پاکستانی نژاد برطانوی باکسر آدم عظیم‘ حسن عظیم نے عالمی مقابلے جیت لئے
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
لاہور (سپورٹس رپورٹر) پاکستانی نژاد برطانوی باکسر آدم عظیم نے ورلڈ سپر لائٹ ویٹ باکسنگ چیمپئن شپ جیت کر ملک کا نام روشن کردیا۔ برطانیہ میں ہونے والی ورلڈ سپر لائٹ ویٹ باکسنگ چیمپئن شپ میں پاکستانی نژاد برطانوی باکسروں آدم عظیم اور ان کے بھائی حسن عظیم نے فتوحات اپنے نام کرلیں۔ لندن کے ویمبلے ارینا میں منعقدہ باکسنگ چیمپئن شپ میں پاکستانی نژاد برطانوی مڈل ویٹ باکسر حسن عظیم نے مقابلہ جیت لیا۔ حسن عظیم نے سویڈن کے جنسن ارونگ کو 4 راؤنڈز میں واضح شکست دی۔ انہوں نے 40-36 سے کامیابی حاصل کی۔ حسن عظیم نے کیریئر کا آغاز مقابلے میں ناقابل شکست رہ کر کیا۔ ورلڈ سپر لائٹ ویٹ باکسنگ چیمپئن شپ کے دوسرے مقابلے میں پاکستانی نژاد برطانوی باکسر آدم عظیم اور قازقستان کے باکسر ورلڈ چیمپئن لیپی نیٹس مدمقابل تھے۔ مقابلے کے تیسرے راؤنڈ میں آدم عظیم کا پلڑا بھاری رہا اور انہوں نے قازق باکسر لیپی نیٹس کو مسلسل وار کرکے زمین پر گرا دیا۔ آٹھویں راؤنڈ میں بھی آدم عظیم کا پلڑا بھاری رہا اور نویں راؤنڈ میں قازق باکسر ورلڈ چیمپئن لیپی نیٹس کو شکست دے دی۔ ریفری نے حریف باکسر کی صورتحال دیکھ کر مقابلہ روک دیا اور آدم عظیم کو فاتح قرار دے دیا۔ واضح رہے کہ آدم عظیم کا تعلق کوٹلی آزاد کشمیر سے ہے اور وہ اب تک کوئی مقابلہ نہیں ہارے۔ آدم عظیم نے چیمپئن بننے پر اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور کہا کہ کامیابی پر اللہ کا شکر گزار ہوں۔ سپورٹ کرنے پر سب کا شکریہ‘ آئندہ بھی اچھی کارکردگی دکھائوں گا۔ پاکستانی نژاد برطانوی باکسر عامر خان نے آدم عظیم کی جیت پر کہا کہ آدم پر فخر ہے۔ انہوں نے ملک کا نام روشن کردیا۔ پاکستان کیلئے بڑا دن ہے، آدم عظیم دوسرا پاکستانی ہے جو باکسنگ میں ورلڈ چیمپئن بنا۔ میں دبئی سے بھائی کو سپورٹ کرنے آیا ہوں، آدم عظیم کو لیکر پاکستان آؤں گا۔ باکسر آدم عظیم کی والدہ نے کہا کہ سب کو مبارک دیتی ہوں اور تہہ دل سے سب کا شکریہ ادا کرتی ہوں، ماشاء اللہ میرا بیٹا بہت اچھا کھیلا ہے۔ سب اسی طرح آئیں اور سپورٹ کریں، پاکستانی ہمیشہ آدم کو دعاؤں میں یاد رکھیں، ان کی دعاؤں کا نتیجہ ہے، آدم نے چھوٹی عمر میں پاکستانیوں اور کشمیریوں کا نام بنایا ہے۔ آدم عظیم کے والد محمد عظیم نے کہا کہ یہ ہمارے خاندان، پاکستان اور برطانیہ سب کیلئے فخر کا موقع ہے، آدم مستقبل میں مزید مقابلے جیت کر لائے گا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
رنگِ ادب کا اقبال عظیم نمبر
اُردو ادب کے ایسے شعرائے کرام جنھوں نے اپنی بساط و توفیق کے مطابق صنفِ نعت کو نئی نئی جہات سے دیکھا اور نئے نئے تجربات سے نکھارا، اُن میں پاکستان کے معروف نعت گو شاعر اقبال عظیم بھی شامل ہیں، جو آٹھ جولائی 1931 میرٹھ ، یوپی (ہندوستان) میں پیدا ہوئے، ان کا آبائی وطن قصبہ انبہٹہ، ضلع سہارن پور ہے۔
ان کو ننھیال اور ددھیال دونوں جانب سے ادبی ماحول وراثت ملا۔ ان کے نانا ادیب میرٹھی اپنے وقت کے معروف شاعر یزدانی میرٹھی کے شاگرد تھے۔ وہ صاحبِ دیوان غزل گو شاعر تھے۔ اقبال عظیم کے دادا سید فضل عظیم فضلؔ، اُردو اور فارسی زبان کے نعت گو شاعر تھے۔
اُن کے والد سید مقبول عظیم عرشؔ پولیس کے محکمے میں انسپکٹر تھے۔ وہ بھی اُردو کے بہترین غزل گو شاعر تھے۔ ان کے برادر بزرگ سید وقار عظیم برصغیر کے بلند مرتبہ تنقید نگار اور ماہرِ تعلیم اور درجنوں تصانیف کے مصنف تھے۔
اقبال عظیم کا نام علمی و ادبی دنیا میں اہم ہے۔ ادبی دنیا میں ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ انھوں نے نظم و نثر میں طبع آزمائی کی اور کئی فن پارے تخلیق کیے اب تک اُن کے کئی شعری مجموعے اور نثرکی کئی کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں، جن میں مشرقی بنگال میں اُردو ( لسانی وا دبی تذکرہ)، مضراب (غزلوں کا پہلا مجموعہ)، مضراب و رباب (غزلوں کا دوسرا مجموعہ)، لب کشا (نعتیں اور غزلیں)، نادیدہ (غزلیں)، چراغِ آخرِ شب، ماحصل ( کلیاتِ غزل)، اقبال عظیم (حیات و ادبی خدمات)، قاب قوسین ( نعتوں کا مجموعہ)، پیکرِ نور، زبورِ حرم قابلِ ذکر ہیں۔
ان کا تعلق شاعری کی کلاسیکی روایت سے تھا جب کہ انھوں نے نعت گوئی میں منفرد مقام حاصل کیا۔ وہ اپنی نعتوں میں عمدہ خیالات، حسین تراکیب، نادر الفاظ، نایاب تشبیہات اور اچھوتے استعارات کا بہترین استعمال کرتے۔ ان کی مشہورِ زمانہ نعت کے دو اشعار ملاحظہ کیجیے۔
مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ
جبیں افسردہ افسردہ، قدم لغزیدہ لغزیدہ
چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانبِ طیبہ
نظر شرمندہ شرمندہ، بدن لرزیدہ لرزیدہ
اقبال عظیم نعتیہ شاعری کی دنیا میں ایک خوشبو کی مانند تھے۔ انھوں نے اپنی نعتوں میں بہت سی احادیثِ مبارکہ کا مفہوم بھی بیان کیا ہے اور قرآنی تلمیحات کے پہلو بہ پہلو احادیث کے اشارے بھی ان کے نعتیہ کلام کا طرئہ امتیاز ہیں۔
اقبال عظیم اپنے عہد کے قادر الکلام شاعر تھے اور دنیائے غزل میں ایک مسلمہ حیثیت کے حامل بھی تھے لیکن نعت گوئی یعنی حضورؐ کی محبت ان سارے معاملات میں سبقت لے گئی اور وہ حضورؐ کی محبت میں سرشار و مخمور زندگی کے آخری ایام تک مدحتِ سرکارِ دور عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ترانے گاتے رہے۔
’’ ماحصل‘‘ یہ اقبال عظیم کا ’’ کلیاتِ غزل‘‘ ہے، جس کے پہلے ایڈیشن میں حمد، مناجات ، قطعات، نعتیں اور غزلیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ اس کلیات کو بزم خدام الاادب نئی دہلی سے شایع کیا گیا۔
’’رنگ ادب‘‘ کے اقبال عظیم نمبر میں اقبال عظیم بہ حیثیت غزل گو حصے میں اجازت طلبی، اجازت نامہ خطوط کے بعد پہلا مضمون پروفیسر نظیر صدیقی کا پڑھنے کو ملتا ہے، جس میں وہ اقبال عظیم کی غزل گوئی کے بارے میں کچھ اس طرح سے رقم طراز ہے کہ ’’ اقبال عظیم بنیادی طور پر غزل گو شاعر ہیں، وہ غزل اور شاعری کے فنی اور جمالیاتی مطالبات کو نہ صرف اچھی طرح سمجھتے ہیں بلکہ ان سے عہدہ برآ ہونے میں غیر معمولی طور پر کامیاب رہے ہیں۔
اپنی شاعری میں انھوں نے جس خلوص اور درد مندی کے ساتھ وطن کے المیے کو موضوعِ سخن بنایا ہے اور اس موضوع پر جتنے خوبصورت اور موثر شعر کہے ہیں، اس کی مثال موجودہ پاکستانی شاعری میں کم ملے گی اور مشکل سے ملے گی۔
غالباَ یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ ’’مضراب‘‘ فکر وفن دونوں کے اعتبار سے اُردو شاعری کے سرمائے میں ایک اہم اور قابلِ قدر اضافہ ہے۔‘‘ جب کہ پروفیسر نظیر صدیقی، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، سید محمد ابو الخیرکشفی، ڈاکٹر محمد رضا کاظمی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، سلیم احمد، جسٹس نور العارفین، ابوالبیان ظہور احمد فاتح، ڈاکٹر رانا خالد محمود قیصر، نسیمِ سحر، روبینہ شاد و دیگر اہلِ قلم کے مضامین شامل ہیں۔
ان کی غزلوں کے بہت سے اشعار میں متصوفانہ افکار کی جھلک بھی دیکھنے کو ملتی ہے جس سے اس بات کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ اقبال عظیم ایک صوفی شاعر تھے۔
رنگِ ادب کے اس خاص شمارے میں اقبال عظیم بہ حیثیت نعت گو حصے میں صفحہ نمبر ۱۳۵ پر اقبال عظیم کا مضمون ’’ سخن گسترانہ‘‘ پڑھنے کو ملتا ہے جب کہ دیگر قلم کاروں میں نا صر حیات، ابو الاثر حفیظ جالندھری، ڈاکٹر سید محمد ابوالخیرکشفی، احسان دانش، اے کے سومار، سید وقار احمد رضوی، ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر انور سدید، پروفیسر علی حیدر ملک، سید صبیح الدین صبیح رحمانی، اکرم کنجاہی، نسیمِ سحر، ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی اور مجھ خاکسار سمیت بہت سے قلم کاروں کے مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں۔
’’اقبال عظیم بہ حیثیت تخلیق کار‘‘ میں ڈاکٹر انور سدید کا مضمون بعنوان ’’ بینائی سے محروم اور بصیرت سے سرفراز شاعر اقبال عظیم‘‘ ، ابنِ انشاء کا ’’دخل در معقولات‘‘، مولانا ماہر القادری کا ’’ اقبال ہماری نظر میں‘‘ جس میں وہ صفحہ نمبر ۲۷۶ پر لکھتے ہیں کہ ’’ اقبال عظیم پر شعر کا نزول نہیں ہوتا یعنی جسے ’’آمد‘‘ کہتے ہیں وہ حالت طاری نہیں ہوتی بلکہ وہ انتظار کرتے رہتے ہیں کہ خیال، جذبہ یا احساس پہلے ان کے وجود کا مکمل جز بن جائے۔‘‘ محمد طفیل کی ’’کچھ باتیں اقبال عظیم کے بارے میں‘‘ یہ مضمون پڑھنے سے خاص تعلق رکھتا ہے۔
’’اقبال عظیم بہ حیثیت تخلیق کار‘‘ میں پروفیسر آفاق صدیقی، ڈاکٹر ساجد امجد، پروفیسر ہارون الرشید، ڈاکٹر عنبر عابد، مولانا محی الدین انصاری ودیگر کے مضامین شاملِ اشاعت ہیں جب کہ ایس اے مینائی، انوار عنایت اللہ کے انگریزی مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں۔
رنگِ ادب کے ’’اقبال عظیم نمبر‘‘ کے صفحہ نمبر337 پر خطوط اور پیغام کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جس میں کمال الدین ظفر، سعید صدیقی، حکیم محمد سعید، ڈاکٹر جمیل جالبی، فضل الرحمن، ابوالخیر کشفی اور سید ثروت ضحی کے خطوط اور پیغامات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ اسی طرح منظوم خراجِ تحسین بھی اقبال عظیم کی خدمت میں پیش کیا گیا ہے۔ سہیل غازی پوری کے دواشعار:
نعت گوئی میں جو مشہور تھے اقبال عظیم
ہاں! غزل سے بھی کہاں دور تھے اقبال عظیم
ان کی آنکھوں میں بصارت کی کمی تھی لیکن
یہ بھی سچ ہے دلِ پُرنور تھے اقبال عظیم
’’رنگِ ادب‘‘ کے اس خاص اور تاریخی کارنامے میں ’’ اقبال عظیم کی نگارشات نثری اور شعری دونوں کو آخری چند صفحات میں شامل کیا گیا ہیں۔ رنگ ادب کا ’’اقبال عظیم نمبر‘‘ موجودہ اور آنیوالے صدیوں تک اقبال عظیم پر تخلیقی جہتوں سے سراب ہونیوالے اہلِ علم و ادب، شائقین وقارئینِ شعر و سخن، ناقدینِ فن اور مشاہیرِ اُردو ادب کے ساتھ ساتھ تشنگانِ علم اور طالبانِ ادب اور محققین کے بھی کام آتا رہے گا۔
’’رنگِ ادب کا اقبال عظیم نمبر ‘‘خوبصورت سر ورق کے ساتھ368 صفحات پر مشتمل ایک ضخیم جلد میں شاعر علی شاعر کو اپنے ادارے رنگِ ادب سے شایع کرنے کا اعزاز حاصل ہُوا ہے، ایسے بہت سے اعزازات کے وہ پہلے بھی حق دار قرار پا چکے ہیں۔
آخر میں جاتے ہوئے میں رنگِ ادب کی تمام ٹیم اور اقبال عظیم کے فرزند شاہین اقبال کو اس خوبصورت اشاعت پر ڈھیروں مبارکباد کے گلدستے پیش کرتا ہوں۔