بلوچستان میں 2025 کی پہلی انسداد پولیو مہم آج شروع ہوگی
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
بلوچستان بھر میں 2025 کی پہلی انسداد پولیو مہم آج سے شروع ہوگی۔ 7 روزہ مہم میں 26 لاکھ 60 ہزار سے زائد بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
کوآرڈینٹر ایمرجینسی آپریشن سینٹر انعام الحق کے مطابق پولیو مہم میں 11 ہزار سے زائد ٹیمیں حصہ لیں گی۔ گزشتہ سال 2024 کے دوران ملک بھر سے پولیو کے 73 کیس رپورٹ ہوئے تھے۔ پولیو کے سب سے زیادہ 27 کیسز بلوچستان سے رپورٹ ہوئے تھے۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں پولیو وائرس کا ایک اور شکار، مجموعی تعداد کتنی ہوگئی؟
انعام الحق کہتے ہیں کہ ملک کے مختلف اضلاع کے ماحول میں پولیو وائرس کے موجودگی کی تصدیق کا سلسلہ جاری ہے، وائرس کی موجودگی کے باعث پولیو کے قطروں کے ساتھ بچوں کو تمام حفاظتی ٹیکہ جات لگانا بھی ضروری ہے۔ والدین بچوں کو وائرس اور معذوری سے محفوظ رکھنے کے لیے پولیو کے قطرے اور حفاظتی ٹیکہ ضرور لگوائیں
وزیراعظم کی وجہ سے صرف کوئٹہ میں پولیو مہم مؤخربچے پولیو سمیت خسرہ، نمونیہ اور دیگر خطرناک بیماریوں سے بچ سکیں گے۔ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں پولیو مہم کل سے شروع ہوگی، وزیر اعظم کے دورے کی وجہ سے صرف کوئٹہ میں پولیو مہم ایک روز کے مؤخر کی گئی ہے۔ بلوچستان کے باقی 35 اضلاع میں انسداد پولیو مہم آج سے شروع ہوگی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچستان پولیو کوآرڈینٹر ایمرجینسی آپریشن سینٹر انعام الحق کوئٹہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوچستان پولیو کوآرڈینٹر ایمرجینسی آپریشن سینٹر انعام الحق کوئٹہ پولیو مہم شروع ہوگی میں پولیو پولیو کے
پڑھیں:
ملکی تاریخ میں پہلی بار ’’فری انرجی مارکیٹ پالیسی‘‘کے نفاذکااعلان
اسلام آباد: وفاقی وزیر توانائی سردار اویس احمد خان لغاری نے اعلان کیا ہے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ “فری انرجی مارکیٹ پالیسی” آئندہ دو ماہ میں حتمی نفاذ کے مرحلے میں داخل ہو جائے گی، جس کے بعد حکومت کی جانب سے بجلی کی خریداری کا عمل مستقل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔
یہ بات انہوں نے عالمی بینک کے اعلیٰ سطحی وفد سے ملاقات کے دوران کہی، جس کی قیادت عالمی بینک کے ریجنل نائب صدر برائے مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ، افغانستان و پاکستان، جناب عثمان ڈیون (Ousmane Dione) کر رہے تھے۔
وزیر توانائی نے بتایا کہ نئے ماڈل CTBCM (Competitive Trading Bilateral Contract Market) کے تحت ملک میں بجلی کی آزادانہ تجارت ممکن ہو سکے گی، جس میں “وِیلنگ چارجز” اور دیگر ضروری میکانزم شامل کیے جا رہے ہیں۔ اس نظام کے تحت حکومت کا کردار صرف ریگولیٹری فریم ورک تک محدود کر دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس منتقلی کا عمل بتدریج اور جامع حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھایا جائے گا تاکہ بجلی کے نظام میں استحکام برقرار رکھا جا سکے۔
ملاقات کے دوران سردار اویس لغاری نے عالمی بینک کے وفد کو حکومت کی جاری توانائی اصلاحات، نیٹ میٹرنگ پالیسی، نجکاری اقدامات، ریگولیٹری بہتری اور سرمایہ کاری کے مواقع سے آگاہ کیا۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت کی پالیسی کا جھکاؤ واضح طور پر نجی شعبے کے فروغ اور شفافیت کی جانب ہے اور حکومت چاہتی ہے کہ بین الاقوامی سرمایہ کار اس تبدیلی میں بھرپور کردار ادا کریں۔
عالمی بینک کے نائب صدر عثمان ڈیون نے پاکستان کے توانائی شعبے میں جاری اصلاحات کو قابلِ تحسین قرار دیا اور کہا کہ توانائی کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کی بنیاد ہے، اسی لیے عالمی بینک اس شعبے میں پاکستان کے ساتھ اپنی شراکت داری جاری رکھے گا۔
انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ عالمی بینک پاکستان کے لیے ایک پائیدار، قابل اعتماد اور سرمایہ کاری کے لیے موزوں توانائی نظام کی تشکیل میں بھرپور تعاون فراہم کرے گا۔
آخر میں وفاقی وزیر نے عالمی بینک کے وفد کو توانائی اصلاحات پر مبنی جامع کتابچہ بھی پیش کیا اور امید ظاہر کی کہ موجودہ شراکت داری مستقبل میں مزید مستحکم ہو گی۔
صارفین کے لیے “فری انرجی مارکیٹ” کے ممکنہ فوائد:
صارفین کو مختلف بجلی فراہم کنندگان میں سے مسابقتی نرخوں پر بجلی خریدنے کی آزادی ہوگی۔
مارکیٹ میں مسابقت بڑھنے سے بجلی کی قیمتوں میں کمی آنے کا امکان ہے۔
نجی کمپنیاں بہتر سروس فراہم کرنے کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گی، جس سے کسٹمر سروس، بلنگ کا نظام اور شکایات کے ازالے میں بہتری آئے گی۔
صنعتیں اپنی ضروریات اور استعمال کے مطابق سستا اور مستحکم توانائی معاہدہ کر سکیں گی، جو برآمدات اور پیداواری لاگت پر مثبت اثر ڈالے گا۔
صارفین سولر، ونڈ یا دیگر گرین انرجی ذرائع سے بجلی خریدنے کے آپشنز کو ترجیح دے سکیں گے، جس سے ماحول دوست توانائی کو فروغ ملے گا۔
جن گھریلو یا صنعتی صارفین کے پاس سولر پینل نصب ہوں گے، وہ بجلی فروخت بھی کر سکیں گے، جس سے آمدن حاصل کی جا سکتی ہے۔
جب حکومت بجلی خریدنا بند کرے گی، تو اس پر موجود گردشی قرضوں (circular debt) کا دباؤ کم ہوگا، جس کا بالآخر فائدہ صارفین کو مستحکم نظام کی صورت میں ملے گا۔