بی جے پی کا بی سی سی آئی کو حکومت کے ماتحت کرنے کا فیصلہ، اس سے کیا فرق پڑے گا؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, July 2025 GMT
بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت پارلیمنٹ میں نیشنل اسپورٹس گورننس بل پیش کرنے والی ہے، جس کے ذریعے انڈین کرکٹ بورڈیعنی بی سی سی آئی سمیت 45 قومی اسپورٹس فیڈریشنز کو حکومت کی نگرانی میں لایا جائے گا، بل کے قانون بننے کے بعد بی سی سی آئی کو مجوزہ نیشنل اسپورٹس بورڈ سے تسلیم شدہ حیثیت حاصل کرنا ہوگی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق تمام قومی اسپورٹس فیڈریشنز کی طرح، BCCI کو بھی اس بل کے ایکٹ بننے کے بعد ملکی قانون کی پابندی کرنی ہوگی، وہ وزارت سے مالی امداد نہیں لیتے، لیکن پارلیمنٹ کے ایکٹ ان پر بھی لاگو ہوں گے، وہ دیگر فیڈریشنز کی طرح خودمختار ادارہ رہیں گے۔
تاہم اگر کوئی تنازع پیدا ہوتا ہے تو وہ مجوزہ نیشنل اسپورٹس ٹربیونل میں حل کیا جائے گا، جو انتخابات سے لے کر سلیکشن تک کے مسائل کا تصفیہ کرے گا، یہ پیش رفت خاصی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ بی سی سی آئی ایک خودمختار ادارہ ہے جو 1975 کے تمل ناڈو سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
بی سی سی آئی 45 تسلیم شدہ فیڈریشنز میں شامل نہیں، جن میں بڑے اولمپک کھیل اور مقامی کھیل جیسے یوگاسنہ، کھو کھو اور اٹیا پٹیا شامل ہیں، مجوزہ بل کے تحت ایک نیشنل اسپورٹس بورڈ تشکیل دیا جائے گا جو فیڈریشنز کی منظوری، معطلی اور ان کی نگرانی کرے گا، اس بورڈ کے اراکین بشمول چیئرمین کو مرکزی حکومت مقرر کرے گی۔
یہ بورڈ کھلاڑیوں کے حقوق کے تحفظ اور شفاف و بروقت انتخابات کو بھی یقینی بنائے گا۔ کسی فیڈریشن کی معطلی یا منظوری ختم ہونے کی صورت میں، بورڈ کو عارضی انتظامی کمیٹی تعینات کرنے کا اختیار بھی حاصل ہوگا، تاہم بل کا مقصد فیڈریشنز پر حکومت کا کنٹرول حاصل کرنا نہیں بلکہ ’شفاف نظام اور اخلاقی گورننس کو یقینی بنانا‘ ہے۔
کیا راجر بنی بطور صدر برقرار رہیں گے؟بل میں ایک نئی شق شامل کی گئی ہے جس کے تحت کسی بھی عہدے کے لیے عمر کی بالائی حد 70 سے بڑھا کر 75 سال کر دی گئی ہے، اس کا مطلب ہے کہ 70 سے 75 سال کی عمر کے افراد، اگر بین الاقوامی قوانین اجازت دیں، تو مکمل مدت کے لیے خدمات انجام دے سکتے ہیں۔
اگر بی سی سی آئی کو نیشنل اسپورٹس فیڈریشن کے دائرہ اختیار میں لایا گیا تو چند روز قبل ہی 70 سال کی عمر مکمل کرنیوالے موجودہ صدر راجر بنی اپنے عہدے پر برقرار رہ سکتے ہیں، فی الحال بی سی سی آئی کے آئین کے مطابق کوئی بھی فرد 70 سال کی عمر کے بعد کسی عہدے پر فائز نہیں رہ سکتا، تاہم نیشنل اسپورٹس فیڈریشن بننے کی صورت میں یہ اصول تبدیل ہو سکتا ہے۔
مزید یہ کہ، تمام نیشنل اسپورٹس فیڈریشن ادارے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے دائرہ کار میں بھی آ جائیں گے۔
نیشنل اسپورٹس ٹربیونل کی تشکیلبل میں ایک علیحدہ ادارے ’نیشنل اسپورٹس ٹربیونل‘ کے قیام کی تجویز بھی دی گئی ہے، جو کھیلوں کے نظام میں شامل فریقین، مثلاً افسران، کھلاڑیوں اور کوچز، کے مابین تنازعات کا فوری اور مؤثر حل فراہم کرے گا، مجوزہ ٹربیونل کے فیصلوں کو صرف سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکے گا۔
تاہم، یہ ٹربیونل اولمپک، پیرا اولمپک، ایشین گیمز، کامن ویلتھ گیمز یا بین الاقوامی فیڈریشنز کے زیر اہتمام مقابلوں سے متعلق تنازعات پر کوئی فیصلہ نہیں دے سکے گا، اسی طرح، اینٹی ڈوپنگ کے معاملات بھی اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہوں گے کیونکہ ان کے لیے نیشنل اینٹی ڈوپنگ ایجنسی کے تحت آزاد ڈسپلنری اور اپیل پینل موجود ہیں۔
اسی دن حکومت ایک نیا ’نیشنل اینٹی ڈوپنگ بل‘ بھی متعارف کروا رہی ہے، یہ بل ایسے وقت میں آ رہا ہے جب بھارت نے 2023 میں 5000 سے زائد نمونوں کی جانچ کرنے والے ممالک کی ورلڈ اینٹی ڈوپنگ ایجنسی کی فہرست میں پہلا مقام حاصل کیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بی جے پی بی سی سی آئی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بی جے پی اسپورٹس فیڈریشن نیشنل اسپورٹس کے لیے کے تحت
پڑھیں:
سندھ حکومت ہزاروں گاڑیوں کی نمبر پلیٹ جاری نہ کرسکی، مدت میں مزید توسیع نہ کرنیکا فیصلہ، شہریوں کو تشویش
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (رپورٹ /واجد حسین انصاری) حکومت سندھ نے گاڑیوں کی نئی نمبر پلیٹس کے حوالے سے اکتوبر تک دی جانے والی توسیع میں مزید اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔حکومت سندھ کے اس فیصلے سے شہریوں کی تشویش میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہوگیا ہے ،کیونکہ کئی ماہ گذر جانے کے باوجود محکمہ ایکسائز شہریوں کو نئی نمبر پلیٹس دینے سے قاصر ہے۔شہریوں کا کہنا ہے کہ انہوںنے کئی کئی ماہ سے اجرک والی نمبر پلیٹس کے لیے اپلائی کیا ہوا ہے تاہم اب تک ان کو یہ نمبر پلیٹس نہیں ملی ہیں۔تفصیلات کے مطابق حکومت سندھ نے صوبے میں گاڑیوں کے لیے نئی اجرک والی نمبر پلیٹس کے اجراء کا فیصلہ کیا تھا۔اس فیصلے سے کراچی کے لاکھوں موٹرسائیکل سوار متاثر ہوئے تھے اور ٹریفک پولیس نے حکومتی فیصلے کی آڑ میں رشوت خوری کا ایک نیا سلسلہ شروع کردیا تھا۔عوامی احتجاج کو مد نظر رکھتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کو اکتوبر تک اس فیصلے پر عملدرآمد سے روک دیا تھا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ نے اب اس میں مزید توسیع نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور نئی نمبر پلیٹس نہ لگانے والی گاڑیوں کے خلاف ایک مرتبہ پھر کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا ہے تاہم حیرت انگیز امر یہ ہے کہ محکمہ ایکسائز سندھ کی جانب سے ان نمبر پلیٹس کے اجراء میں کوتاہی برتی جارہی ہے۔ذرائع نے بتایا کہ شہریوں نے کئی کئی ماہ سے ان نمبر پلیٹس کے لیے اجراء کے لیے اپنی درخواستیں محکمہ ایکسائز میں جمع کرائی ہوئی ہیں لیکن ان کو اب تک یہ نمبر پلیٹس نہیں مل سکی ہیں۔ذرائع نے بتایا کہ محکمہ ایکسائز کا سسٹم اتنا فعال نہیں ہے کہ کچھ ماہ میں ہی لاکھوں نمبر پلیٹس کا اجراء کرسکے لیکن اس کے باوجود حکومت سندھ نے نمبر پلیٹس کے حوالے سے نادر شاہی احکامات جاری کردیئے ہیں۔اس ضمن میں شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ کا نئی نمبر پلیٹس کے حوالے سے فیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے۔اس حوالے سے زمینی حقائق کو مدنظر رکھنا چاہیے تھا۔نمبر پلیٹس کے لیے موٹرسائیکل سواروں سے 1920روپے فیس لی جارہی ہے اور اس مد میں حکومت کو اربوں روپے کمانے کا موقع ملے گا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پہلی مرتبہ میں موٹرسائیککل سواروں کو یہ نمبر پلیٹس بغیر کسی معاوضہ کے دی جاتیں لیکن حکومت کو شہریوں کی پریشانیوں کا احساس نہیں ہے۔انہوںنے حکومت سندھ سے مطالبہ کیا کہ محکمہ ایکسائز کی جانب سے نمبر پلیٹس کے اجراء کے لیے مناسب انتظامات ہونے تک اس فیصلے پر عملدرآمد کے وقت میں مزید توسیع کی جائے۔