WE News:
2025-07-26@13:58:22 GMT

مشرق وسطیٰ اور ڈونلڈ ٹرمپ کا قالین

اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT

سیاست میں ایک بے پناہ اہم چیز یہ ہوتی ہے کہ وقت سے قبل یہ بھانپ لیا جائے کہ کسی خاص صورتحال میں کسی لیڈر کا ممکنہ طرزِ عمل یا ردعمل کیا ہوگا؟ چنانچہ نہ صرف یہ کہ متحارب سیاسی قوتیں اپنی چال چلنے یا نہ چلنے کا فیصلہ بھی اسی بنیاد پر کرتی ہیں بلکہ تجزیہ کاروں کی روزی روٹی بھی اسی چیز سے جڑی ہوتی ہے۔ کیونکہ تجزیہ حال سے کم اور مستقبل سے زیادہ جڑا ہوتا ہے۔ ہرچند کہ ناقابل یقین سی بات ہے مگر ہوتے سیاسی لیڈر بھی بہر حال انسان ہی ہیں۔ اور ہر انسان کی ایک نفسیات ہوتی ہے، اسی بنیاد پر اس کے حوالے سے یہ پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ کس صورتحال میں اس کا طرز عمل یا ردعمل کیا ہوگا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ ان کے حوالے سے یقین کی حد کو پہنچی ہوئی پیش گوئی کرنا بہت مشکل ہے۔ امریکا کے حالیہ صدارتی انتخابات سے چند ماہ قبل جب روسی صدر ولادیمیرپیوٹن سے سوال ہوا کہ وہ بائیڈن اور ٹرمپ میں سے کس کی جیت چاہتے ہیں؟ تو پیوٹن کا یہی کہنا تھا کہ وہ بائیڈن کی جیت چاہتے ہیں کیونکہ وہ ’پریڈکٹ ایبل‘ ہیں۔ یعنی کسی بھی صورتحال میں ان کے چلن کو پیشگی بھانپا جاسکتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے ’پریڈکٹ ایبل‘ نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ روایتی سیاستدان نہیں ہیں۔ سو وہ سیاست کے روایتی راستوں پر نہیں چلتے۔ مثلاً آپ ان کا ٹیرف کارڈ ہی لے لیجیے۔ یہ کارڈ ہر جگہ کارآمد نہیں مگر اس کے کارآمد ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ان سے قبل یہ کارڈ کسی امریکی صدر نے استعمال نہیں کیا۔ یہ ان کا بالکل ہی آؤٹ آف دی بکس ٹول ہے، اور اب تک وہ اسے کولمبیا، میکسیکو اور کینیڈا کے خلاف کامیابی سے استعمال کر چکے ہیں۔ ٹرمپ یورپ کے خلاف بھی یہ کارڈ چلنے کا واضح اشارہ دے چکے، جو آنے والے ایام میں عالمی سیاست کے لیے مزید ارتعاش کا باعث بنے گا۔

ہم نے اپنے پچھلے کالم میں عرض کیا تھا کہ غزہ سیز فائر کے حوالے سے ہمارا کالم تاخیر کا اس لیے شکار ہوا کہ سیاست لین دین کا کھیل ہے۔ ہم دیکھنا چاہتے تھے کہ وہ کیا ہے جو ٹرمپ سیز فائر کے بدلے اسرائیل کو دینا چاہتے ہیں؟ اگرچہ ان دنوں یہ آئیڈیا فلوٹ ہوچکا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ غزہ خالی کروانے کا پلان رکھتے ہیں۔ مگر فلوٹ کیے گئے آئیڈیاز بالعموم ٹرک کی بتی ثابت ہوتے ہیں، سو ہم ان کے تعاقب سے گریز کرتے ہیں۔ ہم کسی آئیڈیے کو اسی صورت موضوع بناتے ہیں جب وہ آفیشل ہوجائے۔

غزہ انخلا کا آئیڈیا دو روز قبل ڈونلڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو کی مشترکہ پریس کانفرنس میں آفیشل ہوچکا۔ فی الحال اعلان کی حد تک ہی سہی مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے باقاعدہ اون کرلیا ہے۔ کسی بھی آئیڈیے کی طرح اس آئیڈیے کے حوالے سے بھی سب سے پہلے ہمیں یہی دیکھنا ہے کہ یہ قابل عمل کتنا ہے؟ اس آئیڈیے پر بی بی سی کے ردعمل سے ہی اندازہ لگا لیجیے کہ یہ آئیڈیا کتنا قابل عمل ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان پر بی بی سی کی ہیڈلائن ہے “Trump’s Gaza plan will be seen as flying in face of international law” یعنی ٹرمپ کے غزہ منصوبے کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھا جائےگا۔

یہ ایک ہی سقم اتنا بڑا ہے کہ اسی کی بنیاد پر ٹرمپ کے اعلان کو مضحکہ خیز قرار دیا جاسکتا ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ اہم یہ معاملہ ہے کہ خود اہل غزہ اسے قبول کریں گے یا نہیں؟ اپنی سرزمین سے فلسطینیوں کی کمٹمنٹ کس درجے کی ہے اس کا اندازہ پچھلے ایک سال کی جنگ سے لگایا جاسکتا ہے۔ روایتی طور پر دنیا بھر میں ہوتا یہ ہے کہ جب کسی ملک میں جنگ چھڑتی ہے تو اس کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ہجرت کر جاتا ہے۔ یہ ہم افغان جنگ کے دوران بھی دیکھ چکے جب لگ بھگ ایک کروڑ افغان اپنے وطن سے ہجرت کرگئے تھے، اور یہ ہم یوکرین میں بھی دیکھ سکتے ہیں جس کی لگ بھگ چالیس فیصد آبادی ہجرت کرچکی ہے۔ لیکن غزہ میں چلن نظر نہیں آیا، وہاں کے لوگوں نے تاریخ کے بدترین قتل عام کے دوران بھی اپنی سرزمین نہیں چھوڑی۔ اس کی آبادی میں اگر کوئی کمی واقع ہوئی تو وہ کمی بس انہی افراد کی ہے جو اسرائیلی قتل عام میں شہید ہوچکے۔ اہل غزہ اس قتل عام کے دوران غزہ کی ہی حدود میں کبھی شمال تو کبھی جنوب کا رخ کرتے رہے، لیکن اپنی سرزمین کو انہوں نے نہیں چھوڑا۔

ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس جادو کی وہ کون سی چھڑی ہے جس کے ایک اشارے سے اہل غزہ اپنی سرزمین سے دستبردار ہو جائیں گے؟ کیا اہل غزہ وہاں اس لیے بیٹھے ہیں کہ وہ تو نکلنا چاہتے ہیں مگر کوئی نکلنے نہیں دیتا؟ اور ڈونلڈ ٹرمپ راستے کھول دیں گے؟ سرنگوں کا ایک جال ہے جو ایک جانب مصر اور دوسری جانب لبنان تک پہنچتا ہے۔ یہی تو وہ سپلائی لائن ہے جس کا تاحال اسرائیل کے پاس کوئی توڑ نہیں۔ سو اگر کوئی غزہ چھوڑنا چاہتا تو یہ سرنگیں اس کے لیے کارآمد تھیں۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ فلسطین کی تحریک کا سب سے طاقتور عنصر ہی یہ ہے کہ فلسطینی اپنی سرزمین کسی صورت نہیں چھوڑنا چاہتے۔

پھر ایک اہم معاملہ یہ بھی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اہل غزہ کو بسائیں گے کہاں؟ سردست مصر اور اردن کے نام لیے جا رہے ہیں، مگر یہ اتنا آسان معاملہ نہیں کہ ان ممالک کے حکمران ہاں کردیں گے اور سب بخیر و خوبی طے پاجائے گا۔ ان کے ہاں کرتے ہی خود ان حکمرانوں کا اقتدار خطرے میں ہوگا، بالخصوص مصر میں اخوان کے ہاتھ اتنا بڑا ایشو آجائے گا کہ جنرل سیسی کے لیے اس سے نمٹنا ممکن ہی نہ رہے گا۔ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ فلسطین کا ہی ایشو تھا جس پر سودے بازی کے نتیجے میں انور سادات کو جان سے ہاتھ دھونے پڑے تھے۔ سیسی کے پاس تو پھر بھی کسی نہ کسی درجے میں مصری فوج ہے۔ اردن کے شاہ عبداللہ کا حال تو اور بھی پتلا ہے۔ وہ پہلے ہی ان تیس لاکھ فلسطینیوں کے خوف میں رہتے ہیں جو دہائیوں سے وہاں آباد ہیں۔ سو ایسے میں غزہ انخلا کے لیے ہاں کرتے ہی شاہ عبداللہ خطرے میں ہوں گے۔

اس صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لگ بھگ ناممکنات کی حد کو پہنچا ہوا آئیڈیا ٹرمپ نے پیش ہی کیوں کیا؟ ڈونلڈ ٹرمپ سیاست کے روایتی طریقوں سے جتنا بھی انحراف کرلیں وہ سیاست کے دائرے سے باہر تو جانے سے رہے۔ سو سیاست کے بازار کا ایک چلن یہ ہے کہ یہاں قالین کی قیمت ہمیشہ پٹھانوں والی لگائی جاتی ہے۔ اور پھر اس پر بارگین کی صورت اس قیمت کو پہنچا جاتا ہے جو فی الواقع مطلوب ہوتی ہے۔

سی آئی اے اور ایم آئی سکس کے کچھ ریٹائرڈ اعلیٰ سطح کے افسران ایسے ہیں جو فلسطین کے ایشو پر فلسطینیوں کے بہت بڑے حامی ہیں۔ ایسے ہی ریٹائرڈ افسران میں سے ایک ایلسٹر کروک ہیں۔ ایلسٹر کو باقاعدگی سے فالو کرنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ وہ انتہائی باخبر شخص ہیں۔ ایلسٹر کروک نیتن یاہو کے دورے سے دو روز قبل اپنے ایک انٹرویو میں کہہ چکے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سیز فائر پلان سے جس شخص کے لیے سب سے زیادہ مشکلات کھڑی کردی ہیں وہ نیتن یاہو ہے۔ اس کا اقتدار کھڑا ہی دو انتہا پسند صہیونی لیڈروں کی حمایت پر تھا۔ ان میں سے ایتمار بین گویر سیز فائر والے ایشو پر نیتن یاہو کا ساتھ چھوڑ چکا جبکہ سموٹریج بھی ایسا کرسکتا ہے۔ سو نیتن یاہو نے سیز فائر کے دوسرے مرحلے کے لیے اپنا نمائندہ دوحہ بھیجنے کے بجائے خود واشنگٹن جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایلسٹر کروک کے مطابق غزہ انخلا کا جو آئیڈیا فلوٹ کیا گیا ہے یہ درحقیقت نیتن یاہو کو سیاسی آکسیجن فراہم کرنے کے لیے ہے۔ کوئی ایسا لولی پاپ نیتن یاہو کی اشد ضرورت ہے جسے وہ تل ابیب کے سیاسی بازار میں سیل کرسکے۔ اور اس خفت سے جان چھڑا سکے جس کا سامنا نیتن یاہو کو قیدیوں کے تبادلے والے مناظر سے کرنا پڑا ہے۔

ہم ایلسٹر کروک سے اس اضافے کے ساتھ متفق ہیں کہ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ قالین کا نام ’ابراہیمی معاہدہ‘ ہے۔ لیکن ٹرمپ کا یہ قالین غیر مشروط فروخت ہو پائے گا یا نہیں؟ یہی دیکھنے والا اصل نکتہ ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

wenews جنگ بندی معاہدہ ڈونلڈ ٹرمپ رعایت اللہ فاروقی فلسطینی مشرق وسطیٰ نیتن یاہو وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: جنگ بندی معاہدہ ڈونلڈ ٹرمپ فلسطینی نیتن یاہو وی نیوز ڈونلڈ ٹرمپ کے اپنی سرزمین صورتحال میں کے حوالے سے نیتن یاہو چاہتے ہیں سیاست کے سیز فائر یہ ہے کہ ہوتی ہے اہل غزہ کے لیے ہیں کہ

پڑھیں:

فرانس کا ستمبر میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان

فرانس کا ستمبر میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان WhatsAppFacebookTwitter 0 25 July, 2025 سب نیوز

پیرس(آئی پی ایس) فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے کہا ہے کہ فرانس ستمبر میں فلسطین کو تسلیم کرلے گا، یہ فیصلہ مشرقِ وسطیٰ میں منصفانہ اور پائیدار امن کیلئے کیا ہے۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق فرانس نے مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کی سمت اہم پیش رفت ہوئی ہے، فرانسیسی صدر نے ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا کہ فلسطینی ریاست قبول کرنے کا وہ باقاعدہ اعلان ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کریں گے۔

انہوں نے فلسطینی صدر محمود عباس کو لکھا گیا خط سوشل میڈیا پر شیئر کیا، جس میں لکھا کہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار اور منصفانہ امن کے لیے فرانس نے فیصلہ کیا ہےکہ وہ ریاستِ فلسطین کوتسلیم کرے گا۔

فرانسیسی صدر نے لکھا کہ ہمیں فوری جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی رہائی، اور غزہ کے عوام کے لیے بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی ضرورت ہے، حماس کو غیر مسلح کرنا، غزہ کو محفوظ بنانا اور اس کی تعمیرِ نو کے ساتھ ساتھ فلسطینی ریاست کا قیام ہی خطے کے دیرپا امن کی ضمانت بن سکتا ہے۔

فرانسیسی صدر کا کہنا تھا کہ فرانسیسی عوام مشرقِ وسطیٰ میں امن چاہتے ہیں، اور اب وقت آ گیا ہے کہ یورپی و بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر یہ ثابت کیا جائے کہ امن ممکن ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپی ٹی آئی کے پاس احتجاج کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا: اسد عمر مغربی کنارے کا الحاق غیر قانونی، عالمی برادری اسرائیل کو جواب دہ ٹھہرائے: پاکستان اسلامو فوبیا کے خلاف اجتماعی اقدام ناگزیر ہے، اسحٰق ڈار کا سلامتی کونسل میں دوٹوک مؤقف ریسلنگ کی دنیا کے بے تاج بادشاہ ہلک ہوگن اچانک چلے بسے غزہ: سنگین غذائی قلت کے بعد برستے بارود نے ماحولیاتی بحران پیدا کردیا، مٹی اور پانی زہریلے ہوگئے ٹرمپ کا گوگل، مائیکرو سافٹ جیسی کمپنیوں کو بھارتی شہریوں کو ملازمتیں نہ دینے کا انتباہ پاکستان سنجیدہ مذاکرات کی دعوت دے چکا، اب فیصلہ بھارت کو کرنا ہوگا: دفتر خارجہ TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • بڑے سیاسی گھرانے کی شخصیت کے کرپٹو میں 10 کروڑ ڈالر ڈوب گئے
  • امریکا سے گوشت نہ خریدنے والے ممالک ‘نوٹس’ پر ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کا انتباہ
  • ہمارے بغیردنیا کی معیشت بیٹھ جائے گی، امریکی صدرکا دعوی
  • فرانس کا مشرق وسطیٰ میں منصفانہ اور پائیدار امن کیلئے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ
  • فرانس کا ستمبر میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان
  • فرانس کا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان
  • امریکی ٹیکنالوجی کمپنیاں بھارت میں نوکریاں دینا بند کریں، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا انتباہ
  • امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کل اپنی والدہ کے آبائی ملک سکاٹ لینڈ کا نجی دورہ کریں گے
  • سلامتی کونسل اجلاس: غزہ عالمی قوانین کا قبرستان بن چکا، پاکستان
  • عمران خان کے بیٹوں کی امریکا میں اہم شخصیت سے ملاقات، ڈونلڈ ٹرمپ کی مودی کو پھر چپیڑ