پاکستانی معیشت پر ایک تنقیدی نظر
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
محمد بن قاسم نے سندھ پر حملے کے نتیجے میں جب علاقے پر اپنی گرفت مضبوط کرلی تو مالِ غنیمت سے لدا ایک کافی بڑا قافلہ دارالحکومت روانہ کیا۔مقامی لوگ اسلام کے خوبصورت لافانی پیغام سے متاثر ہو کر دینِ اسلام میں تیزی سے داخل ہونے لگے۔ جب مسلمان سپہ سالار نے ویسا ہی دوسرا قافلہ بھیجنا چاہا تو بڑی مقدار میں مالِ غنیمت اکٹھی کرنے میں خاطر خواہ کامیابی نہ ہوئی۔محمد بن قاسم پریشان تھا۔ سپہ سالار نے راجہ داہر کے وزیر کو ہی اپنا اسپیشل اسسٹنٹ رکھ لیا تھا۔
وزیر نے سپہ سالار کو پریشان جان کر وجہ پوچھی تو محمد بن قاسم نے بتایا کہ دوسرے قافلے کے لیے مالِ غنیمت جمع کرنے میں مشکل ہو رہی ہے۔اس پر وزیر نے برجستہ کہا کہ اور کرو لوگوں کو مسلمان۔اس کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ لوگوں کو مسلمان کرو گے تو مالِ غنیمت کس سے جمع کرو گے۔اس وقت سے بر صغیر کے مسلمان حکمران اس ان لکھی پالیسی پر قائم رہے کہ مقامی لوگوں کو اسلام کی طرف راغب نہیں کرنا۔یہی وجہ ہے کہ ایک ہزار سال سے اوپر مسلمانوں کی برصغیر پر حکومت رہی لیکن مقامی آبادی کا غالب حصہ غیر مسلم ہی رہا۔
پاکستان میں بھی ابتدا سے روایت بن گئی ہے کہ حکومت عوام سے سچ نہیں بولے گی اور زمینی حقیقت کا ادراک نہیں ہونے دے گی۔مشرقی پاکستان میں بھارتی افواج کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا وقت تک طے ہو چکا تھا لیکن عوام کو ملی ترانے سنائے جا رہے تھے اور بتایا جا رہا تھا کہ جنگ جاری ہے اور ہر محاذ پر حالات قابو میں ہیں۔
سیاہ چن گلیشیر کا اسٹریٹیجک علاقہ نا اہلی کی وجہ سے ہندوستان لے گیا لیکن آج تک پاکستانیوں کو اس کی وجوہات سے آگاہ نہیں کیا گیا۔کارگل کا قصہ تو سب کو پتہ ہی ہو گا۔ہماری ہر حکومت کامیابی کے بلند و بانگ دعوے کرتی ہے جب کہ حقیقت میں زوال Decline جاری ہے اورFallرک نہیں رہا۔ڈکلائن کو روکنے کے لیے بہت مضبوط،قوت ارادی،بہترین اور ہمہ جہت پلاننگ کی ضرورت ہوتی ہے۔
کوئی بھی ریاست صرف اسی صورت میں ترقی کر سکتی ہے اور عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے بنا کر انھیں پایۂ تکمیل تک پہنچا سکتی ہے جب اکانومی مضبوط ہو۔بدقسمتی سے پاکستان کی اکانومی پچھلی کئی دہائیوں سے زوال پذیر ہے لیکن عوام سے جھوٹ بولا جا رہا ہے اور نوید سنائی جا رہی ہے کہ اکانومی بہتر ہو رہی ہے،حالانکہ اکانومی جن سیکٹرز کی کارکردگی پر کھڑی ہوتی ہے وہ بنیادی سیکٹرز اچھی خبر نہیں دے رہے۔
حکومتِ پاکستان کی جانب سے مسلسل یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ جنوری 2025تک آتے آتے پاکستان کی معیشت بتدریج ریکوری کی جانب بڑھ رہی ہے۔جو اہم Developmentsسامنے لائی جارہی ہیں ان کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود میں کمی کرتے ہوئے اسے 12فیصد پر لانے کا اعلان کیا۔شرح سود میں یہ کمی جون2024کے بعد شاید چوتھی کمی ہے۔جون 2024سے پہلے شرح سود ریکارڈ بلندی پر تھی۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور حکومتِ پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق دسمبر 2024 میں افراطِ زر کی شرح4.
اس بظاہر مثبت رجحان کے باوجودSBPمانیٹری پالیسی اپنانے میں بہت محتاط ہے تاکہ قیمتوں کو حتی الوسع بڑھنے سے روکا جائے اور گروتھ حاصل ہو۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کی آبادی 2.9فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے اور ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی جی ڈی پی2.8فیصد بڑھنے کا امکان ہے یوں اصل میں ہماری اکانومی کا رجحان ابھی تک منفی گروتھ کی جانب ہے۔ورلڈ بینک نے پاکستان کے لیے آیندہ دس سالوں میں20بلین ڈالر قرض کی منظوری دی ہے۔اس سے پاکستان کی اکانومی جو پہلے ہیStabilityکے دور سے گزر رہی ہے اس کو مزید stableرہنے میں مدد ملے گی۔ورلڈ بینک کی جانب سے یہ قرض تعلیم،کلائیمیٹ چینج اور خوراک کے شعبے میں دیا جا رہا ہے۔
ماضی میں IPPs کے ساتھ کیے گئے عوام دشمن معاہدوں کی وجہ سے انرجی سیکٹر کو بہت سے چیلنجز ہیں اور ان چیلنجز میں ایک حکومتِ پاکستانCapacity چارجز کی مدمیں اس انرجی کی قیمت بھی ادا کرنے پر مجبور ہے جو انرجی نہ تو پیدا کی جا رہی اور نہ ہی استعمال ہو رہی ہے۔کہا جا رہا ہے کہ اس مشکل سے نکلنے کے لیے IPPs سے مذاکرات کرکے ان غیر ضروری ادائیگیوں سے چھٹکارا حاصل کیا جائے گا تاکہ بجلی کی قیمتیں کم ہوں اور صنعت و حرفت کا پہیہ چلنے کے ساتھ عوام بھی بھاری بجلی بلوں سے نجات پا سکیں۔ملک میں بظاہر اچھی ہوتی اکانومی کے لیے یہ کہا جا رہا ہے کہ دیکھیں اسٹاک ایکس چینج بہت اچھا پرفارم کر رہی ہے،کہ ڈالر کی قیمت مستحکم ہے اور افراطِ زر میں کمی ہو رہی ہے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہے۔یہ اعداد و شمار اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ ملکی معیشت جو ڈیفالٹ کے دہانے پر آ کھڑی ہوئی تھی،اب کچھ بہتر ہے اور ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل گیا ہے۔یہ بھی نظر میں رکھنا چاہیے کہ مارچ میں IMF کا Reviewہے۔اگر اس میں کامیاب نہ ہوئے،اگلی قسط نہ ملی تو تب کیا ہو گا۔ہمیں آگاہ رہنا ہو گا کہ مستقبل میں سب اچھا نہیں ہونے والا۔البتہ ملکی مشکلات کے لیے آئی ایم ایف کو موردِ الزام ٹھہرانا غلط ہو گا۔آئی ایم ایف محض ایک ڈونر ایجنسی ہے اور یہ ایجنسی اپنے لگائے ہوئے سرمائے کی واپسی کو یقینی بناتی ہے۔ہم ایجنسی کے پاس جاتے ہیں ۔
ایجنسی ہمارا دروازہ ہر گز نہیں کھٹکھٹاتی۔قرض لینا اچھا نہیں لیکن قرض لے کر فضول خرچی کرنا بہت نادانی ہے اور ہم اسمبلی ممبران کی تنخواہیں بڑھا رہے ہیں وغیرہ۔قرض لیکر منفعت بخش پروجیکٹس پر لگانے سے ملکی معیشت میں جان پڑسکتی ہے۔ورلڈ بینک،آئی ایم ایف اور بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیوں کی طرف سے مثبت اشاروں کے باوجود زمینی حقائق اچھی خبر نہیں دے رہے۔پاکستان کے اندر سوشلCohesionایک خواب بنتا جا رہا ہے۔پاکستان کے پڑھے لکھے اور ہنرمند افراد ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں، غیر ہنر مند بھی بھاگ رہے ہیں۔اگر ملک کی اکانومی بہتر ہو رہی ہو تو ایسا نہیں ہوتا اور یہی پڑھے لکھے و ہنر مند افراد ملک کو سنوارتے ہیں۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مہنگائی کم ہو رہی ہے لیکن بازار جائیں تو قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔بجلی اور گیس کے بل درمیانے اور نچلے طبقے کے لیے وبالِ جان بن چکے ہیں۔بجلی،گیس اور میٹریل کی قیمتیں اور لیبر کاسٹ زیادہ ہونے کی وجہ سے کاروباری لاگت بہت بڑھ چکی ہے۔
درآمدہ اشیاء سستی ہیں اور ملکی پروڈکٹس ان کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔زراعت اور مینوفیکچرنگ سیکٹر بدحالی کا شکار ہے۔رہ سہ کر سروسز سیکٹر سے کچھ امید باندھی جا سکتی ہے لیکن ہمvalue additionکر نہیں پاتے اس لیے سروسز سیکٹر ایکسپورٹ نہیں کر پاتا۔دنیا میں کہیں بھی ہماری قدر نہیں۔قدر انھیں کی ہوتی ہے جن کی معیشت مضبوط ہو۔مشہور پنجابی کہاوت ہے۔جس دے گھر دانڑے،اُس دے کملے بھی سیانے۔خدا کرے کہ عوام کو سچ بتایا جائے اور آیندہ ExportLedاکانومی کا لائحہ عمل طے کیا جائے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان کی پاکستان کے ورلڈ بینک ہو رہی ہے کی معیشت کی جانب رہے ہیں یہ بھی کے لیے ہے اور
پڑھیں:
ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت
انسانی تاریخ میں کچھ بیماریاں ایسی بھی رہی ہیں جو نسلِ انسانی کے وجود پر سوالیہ نشان بن کر ابھریں۔ کینسر ان میں آج بھی سب سے بھیانک ہے۔ مگر سائنس نے انسان کو یہ پیغام دیا کہ اندھیروں میں بھی چراغ جلائے جاسکتے ہیں۔
انہی چراغوں میں سے ایک ہے ایچ پی وی ویکسین (Human Papillomavirus Vaccine)، جسے اردو میں ’’انسانی پیپلیلوما وائرس حفاظتی دوا‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ یہ ویکسین بالخصوص خواتین کی زندگی اور صحت کی حفاظت کے لیے آج کی سائنسی دنیا میں بڑی عظیم کامیابی ہے۔
عالمی تحقیق اور ابتدا
ایچ پی وی ویکسین کی بنیاد 1990 کی دہائی میں رکھی گئی جب آسٹریلیا کے سائنس دان پروفیسر یان فریزر (Ian Frazer) اور ان کے ساتھی جیہان ژو (Jian Zhou) نے وائرس جیسے ذرات (Virus-like Particles) ایجاد کیے۔ یہ ذرات بیماری نہیں پھیلاتے لیکن جسم کو مدافعتی ردعمل کے لیے تیار کر دیتے ہیں۔ 2006 میں امریکا نے پہلی بار اسے Gardasil کے نام سے متعارف کرایا، بعد ازاں Cervarix اور Gardasil 9 جیسے مزید مؤثر ورژن سامنے آئے۔
عالمی ادارۂ صحت (WHO) اور امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول (CDC) کے مطابق یہ ویکسین خواتین میں سروائیکل کینسر (Cervical Cancer) کے تقریباً 70 فیصد سے 90 فیصد تک کیسز کو روکتی ہے۔ آسٹریلیا، برطانیہ اور ناروے جیسے ممالک میں یہ ویکسینیشن پروگرام اس حد تک کامیاب رہا کہ وہاں نوجوان نسل میں سروائیکل کینسر کی شرح نصف سے بھی کم ہوگئی۔
پاکستان میں ضرورت
پاکستان میں ہر سال تقریباً 5,000 خواتین سروائیکل کینسر کا شکار ہوتی ہیں، جبکہ اموات کی شرح 60 فیصد کے قریب ہے، کیونکہ عموماً مرض کی تشخیص دیر سے ہوتی ہے۔ یہ بیماری صرف عورت تک محدود نہیں رہتی، بلکہ خاندان کی بقا، بچوں کی تربیت اور سماج کی اخلاقی ساخت کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ایسے میں ایچ پی وی ویکسین کا استعمال ناگزیر دکھائی دیتا ہے۔
مزید یہ کہ عالمی تحقیق ثابت کرچکی ہے کہ ایچ پی وی صرف خواتین کے لیے ہی نہیں بلکہ مردوں کے لیے بھی خطرہ ہے۔ یہ وائرس مردوں میں منہ، گلے اور تولیدی اعضا کے سرطان کا باعث بن سکتا ہے۔ امریکا اور یورپ میں ویکسین لگنے کے بعد مردوں میں بھی اس کے خلاف نمایاں تحفظ دیکھا گیا ہے۔
سماجی اور مذہبی رکاوٹیں
پاکستان میں اس ویکسین کے فروغ میں کئی رکاوٹیں درپیش ہیں۔
کچھ حلقے اسے مغربی سازش قرار دیتے ہیں اور مذہبی بنیاد پر مخالفت کرتے ہیں۔
والدین میں یہ خوف بھی پایا جاتا ہے کہ یہ ویکسین نوجوانوں میں جنسی آزادی کو فروغ دے گی۔
لاعلمی اور کم علمی کی وجہ سے اکثر اسے غیر ضروری یا غیر محفوظ سمجھا جاتا ہے۔
اسلامی ممالک اور علما کا موقف
کچھ اسلامی ممالک نے نہ صرف ایچ پی وی ویکسینیشن پروگرام فعال کیے ہیں بلکہ علما نے بھی اسے شرعی اعتبار سے جائز قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر ملیشیا میں 2010 میں Jabatan Kemajuan Islam Malaysia (JAKIM) نے باضابطہ فتوٰی جاری کیا کہ اگر ویکسین کی ترکیب میں کوئی مشکوک جزو نہ ہو اور یہ نقصان دہ نہ ہو تو رحمِ مادر کے سرطان سے بچاؤ کےلیے HPV ویکسین لگوانا ’’مباح‘‘ (permissible) ہے۔
اسی طرح متحدہ عرب امارات (UAE) نے 2018 میں HPV ویکسین کو اپنے قومی حفاظتی پروگرام میں شامل کیا، اور وہاں کے نیشنل امیونائزیشن ٹیکنیکل ایڈوائزری گروپ نے حکومتی سطح پر اس کی تائید کی۔
مزید یہ کہ سعودی عرب کے صوبے جازان میں عوامی رویے اور تحقیق سے واضح ہوا کہ مذہبی خدشات کے باوجود طبی اور شرعی دلائل نے ویکسین کے استعمال کو قابلِ قبول بنایا ہے۔
یہ مثالیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسانی جان کے تحفظ کو اسلام میں اولین ترجیح حاصل ہے، اور جب کوئی دوا جان بچانے کا ذریعہ ہو تو اس کا استعمال نہ صرف جائز بلکہ واجب کے قریب قرار دیا جا سکتا ہے۔
ایچ پی وی ویکسین آج پاکستانی معاشرے کے لیے محض ایک طبی ایجاد اور ضرورت ہی نہیں بلکہ خواتین کی زندگی، اور معاشرتی بقا کی بھی ضامن ہے۔ اگر حکومت اسے قومی حفاظتی ٹیکوں کے دیگر ذرائع کی طرح مستقل پروگراموں میں شامل کر لے تو ہر سال ہزاروں زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اعداد و شمار، تحقیق اور عالمی تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے سماجی اور مذہبی غلط فہمیوں کو دور کیا جائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔