادارے کی جانب سے فراہم کیے گئے ہیں۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے دودھ کی تازگی ماحول دوست کرتا ہے پی ایچ کے لیے

پڑھیں:

پاکستان میں دودھ کی پیداوار کتنی، پروڈکشن کے لحاظ سے دنیا میں نمبر کونسا؟

پاکستان دودھ پیدا کرنے والا دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے، ملک میں دودھ کی سالانہ پیداوار6 کروڑ50 لاکھ ٹن سالانہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانیوں نے ایک سال میں کتنا دودھ پیا اور کتنا گوشت کھایا؟

فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کی رپورٹ کے مطابق دودھ پیدا کرنے والے دنیا کے 5ویں بڑے ملک کے طور پر پاکستان میں دودھ کی سالانہ پیداوار65 ملین ٹن ہے جس میں زیادہ تر پیداوار دیہی معیشت سے منسلک ’لوٹیک‘ ڈیری فارمز سے حاصل ہوتی ہے۔ پاکستان میں 15 ملین چھوٹے ڈیری فارمز دودھ کی پیداوار میں کلیدی حیثیت کے حامل ہیں جن کے پاس 2 گائے اور بھینسیں ہیں۔ ایف اے او کے مطابق چھوٹے ڈیری فارمز پاکستان کی ڈیری اکانومی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت کے حامل ہیں۔

دوسری جانب ایف اے او کے مطابق پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک میں چھوٹے ڈیری فارمز سے حاصل دودھ کی پیداواری لاگت ترقی یافتہ ممالک کے ہائی ٹیک ڈیری فارمز کے مقابلے میں کہیں کم ہے جس کا بنیادی سبب جانوروں کے چارہ کی قیمت میں ہونے والا اضافہ ہے۔

ایف اے او کے مطابق ترقی یافتہ ممالک کے ہائی ٹیک ڈیری فارمز میں اوسطاً 100 سے زیادہ گائے پالی جاتی ہیں اور دودھ کی بھرپور پیداوار کے لیے جانوروں کو کمپاؤنڈ خوراک کھلائی جاتی ہے۔ مزید برآں ہائی ٹیک فارمز میں جانوروں کی صحت پربھی اچھے خاصے اخراجات کیے جاتے ہیں۔ اس طرح خوراک اور صحت کے اخراجات کے نتیجہ میں ہائی ٹیک ڈیری فارمز کے دودھ کے پیداواری اخراجات میں اضافہ ہوتاہے۔

مزید پڑھیے: پاکستان سے اونٹنی کے دودھ کا پاؤڈر چین کو برآمد، اہم معاشی سنگِ میل

دوسری جانب پاکستان بشمول ترقی پذیر ممالک میں روایتی ڈیری فارمنگ کے لیے دودھ دینے والے جانوروں کی خوراک میں گندم کا بھوسہ، گنا، چاول اورمکئی وغیرہ کی باقیات شامل ہوتی ہیں جس سے خوراک کے اخراجات کم ہوتے ہیں۔

روایتی ڈیری فارمز گائے، بھینس سے یومیہ کتنے لیٹر دودھ حاصل کرتے ہین؟

ایف اے او نے کہا ہے کہ دیہی ڈیری فارمز کے افرادی قوت کے اخراجات بھی تقریباً نہ ہونے کے مساوی ہیں۔ ایف اے او کے مطابق پاکستان میں روایتی ڈیری فارمزایک گائے یا بھینس سے یومیہ 3 تا 4 لیٹر دودھ حاصل کرتے ہیں جبکہ ہائی ٹیک ڈیری فارمز میں فی جانور دود ھ کی اوسط یومیہ پیداوار20 لیٹر سے زیادہ ہے۔

ایف اے او نے تجویز پیش کی ہے کہ دیہی معیشت کی ترقی اور لوٹیک ڈیری فارمزکے وسائل آمدن میں اضافہ کے لیے جامع پالیسی اصلاحات کے تحت ملک کولیکشن نیٹ ورک کی بہتری، آسا ن قرضوں تک رسائی، کولڈ چین کے بنیادی ڈھانچہ کی ترقی و فروغ سمیت جانوروں کے علاج معالجہ کی سہولیات کا فروغ ضروری ہے۔

مزید پڑھیں: ملک میں گدھے اور کتے کے گوشت، جعلی دودھ اور پلاسٹک کے چاول فروخت، حقیقت کیا ہے؟

ان کا کہنا ہے کہ اس سے پاکستان میں دودھ کی پیداوارمیں خاطرخواہ اضافہ کے ساتھ دودھ کے ضیاع پر قابو پا کر دیہی معیشت کی ترقی اور استحکام میں مدد حاصل ہوگی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پاکستان میں دودھ کی پیداوار دودھ

متعلقہ مضامین

  • ماں کا دودھ صحت عامہ کو بہتر بنانے اور معیشتوں کو بہتر کرنے میں مددگار
  • رواں سال مون سون ستمبر کے آخر تک رہنے کا امکان ہے: ماہرین موسمیات
  • راولپنڈی میں پاکستانی اور غیر ملکی شہریوں کیلیے گردے بیچنے والا گینگ بے نقاب
  • سندھ: آصفہ بھٹو نے بے گھر سیلاب متاثرین کو ملکیتی حقوق دے دیئے 
  • چینی ماہرین کی مدد سے چاول کی نئی قسم ایجاد
  • کراچی: دنیا کا سب سے بڑا بغیر سلائی والا پاکستانی پرچم آج گورنر ہاؤس میں لہرایا جائے گا
  • غزہ میں اسرائیلی حملے جاری، 41 فلسطینی شہید، بچوں کے لیے دودھ کی شدید قلت
  • گنویری والا، پانچ ہزار سالہ پرانے شہر کی کھدائی فنڈز نہ ملنے پر بند
  • پاکستان میں دودھ کی پیداوار کتنی، پروڈکشن کے لحاظ سے دنیا میں نمبر کونسا؟
  • سیٹلائٹ کی کامیاب لانچنگ: اسحاق ڈار کا پاکستانی و چینی ماہرین کو خراجِ تحسین