مضبوط ریاست اور جمہوریت کا بحران
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
آج کی جدید ریاستوں کے تصور میں جمہوریت کے نظام کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اگرچہ جمہوریت کا نظام کوئی آئیڈیل نظام نہیں ہے۔ لیکن اس وقت کے مروجہ نظام میں جمہوریت ہی کو فوقیت حاصل ہے۔ ایک مضبوط ریاست کا تصور جمہوریت کے نظام ہی سے جڑا ہوا ہے۔ اگر کوئی ریاستی نظام سیاسی تنہائی میں ہی خود کو مضبوط کر لے اور جمہوریت کو کمزور کر دے تو وہاں ریاست کے نظام میں کئی حوالوں سے ٹکراؤ کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ پاکستان کا ریاستی یا سیاسی نظام کا منظر نامہ بھی کچھ اسی قسم کی تصویر پیش کر رہا ہے۔ اس نظام میں ریاست اس حد تک مضبوط ہو گئی ہے کہ اس کی تن تنہا پورے نظام پر اجارہ داری ہے۔ جبکہ ریاست کے دیگر نظام میں سیاست جمہوریت، آئین، قانون کی حکمرانی سول، سوسائٹی، میڈیا، عدلیہ سمیت انتظامیہ یا مقننہ کمزور بنیادوں پر کھڑی ہیں۔ یہ سارے ادارے اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ان کو اپنی بقا کی جنگ میں ریاست کے مضبوط ترین ادارے یا اسٹیبلشمنٹ ہی کی طرف دیکھنا پڑتا ہے، حالیہ دنوں میں جس طرح سے دیگر صوبوں سے لا کر ججوں کی اپنی مرضی اور منشا کے بنیاد پر تقرریاںکی گئی ہیں یا اسلام آباد کے چیف جسٹس کا تقرر کیا جا رہا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمیں آئین اور قانون کی نہیں بلکہ اپنی مرضی اور منشا کی عدلیہ درکار ہے۔ آزادیٔ اظہار اور میڈیا پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں اور پیکا قانون کو بنیاد بنا کر لوگوں کو سچ بولنے سے روکا جا رہا ہے۔ بیوروکریسی کو حکومتی احکامات کے سامنے بے بس کیا جا رہا ہے اور ان کو یہ ہی آپشن دیا جا رہا ہے کہ وہ آئین اور قانون سے زیادہ حکمران طبقے کے حکم پر کام کریں۔ انسانی حقوق کی عملی صورتحال پر صرف پاکستان کے اندر ہی سے نہیں بلکہ پاکستان سے باہر بھی انسانی حقوق سے جڑے عالمی ادارے پاکستان کے ریاستی حکومتی نظام پر یا انسانی حقوق کی صورتحال پر سخت تنقید کر رہے ہیں۔ سیاسی نظام کی اس سے زیادہ بے بسی کیا ہو سکتی ہے کہ حکومتی بندوبست ہو یا پارلیمنٹ سب ریاستی نظام کے سامنے بے بس کھڑے ہیں۔ پارلیمانی نظام کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور پارلیمنٹ کے فیصلوں کو بھی کوئی پزیرائی نہیں دی جاتی۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا اس طرز فکر سے ہم ریاستی نظام کو چلا سکیں گے یا اس نظام کی کوئی ساکھ داخلی اور خارجی محاذ پر بنا سکیں گے؟ یہ جو ہمیں اس وقت ریاست یا سیاست کے نظام میں یا عدلیہ کے نظام میں ٹکراؤ نظر آ رہا ہے یہ ریاست کے نظام کے لیے خود ایک خطرناک علامت ہے۔ کیونکہ اگر ریاستی نظام سے جڑے اداروں میں خود باہمی ٹکراؤ پیدا ہو جائے یا ایک دوسرے پر بد اعتمادی کا ماحول ہو یا ایک دوسرے پر بالادستی کی جنگ ہو تو پھر ایسے میں ریاست کا نظام کیسے چل سکے گا۔ اصولی طور پہ تو ریاست کا نظام ہو یا سیاست یا جمہوریت کا نظام یا عدالتی نظام ان سب کی بقاکا تعلق اپنے اپنے سیاسی، آئینی اور قانونی دائرہ کار میں رہ کر کام کرنے سے جڑا ہوا ہے۔ لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے سارے ادارے اپنا کام کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے کاموں میں مداخلت کرتے ہیں یا ایک دوسرے کے کاموں میں مداخلت کر کے ریاست اور جمہوریت کے نظام کو کمزور کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ اس لیے پاکستان کے ریاستی یا سیاسی نظام کی پیچیدگی زیادہ سنجیدگی کی علامات کو ظاہر کرتی ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں ریاست اور سیاست سے جڑے افراد سنجیدہ طرز کی سیاست یا فیصلے کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہماری سیاست اور فیصلے ریاست اور حکمرانی کے مفادات سے زیادہ ذاتی حکمرانی کے مفادات کو تقویت دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست کا پورا نظام ذاتیات کے نظام کی عکاسی کرتا ہے۔ ہم خود ریاست اور حکمرانی کے نظام کا تماشا بنا رہے ہیں اور یہ طرز عمل ظاہر کرتا ہے کہ ہماری ترجیحات میں ایک مضبوط ریاست یا سیاست یا جمہوریت کا تصور کیا ہے۔ جب ہم ریاست کو مضبوط کرتے کرتے ہر ادارے کو کمزور کر دیں گے یا ان کو ایک ریموٹ کنٹرول سے چلانے کی کوشش کریں گے یا ان کی آزادی اور خود مختاری کو سلب کر لیں گے تو پھر ایسی ریاست میں جمہوریت کا تصور ختم ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ آج کے پاکستان میں موجود جمہوری نظام کو آمرانہ نظام سے تشبیہ دے رہے ہیں اور ان کے بقول آمرانہ نظام میں بھی یہ کچھ نہیں ہوا جو آج جمہوریت کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ اصولی طور پر یہ پورا نظام یرغمال ہے اور اس کی تشکیل ہی غیر آئینی اور غیر جمہوری طریقے سے ہوئی تھی۔ اس حکومت کے پاس تو عوامی مینڈیٹ ہی نہیں اور سب جانتے ہیں اس حکومت کا بندوبست کن لوگوں نے کیا اور کن شرائط پر کیا گیا تھا۔ لیکن اصل مسئلہ اس وقت جو پاکستان کی ریاست کوعملاً درپیش ہے وہ اپنے نظام کی ساکھ اور جمہوریت کے نظام کی بحالی کا ہے۔ موجودہ نظام اپنی افادیت کھو چکا ہے اور اس کی اہمیت روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس بات کا احساس ریاست اور حکومت سے جڑے افراد کو ہونا چاہیے کہ جس نظام کو وہ ساتھ لے کر چل رہے ہیں اس سے ریاست کا نظام نہیں چل سکے گا۔ لیکن اگر وہ بضد رہتے ہیں اور اسی نظام کو لے کر آگے چلتے ہیں تو اس سے جہاں جمہوریت کو نقصان پہنچ رہا ہے وہاں ریاست بھی کمزور ہوگی۔ پہلے ہی ریاست کے نظام کو سیاست اور جمہوریت یا آئین، حکمرانی کے نظام، معیشت اور سیکورٹی سمیت بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ معاملات محض داخلی سیاست تک محدود نہیں بلکہ علاقائی اور خارجی سطح پر بھی پاکستان کو بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔ لیکن کیا پاکستان کا ریاست اور حکمرانی کا نظام اپنی اصلاح کرنے یا اپنی سمت کو درست کرنے کے لیے تیار ہے یہ بنیادی نوعیت کا سوال ہے اور اس پر غور کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ سیاست اور جمہوریت کا نظام اصلاحات کی بنیاد پر آگے چلتا ہے اور ہمیں اسی نقطے کو بنیاد بناکر آگے کا راستہ تلاش کرنا ہے۔ خاص طور پر وہ سیاسی بڑی جماعتیں جو اس وقت موجودہ نظام کی سہولت کار ہیں ان کو غورکرنا چاہیے کہ ان کے طرز عمل سے جمہوریت کو کیا نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس وقت تمام سیاسی طبقات سمیت معاشرے کے دیگر طبقات کی جانب سے ایک بڑی جمہوریت کی تحریک کی ضرورت ہے اور اس کے پاس واحد ایجنڈا ملک میں جمہوریت اور آئین و قانون کی بالادستی، منصفانہ اور شفاف انتخابات اور سیاسی نظام میں غیر جمہوری مداخلتوں کا خاتمہ ہے۔ اگر ہم اس نقطہ پر قوم کو یکجا کرسکے یا کوئی بڑا اتحاد بنا سکے تو یقینی طور پر جمہوریت کے عمل کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ لیکن اس اتحاد کی بنیاد روایتی سیاست یا محض اقتدار کی سیاست تک محدود نہ ہو بلکہ سب کی ترجیح اس ملک کی سیاسی اور جمہوری ساکھ کی بحالی سے جڑا ہونا چاہیے۔ یہ ہی عمل خود ریاست اور اسٹیبلشمنٹ کے مفاد میں بھی ہے۔ کیونکہ اسٹیبلشمنٹ پر ملکی سطح پر بڑھتی ہوئی تنقید ظاہر کرتی ہے کہ اس کے اپنے مفاد میں بھی یہی ہے کہ وہ سیاسی معاملات سے خود کو علٰیحدہ رکھے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جمہوریت کے نظام اور جمہوریت میں جمہوریت ریاستی نظام میں جمہوری حکمرانی کے اور جمہوری سیاسی نظام جمہوریت کا ایک دوسرے ریاست اور جا رہا ہے ہے اور اس ریاست کا ریاست کے نظام کی کا نظام رہے ہیں ہیں اور نظام کو سے جڑے کیا جا
پڑھیں:
بھارتی کرکٹ ٹیم یا بی جے پی کا اشتہاری بورڈ
پاکستان اور بھارت کا کرکٹ میچ ہواور بھارتی کوششوں سے اس میں سیاست نہ گھسیٹی جائے؟ یہ ایسے ہی ہے جیسے بریانی بنے اور اس میں گوشت نہ ہو۔ فرق صرف یہ ہے کہ بریانی خوشبو دیتی ہے اور بھارت کی سیاست میدان میں بدبو۔
آخر کب تک پاکستان ہی کھیلوں میں ’مہان اسپورٹس مین اسپرٹ‘ دکھاتا رہے اور بھارت بار بار سیاست کی جھاڑو پھیرتا رہے؟
ذرا کھیلوں کے مقابلوں کی ایک فہرست تو بنائیں اور دیکھیں کہ جہاں جہاں پاکستان کی شرکت ہوتی ہے تو کیسے بھارتی حکام کھیل سے کھلواڑ میں لگ جاتے ہیں۔ اور کرکٹ میں سیاست تو بھارتیوں کو محبوب مشغلہ بن چکا ہے۔
لگتا ہے بھارتی بورڈ نے کرکٹ کے ضابطے کی کتاب کو الماری میں رکھ کر سیاست کا منشور لا کر پڑھنا شروع کر دیا ہے۔ ٹاس کے وقت ہاتھ ملانے سے انکار، میچ کے بعد کھلاڑیوں کو ڈریسنگ روم میں بند کرنا اور پھر فتح کو فوج کے نام کر دینا۔ یہ کھیل کم اور نالی کے کنارے لگایا گیا سیاسی پوسٹر زیادہ لگتا ہے۔
اینڈی پائی کرافٹ یا بھارتی پائی کرافٹ؟پی سی بی کا موقف بالکل درست ہے۔ میچ ریفری اینڈی پائی کرافٹ کھیل کی اسپرٹ کے بجائے بھارتی ’اِسپرٹ‘ میں زیادہ ڈوبے نظر آئے۔
جب ریفری ہی ڈرامہ کرے تو پھر کھیل کہاں بچے گا؟ اسی لیے پاکستان نے دو ٹوک کہہ دیا کہ، صاحب! اگر یہ میچ ریفری تبدیل نہ ہوا تو ہم بھی میچ کھیلنے نہیں آئیں گے۔ یعنی پہلی بار پاکستان نے کرکٹ کے میدان میں وہی رویہ اپنایا جو بھارت دہائیوں سے اپنا رہا ہے، بس فرق یہ ہے کہ پاکستان کی منطق میں وزن ہے، بھارت کی سیاست میں صرف خالی برتن کا ڈھکن۔
بھارتی کپتان کی اسپیچ یا فلمی ڈائیلاگ؟سوریہ کمار یادو کی تقریر تو ایسے لگ رہی تھی جیسے کوئی کچرا فلمی ولن ڈائیلاگ مار رہا ہو
’یہ جیت ہم بھارتی افواج کے نام کرتے ہیں۔۔۔‘
صاحب! اگر کرکٹ بھی جنگی بیانیہ بنانی ہے تو میدان میں گیند کے بجائے توپ گولے لے آئیں۔ خیر پاکستانی عوام نے سوشل میڈیا پر خوب یاد دلایا کہ اصل جنگوں میں بھارت کے ’جیت کے ڈائیلاگ‘ کہاں گم ہو گئے تھے۔
کیا وقت آگیا بھارت کو کرکٹ کے ذریعے فوجی فتوحات کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ شاید بھارتی فوجی تاریخ اتنی پھیکی اور شکست خوردہ بن چکی ہے کہ اب اس کے لیے فلموں کے بعد کھیل میں بھی کمزور ’اسپیشل افیکٹس‘ ڈالنے پڑ گئے ہیں۔
کھیل کی روایات بمقابلہ بھارتی اناہاتھ ملانے کی روایت بھارت کے لیے انا کا مسئلہ بن گئی۔ کھیل ختم ہوا تو کھلاڑی ہاتھ ملانے کے بجائے سیدھے ڈریسنگ روم بھاگ دوڑے اور پھر حیرت کرتے ہیں کہ پاکستان نے تقریبِ اختتامیہ کا بائیکاٹ کیوں کیا؟
بھائی، آئینہ دکھانے کا مزہ تب ہی آتا ہے جب سامنے والا بد شکل خود کو دیکھنے کے لیے تیار ہو۔
اصل نقصان کس کا؟یہ سب جان لیں کہ پاکستان سے نہ کھیلنے کا سب سے زیادہ نقصان بھارت کو ہوگا پاکستان کو نہیں؟ کیونکہ اسپانسرشپ کا خزانہ پاک-بھارت میچز میں ہی سب سے زیادہ بہتا ہے۔
پاکستان اگر دبنگ اعلان کر دے کہ ’بھارت کھیل کو کھیل سمجھو ورنہ ہم کھیلنا چھوڑ دیں گے‘ تو سب سے بڑا دھچکا بھارت کے ان بڑے اسپانسرز کو لگے گا جو صرف پیسے کے لیے ’مہان کرکٹ‘ کا ڈرامہ رچاتے ہیں۔
پاکستان کو اب واقعی اسپورٹس مین اسپرٹ کی اسپرٹ چھوڑ کر بھارت کو اسی کی زبان میں جواب دینا ہوگا۔ پاک بھارت کرکٹ نہیں ہوگی تو کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔
المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی اسپورٹس مین اسپرٹ کو کرکٹ کھیلنے والے ممالک اور تجزیہ کار قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔
بھارت کو پیغامبھارت کو یاد رکھنا چاہیے کہ کرکٹ رن سے جیتا جاتا ہے، ڈرامے سے نہیں۔ پاکستان نے عزت و وقار کی قیمت پر کھیلنے سے انکار کر کے بتا دیا ہے کہ کھیل کی اصل روح ابھی زندہ ہے۔
بھارت جتنا مرضی سیاست کے پتھر پھینکے، پاکستان کے پاس جواب میں کرکٹ کی گیند اور میزائل دونوں موجود ہیں۔
اب گیند بھارت کے کورٹ میں ہے، کھیلنا ہے تو کھیل کے اصولوں پر، ورنہ سیاست کے اسٹیج پر جا کر ڈھول پیٹ کر اپنی عوام کو خوش کرتے رہو۔
خیر اس کا جواب بھی ویسا ہی ملے گا جو مئی میں ملا تھا جس پرابھی تک بھارت تلمائے ہوئے ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سفیان خان کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے مختلف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے بلاگز بھی لکھتے ہیں۔
wenews ایشیا کپ پاک بھارت میچ پی سی بی وی نیوز