پاکستان حکومت کی کابینہ ڈویژن نے پانچ فروری کے یوم یک جہتی کشمیر کے موقع پر دو اہم کام کیے ہیں، ایک عام تعطیل کا اعلان کیا اور دوسرے پانچ فروری کی صبح دس بجے ایک منٹ کی خاموش اختیار کرنے کا اعلان کیا۔ ارے ہاں ایک اور اہم کام بھی کیا ہے کہ آئی ایس پی آر نے یوم یک جہتی کشمیر کی مناسبت سے نیا نغمہ جاری کیا، یوں کشمیر کے حوالے سے حکومت ِ پاکستان نے تین اہم کاموں کی ہیڈ ٹرک مکمل کرلی ہے۔
بقول وزیر ِ اطلاعات مسلم لیگ (ن) کشمیریوں کے ساتھ کھڑی رہی ہے اور رہے گی اور ہم نے سفارتی سطح پر جو ہوسکا وہ کیا ہے باقی بھی کرتے رہیں گے۔ ہم نے تصاویر کے ذریعے پرامن طریقے سے مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اجاگر ہونے کے بجائے دھندلانے کا تاثر ابھرا ہے۔ یوم یک جہتی کشمیر سابق امیر جماعت اسلامی نے پہلی بار 1990ء میں پانچ فروری کو منانے کا آغاز کا تھا، اس وقت سے لے کر آج تک پوری قوم پورے ملک میں زور و شور سے یہ دن مناتی ہے۔ اس دن کے حوالے سے جاری کیے گئے تازہ نغمے میں ویڈیو کا آغاز سید علی گیلانی شہید کی ایک تقریر سے کیا گیا ہے جس میں وہ پورے جوش و خروش سے نعرے لگوا رہے ہیں کہ ’’کشمیر بنے گا پاکستان… ہم کیا چاہتے ہیں آزادی‘‘ ساتھ ہی وہ واضح طور پر کہتے ہیں کہ اسلام کی محبت اور اسلام کی نسبت سے ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے۔
یہ ہے کشمیریوں کے لیڈر کا بیان اور ان کے دل کی آواز۔ کشمیر پر بھارتی تسلط قائم رکھنے کے لیے بھارتی حکومت نے جبر، تشدد اور ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظر انداز کیا، حالانکہ اقوام متحدہ نے اہل کشمیر کو ان کا حق خودارادیت دلانے کا وعدہ کیا تھا، وہ آج بھی اس کی ذمے دار ہے۔ افسوس سات دہائیاں گزر گئیں لیکن آج تک کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت نہیں مل پایا ہے۔ کشمیر کے دریائے نیلم کے ایک کنارے پر آزاد کشمیر اور دوسرے کنارے مقبوضہ کشمیر ہے، جہاںخاندان آر پار بکھرے پڑے ہیں کسی کا بیٹا ایک طرف اور ماں دوسری طرف کہیں باپ ایک طرف اور سارا خاندان دوسری طرف ہے ملے جلے غمی خوشی میں آر پار کھڑے ہوکر مبارک باد دے لیتے ہیں، لیکن وہ گلے نہیں مل سکتے۔
1990ء کی دہائی سے آج تک تحریک آزادی کشمیر سرگرم ہے، ہزاروں کشمیریوں نے آزادی کے لیے خون بہایا، ہتھیار اٹھائے، بھارت نے انہیں بے دردی سے ظلم کا نشانہ بنایا اور دنیا تماشا دیکھتی رہی۔ جیسے غزہ کو کھنڈرات میں بدلنے کا اسرائیل کا منصوبہ، لیکن نہ اسرائیل فلسطین کے لوگوں کے جذبہ حریت کو کچل سکا ہے اسی طرح نہ بھارت کشمیریوں کے جذبے آزادی کو دبا سکے گا۔
اگست 2019ء میں مودی حکومت نے کشمیر سے وہ جزوی آزادی بھی چھین لی جو 1947ء کے بعد سے اسے حاصل تھی پھر بھی بھارت کشمیر کی تحریک آزادی کو کچل نہ پایا، آج بھی کشمیری راہ نما جیلوں میں ہیں یا نظر بندی کی زندگی گزار رہے ہیں، آج بھی کشمیر دنیا کے سب سے زیادہ فوجی علاقوں میں سے ایک ہے۔ دو سال میں مودی حکومت نے ہزاروں فوجی کشمیر بھیجیں ہیں ساتھ انٹرنیٹ اور دیگر مواصلاتی بلیک آئوٹ نافذ کیا، ہزاروں لاکھوں کشمیریوں کی نقل و حرکت پر پابندیاں لگائیں، سیکڑوں کشمیریوں کو جیل میں ڈالا، صحافیوں کو سزائیں دیں، انہیں دھمکیاں دیں، لیکن ان سب اقدامات سے بھارت کشمیر پر کنٹرول کرنے میں ناکام رہا۔ بھارتی دفاعی ماہر پروین ساہنی کہتی ہیں کہ ’’آج انڈیا کو اپنی سرحد کے اندر جس خطرے کا سامنا ہے اس کی پہلے کوئی مثال نہیں‘‘۔
بھارتی آرمی چیف جنرل دویدی پھر پاکستان پر الزام لگا رہے ہیں اور سات لاکھ کے بعد مزید پندرہ ہزار افواج کو کشمیر میں تعینات کررہے ہیں، اتنی افواج کے ساتھ کشمیر میں قابض رہنا اور پاکستان پر الزام لگانا شرم ناک ہے، بات وہی ہے کہ بھارتی حکومت اپنی لاکھوں فوجوں کے ساتھ کشمیر کے مجاہدین سے خوف زدہ ہے۔ بھارتی جموں و کشمیر پولیس کے سابق ڈائریکٹر کہتے ہیں کہ جس طرح عسکریت پسند گھات لگاکر ہماری افواج پر حملے کررہے ہیں اس سے ایک نئے رجحان کا پتا چلتا ہے۔ اس سے پہلے ہمیں ایسی حکمت عملی کا سامنا نہیں تھا۔ ان لوگوں نے گوریلا جنگ سے ہمیں دنگ کردیا ہے، ان حملوں کے درمیان یہ لوگ باڈی کیمرہ کے ساتھ گھات لگاکر حملے کرتے ہیں اور پھر ان ویڈیوز کو آن لائن پوسٹ کرتے ہیں۔
جموں کے علاقے میں بھارتی حکومت کو شورش کا اس قدر خوف ہے کہ انہوں نے رہائشی ہندوئوں کی ملیشیا قائم کی ہے جس کو خود کار ہتھیار سے لیس کیا جارہا ہے۔ یہ بھارتی افواج کے علاوہ ہے، جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، قتل،بھتا خوری کے لیے بدنام ہے۔ یہ بات تو یقینی ہے کہ جس طرح صہیونی قابض ریاست اپنے آباد کاروں اور افواج کی مدد سے فلسطین پر قابض ہونے میں ناکام ہیں اسی طرح بھارت بھی کشمیر پر قبضہ جمانے میں ناکام ہے اور ناکام رہے گا، کشمیر آزاد ہوگا اور اپنی مرضی سے اپنے حق خودارادیت کو استعمال کرے گا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کشمیر کے کے ساتھ رہے ہیں ہیں کہ
پڑھیں:
کشمیر حملے کا جواب ’واضح اور سخت‘ دیں گے، بھارتی وزیر دفاع
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 اپریل 2025ء) بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بدھ کے روز کہا کہ کشمیر میں پہلگام حملے کے ذمہ داروں اور اس کے منصوبہ سازوں کو جلد ہی ایک ''واضح اور سخت ردعمل‘‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ نئی دہلی میں ایک تقریر کے دوران انہوں نے کہا، ''جو لوگ اس حملے کے ذمہ دار ہیں، اور جنہوں نے پس پردہ اس کا منصوبہ بنایا، وہ بہت جلد ہمارا جواب سنیں گے، جو بلند اور واضح ہو گا۔
‘‘انہوں نے مزید کہا، ''ہم نہ صرف حملہ آوروں تک پہنچیں گے بلکہ ان لوگوں تک بھی جائیں گے، جنہوں نے ہماری سرزمین پر اس حملے کی منصوبہ بندی کی۔‘‘ سنگھ نے حملے کے ذمہ داروں کی تخصیص یا شناخت کا کوئی ذکر کیے بغیر کہا، ''بھارتی حکومت ہر ضروری اور مناسب فیصلہ کرے گی۔
(جاری ہے)
‘‘
یہ بیان منگل کے روز پہلگام کے سیاحتی مقام پر مسلح افراد کے حملے کے ایک دن بعد سامنے آیا ہے، جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے۔
ہلاک ہونے والوں میں 24 بھارتی سیاح، ایک نیپالی شہری اور ایک مقامی ٹورسٹ گائیڈ شامل ہیں، جبکہ کم از کم 17 دیگر افراد زخمی بھی ہوئے۔ پولیس نے اسے ایک ''دہشت گردانہ حملہ‘‘ قرار دیا ہے اور اس کی ذمہ داری بھارت مخالف عسکریت پسندوں پر عائد کی ہے۔ وزیر داخلہ کا بیانبھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے بدھ کو سری نگر میں ایک پولیس کنٹرول روم میں ہلاک شدگان کو خراج عقیدت پیش کیا اور کئی متاثرہ خاندانوں کے ارکان سے ملاقات کی۔
انہوں نے وعدہ کیا کہ حملہ آوروں کو ''سخت نتائج‘‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امیت شاہ نے بعد میں پہلگام میں اس حملے کی جگہ کا دورہ بھی کیا۔قبل ازیں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اس حملے کے فوراً بعد ایک بیان میں کہا تھا کہ اس ''گھناؤنے فعل‘‘ کے ذمہ داروں کو ''انصاف کے کٹہرے‘‘ میں لایا جائے گا۔ نریندر مودی بدھ کی شام اعلیٰ سکیورٹی حکام کے ساتھ ایک ہنگامی اجلاس کی صدارت بھی کرنے والے ہیں۔
دی ریزسٹنس فرنٹ نے حملے کی ذمہ داری قبول کر لیکشمیر ریزسٹنس، جسے دی ریزسٹنس فرنٹ (ٹی آر ایف) بھی کہا جاتا ہے، نے سیاحوں پر کیے گئے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ اس گروپ نے دعویٰ کیا ہے کہ حملے کا ہدف ''عام سیاح‘‘ نہیں بلکہ وہ افراد تھے، جو ''بھارتی سکیورٹی ایجنسیوں سے منسلک‘‘ تھے۔
ٹی آر ایف کیا ہے؟دہلی کے ایک تھنک ٹینک 'ساؤتھ ایشیا ٹیررزم پورٹل‘ کے مطابق ٹی آر ایف سن 2019 میں ابھری تھی اور بھارتی حکام اسے ممنوعہ پاکستانی تنظیم لشکر طیبہ (ایل ای ٹی) کی ایک شاخ تصور کرتے ہیں۔
بھارتی سکیورٹی حکام کے مطابق ٹی آر ایف سوشل میڈیا اور آن لائن فورمز پر کشمیر ریزسٹنس کے نام سے سرگرم ہے، جہاں اس نے منگل کے حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ساؤتھ ایشیا ٹیررزم پورٹل کے سربراہ اجے ساہنی کے مطابق ٹی آر ایف سے ماضی کا کوئی بڑا واقعہ منسوب نہیں ہے۔ تاہم انہوں نے کہا، ''ٹی آر ایف کی تمام کارروائیاں بنیادی طور پر ایل ای ٹی کی کارروائیاں ہیں۔
زمین پر حملوں کے انتخاب میں کچھ آپریشنل آزادی ہو سکتی ہے، لیکن اجازت ایل ای ٹی سے ہی ملتی ہے۔‘‘بھارتی وزارت داخلہ نے سن 2023 میں ملکی پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ ٹی آر ایف نامی تنظیم جموں و کشمیر میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں اور شہریوں کے قتل کی منصوبہ بندی میں ملوث رہی ہے۔ اس وزارت نے کہا تھا کہ یہ گروپ عسکریت پسندوں کی بھرتی اور سرحد پار سے ہتھیاروں اور منشیات کی اسمگلنگ کو مربوط کرتا ہے۔
انٹیلیجنس حکام نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ ٹی آر ایف نامی گروپ گزشتہ دو برسوں سے بھارت نواز گروپوں کو آن لائن دھمکیاں بھی دیتا رہا ہے۔اگرچہ سینئر وزراء اور بھارتی حکام نے منگل کے حملے کی تفصیلات ابھی تک فراہم نہیں کیں لیکن بھارتی میڈیا کے ایک بڑے حصے اور سیاسی تبصرہ نگاروں نے بغیر کسی ثبوت کے فوری طور پر اس کا الزام اسلام آباد حکومت پر عائد کرنا شروع کر دیا تھا۔
بھارت اکثر پاکستان پر کشمیری باغیوں کی حمایت کا الزام لگاتا ہے، جبکہ اسلام آباد حکومت اس کی سختی سے تردید کرتی ہے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ کشمیر کی خود مختاری کی جدوجہد کی صرف اخلاقی اور سفارتی حمایت کرتا ہے۔ بدھ کو پاکستانی وزارت خارجہ نے اس حملے میں ہلاک ہونے والوں کے '' قریبی رشتہ داروں سے تعزیت‘‘ کا اظہار بھی کیا۔ادارت: مقبول ملک