Nai Baat:
2025-04-25@08:30:15 GMT

یہ سب کیسے چلے گا؟

اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT

یہ سب کیسے چلے گا؟

2014ء میں انڈیا میں نریندر مودی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے اب تک انڈیا اور پاکستان میں سرکاری سطح پر مذاکرات کا عمل معطل چلا آرہا ہے لیکن اس سے پہلے دونوں ممالک کے درمیان ناکام ڈائیلاگ کی ایک اپنی تاریخ ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بھی دو طرفہ مذاکرات کا اعلان ہوتا تھا میڈیا اس کو ضرورت سے زیادہ اچھالنا شروع کر دیتا تھا یہاں تک کہ کس تیسرے ملک میں دونوں ممالک کے سربراہان آپس میں ہاتھ بھی ملا لیتے تو اس کو سب سے بڑی پیش رفت بنا کر پیش کیا جاتا کہ ناظرین دیکھیں انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملا لیا ہے حالانکہ ہاتھ ملانے سے لے کر کس طرح کے معاہدے تک کا سفر بہت کٹھن ہوتا ہے۔ دسمبر میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سپیکر قومی اسمبلی کی مصالحت سے شروع ہونے والے مذاکرات کم و بیش انہی حالات میں شروع ہوئے جو عموماً انڈیا پاکستان ڈائیلاگ کے مابین ہوا کرتے تھے اور پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بننے کے باوجود جن کا نتیجہ کچھ نہیں نکلتا تھا۔ ان مذاکرات کا آغاز اور انجام بالکل اسی طرح کی ناکامی پر ہوا۔ دنیا بھر میں ڈپلومیسی کا اصول یہ ہے کہ جب آپ ٹیبل ٹاک کرتے ہیں تو اس کی سب سے پہلی شرط یہ ہوتی ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف لفظی گولہ باری بند کریں جب تک یہ نہ ہو آپ بات نہیں کر سکتے اعتماد سازی کا مرحلہ اس کے بعد آتا ہے۔ لیکن ن لیگ اور پی ٹی آئی مذاکرات میں ناکامی بات چیت شروع ہونے سے پہلے ہی نظر آرہی تھی کیونکہ مذاکرات بھی چل رہے تھے اور ایک دوسرے کے خلاف زہر افشانی میں بھی کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ گویا آغاز میں ہی انجام کی باتیں واضح تھیں۔

حکومت اور اپوزیشن مذاکرات میں ہمیشہ حکومتی stakes زیادہ ہوتے ہیں لہٰذا حکومت پر زیادہ بھاری ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ مذاکرات کو میاب کرانے کے لیے وہ سیاسی پختگی کا ثبوت دے کیونکہ ناکامی کی صورت میں نقصان بھی حکومت کا ہی زیادہ سمجھا جاتا ہے لیکن ن لیگی حکومت میں عرفان صدیقی جیسے فاختہ صفت مذاکرات کار کی زبان میں لچک یا صلح جوئی کا عنصر ناپید رہا جبکہ ڈائیلاگ سے باہر کی ن لیگی عقاب صفت رہنما جیسا کہ خواجہ آصف تھے وہ تابڑ توڑ حملے کرتے رہے اور اپنی حکومت کو سر عام کہتے رہے کہ ان سے ڈائیلاگ ختم کریں۔ اپوزیشن کا کہنا تھا کہ حکومت کے بس میں کچھ نہیں ہے جو حکومت وعدے کے باوجود ان کے پس زنداں لیڈر سے ملاقات نہیں کرا سکی وہ فیصلے کرنے میں کتنی آزاد یا خود مختار ہے۔ اسی دلیل کو تقویت دینے کے لیے عمران خان نے جیل سے آرمی چیف کے نام خط میں پالیسی پر نظر ثانی کے لیے خط لکھا ہے بہرحال مذاکرات جہاں سے چلے تھے اسی مقام پر ایک انچ آگے بڑھے بغیر ختم ہو گئے ۔ اس ناکامی کا ملبہ بلاشبہ حکومت کے کھاتے میں جائے گا۔

اسی اثنا میں حکومت نے Prevention of electronic crime یا PECA قانون میں پارلیمنٹ میں بحث کے بغیر من مانی ترمیم کرتے ہوئے فیک نیوز کی اشاعت پر 3سال قید کی سزا پر انسانی حقوق سول سوسائٹی اور بطور خاص میڈیا کو اپنے خلاف صف آرائی کا موقع دے دیا ہے۔ اس قانون سے اظہار رائے کی آزادی پر دور رس اثرات مرتب ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے حکو مت کے خلاف بولنے والوں کے گرد گھیرا تنگ ہوتا نظر آرہا ہے اس کی جو تشریح کی جا رہی ہے یہ ہر بر سر اقتدار حکومت کے ہاتھ میں ایک ایسا ہتھیارآجائے گا جسے دیکھتے ہوئے کوئی حکومت کے خلاف بولنے کی جرأت نہیں کر سکے گا۔ اس قانون کے نتیجے میں کرپشن اور بدعنوانی کو بے نقاب کرنا سب سے مشکل ہو جائے گا۔

پاکستان کے ماضی کے بدنام زمانہ مہران بینک سکینڈل کے مرکزی کردار یونین حبیب مرحوم سے پوچھا گیا تھا کہ آپ سیاستدانوں میں کرورڑوں روپے تقسیم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اس کاثبوت دیں تو انہوں نے تاریخی جواب دیا تھا کہ کرپشن کے لین دین میں رسیدیں نہیں دی جاتیں ان کے پاس ہاتھ سے لکھی ہوئی پرچیاں تھیں کہ کس کس کو کتنا کتنا مال دیا گیا تھا۔

پیکا ایکٹ بال سے باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز وہ رسی ہے جس پر چلتے ہوئے صحافیوں کو نظر آرہا ہے کہ اس رسی کو عبور کرتے ہوئے اگر گر گئے تو تین سال کی قید یقینی ہے۔ ان حالات میں ادارہ جاتی کرپشن پر کون آواز بلند کرے گا اور جب کوئی نہیں بولے گا تو فائدہ کس کو ہو گا۔ اس لیے اسمبلی کے فلور پر ANP نے اس کو Draconian law یا ظالمانہ قانون کہا ہے جبکہ اپوزیشن کی تو بات سنی ہی نہیں گئی۔ ان حالات میں اخباری اداریے جو پہلے ہی ہومیو پیتھک ہیں مزید فرینڈلی ہو جائیں گے اور یہی گورنمنٹ چاہتی ہے۔ اس قانون کا اطلاق سوشل میڈیا سے زیادہ main stream میڈیا پر ہونا ہے اسی لیے پارلیمانی رپورٹر زنے قانون پاس ہونے کے دن وہاں سے واک آؤٹ کیا تھا۔ اردو کا محاورہ ہے کہ کہنا بیٹی کو اور سنانا بہو کو یہ بظاہر تو سوشل میڈیا کہتے ہیں لیکن اس کی زد میں آپ دیکھیں گے کہ کون کون آتا ہے جس میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ہدف ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا تو پیمرا کے ذریعے پہلے ہی سوئی کے ناکے سے گزارا جا چکا ہے۔آپ حکومت کی اجازت کے بغیر اپوزیشن کی کوریج کر کے دکھائیں۔

اس ترمیم کے ذریعے حکومت میڈیا کو مائیکرو مینج کرنا چاہتی ہے اس خواہش سے تو جنرل مشرف جیسی آہنی حکومتوں نے بھی گریز کیا تھا۔ تمام صحافی تنظیموں نے اس پر احتجاج کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے لیکن ابھی تک حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ حکومتی ترجمان کہتے ہیں کہ اگر اس قانون کی کوئی خامی ہے تو آئیں بیٹھ کر بات کرتے ہیں اور حل نکالتے ہیں یہ وہی دعوت ہے جو حکومت نے اپوزیشن کو مذاکرات سے پہلے دی تھی کہ آئیں بیٹھ کر حل نکالتے ہیں مگر بعد میں اپنی عدم سنجیدگی کے باعث موقع ضائع کر دیا۔

26 ویں آئینی ترمیم کے بعد اب کسی کے پاس سپریم کورٹ جانے کاآپشن بھی نہیں بچا کہ اس کو چیلنج کیا جائے کیونکہ جو بنچ بھی بنے گا وہ حکومت کی مرضی ہو گی کہ یہ کس کس کے پاس جائے۔ یہ ایک الگ بحث ہے۔ 26 ویں آئین ترمیم اور جو ڈیشل کمیشن پر حکومت کے ہولڈ کے بعد جو نئے ججوں کی induction ہوئی ہے اس سے اگلے 10 سے 15 سال تک اعلیٰ عدلیہ میں ن لیگ کے لائے ہوئے ججوں کا غلبہ طاری رہے گا۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: مذاکرات کا حکومت کے کے خلاف ہے لیکن کے بعد

پڑھیں:

مسلمانی کا ناپ تول

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 اپریل 2025ء) یہ کوئی ستم ظریفی نہیں بلکہ بھارت کی پارلیمنٹ کا حالیہ منظور شدہ وقف قانون ہے۔ ایسا قانون جو بظاہر جائیداد کے تحفظ کے لیے ہے، مگر درحقیقت محبت، بھائی چارے، اور عقیدے کے بیچ میں دیوار کھڑی کرنے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔

نئے قانون کے تحت اب کوئی بھی شخص اگر اسلامی فلاحی مقاصد کے لیے وقف کرنا چاہے، تو یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ وہ گزشتہ پانچ برسوں سے "با عمل" مسلمان ہے۔

اس کا مطلب؟ باجماعت نماز؟ روزے کے کھاتے؟ حج کی مہر؟ یا پھر امام صاحب کی تحریری تصدیق؟ قانون خاموش ہے۔ لیکن واضح ہے کہ نیت نہیں ناپی جائے گی، ناپ تول کردار سے ہوگا۔ شاید کل کو وقف عطیہ دہندگان کے لیے "دینداری اسکینر" مشینیں ایئرپورٹ کے سامان چیکنگ جیسی لگائی جائیں گی۔

(جاری ہے)

فسادات کے دنوں میں کچھ فسادی پاجامہ اتار کر مذہب کا فیصلہ کرتے تھے، اب حکومت ختنہ کے ساتھ تقویٰ بھی چیک کرے گی۔

لگتا ہے بھارت کی پارلیمنٹ نے بھی وہی 'پاجامہ ٹیسٹ‘ واپس لاگو کر دیا ہے، مگر اس بار اسے قانونی شکل دے دی گئی ہے۔ پہلے پاجامہ اتارنے کے بعد گردنیں اتاری جاتی تھیں، اب خیرات اور نیکی کے ارادوں پر قدعن لگائی جائیگی۔

پنجاب کی مثال سب کے سامنے ہے۔ سکھ کسانوں نے گزشتہ دو دہائیوں میں 200 سے زائد ایسی زمینیں عطیہ کیں جہاں 1947 کے بعد اجڑی مساجد دوبارہ آباد ہو سکیں۔

گاؤں عمرپورہ، ضلع مالیر کوٹلہ میں سکھجندر سنگھ نونی اور ان کے بھائی اوینندر سنگھ نے مسجد کے لیے کئی ایکڑ زرعی زمین دی۔ ان کا کہنا تھا، "گاؤں میں مسلم گھرانے ہیں، ان کے پاس عبادت کی جگہ نہیں، ہمیں لگا یہ ہماری انسانی ذمہ داری ہے۔"

ایسا صرف عمرپورہ میں نہیں، جٹوال کلاں جیسے سکھ اکثریتی دیہات میں بھی محض ایک درجن مسلمان خاندانوں کے لیے سکھ برادری نے نہ صرف زمین دی بلکہ تعمیراتی اخراجات بھی اٹھائے۔

مگر نیا قانون ان تمام جذبوں پر ایک ٹھنڈی فائل کی مہر لگا دیتا ہے، غیر مسلم شخص کسی اسلامی ادارے کو زمین نہیں دے سکتا، جب تک وہ خود مسلم نہ ہو، اور وہ بھی ایسا مسلم جو پانچ سال سے مسجد کی پہلی صف میں بیٹھا ہو، فطرہ اور زکوة وقت پر دے، اور سوشل میڈیا پر مولانا طارق جمیل کی ویڈیوز شیئر کرتا ہو۔

یہ سوال نہایت اہم ہے۔ اگر کسی سکھ، ہندو یا عیسائی کو اپنے مسلمان ہمسایوں کے لیے زمین دینی ہو تو کیا وہ مذہب تبدیل کرے؟ پھر پانچ سال کی دینداری کا ثبوت دے؟ یہ قانون صرف "مدد روکنے" کے لیے نہیں، بلکہ "دل توڑنے" کے لیے بھی بنایا گیا ہے۔

ایسا لگتا ہے جیسے حکومت لوگوں کو مذہبی خیرات سے باز رکھنے کے لیے "افسر شاہی اسلامیات" کا نیا مضمون متعارف کروا رہی ہے۔ کیا دینداری کی ماپ کے لیے کوئی ریاستی مولوی رکھے جائیں گے؟ کیا زکوٰۃ، نماز، حج اور روزے کی رسیدیں محکمہ وقف میں جمع ہوں گی؟ یا پھر آدھار کے محکمہ کو یہ ڈیٹوٹی بھی دی جائیگی کہ وہ طے کرے کہ کون باعمل مسلمان ہے۔

وقف بورڈز میں غیر مسلموں کی اکثریت

نیا قانون یہ بھی کہتا ہے کہ مرکزی وقف کونسل کے 22 میں سے 12 اراکین غیر مسلم ہوں گے، ریاستی وقف بورڈز میں 11 میں سے 7 اراکین غیر مسلم ہو سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ وقف بورڈز کے چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو افسر کے لیے مسلمان ہونا ضروری نہیں رہا۔

یہ ایسا ہی ہے جیسے مسجد کے انتظام کے لیے چرچ کے پادری یا مندر کے پجاری کو مقرر کیا جائے۔

افسوس کہ جب شری سائی بابا ٹرسٹ یا مندروں کے بورڈز کے لیے متعقد افسر کا ہندو ہونا ضروری ہو، تب کوئی سوال نہیں اٹھتا۔ لیکن مسلمانوں کے مذہبی اور فلاحی ادارے اب اقلیت میں بھی اقلیت کے رحم و کرم پر ہوں گے۔

2013 میں جب کانگریسی حکومت نے وقف املاک کی واگزاری کے لیے سخت قانون بنایا، تو 21 لاکھ ایکڑ زمین واپس لی گئی۔ اس کے بعد وقف جائیدادوں کا مجموعی رقبہ 18 لاکھ ایکڑ سے بڑھ کر 39 لاکھ ایکڑ تک پہنچ گیا۔

تب سے ایک پروپیگنڈہ چلا: ''مسلمانوں کے پاس سب سے زیادہ زمینیں ہیں!‘‘ حالانکہ صرف جنوبی ہندوستان کی چار ریاستوں میں مندروں کے پاس 10 لاکھ ایکڑ اراضی ہے، اور شمالی بھارت کی تو بات ہی الگ ہے۔

یہ "زمین کا فوبیا" سیاست کا نیا ہتھیار ہے، جس کے ذریعے اکثریتی طبقے کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا جا رہا ہے۔ کہ دیکھو! تمہارے پاس کچھ نہیں اور یہ اقلیت سب کچھ لے اُڑی۔

بے آواز خیرات، بے زبان محبت

ہندوستانی موجودہ حکمران پارٹی جس کے پاس آج ایک بھی مسلم رکن پارلیمان نہیں، وہ مسلمانوں کی "فلاح و بہبود" کے لیے قوانین لا رہی ہے۔ ان قوانین کے پیچھے جس خلوص کا شور ہے، اس کے نیچے تعصب اور تنگ نظری کا شور زیادہ سنائی دیتا ہے۔

عمرپورہ اور جٹوال کلاں جیسے دیہاتوں میں جہاں مسلمان اور سکھ ساتھ بستے ہیں، یہ قانون اب ان کی محبت کو غیر قانونی، اور ان کی مشترکہ زندگی کو مشکوک بنا سکتا ہے۔

پاجامہ ٹیسٹ اب صرف فسادات کی داستان نہیں، بلکہ قانون کی شکل اختیار کر چکا ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پرائم منسٹر اسکیم 2025 کا آغاز، فری لیپ ٹاپ کیسے حاصل کا جاسکتا ہے؟
  • عمران خان سے ملاقات نہ کروانے پر توہین عدالت کیس سنگل بینچ میں کیسے لگ گیا؟ رپورٹ طلب
  • حکومت کا دورہ افغانستان میرے پلان کے مطابق نہیں ہوا، پتا نہیں کوٹ پینٹ پہن کر کیا ڈسکس کیا، علی امین گنڈاپور
  • حکومت کینال منصوبے پر کثیر الجماعتی مشاورت پر غور کر رہی ہے، وفاقی وزیر قانون
  • مسلمانی کا ناپ تول
  • ‘پاکستان کے خلاف کارروائی کی جائے’، بھارتی میڈیا کیسے جنگی ماحول بنارہا ہے؟
  • مودی حکومت وقف کے تعلق سے غلط فہمی پیدا کررہی ہے، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
  • سکھر دھرنا: کراچی چیمبر آف کامرس کا حکومت سے مذاکرات کے ذریعے قومی شاہراہ بحال کرنے کا مطالبہ
  • حکومت کی اعلان کردہ مفت الیکٹرک اسکوٹی کیسے حاصل کریں، شرائط کیا ہیں؟
  • ’اداکارہ نہیں بننا چاہتی تھی‘، خوشبو خان اس فیلڈ میں پھر کیسے آئیں؟