UrduPoint:
2025-04-25@11:55:58 GMT

ڈی پرسنلائزیشن ڈس آرڈر کے مریض کیا محسوس کرتے ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

ڈی پرسنلائزیشن ڈس آرڈر کے مریض کیا محسوس کرتے ہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 فروری 2025ء) ''میں گزشتہ چھ ماہ سے ایک ذہنی بیماری کا شکار ہوں جس کی وجہ سے میں خود کو حقیقت اور ماحول سے لا تعلق محسوس کرتا ہوں۔ میں کلاس روم میں موجود ہو کر بھی موجود نہیں ہوتا۔ مجھے لگتا ہے جیسے میری سوچ اور میرا جسم ماحول سے کٹ گئے ہوں۔ بعض اوقات میں خود کو انسان ہی محسوس نہیں کرتا نہ ہی مجھے اپنے وجود کا احساس ہوتا ہے۔

‘‘ یہ کہنا ہے 22 سالہ شہیر ابڑو کا (تبدیل شدہ نام) جو جامشورو سندھ کی ایک انجینئرنگ یونیورسٹی کے طالب علم ہیں۔ شہیر دراصل ایک ذہنی بیماری کا شکار ہیں جسے ''ڈی ریئلا ئزیشن ڈس آرڈر‘‘ کہا جاتا ہے۔

’انٹر جنریشنل ٹراما‘ کیا ہے، اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟

پوسٹپارٹم ڈپریشن مردوں کو بھی متاثر کر سکتا ہے؟

شہیر کے مطابق یہ بہت عجیب سی کیفیت ہوتی ہے اور بعض اوقات وہ بالکل نا امید ہو جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

وہ کہتے ہیں کہ ابتدا میں انہیں لگتا تھا کہ وہ اس صورتحال سے کبھی نہیں نکل سکیں گے مگر باقاعدہ تھراپی کے بعد ان کی حالت کافی بہتر ہے۔ ڈی پرسنلائزیشن ڈس آرڈر کیا ہے؟

امریکہ کے ایک غیر منافع بخش طبی ادارے کلیو لینڈ کلینک کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق دنیا کی کل آبادی کے دو فیصد افراد ڈی پرسنلائزیشن یا ڈی ریئلائزیشن ڈس آرڈر کا شکار ہیں۔

ان میں زیادہ تعداد 18 سے 25 سالہ ایسے نوجوانوں کی ہے جو چرس، کیٹا مین یا دیگر ڈرگز لیتے ہیں۔

ڈاکٹر شمائلہ انجم کا تعلق لاہور سے ہے وہ ایک کلینیکل سائیکاٹرسٹ ہیں۔ انھوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ڈی پرسنلائزیشن ڈس آرڈر مریض کو تنہا کردینے والی ذہنی بیماری ہے جس میں وہ اپنے خیالات اور احساسات کو جسم اور ماحول سے منقطع محسوس کرتے ہیں: ''اس مرض کی نوعیت اور مریض کی کیفیات کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔

اگرچہ مریض حقیقت سے رابطے میں ہوتا ہے اور اسےعلم ہوتا ہے کہ جو کچھ وہ محسوس کر رہا ہےوہ غیر حقیقی ہے مگر اس کا خود پر کنٹرول نہیں ہوتا۔‘‘

ڈاکٹر شمائلہ کے مطابق مریض کے لیے یہ ایک خواب کی سی کیفیت ہوتی ہے، ''اگرچہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خواب نہیں دیکھ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرے افراد یہاں تک کے ماہرین نفسیات بھی عموماﹰ بیماری کو سمجھ نہیں پاتے اور مریض مزید تنہا اور نا امید ہو جاتا ہے۔

‘‘

ڈاکٹر شمائلہ کے مطابق ڈی پرسنلائزیشن ڈس آرڈر کو ''وجودی بحران‘‘ کا مرض بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں مریض بیک وقت حقیقت میں موجود ہوتے ہوئے بھی موجود نہیں ہوتا۔

وہ کہتی ہیں کہ یہ بالکل اس طرح ہے کہ آپ دنیا کو کسی بہت دور سے دیکھ رہے ہوں اور اس کی حقیقت سے واقف نہیں ہوں: ''کچھ وقت کے لیے مریض اپنے خیالات اور یادوں سے بالکل کٹ جاتے ہیں اور انھیں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ان کے جسم میں بھی کوئی اور موجود ہو۔

‘‘

ڈاکٹر شمائلہ کے مطابق اس کیفیت سے مریض کے شعور، یادداشت اور روزانہ کی سرگرمیوں پر شدید منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

مرض کی وجوہات کیا ہیں؟

ڈاکٹر شمائلہ کے مطابق ڈی پرسنلائزیشن ڈس آرڈر کسی حادثے، صدمے، ہراسانی، گھریلو تشدد یا خاندان میں ذہنی امراض کی ہسٹری کے باعث ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ نیند میں خلل یا کمی، نشہ آور ادویات کے استعمال یا شدید دماغی و اعصابی تناؤ کی وجہ سے بھی یہ مرض ہوسکتا ہے۔

ڈاکٹر شمائلہ انجم کے مطابق دیگر ذہنی امراض کی نسبت ڈی پرسنلائزیشن ڈس آرڈر ابھی اتنا عام نہیں ہے۔ لیکن پاکستان سمیت دنیا بھر کے نوجوانوں میں نشے کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ عین ممکن ہے کہ اگلے پانچ برسوں میں اس کے مریضوں کی تعداد کافی زیادہ ہو جائے۔

ڈی پرسنلائزیشن کی تشخیص اور علاج

شہیر ابڑو نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ چھ سے آٹھ ماہ پہلے اس کیفیت کا جب آغاز ہوا تو کچھ وقت کے لیے انھیں لگتا تھا جیسے ان کا ماحول سے رابطہ منقطع ہو گیا ہو یا وہ خواب دیکھ رہے ہوں۔

جب ایسا کئی بار حتیٰ کے انجینئرنگ کلاسز کے دوران بھی ہوا تو انھوں نے اسے سنجیدگی سے لینا شروع کیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ان کے لیے اپنی فیملی، دوستوں اور اساتذہ کو اپنی کیفیات اور محسوسات سے متعلق سمجھانا بہت مشکل تھا۔ کوئی اسے ان کا وہم قرار دیتا تھا تو کچھ لوگ مذاق بھی ا ڑاتے تھے۔ مگر وہ اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ ان کی فیملی نے انھیں سپورٹ کیا اور وہ باقاعدہ ''ٹاک تھراپی‘‘ کی طرف آئے۔

ڈاکٹر شما ئلہ کہتی ہیں کہ حقیقت سے منقطع ہو جانے کی کیفیت بہت عام ہے۔ بہت سے لوگ روزانہ اس تجربے سے گزرتے ہیں لیکن ایسا کچھ وقت کے لیے ہوتا ہے۔ اگر لمبے عرصے تک یہ احساس برقرار رہے تو ماہرنفسیات سے رجوع کرنا ضروری ہے جو ایسے مریضوں کے لیے ٹاک تھراپی تجویز کرتے ہیں۔

ڈاکٹر شمائلہ بتاتی ہیں کہ مایو کلینک کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق برطانیہ جیسے ترقی یافتہ معاشرے میں بھی اس مرض کی درست تشخیص میں 12 سال تک کا عرصہ لگ جاتا ہے۔

اس طویل عرصے میں مختلف تھیراپیز اور ادویات سے تنگ آکر بہت سے مریض علاج ترک کر دیتے ہیں۔

ان کے مطابق علاج میں ایک بڑی رکاوٹ مریض کے لیے اپنے تجربات و احساسات کو سمجھانے میں دشواری ہے: ''یہ بتانا کہ آپ کا جسم آپ کے سامنے ہوا میں تیر رہا ہے یا اپنے ارد گرد افراد سے لا تعلقی اور بے حسی جیسی کیفیات کو بیان کرنا آسان نہیں ہوتا۔

لہٰذا مرض کی درست تشخیص نہیں ہو پاتی۔‘‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ اس مرض میں سب سے بڑا مسئلہ اس کی درست تشخیص ہے۔ پاکستان میں تو ویسے ہی ذہنی امراض پر سماجی قدغنیں ہیں اور لوگ ڈپریشن اور اینگزائٹی تک کو چھپاتے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے لوگوں میں ذہنی امراض سے متعلق شعور و آگاہی ہو اور وہ کسی ذہنی مسئلے کا شکار اپنے پیارے کو تنہا کرنے کے بجائے بھر پور طریقے سے اس کا ساتھ دیں۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ڈی پرسنلائزیشن ڈس آرڈر ڈاکٹر شمائلہ کے مطابق نہیں ہوتا ماحول سے ہوتا ہے جاتا ہے کا شکار نہیں ہو کے لیے مرض کی ہیں کہ

پڑھیں:

48 فیصد نوجوانوں نے سوشل میڈیا کو ذہنی صحت کیلئے نقصان دہ قرار دیدیا

ویسے تو کہا جاتا ہے کہ سوشل میڈیا سے نوجوانوں کے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں مگر خود نوجوان اس بارے میں کیا سوچتے ہیں؟تو ہر 5 میں ایک نوجوان کا ماننا ہے کہ سوشل میڈیا سے اس کی دماغی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔یہ بات پیو ریسرچ سینٹر کی ایک نئی رپورٹ میں سامنے آئی۔

اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بیشتر نوجوانوں کا ماننا ہے کہ سوشل میڈیا ان کی عمر کے افراد کے لیے نقصان دہ ہے۔یہ تحقیق اس وقت سامنے آئی ہے جب کچھ عرصے قبل یو ایس سرجن جنرل نے انتباہ کیا تھا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نوجوانوں کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے اور نوجوانوں میں ذہنی صحت کے مسائل کی شرح بڑھ رہی ہے۔اس تحقیق میں 13 سے 17 سال کے لگ بھگ 1400 افراد کو شامل کیا گیا تھا۔

تحقیق میں شامل 48 فیصد نوجوانوں نے کہا کہ سوشل میڈیا ان کی عمر کے افراد پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے، جبکہ 14 فیصد نے کہا کہ اس سے ان کی ذہنی صحت متاثر ہوئی ہے۔لڑکوں (14 فیصد) کے مقابلے میں نوجوان لڑکیوں (25 فیصد) کی جانب سے سوشل میڈیا سے ذہنی صحت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کو زیادہ رپورٹ کیا گیا اور انہوں نے بتایا کہ اس سے ان کا اعتماد اور نیند متاثر ہوئی ہے۔

تحقیق میں کہا گیا کہ نوجوانوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر اب زیادہ وقت گزارا جا رہا ہے۔45 فیصد نوجوانوں نے بتایا کہ وہ بہت زیادہ وقت سوشل میڈیا پر گزار رہے ہیں۔مگر اس کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے اہم فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔74 فیصد کے مطابق سوشل میڈیا سے انہیں دوستوں سے زیادہ جڑنے کا احساس ہوتا ہے۔

البتہ نوجوانوں کے مقابلے میں والدین کی جانب سے زیادہ خدشات کا اظہار کیا گیا اور 55 فیصد کا کہنا تھا کہ انہیں موجودہ عہد کے نوجوانوں کی ذہنی صحت کے حوالے سے بہت زیادہ تشویش ہے۔تحقیق میں بتایا گیا کہ نوجوانوں کی جانب سے اب سوشل میڈیا کو ذہنی صحت کی تفصیلات حاصل کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ذہنی دباؤ کی وجہ سے نِدا ڈار نے کرکٹ سے وقفہ لے لیا
  • ندا ڈار ذہنی صحت کا شکار
  • خیبرپختونخوا میں منکی پاکس کا 8واں کیس رپورٹ
  • بابر یا کوہلی؛ کنگ وہی ہوتا ہے جو سب پر حکومت کرے
  • عمران خان سے ملاقات نہ کروانے پر توہین عدالت کیس سنگل بینچ میں کیسے لگ گیا؟ رپورٹ طلب
  • استنبول یکے بعد دیگرے زلزلے کے جھٹکوں سے لرز اُٹھا
  • ذیابیطس میں مبتلا افرادشدید گرمی میں کن مشروبات کا استعمال کرسکتے ہیں؟جانیں
  • 48 فیصد نوجوانوں نے سوشل میڈیا کو ذہنی صحت کیلئے نقصان دہ قرار دیدیا
  • بانی پی ٹی آئی پر غیر اعلانیہ پابندی عائد، ذہنی و جسمانی اذیت دی جارہی ہے، قاضی انور ایڈووکیٹ
  • ترکیہ میں 6.2 شدت کا زلزلہ، کئی یورپی ممالک میں بھی جھٹکے محسوس کیے گئے