UrduPoint:
2025-07-26@22:16:03 GMT

ڈی پرسنلائزیشن ڈس آرڈر کے مریض کیا محسوس کرتے ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

ڈی پرسنلائزیشن ڈس آرڈر کے مریض کیا محسوس کرتے ہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 فروری 2025ء) ''میں گزشتہ چھ ماہ سے ایک ذہنی بیماری کا شکار ہوں جس کی وجہ سے میں خود کو حقیقت اور ماحول سے لا تعلق محسوس کرتا ہوں۔ میں کلاس روم میں موجود ہو کر بھی موجود نہیں ہوتا۔ مجھے لگتا ہے جیسے میری سوچ اور میرا جسم ماحول سے کٹ گئے ہوں۔ بعض اوقات میں خود کو انسان ہی محسوس نہیں کرتا نہ ہی مجھے اپنے وجود کا احساس ہوتا ہے۔

‘‘ یہ کہنا ہے 22 سالہ شہیر ابڑو کا (تبدیل شدہ نام) جو جامشورو سندھ کی ایک انجینئرنگ یونیورسٹی کے طالب علم ہیں۔ شہیر دراصل ایک ذہنی بیماری کا شکار ہیں جسے ''ڈی ریئلا ئزیشن ڈس آرڈر‘‘ کہا جاتا ہے۔

’انٹر جنریشنل ٹراما‘ کیا ہے، اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟

پوسٹپارٹم ڈپریشن مردوں کو بھی متاثر کر سکتا ہے؟

شہیر کے مطابق یہ بہت عجیب سی کیفیت ہوتی ہے اور بعض اوقات وہ بالکل نا امید ہو جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

وہ کہتے ہیں کہ ابتدا میں انہیں لگتا تھا کہ وہ اس صورتحال سے کبھی نہیں نکل سکیں گے مگر باقاعدہ تھراپی کے بعد ان کی حالت کافی بہتر ہے۔ ڈی پرسنلائزیشن ڈس آرڈر کیا ہے؟

امریکہ کے ایک غیر منافع بخش طبی ادارے کلیو لینڈ کلینک کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق دنیا کی کل آبادی کے دو فیصد افراد ڈی پرسنلائزیشن یا ڈی ریئلائزیشن ڈس آرڈر کا شکار ہیں۔

ان میں زیادہ تعداد 18 سے 25 سالہ ایسے نوجوانوں کی ہے جو چرس، کیٹا مین یا دیگر ڈرگز لیتے ہیں۔

ڈاکٹر شمائلہ انجم کا تعلق لاہور سے ہے وہ ایک کلینیکل سائیکاٹرسٹ ہیں۔ انھوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ڈی پرسنلائزیشن ڈس آرڈر مریض کو تنہا کردینے والی ذہنی بیماری ہے جس میں وہ اپنے خیالات اور احساسات کو جسم اور ماحول سے منقطع محسوس کرتے ہیں: ''اس مرض کی نوعیت اور مریض کی کیفیات کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔

اگرچہ مریض حقیقت سے رابطے میں ہوتا ہے اور اسےعلم ہوتا ہے کہ جو کچھ وہ محسوس کر رہا ہےوہ غیر حقیقی ہے مگر اس کا خود پر کنٹرول نہیں ہوتا۔‘‘

ڈاکٹر شمائلہ کے مطابق مریض کے لیے یہ ایک خواب کی سی کیفیت ہوتی ہے، ''اگرچہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خواب نہیں دیکھ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرے افراد یہاں تک کے ماہرین نفسیات بھی عموماﹰ بیماری کو سمجھ نہیں پاتے اور مریض مزید تنہا اور نا امید ہو جاتا ہے۔

‘‘

ڈاکٹر شمائلہ کے مطابق ڈی پرسنلائزیشن ڈس آرڈر کو ''وجودی بحران‘‘ کا مرض بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں مریض بیک وقت حقیقت میں موجود ہوتے ہوئے بھی موجود نہیں ہوتا۔

وہ کہتی ہیں کہ یہ بالکل اس طرح ہے کہ آپ دنیا کو کسی بہت دور سے دیکھ رہے ہوں اور اس کی حقیقت سے واقف نہیں ہوں: ''کچھ وقت کے لیے مریض اپنے خیالات اور یادوں سے بالکل کٹ جاتے ہیں اور انھیں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ان کے جسم میں بھی کوئی اور موجود ہو۔

‘‘

ڈاکٹر شمائلہ کے مطابق اس کیفیت سے مریض کے شعور، یادداشت اور روزانہ کی سرگرمیوں پر شدید منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

مرض کی وجوہات کیا ہیں؟

ڈاکٹر شمائلہ کے مطابق ڈی پرسنلائزیشن ڈس آرڈر کسی حادثے، صدمے، ہراسانی، گھریلو تشدد یا خاندان میں ذہنی امراض کی ہسٹری کے باعث ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ نیند میں خلل یا کمی، نشہ آور ادویات کے استعمال یا شدید دماغی و اعصابی تناؤ کی وجہ سے بھی یہ مرض ہوسکتا ہے۔

ڈاکٹر شمائلہ انجم کے مطابق دیگر ذہنی امراض کی نسبت ڈی پرسنلائزیشن ڈس آرڈر ابھی اتنا عام نہیں ہے۔ لیکن پاکستان سمیت دنیا بھر کے نوجوانوں میں نشے کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ عین ممکن ہے کہ اگلے پانچ برسوں میں اس کے مریضوں کی تعداد کافی زیادہ ہو جائے۔

ڈی پرسنلائزیشن کی تشخیص اور علاج

شہیر ابڑو نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ چھ سے آٹھ ماہ پہلے اس کیفیت کا جب آغاز ہوا تو کچھ وقت کے لیے انھیں لگتا تھا جیسے ان کا ماحول سے رابطہ منقطع ہو گیا ہو یا وہ خواب دیکھ رہے ہوں۔

جب ایسا کئی بار حتیٰ کے انجینئرنگ کلاسز کے دوران بھی ہوا تو انھوں نے اسے سنجیدگی سے لینا شروع کیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ان کے لیے اپنی فیملی، دوستوں اور اساتذہ کو اپنی کیفیات اور محسوسات سے متعلق سمجھانا بہت مشکل تھا۔ کوئی اسے ان کا وہم قرار دیتا تھا تو کچھ لوگ مذاق بھی ا ڑاتے تھے۔ مگر وہ اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ ان کی فیملی نے انھیں سپورٹ کیا اور وہ باقاعدہ ''ٹاک تھراپی‘‘ کی طرف آئے۔

ڈاکٹر شما ئلہ کہتی ہیں کہ حقیقت سے منقطع ہو جانے کی کیفیت بہت عام ہے۔ بہت سے لوگ روزانہ اس تجربے سے گزرتے ہیں لیکن ایسا کچھ وقت کے لیے ہوتا ہے۔ اگر لمبے عرصے تک یہ احساس برقرار رہے تو ماہرنفسیات سے رجوع کرنا ضروری ہے جو ایسے مریضوں کے لیے ٹاک تھراپی تجویز کرتے ہیں۔

ڈاکٹر شمائلہ بتاتی ہیں کہ مایو کلینک کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق برطانیہ جیسے ترقی یافتہ معاشرے میں بھی اس مرض کی درست تشخیص میں 12 سال تک کا عرصہ لگ جاتا ہے۔

اس طویل عرصے میں مختلف تھیراپیز اور ادویات سے تنگ آکر بہت سے مریض علاج ترک کر دیتے ہیں۔

ان کے مطابق علاج میں ایک بڑی رکاوٹ مریض کے لیے اپنے تجربات و احساسات کو سمجھانے میں دشواری ہے: ''یہ بتانا کہ آپ کا جسم آپ کے سامنے ہوا میں تیر رہا ہے یا اپنے ارد گرد افراد سے لا تعلقی اور بے حسی جیسی کیفیات کو بیان کرنا آسان نہیں ہوتا۔

لہٰذا مرض کی درست تشخیص نہیں ہو پاتی۔‘‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ اس مرض میں سب سے بڑا مسئلہ اس کی درست تشخیص ہے۔ پاکستان میں تو ویسے ہی ذہنی امراض پر سماجی قدغنیں ہیں اور لوگ ڈپریشن اور اینگزائٹی تک کو چھپاتے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے لوگوں میں ذہنی امراض سے متعلق شعور و آگاہی ہو اور وہ کسی ذہنی مسئلے کا شکار اپنے پیارے کو تنہا کرنے کے بجائے بھر پور طریقے سے اس کا ساتھ دیں۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ڈی پرسنلائزیشن ڈس آرڈر ڈاکٹر شمائلہ کے مطابق نہیں ہوتا ماحول سے ہوتا ہے جاتا ہے کا شکار نہیں ہو کے لیے مرض کی ہیں کہ

پڑھیں:

تحریک کا عروج یا جلسے کی رسم؟ رانا ثنا نے پی ٹی آئی کو آڑے ہاتھوں لیا

پی ٹی آئی کے لاہور میں مجوزہ جلسے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم کے سیاسی مشیر رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ اگر یہ ان کی تحریک کا نقطہ عروج ہے تو پھر اس کو پشاور میں کریں اور پورے پاکستان کو بہت بڑا مجمع اکٹھا کرکے دکھائیں۔

اے آر وائی نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ انہیں پی ٹی آئی کی جانب سے 5 اگست کو لاہور میں جلسے کے اعلان سے مایوسی ہوئی ہے کیونکہ انہوں نے اس روز کو اپنی تحریک کا نقطہ عروج قرار دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:عمران خان کے بیٹے پاکستان آئے تو ان کا کیا انجام ہوگا؟ رانا ثنااللہ نے خبردار کردیا

’ہم بھی سوچتے تھے کہ کیا ہوگا یہ کیا کریں گے، اب بات نکلی ہے کہ ایک بڑا مجمع اکٹھا کرتے ہوئے جلسہ کریں گے، تو بھائی اس کو پشاور میں کریں، بہت بڑا مجمع اکٹھا کریں، دکھائیں پورے پاکستان کو سب کو کہ ہم نے یہ اکٹھا کیا ہے۔‘

"پشاور میں جا کر جلسہ کریں اور مجمع اکٹھا کریں،" رانا ثنا اللہ کا پی ٹی آئی کو مشورہ#ARYNews #11thHour pic.twitter.com/zwvemgQRJk

— ARY NEWS (@ARYNEWSOFFICIAL) July 23, 2025

رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی قیادت اب کہتی ہے کہ لاہور میں جلسہ کرنا ہے، تو آپ پشاور میں کیوں نہیں کرتے، آپ بنوں میں کیوں نہیں کرتے، نوشہرہ میں کیوں نہیں کرتے، سوات میں کیوں نہیں کرتے، اگر آپ نے لاہور میں جا کر کرنا ہے تو پھر ٹھیک ہے لاہور کی انتظامیہ سے بات کریں، ان کو درخواست دیں۔

’ان کو یقین دہانی کروائیں کہ آپ وہاں پہ اکٹھے ہوکے پھر کسی طرف حملہ آور نہیں ہوں گے، اگر ان کو یقین دہانی آپ کروادیتے ہیں تو میں تو کہوں گا کہ ٹھیک ہے ان کو اجازت دیدیں، لیکن یہ ایک سبجیکٹیو بات ہے کہ آیا ان کی اس بات پر اعتماد کیا جاسکتا ہے یا نہیں کیا جاسکتا، لاہور کی انتظامیہ اس کے بارے میں بہتر فیصلہ کرے گی۔‘

مزیدپڑھیں:

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے رانا ثنا اللہ کا مؤقف تھا کہ خان صاحب برصغیر میں کوئی پہلی تحریک نہیں چلانے لگے، سو سال تک مسلمانوں بلکہ اس میں ہندو بھی شامل تھے جنہوں نے انگریزوں کیخلاف تحریک چلائی، اس کے بعد 70 سالوں میں مسلم لیگ ن نے اور پیپلز پارٹی نے بھی اسٹیبلشمنٹ اور حکمرانوں کیخلاف تحریک چلائی ہے۔

’اگر یہ خود نہیں سمجھ رہے تو ان کو چاہیے تھوڑا دیکھ لیں پڑھ لیں کسی سے مشورہ کرلیں، جیل میں کتابیں پڑھنا ضروری نہیں ہوتا، وہاں پہ سوچ وبچار کریں، ایکسرسائز کریں، جب ایک آدمی جیل میں بیٹھا ہے تو تحریک تو اس کی چل رہی ہے، اور علیحدہ سے کون سی تحریک چلانی ہے۔‘

مزیدپڑھیں:پی ٹی آئی کا لاہور جلسہ روکنے کے لیے ہائیکورٹ میں درخواست دائر

رانا ثنا اللہ کے مطابق کسی آدمی کا جیل میں ہونا یا اس کی پارٹی کے لوگوں کا جیل میں ہونا یا ان کے خلاف مقدمات کا چلنا، یا ان کا تاریخوں پہ پیش ہونا، بری ہونا، سزا ہونا، یہ سب بذات خود ایک تحریک ہے۔ ’اب پتا نہیں 5 تاریخ کو یہ کیا کرنا چاہتے تھے اور اب جلسے پہ بات آگئی ہے۔‘

رانا ثنا اللہ نے 9 مئی کے ایک مقدمے میں شاہ محمود قریشی کی بریت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ شواہد کی بنیاد پر فیصلہ ہوتا ہے، اور اس روز وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ کراچی میں موجود تھے، لہذا وہ نہیں سمجھتے کہ ان کی بریت میں کسی سیاسی شماریات کا کوئی عمل دخل ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسٹیبلشمنٹ برصغیر پی ٹی آئی تحریک جلسہ جیل رانا ثنا اللہ لاہور نقطہ عروج

متعلقہ مضامین

  • کلاؤڈ برسٹ کیا ہے اور یہ معاملہ کیوں پیش آتا ہے؟
  • ٹک ٹاکر سمیرا راجپوت کی پراسرار موت کا مقدمہ درج
  • جنرل ہسپتال کے ڈاکٹر کی فرض شناسی، سانپ کے ڈسے مریض کی جان بچا لی
  • جب بارشیں بے رحم ہو جاتی ہیں
  • یہ جنگ مرد و عورت کی نہیں!
  • بانی پی ٹی آئی ذہنی دباؤ کا شکار، فیلڈ مارشل کیخلاف مہم کی قیادت کررہے: عظمیٰ بخاری
  • ضرورت محسوس ہوئی تو 27ویں آئینی ترمیم بھی ہو جائے گی، قمر زمان کائرہ
  • پرنس جارج کی بورڈنگ اسکول منتقلی کے فیصلے پر کیٹ مڈلٹن شدید ذہنی دباؤ کا شکار
  • توہینِ مذہب الزامات پر کمیشن تشکیل دینے کے فیصلے کیخلاف اپیل قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ
  • تحریک کا عروج یا جلسے کی رسم؟ رانا ثنا نے پی ٹی آئی کو آڑے ہاتھوں لیا