Nai Baat:
2025-09-18@14:10:10 GMT

8فروری : آدھی شہادتوں کی پوری سیاست

اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT

8فروری : آدھی شہادتوں کی پوری سیاست

کمال مہارت سے کسی میکاویلین ذہن نے پاکستان میں چیئرمین تحریک انصاف کی رہنمائی کی ہے ۔ آج ہم سیاسی طور پر جس مقام پرکھڑے ہیں اس میں بلاشبہ ماننا پڑے گا کہ عمران نیازی نے تواتر اور تسلسل کے ساتھ ٗ یہ جانتے ہوئے کہ ڈرون اٹیک اورطالبان کے حوالے سے امریکی نفرت کے پی کے ٗ کے ہر گھر میں سرایت کر چکی ہے اُس نے ایک لمحے کیلئے بھی اِس موقف سے دستبرداری کا اعلان نہیں کیا ۔ حالانکہ یہ سوائے سیاسی سکورنگ کے کچھ بھی نہیں تھا ۔غرض مند دیوانہ ہوتا ہے اُسے اپنے بیانیے کے حمایتیوں کی ضرورت ہوتی ہے اُس وقت وہ یہ نہیں سوچتا یا دیکھتا کہ یہ حمایتی کب تک اُس کے بیانیے کے ساتھ کھڑا ہو گا ۔ عمران نیازی کا ’’سیاسی شعور‘‘ اپنی جگہ لیکن ایک بات تو روزِ روشن کی طرح ہمارے سامنے کھڑی ہے کہ پاکستانی عوام امریکی پالیسیوں سے نفرت کرتے ہیں ۔ ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرانے سے لے کر آج تک امریکی پالیسیوں نے دنیا بھر کے انسانوں کو جو دُکھ دیا ہے اس کیلئے لوگ ہمیشہ مزاحمت کرتے نظر آئے ہیں یہ الگ بات ہے کہ روس ٹوٹنے کے بعد تو امریکہ نے دنیا بھر کے عوام اور ریاستوں کے احتجاج کو جوتے کی نوک پر لکھا ہے ۔امریکہ اور سابق اسٹیبلشمنٹ نے ہمارے نصیب میں عمران نیازی لکھا تھا قدرت نے ایک ’’ ٹرمپ نیازی ‘‘ امریکہ کے نصیب میں لکھ دیا ہے اور امریکہ عنقریب اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزرے گا گو کہ وہ اِس پر قابو پا لے گا لیکن ٹرمپ کی پالیسیوں سے اُسے بہرحال بہت سے نقصانات اور مزید نفرت کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ تاحال عمران نیازی کی رہائی کیلئے امریکی کاوشوں کیلئے پُر امید ’’ یوتھیا برگیڈ‘‘ بُری طرح ناکامی اورمایوسی کا شکارہوئی ہے لیکن آج بھی انہیں امید ہے کہ کہیں نہ کہیں سے کمک پہنچ جائے گی اور عمران نیازی ایک بار پھر پاکستان کی شاہراہوں اور ریاستی اداروں کے اندر دندناتا نظر آئے گا ۔ مذہبی اور ناقابل ِ عمل بیانیوں کی بنیاد پر سیاست کرنے والوں کا یہ ہمیشہ سے المیہ رہا ہے کہ وہ بارانی زمین کے کسان کی طرح اپنا کام مکمل کرکے بارش کی آس آسمانوں سے رکھتے ہیں جو مالک کا صوابدیدی اختیار ہے کہ وہ کرے نہ کرے ۔
عالیہ حمزہ سے میری ملاقات کب ہوئی نہیں جانتا لیکن میرے سامنے اُس کا نام پہلی بار اُس وقت سامنے آیا جب گورنر ہائوس میں چوہدری سرور پی ٹی آئی کے گورنر تھے اور یہ خاتون آل اِن آل ہوا کرتی تھیں جس کی وجہ سے وہ بیگم سرور کی نظر میں ایک ’’ مشکوک ‘‘ خاتون تھیں لیکن پھر دیکھتے ہی دیکھتے اُس نے سیاسی سلوک کی منزلیں ایسے طے کیں کہ ہم سب کو ورطہ حیرت میں مبتلا کر دیا لیکن میں آج تک ایک بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ 9 مئی کے مرکزی ملزمان اور ماسٹر مائنڈ کا مائنڈ ہونے کے باوجود وہ سرعام حکومتی رٹ اورریاستی رٹ کو چیلنج کرتی نظر آ رہی ہیں ۔ عالیہ حمزہ کو اب پی ٹی آئی نے پنجاب کا آرگنائزر نامزد کردیا ہے اور 8 فروری کے حوالے سے ’’ کچھ کرنے ‘‘ کی لگن لئے وہ آزادانہ اپنی سرگرمیاں سرانجام دے رہی ہیں ۔ اب یا تو وہ یہ سب کچھ ریاست کی مرضی سے کررہی ہیں یا پھریہ سمجھ لینا چاہیے کہ 9مئی کو کور کمانڈر ہائوس کے سامنے کھڑ ے ہو کر سب سے زیاد ہ ’’واہیات ‘‘ ’’ کریمنل ‘‘اور ’’ اشتعال انگیز ‘‘ تقریر عالیہ حمزہ نے ہی کی اور پی ٹی آئی ورکر کی کینٹ کے علاقے میں موجودگی ٗ کور کمانڈر ہائو س کے باہر اور اندر ہونے کا فخریہ اور فاتحانہ اعلان کرنے کے باوجود وہ آزادانہ ’’نئی 9 مئی ‘‘ کی تیاری میں مصروف ہے تو پھر ہمیںاپنے اداروں کی عقل پر ماتم ہی کرنا چاہیے ۔ ایک طرف خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں روزانہ کی بنیاد پر ہمارے جوان شہید ہو رہے ہیں ٗ دہشتگرد معصوم شہریوں کا سرِ عام قتل عا م کر رہے ہیں ٗ ہم خوارج کے خلاف اعلانیہ جنگ میں مصروف ہیں اور دوسری طرف ایک سیاسی جما عت ہر تیسرے مہینے پاکستان کو انارکی میں دھکیلنے کا ایجنڈا لے کرمیدان میں آ جاتی ہے ۔ مذاکرات بارے میں نے پہلے دن ہی لکھ دیا تھا کہ یہ قیامت کی صبح تک نہیں ہو ں گے اور صورت حال آپ کے سامنے ہے۔ ٹرمپ سے ’’ آزادی ’’ کی تحریکی حمایت کا عدمِ اعلان بھی پی ٹی آئی ورکرز میں مزید مایوسی پھیلا رہا ہے ۔جن شرائط پر پی ٹی آئی مذاکرات کرنا چاہتی ہے وہ کسی کو کبھی قابل قبول نہ ہو ں گے چہ جائیکہ کوئی ’’ان ہونی ‘‘ ہو جائے اورعمران نیازی جس جس کو اپنا مخالف سمجھتا ہے وہ صفحہ ہستی سے مٹ جائے۔ پیکا ایکٹ شاید اس بار 8 فروری سے پہلے ہی پی ٹی آئی کی ریاست مخالف کمپین کورو ک دے اور 8 فروری کو سوائے اللہ کے نام کے کہیں کچھ نظر نہ آئے ۔ پی ٹی آئی کی سیاست خواتین کے گرد گھومنا شروع ہو گئی ہے دیکھیں اب یہ آدھی شہادتیں پوری سیاست کیسے کرتی ہیں؟ ۔

پنجاب میں محترمہ مریم نواز صاحبہ کا تجاوزات کے حوالے سے کامیاب آپریشن لائق تحسین ہے لیکن حقیقی کامیابی اُسی وقت تصور ہوگی جب یہ تجاوزات دوبارہ نہیں کی جائیں گی ۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ہر ضلعی اور تحصیلی بلدیاتی عملہ دوبارہ نئے عزم کے ساتھ متحرک ہو کراِس کامیاب کاوش کو ناکام کرنے کی کامیاب کوشش لازمی کرے گا کیونکہ لاہور میں تو ایک اینٹ کوئی شخص اِن کی مرضی کے بغیر نہیں لگا سکتا ۔ بہتر یہی ہے کہ پرانے درخت کاٹ کرنئے لگا لئے جائیں تو بہتری کی کوئی صورت نظر آ سکتی ہے۔ ورنہ ایک اور نیم کامیاب مکمل ناکام آپریشن دیکھنے کو ملے گا اور قوم کا وقت اور وسائل ضائع ہو جائیں گے ۔ 30 جنوری کو کاسمو پولیٹن کلب لارنس گارڈن لاہور میں ملی ادبی پنچایت کے زیر اہتمام ’’ ماں تجھے سلام ‘‘ کے حوالے سے خوبصورت پروگرام کا انعقاد کیا گیا ۔ جس کا ذیلی موضوع ’’ آئوماں کی باتیں کریں ‘‘ کریں تھا ۔ایسے بابرکت ٗ پُر تاثیر اورجذباتی پروگرام میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔ اِس پروگرام کوبانی چیئرمین ادبی پنچایت ریاض احمد احسان نے ترتیب دیا جبکہ فرزاندانِ ماموں کانجن رضوان کاہلوں اور عثمان کاہلوں نے میزبانی کی فرائض انجام دئیے ۔یہاں اِس بات کی وضاحت انتہائی ضروری ہے کہ کاہلوں برادران عرصہ دراز سے ماموں کانجن کو تحصیل بنانے کی تحریک کے روح رواں ہیں اور اِس سلسلہ میں انگنت پروگرام کرا چکے ہیں۔ ماموں کانجن انٹر چینج کے حوالے سے بھی اُن کی کاوشیں لائق تحسین ہیں اور دونوں بھائی انتہائی دیانتداری سے سماجی خدمت پر مامور ہیں ۔ ایسے لوگوں کو سماج میں کام کرتے دیکھتا ہوں تو پاکستان اور پاکستانیوں کی وطن ِ عزیز اوریہاں بسنے والوں سے محبت کا یقین ایمان کا حصہ بن جاتا ہے ۔ماںکے حوالے سے ہونے والی گفتگو بارے صرف اتنا ہی لکھوں گا کہ یہ آنسوئوں میں ڈوبی ہوئی محفل تھی جس میں نوجوانوں اور بزرگوں ٗ سب کے زبان پر ماں کا ذکر اور آنکھوں میں آنسو تھے ۔مقررین نے ماں کی محبت اور وطن کی محبت کو ایک جیسا جذبہ قرار دیا اورمیں سوچتا رہا کہ وہ کون ہے جو اِس ماں کے سینے میں خنجر اتار کر روزانہ میرے جوانوں کو یونیفارم میں شہید اور کالجوں ٗ یونیورسٹیوں اور محلوں میں گمراہ کر رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: عمران نیازی کے حوالے سے پی ٹی ا ئی

پڑھیں:

وقت نہ ہونے پر بھی سیلابی سیاست

سیلابی ریلے وسطی و جنوبی پنجاب میں تباہی مچا کر سندھ میں داخل ہونے پر پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماؤں کو بھی خیال آگیا کہ انھیں اور کچھ نہیں تو سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا خالی ہاتھ دورہ ہی کر لینا چاہیے۔

 اس لیے پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان اور سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے ملتان، شجاع آباد اور جلال پور پیروالا کا دورہ کیا اور حکومتی امدادی سرگرمیوں پر عدم اطمینان کا اظہارکیا۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ یہ سیاست کا وقت تو نہیں، اس لیے عوام کو اپنے سیلاب سے متاثرہ بہن بھائیوں کی مدد کے لیے آگے آنا ہوگا۔

انھوں نے ایک ریلیف کیمپ کے دورے پر کہا کہ پی ٹی آئی اس مشکل گھڑی میں متاثرین کے ساتھ ہے مگر انھوں نے متاثرین میں سلمان اکرم راجہ کی طرح کوئی امدادی سامان تقسیم نہیں کیا اور زبانی ہمدردی جتا کر چلتے بنے۔ سلمان اکرم راجہ نے اپنے دورے میں کہا کہ اس وقت جنوبی پنجاب سیلاب کی زد میں ہے اور سرکاری امداد محدود ہے، اس لیے میری عوام سے اپیل ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور سیلاب متاثرین کی مدد کریں۔

سابق اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے بھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے باز نہیں آئے ، موصوف نے کہا کہ ٹک ٹاکر حکومتیں سیلاب زدگان کی مدد کرنے والے والنٹیئرز پر امدای سامان پر فوٹو نہ لگانے کی پاداش میں ایف آئی آر کاٹ رہی ہیں۔

پی ٹی آئی کے حامی اینکرز اور وی لاگرز نے بھی اس موقع پر سیاست ضروری سمجھی اور انھوں نے پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو اپنے وی لاگ اور انٹرویوز میں بٹھا کر یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ (ن) لیگ کی وفاقی اور صوبائی حکومت نے سیلاب متاثرین کو لاوارث چھوڑ رکھا ہے اور صرف دکھاوے کی امداد شروع کر رکھی ہے اور سیلاب متاثرین کو بچانے پر توجہ ہی نہیں دی گئی جس کی وجہ سے جنوبی پنجاب میں بہت زیادہ جانی و مالی نقصان ہوا ہے اور متاثرین کو بروقت محفوظ مقامات پر پہنچانے کی کوشش نہیں کی اور جب سیلابی پانی ان کے گھروں اور کھیتوں میں داخل ہوا تو ریلیف کا کام شروع کیا گیا۔

متاثرہ علاقوں میں ضرورت کے مطابق کشتیاں موجود تھیں نہ ریلیف کا سامان اور نہ ضرورت کے مطابق حفاظتی کیمپ قائم کیے گئے۔ یہ رہنما اس موقعے پر بھی سیاست کرتے رہے اور کسی نے بھی حکومتی کارکردگی کو نہیں سراہا بلکہ حکومت پر ہی تنقید کی۔ جب کہ وہ خود کوئی ریلیف ورک نہیں کرتے۔

پنجاب کے ریلیف کمشنر نے قائم مقام امریکی ناظم الامور کو پنجاب ہیڈ آفس کے دورے میں بتایا کہ پنجاب کو تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب کا سامنا ہے جس سے ساڑھے چار ہزار موضع جات متاثر 97 شہری جاں بحق اور تقریباً 45 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں جن کے لیے متاثرہ اضلاع میں 396 ریلیف کیمپس، 490 میڈیکل کیمپس اور 405 وزیٹری کیمپس قائم کیے گئے جہاں سیلاب متاثرین کو ٹھہرا کر ہر ممکن امداد فراہم کی جا رہی ہے اور شمالی پنجاب کے متاثرہ اضلاع کے بعد جنوبی پنجاب کی سیلابی صورتحال پر حکومتی توجہ مرکوز ہے اور سیلاب متاثرین کے لیے تمام سرکاری وسائل استعمال کیے جا رہے ہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے قدرتی آفت پر صوبائی حکومتوں کی امدادی کارروائیوں کو قابل ستائش قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ہمارے کسانوں، مزدوروں، خواتین اور بچوں نے غیر معمولی ہمت دکھائی ہے اس قدرتی آفت سے بے پناہ مسائل و چیلنجز نے جنم لیا ہے مگر حکومت متاثرین کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔

 خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی کارکردگی کا موازنہ پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکوتوں سے کیا جائے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ خیبر پختونخوا کے برعکس پنجاب و سندھ کی حکومتوں نے سیلابی صورت حال دیکھتے ہوئے تیاریاں شروع کردی تھیں اور حفاظتی انتظامات کے تحت متاثرہ علاقوں میں سیلاب آنے سے قبل خالی کرنے کی اپیلیں کی تھیں مگر اپنے گھر فوری طور خالی کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

غریب اپنے غیر محفوظ گھر خالی کرنے سے قبل بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں، انھیں حکومت اور انتظامیہ پر اعتماد نہیں ہوتا کہ وہ واپس اپنے گھروں کو آ بھی سکیں گے یا نہیں اور انھیں سرکاری کیمپوں میں نہ جانے کب تک رہنا پڑے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر قدرتی آفت پر حکومتی اور اپوزیشن دونوں طرف سے سیاست ضرور کی جاتی ہے اور غیر حقیقی دعوے کیے جاتے ہیں اور عوام کو حقائق نہیں بتائے جاتے۔ حکومت نے بلند و بانگ دعوے اور اپوزیشن نے غیر ضروری تنقید کرکے اپنی سیاست بھی چمکانا ہوتی ہے اور دونوں یہ نہیں دیکھتے کہ یہ وقت سیاست کا ہے یا نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • یزیدیت کے آگے سر نہیں جھکاؤں گا،عمران خان کادو ٹوک پیغام
  • لیڈی ڈاکٹر نے نالے میں چھلانگ لگا لی، وجہ کیا بنی؟
  • ہونیاں اور انہونیاں
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • سیلاب ،بارش اور سیاست
  • وقت نہ ہونے پر بھی سیلابی سیاست
  • اب جنازوں پر سیاست ہو رہی ہے: علی امین گنڈاپور
  • حسان نیازی کو ملٹری کی تحویل میں دینے کیخلاف درخواست، وکلا کو اعتراض دور کرنے کی ہدایت
  • ’’عشق پیغمبر اعظم، مرکز وحدت مسلمین‘‘ کانفرنس
  • ٹرمپ عمر رسیدہ ، صدارت کے اہل نہیں؟ امریکی سیاست میں نئی بحث چھڑ گئی