بہادر کشمیری عوام کے عزم اور حوصلے کو سلام پیش کرتا ہوں،وزیراعظم
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کی حکومت اور عوام ہر سال ’’یوم یکجہتی کشمیر‘‘ مناتے ہیں تاکہ کشمیری عوام کے حق خودارادیت کے حصول کے لیے ان کی منصفانہ اور جائز جدوجہد کی مستقل حمایت کی تجدید کی جاسکے، حق خود ارادیت بین الاقوامی قانون کا ایک بنیادی اصول ہے، ہر سال، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ایک قرارداد منظور کرتی ہے جس میں لوگوں کو اپنی تقدیر خود طے کرنے کے قانونی حق پر زور دیا جاتا ہے۔ افسوس کہ کشمیری عوام گزشتہ 78 سال گزرنے کے باوجود اس ناقابل تنسیخ حق کو استعمال نہیں کر سکے۔
یوم یکجہتی کشمیر پر اپنے پیغام میں وزیراعظم نے کہا کہ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر تسلط، مقبوضہ جموں و کشمیر (IIOJK) دنیا کے سب سے بڑے قابض فوجی علاقوں میں سے ایک ہے۔ کشمیری خوف اور دہشت کے ماحول میں جی رہے ہیں۔ سیاسی کارکنوں اور انسانی حقوق کے محافظوں کو طویل حراست میں رکھا جا رہا ہے اور ان کی جائیدادیں ضبط کی جا رہی ہیں۔ کشمیری عوام کی حقیقی امنگوں کی نمائندگی کرنے والی سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ ان جابرانہ اقدامات کا مقصد اختلاف رائے کو کچلنا ہے۔
بھارت، مقبوضہ کشمیر پر اپنے غیر قانونی قبضے کو مستحکم کرنے کے لیے غیر قانونی اقدامات کر رہا ہے۔ 5 اگست2019 کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کے بعد، بھارت کی کوششوں کا مقصد بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کی آبادی اور سیاسی ماحول کو تبدیل کرنا ہے تاکہ کشمیری اپنی ہی سرزمین میں ایک بے اختیار کمیونٹی میں تبدیل ہو جائیں-
مشرق وسطیٰ کی حالیہ پیش رفت اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ دیرینہ تنازعات کو مزید طول نہیں دیا جانا چاہیے۔ مقامی لوگوں کی حقیقی امنگوں کو دبا کر دیرپا امن حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن کے مفاد میں عالمی برادری کو بھارت پر زور دینا چاہیے کہ وہ کشمیری عوام کو آزادانہ طور پر اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی اجازت دے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کشمیری عوام
پڑھیں:
گورنر کیلیفورنیا نے صدر ٹرمپ کا فیصلہ غیر قانونی قرار دے دیا
مظاہروں کے بارے میں ٹرمپ کی بیان بازی کے باوجود، صدر ٹرمپ نے بغاوت ایکٹ، 1807 کا قانون صدر کو سول ڈس آرڈر جیسے واقعات کو دبانے کے لیے امریکی فوج کو تعینات کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ اس حوالے سے جب صحافیوں نے صدر ٹرمپ سے پوچھا کہ کیا وہ اس کا اطلاق کریں گے؟ جس پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ اس بات پر منحصر کہ بغاوت ہوتی ہے یا نہیں۔ اسلام ٹائمز۔ لاس اینجلس میں امیگریشن قوانین کیخلاف تارکین وطن کے تیسرے روز بھی مظاہرے جاری ہیں، احتجاج کو کنٹرول کرنے کیلیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے لاس ایجنلس میں نیشنل گارڈ کی تعیناتی کی منظوری دے دی ہے، جسے کیلفورنیا کے ڈیموکریٹک گورنرگیون نیوسم نے غیرقانونی فیصلہ قرار دیا ہے۔ عالمی خبررساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق مجموعی طور پر 39 مظاہرین کو حراست میں لیا گیا ہے، نیشنل گارڈز سرکاری عمارتوں پر مامور ہے جبکہ پولیس اور مظاہرین کے درمیان لاس اینجلس میں جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
لاس ایجنلس کی پولیس نے مظاہروں کو غیرقانونی قار دیتے ہوئے کہا کہ مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ اور بوتلوں سمیت دیگر نقصان دہ اشیا سے حملے کیے۔ لاس اینجلس کے مرکزی علاقے میں کچھ جگہوں پر سیلف ڈرائیونگ گاڑیوں کو آگ لگانے کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے، شہر میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے جہاں مظاہرین کو تمھیں شرم آنی چاہیے، کے نعرے لگاتے سنا گیا، اس دوران چند مظاہرین نے شہر کے مرکزی علاقے کو ملانے والی شاہراہ 101 فری وی کو بلاک کر دیا۔
مظاہروں میں شریک بیشتر مظاہرین کو میکسیکو کے جھنڈے اٹھائے دیکھا گیا جو ٹرمپ انتظامیہ کے تارکین وطن کیخلاف قوانین کی مخالفت کر رہے تھے۔ کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے مقامی ٹی وی ’ایم ایس این بی سی‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے صدر ٹرمپ سے لاس ایجنلس میں 2 ہزار نیشنل گارڈز کی تعیناتی کے فیصلے کو واپس لینے کی درخواست کی ہے ساتھ ہی انھوں نے صدر ٹرمپ کے اس فیصلے کو غیرقانونی بھی قرار دیا۔
گیون نیوسم نے سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر لکھا کہ صدر ٹرمپ تشدد کو بڑھاوا دے رہے ہیں، بڑے پیمانے پر افراتفری پھیلانے، شہروں میں مسلح افواج کی تعیناتی اور مخالفین کو حراست میں لے رہے ہیں، یہ اقدامات کسی آمر کے ہو سکتے ہیں صدر کے نہیں۔ دوسری جانب لاس اینجلس کے پولیس چیف جیم میکڈونلڈ نے میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ مظاہرین اب پولیس کے قابو سے باہر ہورہے ہیں۔ پولیس چیف نے کہا ہے کہ ہم درست سمت میں جا رہے ہیں، ہمیں دوبارہ سے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔
صدر ٹرمپ نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ پر کہا کہ پولیس چیف جیم میکڈونلڈ کو یہ کرنا ہوگا، ان ٹھگوں کو یہاں سے بھاگنے نہیں دینا چاہیے، امریکا کو دوبارہ سے عظیم بنانا ہوگا۔ ترجمان وائٹ ہاوس نے بھی کیفلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم کے الزامات کو صدر ٹرمپ کی ذات پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ لاس ایجنلس میں پھیلی افراتفری، پر تشدد واقعات اور لاقانونیت سب نے دیکھ لی ہے۔ نیشنل گارڈز سرکاری عمارتوں کے گرد مظاہرے کرنے والے مظاہرین کو پیچھے ہٹانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
یو ایس ناردرن کمانڈ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ کیلیفورنیا کے300 نیشنل گارڈز کو لاس اینجلس کے 3 مختلف حصوں میں تعنیات کیا گیا ہے، ان گارڈز کو سرکاری اہلکاروں اور املاک کی حفاظت کی ذمہ داری تفویض کی گئی ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ پر لاس اینجلس میں مظاہرے کرنے والے مظاہرین کو پرتشدد، تشدد کو بڑھاوا دینے والے مظاہرین کہا اور ساتھ ہی صدر ٹرمپ نے بتایا کہ انھوں نے کابینہ کے افسران کو مظاہرین کیخلاف تمام ضروری اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی ہے تاکہ شہر میں جاری ان فسادات کو روکا جا سکے۔
نیوجرسی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے مظاہرین کو دھمکی دی کی اگرمظاہرین پولیس یا نیشنل گارڈز پر تھوکیں گے تو بھی ان پر جوابی حملہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں محسوس ہوا کہ ملک اور شہریوں کی کسی بھی قسم کا خطرہ ہے تو پھر قانون کے مطابق سختی سے نمٹا جائے گا۔ دوسری جانب ایف بی آئی نے پولیس کی گاڑیوں پر پتھراؤ کرنے والے مظاہرین کی معلومات دینے پر 50 ہزار ڈالر انعام کا بھی اعلان کیا ہے۔
مظاہروں کے بارے میں ٹرمپ کی بیان بازی کے باوجود، صدر ٹرمپ نے بغاوت ایکٹ، 1807 کا قانون صدر کو سول ڈس آرڈر جیسے واقعات کو دبانے کے لیے امریکی فوج کو تعینات کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ اس حوالے سے جب صحافیوں نے صدر ٹرمپ سے پوچھا کہ کیا وہ اس کا اطلاق کریں گے؟ جس پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ اس بات پر منحصر کہ بغاوت ہوتی ہے یا نہیں۔