دیوتاؤں کو چڑھایا جانے والا ’شیطان کا مال‘ نیدرلینڈ سے دریافت
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے نیدرلینڈ میں ایک مقام سے ایسے سونے اور چاندی کے سکّے دریافت کیے ہیں جن کو عیسائیت سے قبل اس وقت کے لوگ دیوتاؤں کی نذر کرتے تھے۔ ’شیطان کے مال‘ (Devil’s Money) کے طور پر جانی جانے والی یہ دریافت یورپ کے اس حصے میں عیسائیت آنے سے قبل انجام دی جانے والی رسومات پر روشنی ڈالتی ہے۔
نیدرلینڈ، شمالی جرمنی اور برطانیہ میں کچھ ایسے مقامات سامنے آئے ہیں جن کا موازنہ نورڈک دنیا سے کیا جا رہا ہے، جس کی عیسائیت سے پہلے کی رسومات کے متعلق بہتر فہم رکھا جاتا ہے۔
محققین کے مطابق نورڈک علاقوں میں عیسائیت قبل موجود ان بت پرست گروہوں سے حاصل ہونے والی دریافتوں کا اطلاق باقی جرمینک نورڈک علاقوں پر نہیں ہوتا۔ لیکن مشرقی نیدرلینڈ کے علاقے ہیزنگن سے ملنے والے سکّے اس علاقے کے مخصوص گروہ کی رسومات کے متعلق قیمتی معلومات فراہم کرتے ہیں۔
عیسائیت سے قبل ان علاقوں میں بت پرست گروہ اپنے دیوتاؤں کو سونے چاندی کی صورت مال پیش کیا کرتے تھے جس کو بعد میں عیسائی مشنریوں نے ان کے عقائد کی وجہ سے ’شیطان کا مال‘ قرار دیا۔
ہیزنگن کا مقام پہلی بار پانچ برس قبل اس وقت مشاہدے میں آیا تھا جب میٹل ڈیٹیکٹر نے متعدد سونے اور چاندی کے سکّوں کی نشان دہی کی تھی۔
ماہرینِ آثارِ قدیمہ کو بعد ازاں معلوم ہوا کہ وہاں تین مقامات ہیں جن میں ایک بڑی لکڑی سے بنی گول چوکی ہے جس کے گرد غیرمعمولی ساخت عمارتیں ہیں۔
ان مقامات میں سے ایک جگہ ایک طلائی سکّہ پایا گیا جبکہ دیگر جگہوں پر دو درجن ٹوٹے ہوئے ثابت سونے کے سکّے ملے۔ اس کے علاوہ وہاں سونے کا پینڈنٹ اور چاندی کی بالی بھی ملی۔
محققین کے مطابق ان جگہوں پر تقریباً 100 برس کے عرصے میں تواتر کے ساتھ سونے کے سکّے اور جواہرات دیوتاؤں کے سامنے پیش کیے جاتے تھے، فاسفیٹ تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر جانوروں کی بھی بلی دی جاتی تھی۔
البتہ، مقامی لوگ کن خداؤں کی پرستش کرتے تھے یہ ایک راز ہی ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
مصر کے میوزیم سے 3 ہزار سال پرانا سونے کا کڑا چوری
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
قاہرہ: مصر کی وزارتِ آثارِ قدیمہ نے انکشاف کیا ہے کہ قاہرہ کے ایجپشن میوزیم کی ایک لیبارٹری سے تین ہزار سال قدیم سونے کا قیمتی کڑا لاپتہ ہوگیا ہے۔
حکام کے مطابق یہ کڑا مصر کی اکیسویں سلطنت (1070 تا 945 قبل مسیح) کے فرعون آمنموپ کے دور سے تعلق رکھتا ہے اور تاریخی ورثے میں نہایت اہم مقام رکھتا ہے۔
وزارت نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ واضح نہیں کہ اس قیمتی کڑے کو آخری بار کب دیکھا گیا تھا۔ مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق حالیہ دنوں میں انوینٹری چیک کے دوران اس کی گمشدگی کا انکشاف ہوا تاہم ابھی تک یہ تصدیق نہیں ہوسکی کہ یہ کب اور کیسے غائب ہوا۔
حکام کے مطابق واقعے کی فوری تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں اور کسی بھی ممکنہ اسمگلنگ کو روکنے کے لیے ملک بھر کے ہوائی اڈوں، بندرگاہوں اور زمینی سرحدی راستوں پر آثارِ قدیمہ کی خصوصی یونٹس کو الرٹ کر دیا گیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ اقدام اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ نوادرات ملک سے باہر اسمگل نہ ہو سکیں۔
یاد رہے کہ قاہرہ کے مشہور تحریر اسکوائر میں واقع ایجپشن میوزیم میں ایک لاکھ 70 ہزار سے زائد تاریخی نوادرات محفوظ ہیں، جن میں فرعون آمنموپ کا مشہور سنہری ماسک بھی شامل ہے۔ یہ واقعہ ایسے وقت پیش آیا ہے جب مصر یکم نومبر کو طویل عرصے سے زیرِ تکمیل گریٹ ایجپشن میوزیم کے افتتاح کی تیاری کر رہا ہے، اور اس گمشدگی نے ان تیاروں پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔