کانیے ویسٹ اور بیانکا کو گریمی ایوارڈز میں نازیبا حرکت کی وجہ سے لاکھوں ڈالرز کے نقصان کا خدشہ
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
معروف امریکی ریپر کانیے ویسٹ اور ان کی اہلیہ بیانکا سنسوری نے گریمی ایوارڈز 2025 میں جہاں فیشن کے نام پر فحاشی پھیلانے پر سب کی توجہ سمیٹی وہیں اب انہیں اپنی اس حرکت پر نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق گریمی ایوارڈز کے ریڈ کارپٹ کانیے اپنی اہلیہ بیانکا کے ساتھ شریک ہوئے جہاں بیانکا نے اپنا کالا کوٹ اُتار کر میڈیا اور حاضرین کے سامنے برہنہ ہوگئیں جس کے نتیجے میں سیکیورٹی نے انہیں فوری طور پر اس ایونٹ سے باہر نکال دیا۔
ایک غیر ملکی پیج نے ڈیلی میل کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ کانیے ویسٹ کو مئی میں ٹوکیو ڈوم میں دو کنسرٹس میں پرفارم کرنا تھا، لیکن گریمی ایوارڈز میں ان کی حرکت کے بعد منتظمین 20 ملین ڈالرز مالیت کے اس بین الاقوامی کنسرٹ معاہدے پر نظرثانی کر رہے ہیں جوکہ ممکن ہے کہ ختم کردیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق جاپان میں خواتین کے حقوق سے متعلق شعور میں اضافہ ہو رہا ہے، اور کانیے اور ان کی اہلیہ کا تقریب میں جرات مندانہ لباس مقامی لوگوں کے لیے ناپسندیدہ ثابت ہوا۔ ایک مقامی ذریعے نے غیر ملکی میڈیا کو بتایا کہ ’کنسرٹ کے سرمایہ کار اس معاملے پر شدید ناپسندیدگی کا اظہار کر رہے ہیں، اور امکان ہے کہ وہ اس تقریب کے لیے فنڈنگ روک دیں گے۔‘
کنسرٹ کے سرمایہ کاروں نے گلوکار اور ان کی اہلیہ کی اس حرکت کو ’انتہائی نامناسب‘ اور ’ناگوار‘ قرار دیا ہے۔
یاد رہے کہ گریمی ایوارڈز میں بیانکا سنسوری نے ایک مختصر لباس پہنا، جو جرابوں کے نازک کپڑے سے تیار کردہ معلوم ہوتا تھا جوکہ حاضرین سمیت گریمی ایوارڈز کی انتظامیہ کو بھی نامناسب لگا اور ان کے خلاف فوری ایکشن لیا گیا۔
بعد ازاں وہ ایک اور تقریب میں مزید جرات مندانہ لباس میں شریک ہوئیں۔ یاد رہے کہ کانیے ویسٹ نے دسمبر 2022 میں بیانکا سے شادی کی تھی، جو ان کی کم کارڈیشین سے طلاق کے ایک ماہ بعد انجام پائی تھی۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
کام کی زیادتی اور خاندانی ذمے داریاں، لاکھوں امریکی خواتین نے نوکریاں چھوڑ دیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکی خواتین کے لیے رواں سال روزگار کی دنیا تاریخی لحاظ سے غیر معمولی تبدیلیوں کے ساتھ گزری ہے۔
امریکی بیورو آف اسٹیٹسٹکس کی تازہ رپورٹ کے مطابق جنوری سے اگست 2025ء کے دوران ملک بھر میں تقریباً چار لاکھ پچپن ہزار خواتین نے اپنی ملازمتیں ترک کر دیں۔ یہ تعداد کورونا وبا کے بعد جاب مارکیٹ سے خواتین کے سب سے بڑے انخلا کے طور پر ریکارڈ کی گئی ہے۔
ماہرین معاشیات اس غیر متوقع رجحان پر حیرانی کا اظہار کر رہے ہیں اور اسے امریکی سماج کی بدلتی ہوئی ترجیحات اور دباؤ کی عکاسی قرار دے رہے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملازمت چھوڑنے والی خواتین کی بڑی تعداد نے اپنی زندگی میں بڑھتے ہوئے دباؤ اور ذاتی و خاندانی ذمہ داریوں کو بنیادی وجہ بتایا۔ بچے کی پیدائش، کام کی زیادتی، مسلسل دباؤ، نیند کی کمی اور گھر و دفتر کے توازن کا بگڑ جانا وہ عوامل ہیں جنہوں نے خواتین کو ملازمت چھوڑنے پر مجبور کیا۔
متعدد خواتین نے اعتراف کیا کہ وہ اپنی جسمانی اور ذہنی صحت کو برقرار رکھنے میں ناکام ہو رہی تھیں، جبکہ مہنگی نرسریوں اور بچوں کی دیکھ بھال کے اخراجات نے بھی ان کے فیصلے پر اثر ڈالا۔
امریکا میں ایک نوزائیدہ بچے کی پرورش پر سالانہ 9 ہزار سے 24 ہزار ڈالر خرچ ہوتے ہیں، جو پاکستانی روپے میں تقریباً 25 سے 67 لاکھ کے برابر ہے۔ ایسے میں جب تنخواہ کا بڑا حصہ صرف بچوں کی نگہداشت پر خرچ ہو جائے تو کئی خواتین کے لیے نوکری پر قائم رہنا معاشی طور پر بے معنی محسوس ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بڑھتے ہوئے مالی دباؤ نے نہ صرف خواتین کی افرادی قوت میں شرکت کم کی ہے بلکہ امریکی معیشت میں لیبر گیپ کو بھی گہرا کر دیا ہے۔
ماہرین اس صورتحال کو سماجی پسپائی قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق پچھلے سو سال میں امریکی خواتین نے جو معاشی خودمختاری، آزادیٔ رائے اور سماجی کردار حاصل کیا تھا، وہ جدید زندگی کے بے قابو دباؤ اور نظام کی سختیوں کے باعث کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ خواتین کے لیے مساوی مواقع کے نعرے عملاً مشکل تر ہوتے جا رہے ہیں جبکہ کام اور گھر کے درمیان توازن قائم رکھنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔
امریکی میڈیا میں بھی اس رپورٹ پر بحث جاری ہے کہ اگر یہ رجحان برقرار رہا تو آنے والے برسوں میں نہ صرف خواتین کی نمائندگی کم ہو گی بلکہ کارپوریٹ سطح پر تنوع اور تخلیقی صلاحیتیں بھی متاثر ہوں گی۔