گلگت بلتستان، سرکاری محکموں کے 3 ہزار کیسز عدالتوں میں زیر التوا
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
گلگت بلتستان کے انتظامی محکموں کے ایک ہزار سے زیادہ کیسز عدالتوں میں جبکہ 2 ہزار سے زائد کیسز سروس ٹریبونل میں زیر سماعت ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ گلگت بلتستان کے انتظامی محکموں کے ایک ہزار سے زیادہ کیسز عدالتوں میں جبکہ 2 ہزار سے زائد کیسز سروس ٹریبونل میں زیر سماعت ہیں۔ سروس ٹریبونل سمیت دیگر عدالتوں سے درجنوں کیسز اپیل کے لئے سپریم اپیلیٹ کورٹ گلگت بلتستان آنے اور بینچ پورا نہ ہونے کی وجہ سے التوا کا شکار ہیں۔ رپورٹ کے مطابق عدالتوں میں سب سے زیادہ سرکاری محکموں میں خدمات سرانجام دینے والے پروجیکٹ ملازمین، کنٹیجنٹ ملازمین، کنٹریکٹ ملازمین، اپ گریڈیشن اور زمین کے معاوضوں کے حوالے سے کیسز نمایاں ہیں۔ انتظامی محکموں کے علاوہ لائن ڈیپارٹمنٹس اور ڈائریکٹریٹ کے مختلف اقسام کے کیسز بڑی تعداد میں عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ گزشتہ سال تک انتظامی محکموں کے کورٹس میں زیر سماعت کیسز کی تفصیلات کے مطابق محکمہ تعلیم گلگت بلتستان کے عدالتوں میں 366 کیسز زیر سماعت ہیں۔
سپریم اپیلیٹ کورٹ میں 50 سے زائد، چیف کورٹ گلگت بلتستان میں ڈیڑھ سو سے زائد جبکہ پانچ کیسز ڈسٹرکٹ کورٹ اور 33 کیسز سول کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔ گزشتہ سال کے ڈیٹا کے مطابق ہائر اینڈ ٹیکنیکل ایجوکیشن کے 32 کیسز کورٹس میں ہیں، محکمہ داخلہ گلگت بلتستان کے 56 کیسز، محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن 15، گورنر سیکرٹریٹ 3، محکمہ مائنز منرلز انڈسٹری کامرس اینڈ لیبر 20، محکمہ ایکسایز ٹیکسیشن 26، بورڈ آف ریونیو 20، واٹر اینڈ پاور 51، وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ 9، محکمہ کمیونیکیشن اینڈ ورکس 128، انفارمیشن ٹیکنالوجی 3، سوشل ویلفیئر ویمن ڈویلپمنٹ اینڈ چائلڈ رائٹس کے 20 کیسز زیر سماعت ہیں۔
رپوٹ کے مطابق محکمہ خزانہ 10، پلاننگ ایند ڈیویلپمنٹ 11، محکمہ صحت 175، محکمہ سیاحت کھیل و ثقافت 15، واٹر مینجمنٹ اینڈ ایریگیشن 10، محکمہ قانون 2، محکمہ خوراک 30، محکمہ جنگلات جنگلی حیات و ماحولیات 36، محکمہ زراعت 65، محکمہ لوکل گورنمنٹ 49 اور محکمہ برقیات کے 51 کیسز عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ سرکاری محکموں کے عدالتوں میں کیسز کے حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ سرکاری محکموں میں لیگل ایڈوائزر اور محکمہ کے درمیان عدالتی کیسز کے حوالے سے کوئی سیکشن یا نمائندہ نہ ہونے سے کیسز پر بروقت جرح نہ ہونے جیسے مسائل بھی حائل ہیں اور سے بروقت فیصلہ نہ آنے کی اہم وجوہات میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انتظامی محکموں کے میں زیر سماعت ہیں کیسز عدالتوں میں گلگت بلتستان کے سرکاری محکموں کے مطابق
پڑھیں:
صوبائی وزیر طارق علی ٹالپور اور فریال تالپور کی سرپرستی میں محکمہ سماجی بہبود کرپشن کا گڑھ بن گیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(رپورٹ:منیر عقیل انصاری)محکمہ سماجی بہبود سندھ تباہی کے دھانے پر پہنچ گیا ،سیکرٹری سوشل ویلفیئرپرویز سیھڑ کی ناقص کارکردگی اور ڈائریکٹر جنرل سوشل ویلفیئر ہیڈکواٹر کی پوسٹ کا ایڈیشنل چارج 8ماہ سے پرویز سیھڑکے پاس تھا جو سو فیصدپروجیکٹس کا بجٹ ریگولر بجٹ ،اسکیموں کا بجٹ خردبرد کر کے صوبائی وزیر طارق علی ٹالپورکی اجازت سے بیرون ملک چلے گئے۔
جس کی بناسوشل ویلفیئر کا چارج معظم مری جو ڈی جی چائیلڈ پروٹیکشن اتھارٹی کے پاس ہے جو ماضی میں ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے انڈومنٹ فنڈ میں خوردبرد میں ملوث تھے۔محکمہ سماجی بہبود کی من مانیاں, جونیئر آفیسر کی اہم پوسٹوں پر تعینات سینئر افسران کو نظر انداز کرنا ،ٹیم ورک پر یقین نہ رکھنا،جس کی وجہ سے سوشل ویلفیئر کی اسکیمیں نامکمل رہیں اور چار پروجیکٹس کے کمیشن بننے تھے جو نوو ٹیفائی نہ ہوسکے۔
جن میں چیرٹی کمیشن،سینئر سیٹیزن ایکٹ کمیشن ،آرفن ایکٹ کمیشن اور سندھ سوشل ویلفیئر کاو¿نسل آج تک دوبارہ نو ٹیفائی نہ ہوسکے۔جبکہ ان چاروں پروجیکٹس کے بجٹ کو سو فیصد ہڑپ کیا جاچکا ہے اور نتائج اس کے بالکل زیرو ہیں۔
ذارئع کے مطابق صوبائی وزیر طارق علی ٹالپورنے اپنے پرسنل سیکرٹری اعظم نوحانی کو فری ہینڈ دے دیا ہے کہ ڈیپارٹمنٹ میں جواب سے زیادہ کرپٹ آفیسر ہو اسے ذمہ داری سونپنے ی جائے۔جس پر اعظم نوحانی نے خیر محمد کلوڑکو ضلع گھوٹکی سے تبادلہ کر کے ڈپٹی ڈائریکٹر ایڈمن کی اہم پوسٹ پر تعینات کیا۔
جب کہ خیر محمد کلوڑ کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ خود جعلی اسناداسٹنٹ سوشل ویلفیئر افیسرگریڈ پندرہ کی پوسٹ پر جعلی بھرتی ہوا تھا۔جبکہ اس پوسٹ کی ایڈورٹائزنگ بھی نہیں ہوئی تھی اور ابھی دو سال بھی مکمل نہیں ہوئے تھے کہ یہ موصوف بھاری رشوت کے عوض اسٹنٹ ڈائریکٹر 17میں پرموٹ ہوگئے بعد ازاں مئی 2024میں دوسرا پرموشن ڈپٹی ڈائریکٹر گریڈ 18میں حاصل کرکے ضلع گھوٹکی سے تبادلہ کروا کر ڈپٹی ڈائریکٹر ایڈمن کی پوسٹ پر تعیناتی حاصل کی۔
ذرائع کے مطابق گھوٹکی میں تمام غیر قانونی بھرتیاں اور کروڑوں روپے کی کرپشن کرنے کے بعداب کراچی ہیڈکواٹر میں کرپشن کا بازار گرم کر رکھا ہے۔
وزیر برائے سماجی بہبود طارق علی ٹالپورکے فری ہینڈ دینے کی وجہ سے تمام پورے سندھ کے دفتروں سے ماہانہ بنیاد پرایک لاکھ روپے،پچاس ہزار اور تعلقہ دفاتر سے پچیس ہزار روپئے بھتہ وصول کرتا ہے ہیڈ کواٹر کے تمام ڈی ڈی او پاورز اس کے پاس ہیں۔تمام اکاو¿نٹس جو کہ مختلف بینکوں میں سوشل ویلفیئر کے پروجیکٹس کے نام پر کھلے ہیں آپریٹ کررہا ہے۔
ان پروجیکٹس کے اوکانٹس کے علاو¿ہ ہیڈ کوارٹر کے مین اکاو¿نٹس1901. KQاور KQ.1937جوریگولر بجٹ سے متعلق ہے اربوں روپئے نکال کر ہضم کئے جارہے ہیں۔انھوں نے چودہ ماہ سے ڈپٹی ڈائریکٹر والینٹر ایجنسیزکا ایڈیشنل چارج بھی اپنے پاس رکھا ہے اور یہ تیس ہزار روپئے رشوت رینیول آف این جی او کی رشوت کے لیتا ہے۔
جو سب بڑھا کر پچاس ہزار روپئے کر دی گئی ہے۔چیریٹی کا سرٹیفیکیٹ ایشو کرنے کیلئے چالیس ہزار روپئے رشوت کے لئے جاتے ہیں۔جبکہ قانون کے مطابق تمام این جی اووز ہرسال دو ہزار روپئے گورنمنٹ چالان ادا کرتے ہیں اور دس ہزار روپئے کا چالان چیرٹی کمیشن کا ادا کرتے ہیں۔
ٹرانسفر ،پوسٹنگ اور چھوٹے اسٹاف سےپچیس ہزار روپئے لئے جاتے ہیں اور بڑے افسران سے ایک لاکھ روپئے رشوت وصول کی جاتی ہے اور دھڑلے سے کہا جاتا ہے کہ وزیرطارق علی ٹالپور اور اعظم نوحانی کو رشوت دیتا ہوں میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے۔
یہاں تک کہ وزیر اعلی سندھ بھی میرا کچھ نہیں کرسکتے۔ یہ صاحب اس وقت چار گاڑیوں کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ابھی حال ہی میں ڈھائی کروڑ روپئے مالیت کی فور چونر خریدیں ہے۔
جبکہ یہ شخص 2009میں جعلی کاغذات پر بھرتی ہوا تھااور اس وقت اس کے پاس موٹر سائیکل تک نہیں تھی۔ضلع گھوٹکی کے تمام تعلقہ دفتروں کا بجٹ 2016سے لیکر 2023تک کھلے عام ہڑپ کیاکیونکہ تمام دفتروں کےڈی ڈی پاور اختیارات ان کے پاس تھے۔
سںب سے یہ برملا کہتے تھے کہ گھوٹکی کے تمام سرداروں کے ساتھ ساتھ فریال تالپور کی بھی بھی مجھے مکمل حمایت حاصل ہے اس لئے میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے۔اس شخص نے اپنی میگا کرپشن سے محکمہ کا نقشہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔
جس کی وجہ سے محکمہ ترقی کرنے کے بجائے روز بروز تنزلی کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ چھوٹے ملازمین اپنی ترقی نہ ہونے سے پریشان ہیں کیونکہ ترقی کے لئے بھی ان سے ایک ایک لاکھ روپئے رشوت طلب کی جاتی ہے۔
صوبائی وزیر طارق تالپور خاندانی نواب ہوتے ہوئے بھی اس رشوت خور آفیسر کے محتاج ہیں۔اس آفیسر کی میگا کرپشن کے باوجود کوئی اس کا ٹرانسفر نہیں کرسکتا۔
حال ہی میں غیرقانونی بھرتیوں کی انکوائری اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ نے شروع کی تھی لیکن پچاس لاکھ روپے رشوت دے کر اور اوپر سے فون کروا کر یہ انکوائری رکوا دی گئی۔ان حالات میں سینئر آفیسر اور چھوٹے ملازمین عوام الناس جو اپنی تنظیموں کی رینیول اور اپنی رجسٹریشن کروانےجاتے ہیں تو بھاری رشوت کا سن کر پریشان ہو جاتے ہیں۔