بھارتی کرکٹ بورڈ کے لیے حکومت کی نئی اسپورٹس پالیسی درد سر، راجر بنی کی صدارت خطرے میں
اشاعت کی تاریخ: 23rd, July 2025 GMT
بھارتی حکومت کی متعارف کردہ نیشنل اسپورٹس گورننس پالیسی نے بھارتی کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ نئی پالیسی کے تحت بی سی سی آئی کو بھی اب دیگر نیشنل اسپورٹس فیڈریشنز کی طرح حکومتی قواعد و ضوابط کے تحت چلنا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: بی جے پی کا بی سی سی آئی کو حکومت کے ماتحت کرنے کا فیصلہ، اس سے کیا فرق پڑے گا؟
بھارتی میڈیا کے مطابق حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا نیا اسپورٹس بل منظور ہوتے ہی بی سی سی آئی پر بھی اس کا اطلاق ہوگا۔ سب سے بڑی تبدیلی صدر، سیکریٹری اور خازن کے عہدوں کے لیے زیادہ سے زیادہ عمر کی حد 70 سال مقرر کی گئی ہے، جس کے بعد موجودہ صدر راجر بنی دوبارہ اس عہدے کے لیے اہل نہیں رہے۔
راجر بنی کی عمر 70 سال ہو چکی ہے اور نئی پالیسی کے بعد بی سی سی آئی کو ستمبر یا اکتوبر میں جنرل کونسل اجلاس کے دوران نئے صدر کا انتخاب کرنا ہوگا۔ اگر بورڈ نے الیکشن نہ کرائے تو اس پر پابندی عائد کیے جانے کا امکان ہے، جس کے بعد بھارت انٹرنیشنل کرکٹ مقابلوں میں اپنا نام استعمال کرنے کا حق بھی کھو سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ورلڈ کپ آئی سی سی کا ایونٹ نہیں، بی سی سی آئی کی سیریز لگ رہا ہے، مکی آرتھر
نئی پالیسی کے تحت بی سی سی آئی یا کسی بھی کرکٹ ایسوسی ایشن کو اب عدالت جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ کسی بھی تنازع کی صورت میں معاملہ نیشنل اسپورٹس ٹریبیونل میں لے جانا ہوگا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ اقدام بھارتی کرکٹ میں شفافیت لانے کی کوشش ہے، تاہم بی سی سی آئی کی خودمختاری پر سوالات بھی اٹھنے لگے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news بھارت بی سی سی آئی خطرہ راجر بنی صدارت نئی پالیسی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بھارت نئی پالیسی نئی پالیسی کے لیے
پڑھیں:
26ویں ترمیم معاہدہ: حکومت وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہوگا، مولانا فضل الرحمان
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے سود کے مکمل خاتمے، معاشرتی اقدار کی روشنی میں قانون سازی، اور ریاستی ناکامیوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اگر اپنے وعدوں پر قائم نہ رہی تو عدالت جانا پڑے گا، اور پھر حکومت کے لیے حالات آسان نہیں ہوں گے۔
نجی ٹی وی چینل آج نیوز کے مطابق اسلام آباد میں ایک اہم نشست سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے انکشاف کیا کہ انہوں نے 26ویں آئینی ترمیم کے 35 نکات سے حکومت کو دستبردار ہونے پر مجبور کیا، جس کے بعد ترمیم 22 نکات تک محدود ہوئی، اور اس پر بھی ان کی طرف سے مزید اصلاحات تجویز کی گئیں۔
نیوزی لینڈ نے ایف آئی ایچ پروہاکی لیگ سے دستبرداری کا باضابطہ اعلان کردیا
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ وفاقی شرعی عدالت نے 31 دسمبر 2027 تک سود کے خاتمے کا حتمی فیصلہ دے دیا ہے، اور اب آئینی ترمیم کے بعد یہ باقاعدہ دستور کا حصہ بن چکا ہے کہ یکم جنوری 2028 سے سود کا مکمل خاتمہ ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی تو وہ ایک سال کے اندر فیصلہ ہو کر نافذ العمل ہوگا، کیونکہ شرعی عدالت کا فیصلہ اپیل دائر ہوتے ہی معطل ہوجاتا ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے معاشرتی اقدار کو نظرانداز کر کے بنائے گئے قوانین پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 18 سال سے کم عمر کی شادی پر سزا کا قانون تو بنا دیا گیا، مگر غیرت کے نام پر قتل کی روک تھام کے نام پر روایات کو بھی نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
صدر ٹرمپ نے ری پبلکن اراکین سے خطاب میں ایسے جملے دہرا دیئے جن سے بھارت کی پھر ’’سبکی ‘‘ ہو گئی
انہوں نے سوال اٹھایا: ’کیسا اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جہاں نکاح میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں اور زنا کو سہولت دی جا رہی ہے؟‘ ان کا کہنا تھا کہ قانون سازی کرتے وقت ملک کے رواج کو بھی دیکھنا چاہیے تاکہ معاشرتی اقدار پامال نہ ہوں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پہلے اسلامی نظریاتی کونسل کی صرف سفارشات پیش کی جاتی تھیں، اب ان پر بحث ہوگی۔ انہوں نے واضح کیا کہ ’کون ہے جو جائز نکاح کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرے اور بے راہ روی کو راستہ دے؟‘
انہوں نے غیرت کے نام پر قتل کو بھی شدید مذمت کا نشانہ بناتے ہوئے اسے غیرشرعی اور غیرانسانی عمل قرار دیا۔
عمران خان کے بیٹے گرفتار ہوں تو ہی صحیح وارث بنیں گے : رانا ثناء اللہ
افغانستان پر امریکی حملے کے وقت متحدہ مجلس عمل کے کردار کو یاد کرتے ہوئے مولانا نے کہا کہ ’ہم نے اس وقت بھی اتحاد امت کے لیے قربانیاں دیں، جیلیں کاٹیں، مگر پاکستان میں دینی مقاصد کے لیے اسلحہ اٹھانے کو ہم نے حرام قرار دیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سوات سے وزیرستان تک آپریشن ہوئے، مگر بے گھر ہونے والے آج بھی دربدر ہیں، ریاست کہاں ہے؟‘
مولانا فضل الرحمان نے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں حکومتی رٹ نہ ہونے پر بھی سخت تنقید کی اور کہا کہ ’دہشتگرد دن دیہاڑے دندناتے پھرتے ہیں، مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔‘
بابوسر ٹاپ: سیلابی ریلہ 13 سال بعد اکٹھے ہونے والے خاندان کی خوشیاں بہا لے گیا
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’جو لوگ افغانستان گئے تھے، وہ کیسے گئے اور واپس کیوں آئے؟ ریاست اپنی ناکامیوں کا بوجھ ہم پر مت ڈالے۔‘
”ہم آئین کے ساتھ کھڑے ہیں، مسلح جدوجہد حرام ہے“
مولانا فضل الرحمان نے ایک بار پھر واضح کیا کہ وہ آئین پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں اور پاکستان میں مسلح جدوجہد کو غیرشرعی اور حرام قرار دے چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں ایک جرأت مندانہ موقف لینے کی ضرورت ہے، تاکہ ملک کو موجودہ افراتفری سے نکالا جا سکے۔‘
انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کا خاتمہ ابھی بہت دور ہے، اور حکومت کو سنجیدگی سے اپنے وعدوں اور آئینی ذمہ داریوں پر عمل کرنا ہوگا، ورنہ قوم مزید تباہی کی طرف جائے گی۔
اگر عورتیں بھی غیرت کے نام پر قتل شروع کردیں تو ایک بھی مرد نہ بچے؛ ہانیہ عامر
مزید :