لاہور (سپورٹس رپورٹر) پاکستانی نژاد برطانوی باکسر آدم عظیم نے ورلڈ سپر لائٹ ویٹ باکسنگ چیمپئن شپ جیت کر ملک کا نام روشن کردیا۔ برطانیہ میں ہونے والی ورلڈ سپر لائٹ ویٹ باکسنگ چیمپئن شپ میں پاکستانی نژاد برطانوی باکسروں آدم عظیم اور ان کے بھائی حسن عظیم نے فتوحات اپنے نام کرلیں۔ لندن کے ویمبلے ارینا میں منعقدہ باکسنگ چیمپئن شپ میں پاکستانی نژاد برطانوی مڈل ویٹ باکسر حسن عظیم نے مقابلہ جیت لیا۔ حسن عظیم نے سویڈن کے جنسن ارونگ کو 4 راؤنڈز میں واضح شکست دی۔ انہوں نے 40-36 سے کامیابی حاصل کی۔ حسن عظیم نے کیریئر کا آغاز مقابلے میں ناقابل شکست رہ کر کیا۔ ورلڈ سپر لائٹ ویٹ باکسنگ چیمپئن شپ کے دوسرے مقابلے میں پاکستانی نژاد برطانوی باکسر آدم عظیم اور قازقستان کے باکسر ورلڈ چیمپئن لیپی نیٹس مدمقابل تھے۔ مقابلے کے تیسرے راؤنڈ میں آدم عظیم کا پلڑا بھاری رہا اور انہوں نے قازق باکسر لیپی نیٹس کو مسلسل وار کرکے زمین پر گرا دیا۔ آٹھویں راؤنڈ میں بھی آدم عظیم کا پلڑا بھاری رہا اور نویں راؤنڈ میں قازق باکسر ورلڈ چیمپئن لیپی نیٹس کو شکست دے دی۔ ریفری نے حریف باکسر کی صورتحال دیکھ کر مقابلہ روک دیا اور آدم عظیم کو فاتح قرار دے دیا۔ واضح رہے کہ آدم عظیم کا تعلق کوٹلی آزاد کشمیر سے ہے اور وہ اب تک کوئی مقابلہ نہیں ہارے۔ آدم عظیم نے چیمپئن بننے پر اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور کہا کہ کامیابی پر اللہ کا شکر گزار ہوں۔ سپورٹ کرنے پر سب کا شکریہ‘ آئندہ بھی اچھی کارکردگی دکھائوں گا۔ پاکستانی نژاد برطانوی باکسر عامر خان نے آدم عظیم کی جیت پر کہا کہ آدم پر فخر ہے۔ انہوں نے ملک کا نام روشن کردیا۔ پاکستان کیلئے بڑا دن ہے، آدم عظیم دوسرا پاکستانی ہے جو باکسنگ میں ورلڈ چیمپئن بنا۔ میں دبئی سے بھائی کو سپورٹ کرنے آیا ہوں، آدم عظیم کو لیکر پاکستان آؤں گا۔ باکسر آدم عظیم کی والدہ نے کہا کہ سب کو مبارک دیتی ہوں اور تہہ دل سے سب کا شکریہ ادا کرتی ہوں، ماشاء اللہ میرا بیٹا بہت اچھا کھیلا ہے۔ سب اسی طرح آئیں اور سپورٹ کریں، پاکستانی ہمیشہ آدم کو دعاؤں میں یاد رکھیں، ان کی دعاؤں کا نتیجہ ہے، آدم نے چھوٹی عمر میں پاکستانیوں اور کشمیریوں کا نام بنایا ہے۔ آدم عظیم کے والد محمد عظیم نے کہا کہ یہ ہمارے خاندان، پاکستان اور برطانیہ سب کیلئے فخر کا موقع ہے، آدم مستقبل میں مزید مقابلے جیت کر لائے گا۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

پڑھیں:

بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن

DUBAI:

’’ یہ انڈینز تو بڑا ایٹیٹیوڈ دکھا رہے ہیں، ہم کیوں ہاتھ ملانے کیلیے کھڑے رہیں‘‘

جب میدان میں پاکستانی کرکٹرز  ایک دوسرے سے یہ بات کر رہے تھے تو ٹیم مینجمنٹ نے انھیں وہیں رکنے کا کہا، اس پر وہ تلملا گئے لیکن عدم عدولی نہیں کی، بعد میں جب مائیک ہیسن اور سلمان علی آغا بھارتی ڈریسنگ روم کی طرف گئے تو انھیں دیکھ کر ایک سپورٹ اسٹاف رکن نے دروازہ ایسے بند کیا جیسے کوئی ناراض پڑوسن کرتی ہے۔ 

تقریب تقسیم انعامات میں پاکستانی کپتان احتجاجاً نہیں گئے جبکہ انفرادی ایوارڈز لینے کیلیے ڈائریکٹر انٹرنیشنل پی سی بی عثمان واہلہ اور  ٹیم منیجر نوید اکرم چیمہ نے شاہین آفریدی کوجانے کا کہہ دیا، انھیں زیادہ چھکوں کا ایوارڈ دیا گیا۔ 

بھارتی رویے کو اپنی بے عزتی قرار دیتے ہوئے کھلاڑیوں نے فیصلہ کیا تو وہ آئندہ بھی کسی انڈین پریزینٹر کو انٹرویو دیں گے نہ ایوارڈ لینے جائیں گے، اتنا بڑا واقعہ ہو گیا لیکن کافی دیر تک پی سی بی کا کوئی ردعمل سامنے نہ آیا۔ 

چیئرمین محسن نقوی نے جب استفسار کیا تو  انھیں مناسب جواب نہ ملا، انھوں نے فوری طور پر ریفری اینڈی پائی کرافٹ کو ایشیا کپ سے ہٹانے کیلیے آئی سی سی کو خط لکھنے کی ہدایت دی، بعد ازاں سستی برتنے پر عثمان واہلہ کو معطل کر دیا گیا۔ 

اب یہ نہیں پتا کہ معطلی پکی یا کسی ایس ایچ او کی طرح دکھاوے کی ہے، اس تمام واقعے میں بھارت کا کردار بے حد منفی رہا،بھارتی حکومت پاکستان سے جنگ ہارنے اور6 جہاز تباہ ہونے کی وجہ سے سخت تنقید کی زد میں ہے۔ 

اس نے کرکٹ کی آڑ لے کر اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کی، نفرت کے عالمی چیمپئن بھارتیوں کی سوچ دیکھیں کہ ایک کھیل میں جیت پر بھنگڑے ڈال رہے ہیں ، جنگ میں ہار اور مسلسل جھوٹی باتیں کرنے پر اپنی حکومت سے استفسار نہیں کیا جا رہا، یہ معاملہ اب جلد ختم ہونے والا نہیں لگ رہا۔ 

پی سی بی نے سوچ لیا ہے کہ اگر پائی کرافٹ کو نہ ہٹایا گیا تو ٹیم ایشیا کپ کے بقیہ میچز سے دستبردار ہو جائے گی، میچ ریفری کا کام ڈسپلن کی پابندی کروانا ہوتا ہے ، وہ اکثر کھلاڑیوں کو غلطیوں پر سزائیں دیتا ہے، اب خود غلط کیا تو اسے بھی سزا ملنی چاہیے۔ 

پائی کرافٹ کو کیا حق حاصل تھا کہ وہ سلمان علی آغا سے کہتے کہ سوریا کمار یادیو سے ہاتھ نہ ملانا، شاید انھیں اس کی ہدایت ملی ہو گی، بطور ریفری یہ ان کا کام تھا کہ کرکٹ کی روایات پر عمل یقینی بناتے ، الٹا وہ خود پارٹی بن گئے۔ 

شاید آئی پی ایل میں کام ملنے کی لالچ یا کوئی اور وجہ ہو، میچ کے بعد بھی بھارتی کرکٹرز نے جب مصافحے سے گریز کیا تو ریفری خاموش تماشائی بنے رہے،پاکستان کو اب سخت اسٹینڈ لینا ہی ہوگا، البتہ آئی سی سی کے سربراہ جے شاہ ہیں، کیا وہ اپنے ملک بھارت کی سہولت کاری کرنے والے ریفری کے خلاف کوئی کارروائی کر سکیں گے؟

کھیل اقوام کو قریب لاتے ہیں لیکن موجودہ بھارتی حکومت ایسا چاہتی ہی نہیں ہے، اس لیے نفرت کے بیج مسلسل بوئے جارہے ہیں، کپتانوں کی میڈیا کانفرنس میں محسن نقوی اور سلمان علی آغا سے ہاتھ ملانے پر سوریا کمار کو غدار تک کا لقب مل گیا تھا۔ 

ایسے میں کھلاڑیوں نے آئندہ دور رہنے میں ہی عافیت سمجھی انھیں بھی اپنے بورڈ اور اسے حکومت سے ایسا کرنے کی ہدایت ملی ہوگی، جس ٹیم کا کوچ گوتم گمبھیر جیسا متعصب شخص ہو اس سے آپ خیر کی کیا امید رکھ سکتے ہیں۔ 

جس طرح بھارتی کپتان نے پہلگام واقعے کا میچ کے بعد تقریب تقسیم انعامات میں ذکر کرتے ہوئے اپنی افواج کو خراج تحسین پیش کیا اسی پر ان کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، آئی سی سی نے سیاست کو کھیل میں لانے پر ماضی میں عثمان خواجہ کو نہیں چھوڑا تو اب اسے  سوریا کیخلاف بھی ایکشن لینا ہوگا، پی سی بی کی دھمکی سیریس ہے۔ 

ریفری کو نہ ہٹایا گیا تو ایشیا کپ پاکستان کی عدم موجودگی میں دلچسپی سے محروم  ہو جائے گا، اس کا منفی اثر آگے آنے والی کرکٹ پر بھی پڑے گا، بھارت کو ورلڈکپ کی میزبانی بھی کرناہے تب بھی اسے مسائل ہوں گے۔ 

اب یہ جے شاہ کیلیے ٹیسٹ کیس ہے دیکھنا ہوگا وہ کرتے کیا ہیں،البتہ ان سے کسی سخت فیصلے کی امید کم ہی ہے،ویسے ہمیں خود کو بھی بہتر بنانا ہوگا، اگر ٹیم کی کارکردگی اچھی ہوتی تو کیا بھارت ایسی حرکت کر سکتا تھا؟

ہمارے کھلاڑی خود مذاق کا نشانہ بن رہے ہیں، پی سی بی کو اس واقعے کے ساتھ ٹیم کی شرمناک کارکردگی بھی ذہن میں رکھنی چاہیے، پلیئرز کوئی فائٹ تو کرتے ، کسی کلب لیول کی ٹیم جیسی کارکردگی دکھائی، کیا پاکستان اب صرف عمان اور یو اے ای جیسے حریفوں کو ہرانے والی سائیڈ بن گئی ہے؟

آئی پی ایل سے بھارت کو جو ٹیلنٹ ملا وہ اس کے لیے انٹرنیشنل سطح پر پرفارم بھی کر رہا ہے،پی ایس ایل کا ٹیلنٹ کیوں عالمی سطح پر اچھا کھیل پیش نہیں کر پاتا؟ ہم نے معمولی کھلاڑیوں کو سپراسٹار بنا دیا۔ 

فہیم اشرف جیسوں کو ہم آل راؤنڈر کہتے ہیں، اسی لیے یہ حال ہے، بابر اور رضوان کو اسٹرائیک ریٹ کا کہہ کر ڈراپ کیا گیا،صرف بھارت سے میچ میں ڈاٹ بالز دیکھ لیں تو اندازہ ہو گا کہ کوئی فرق نہیں پڑا۔

بنیادی مسائل برقرار ہیں، اب ٹیمیں 300 رنز ٹی ٹوئنٹی میچ میں بنا رہی ہیں، ہم 100 رنز بھی بمشکل بنا پاتے ہیں، ہمارا اوپنر صفر پر متواتر آؤٹ ہو کر وکٹیں لینے میں کامیاب رہتا ہے اور سب سے اہم فاسٹ بولر کوئی وکٹ نہ لیتے ہوئے دوسرا بڑا اسکورر بن جاتا ہے۔

یہ ہو کیا رہا ہے؟ کیا واقعی ملک میں ٹیلنٹ ختم ہو گیا یا باصلاحیت کرکٹرز کو مواقع نہیں مل رہے، بورڈ کو اس کا جائزہ لینا چاہیے، کہاں گئے وہ مینٹورز جو 50 لاکھ روپے ماہانہ لے کر ملک کو نیا ٹیلنٹ دینے کے دعوے کر رہے تھے، بھارت  نے یقینی طور پر غلط کیا لیکن ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے کہ کرکٹ میں ہم کہاں جا رہے ہیں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

متعلقہ مضامین

  • ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئن شپ: ارشد ندیم میڈل کی دوڑ سے باہر ہوگئے
  • پہلی بار ایک پاکستانی نژاد ساؤنڈ انجینیئر نے گریمی ایوارڈ جیت لیا
  • ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئن شپ: ارشد ندیم فائنل میں پہنچ گئے
  • ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئن شپ: جیولن تھرو میں ارشد ندیم نے فائنل رانڈ کے لیے کوالیفائی کر لیا
  • ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئن شپ: ارشد ندیم اور نیرج چوپڑا آج مدمقابل ہوں گے
  • ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئن شپ : ارشد ندیم اورنیرج چوپڑا علیحدہ علیحدہ گروپس میں شامل
  • بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن 
  • ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ: ارشد ندیم کی شاندار نتائج کے لیے قوم سے دعاؤں کی اپیل
  • ارشد ندیم کی ورلڈ اتھلیٹکس چیمپئن شپ میں شاندار کارکردگی کیلئے فینز سے دعاؤں کی درخواست
  • بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن