Daily Ausaf:
2025-07-25@02:45:30 GMT

پیاری دنیا : یہ ہےفلسطین کا اتحاد!

اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT

ہم میں سے بہت سے لوگ جو فلسطین کی تاریخ میں فلسطینی عوام کی آواز،تجربے اور اجتماعی عمل کی اہمیت پرطویل عرصے سے زوردیتے رہے ہیں، وہ لوگ بھی غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جنگ کے نتیجے میں اٹھنے والے ثقافتی انقلاب سے ضرور چونک گئے ہوں گے۔ ثقافتی انقلاب سے میری مراد غزہ کی وہ باغی داستان ہے، جس میں لوگ صرف اسرائیلی جنگی بربریت کا شکار ہی نہیں ہوئے بلکہ عوامی مزاحمت میں ایک سرگرم حصہ دار کے طور پر بھی ابھر کر سامنے آئے ہیں۔
اسرائیلی نسل کشی کے 471 ویں دن جب جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تو غزہ میں فلسطینی جشن مناتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی کہ وہ جنگ بندی کا جشن منا رہے تھے، لیکن ان کے نعروں، گانوں اور علامتوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ درحقیقت وہ طاقتور اسرائیلی فوج (جسے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی حمایت حاصل رہی ہے اور رہے گی) کےخلاف اپنی اجتماعی فتح اور ثابت قدمی کا جشن منا رہے تھے۔ برق رفتاری کے ساتھ انہوں نے اپنی گلی کوچوں کو صاف کیا، تمام ملبہ ہٹایاتاکہ بےگھر افراد کی رسائی ان کے گھروں تک ممکن ہو سکے(اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کے 90 فیصد رہائشی یونٹس اسرائیلی بمباری سےتباہ وبربادہو چکے ہیں)۔ وہ ان تباہ شدہ گھروں میں واپسی پرخوش تھے کہ ملبے پر ہی سہی لیکن اپنے گھروں کے اندر تو موجود ہوں گے۔ اس موقع پرکئی جذباتی مناظر دکھائی دئیے،ہجوم میں سےکچھ نے دست دعا بلندکر رکھے تھے، کچھ گیت گا کر اپنی خوشی کا اظہار کر رہے تھے، اور کچھ آنکھوں میں نمی لئے عجیب کیفیات سے دوچارتھےکہ کوئی طاقت انہیں دوبارہ فلسطین سے اکھاڑ نہیں سکتی۔ سوشل میڈیا فلسطینیوں کے جذبات کی آمیزش سے بھرچکاتھا۔
جہاں تک بچوں کا تعلق ہے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزینوں (UNRWA) کے مطابق ان میں سے 14500 اسرائیل کے ہاتھوں شہید ہو چکےہیں۔ واپس آنے والوں نے اپنا بچپن پھر سے شروع کیا ہے۔ یہ بچے رفح، بیت حنون اور دیگر جگہوں پر اسرائیلی ٹینکوں کےساتھ کھلونوں کی طرح کھیلتے اورانہیں تباہ کرنےکا دعویٰ کرتے دکھائی دیئے۔ ایک نوجوان اسکریپ میٹل سیلزمین بن کر اسرائیلی مرکاوا ٹینک برائے فروخت کی آوازیں لگاتا رہا اور جب اس کے دوستوں نے اسے فلمایا تو اس کا کہنا تھا کہ یقینی بنائیں کہ آپ یہ ویڈیو اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو بھیجیں گے۔
خوشی کےاس اظہار کاہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ غزہ ناقابل تصور درد سے نہیں گزراہے، اس درد کا پوری طرح سے ادراک باقی دنیا کے لیےمشکل ہے۔ جنگ کے جذباتی اور نفسیاتی نشانات زندگی بھر رہیں گے، اور بہت سے لوگ اس صدمے سے کبھی بھی مکمل طور پر نکل نہیں پائیں گے لیکن غزہ کے باسی جانتے ہیں کہ وہ معمول کے غم کے متحمل نہیں ہو سکتے لہذا وہ غم پر قابو پا کر اپنی شناخت اور اتحاد پر زور دیتے ہیں۔ 7 اکتوبر، 2023 سے غزہ پر اپنے فوجی حملے میں اسرائیل نے فلسطینی عوام کو تقسیم کرنے اور ان کی روح کا شیرازہ بکھیرنے کے لئے بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ غزہ میں اس نے بھوک سے مرتے پناہ گزینوں پرجنگی طیاروں سےلاکھوں کی تعداد میں بم گرائے۔ صہیونی فوج نے اپنے مغویوں سےمتعلق کسی بھی قسم کی معلومات کےحصول کے لیے بڑے انعامات کی پیشکش کی، لالچ دیئے لیکن قوم میں سےایک بھی غدار نہیں نکلا۔ مزاحمت کرنے والوں کو سزا دینے کے لیے اسرائیل نے منظم طریقے سے غزہ کے ان نمائندوں اور کونسلرز کو ہلاک کر دیا جنہوں نے غزہ بھر میں امداد تقسیم کرنے کی کوشش کی، خاص طور پر شمال میں جہاں قحط تباہ کن تھا۔ اس تباہی کے بعد جنگ بندی کا اعلان ہواتو فلسطینیوں نے بحیثیت ایک زندہ قوم کے اس کا بھرپورجشن بھی منایا۔ غزہ کی تباہی تو ہوئی لیکن اسرائیل کے ان اقدامات نے غزہ کی طبقاتی، علاقائی، نظریاتی اور سیاسی تقسیم کو ختم کر دیا، غزہ میں ہرکوئی پناہ گزین بن گیا۔ امیر، غریب، مسلمان، عیسائی، شہر کے باشندے اور پناہ گزین کیمپ کے رہائشی، سب یکساں طور پر متاثر ہوئے۔ جدید تاریخ کی سب سے ہولناک نسل کشی کے بعد غزہ میں جو اتحاد قائم ہوا ہے، اسے ایک بیدار کال کا کام کرناچاہیے۔ یہ بیانیہ کہ فلسطینی منقسم ہیں اور انہیں مشترکہ بنیاد تلاش کرنے” کی ضرورت ہے، غلط ثابت ہوئی ہے۔ مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے جنین اور دیگر پناہ گزین کیمپوں کے خلاف اسرائیل کی جنگ میں مدد کے ساتھ، PA اور مختلف فلسطینی دھڑوں کے انضمام کے ذریعے سیاسی اتحاد کا پرانا تصور اب قابل عمل نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فلسطین کے سیاسی منظرنامے کی تقسیم کا مسئلہ محض سیاسی معاہدوں یا دھڑوں کے درمیان مذاکرات سے حل نہیں ہو سکتا۔ ایک مختلف قسم کا اتحاد پہلے ہی غزہ اور توسیعی طور پر مقبوضہ فلسطین اور باقی دنیا میں فلسطینی برادریوں میں جڑ پکڑ چکا ہے۔ یہ اتحاد ان لاکھوں فلسطینیوں میں نظر آتا ہےجنہوں نے جنگ کے خلاف مظاہرے کیے، غزہ کے لیے نعرے لگائے، غزہ کی مدد کے لیے پکارا، اور اس کے گرد ایک نیا سیاسی ڈسکورس تیار کیا۔ یہ اتحاد محض باتیں کرنے، عربی سیٹلائٹ چینلز پر یا مہنگے ہوٹلوں میں خفیہ ملاقاتوں پر انحصار نہیں کرتا۔ اسے سفارتی مذاکرات کی ضرورت نہیں ہے۔ برسوں کی لامتناہی بحثیں،اتحاد کی دستاویزات اور شعلہ بیان تقریریں صرف مایوسی کا باعث بنیں۔ حقیقی اتحاد حاصل کیاجا چکا ہے، عام لوگوں کی آوازوں میں محسوس کیا گیا ہے جو اب دھڑوں کے ارکان کے طور پر شناخت نہیں کرتے ہیں۔ وہ غزاویہ ہیں یعنی غزہ کے فلسطینی، اور کچھ نہیں۔ یہی حقیقی اتحاد ہے جسے اب ایک نئے مکالمے کی بنیاد بناناچاہیے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: میں فلسطینی غزہ کی غزہ کے کے لیے

پڑھیں:

دہشتگردی صرف پاکستان کا نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے، عطا تارڑ

فائل فوٹو

وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا ہے کہ دہشتگردی صرف پاکستان کا نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔

اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عطا تارڑ نے کہا کہ پاکستان نے دہشتگردی کے تدارک کے لیے غیر معمولی اقدامات کیے ہیں، ہم واحد ملک ہیں جہاں اسکولوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

عطا تارڑ نے کہا کہ دہشتگردوں کا کوئی مذہب، رنگ اور نسل نہیں ہوتی، پاکستان دنیا کے لیے دہشتگردی کے خلاف ایک شیلڈ ہے۔

انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف نیا اقدام، پیغام امن کا اعلان کر رہا ہوں۔

وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ بلوچستان میں حالیہ افسوسناک واقعہ رونما ہوا ہے، بلوچستان میں دہشتگردی اور پُرتشدد انتہا پسندی کا واقعہ ہوا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اپوزیشن اتحاد کی اے پی سی 31 جولائی کو اسلام آباد میں ہوگی
  • تحفظ آئین پاکستان کی قیادت کی اہم پریس کانفرنس
  • اپوزیشن اتحاد کا دو روزہ آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان
  • اپوزیشن اتحاد نے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا ہے: محمود خان اچکزئی
  • دہشتگردی صرف پاکستان کا نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے: عطا تارڑ
  • دہشتگردی صرف پاکستان کا نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے، عطا تارڑ
  • مغربی کنارے میں اسرائیلی خودمختاری کی درخواست منظور، خبر ایجنسی
  • بیروت اور دمشق سے ابراہیم معاہدہ ممکن نہیں، اسرائیلی اخبار معاریو
  • غزہ: حصول خوراک کی کوشش میں 67 مزید فلسطینی اسرائیلی فائرنگ سے ہلاک
  • غزہ پٹی میں نئے اسرائیلی حملوں میں کم از کم 15 فلسطینی ہلاک