یوم یکجہتی کشمیر: اوآئی سی میں تقریب اورتصویری نمائش
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
جدہ (سید مسرت خلیل) اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) میں پاکستان کے مستقل مشن نے او آئی سی جنرل سیکرٹریٹ میں یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر ’’خصوصی تقریب اور تصویری نمائش‘‘ کا انعقاد کیا۔ او آئی سی کے سیکرٹری جنرل ایچ ای حسین ابراہیم طحہ نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ او آئی سی کے خصوصی ایلچی برائے جموں و کشمیر، سفیر یوسف الدوبی، او آئی سی کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل، او آئی سی کے رکن ممالک کے مستقل نمائندے، او آئی سی جنرل سیکرٹریٹ کے افسران، قونصل جنرل پاکستان خالد مجید، دیگرسفارت کاروں اور جدہ میں سفارتی کور کے حکام، میڈیا کے نمائندوں، کشمیر کمیٹی کے ارکان و چیئرمین مسعود احمد پوری اور جدہ کے پاکستانی عوام اور کشمیری عوام کی بڑی تعداد نے تقریب میں شرکت کی۔ او آئی سی میں پاکستان کے مستقل نمائندہ سفیر سید محمد فواد شیر نے اپنے افتتاحی خطاب میں او آئی سی کے سیکرٹری جنرل کی موجودگی پر شکریہ ادا کیا۔ سفیر نے کہا کہ پاکستان اور دنیا بھر کے کشمیری ہر سال 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر مناتے ہیں تاکہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور او آئی سی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں میں درج اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کے حق خودارادیت کی منصفانہ جدوجہد کی غیر متزلزل سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت کا اظہار کیا جاسکے۔ فلسطین اور جموں و کشمیر کے حالات کے درمیان ہم آہنگی کو اجاگر کرتے ہوئے سفیر نے کہا کہ جنگی جرائم اور مظالم کی بدترین شکلیں بھی فلسطینی اور کشمیری عوام کے حوصلے اور ہمت کو پست نہیں کر سکیں۔ انہوں نے جموں و کشمیر پر او آئی سی کے دیرینہ اصولی موقف کو سراہا اور او آئی سی سے کشمیریوں کی آواز کو اجاگر کرنے کیلیے اپنی کوششوں کو دوگنا کرنے کا مطالبہ کیا۔ اپنے کلیدی خطاب میں، او آئی سی کے سیکرٹری جنرل نے کشمیر کاز کیلیے او آئی سی کی دوٹوک اور واضح حمایت کا اعادہ کیا اور اس بات پر زور دیا کہ او آئی سی اپنے مختلف میکانزم کے ذریعے بشمول او آئی سی کے خصوصی ایلچی برائے جموں و کشمیر اور او آئی سی رابطہ گروپ۔ سفیر یوسف الدوبی نے بھی اجلاس سے خطاب کیا اور او آئی سی کے کشمیریوں کے حق خودارادیت کے عزم کا اعادہ کیا۔ اس موقع پر شرکاء نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے کشمیریوں پر ظلم و ستم و انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی عکاسی کرنے والی تصویری نمائش بھی دیکھی۔
.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کھیل اور او ا ئی سی سیکرٹری جنرل او ا ئی سی کے
پڑھیں:
بھارتی فوج بھی انتہاپسند ہندوتوا ایجنڈے کے رنگ میں رنگ گئی
حالیہ دنوں میں بھارتی آرمی چیف جنرل اوپندر دویدی کی مذہبی سرگرمیوں نے سوشل میڈیا سے لے کر سیاسی حلقوں تک میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ کیا اب انڈین فوج محض دفاعی ادارہ نہیں رہی بلکہ ہندوتوا کے ایجنڈے کی محافظ بن چکی ہے؟
جنرل دویدی نے حال ہی میں وردی میں نہ صرف کیدارناتھ کے مندر میں حاضری دی بلکہ رام بھدرآچاریہ کے آشرم میں بھی ماتھا ٹیکتے دکھائی دیے۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو انہوں نے فوجی وردی کو ہندو عقیدت کا لباس بنا ڈالا۔
سوال یہ نہیں کہ کسی کا ذاتی عقیدہ کیا ہے، سوال یہ ہے کہ جب ایک سیکولر ملک کی مسلح افواج کا سربراہ وردی میں مذہبی رسومات ادا کرے تو اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ کیا فوجی وردی صرف ہندو دیوی دیوتاؤں کی خدمت کےلیے مخصوص ہوچکی ہے؟
بھارتی آئین کی شقیں شاید کتابوں میں اب بھی سیکولرزم کا دعویٰ کرتی ہوں، مگر زمین پر حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ بھارتی فوج جسے تمام قومیتوں، مذاہب اور ثقافتوں کا محافظ ہونا چاہیے تھا، اب زعفرانی رنگ میں رنگتی جا رہی ہے۔ جنرل دویدی کے مذہبی مندر دوروں سے یہ تاثر ملتا ہے جیسے وہ صرف ایک مخصوص اکثریتی مذہب کے وفادار ہوں، اور اقلیتوں کے لیے ان کی فوجی قیادت سوالیہ نشان بن چکی ہو۔
اگر آرمی چیف ہندو مندر میں ماتھا ٹیک سکتے ہیں، تو کیا وہ کسی مسجد میں دو گھڑی سکون کی دعا کے لیے رکیں گے؟ کیا وہ کسی چرچ جا کر دعائیہ کلمات سنیں گے؟ سکھوں کے گوردوارے میں عقیدت سے جھکیں گے؟ یا یہ سب صرف آر ایس ایس کی ’’ہندو راشٹر‘‘ کی مہم کا حصہ ہے، جہاں وردی کو ایک مذہبی پرچم میں بدل دیا گیا ہے؟
یہ سارا معاملہ صرف ایک فرد کا مذہبی رجحان نہیں بلکہ اس پورے ادارے کے غیر جانب دار تشخص پر ایک سنجیدہ سوال ہے۔ جب جنرل دویدی میڈیا کے سامنے وردی میں پوجا پاٹ کرتے ہیں تو وہ نہ صرف آئین کے سیکولر اصولوں کی نفی کرتے ہیں بلکہ اقلیتوں کو بھی ایک واضح پیغام دیتے ہیں کہ ان کی نمائندگی اس فوج میں شاید صرف کاغذوں کی حد تک رہ گئی ہے۔
بھارت میں ہندوتوا کی سیاسی اور سماجی بالادستی اب اتنی گہری ہو چکی ہے کہ ملک کا ہر ادارہ اس کی جھلک دکھانے لگا ہے، حتیٰ کہ فوج جیسا حساس اور غیر جانبدار ادارہ بھی۔ اس تناظر میں جنرل دویدی کی مندر یاترا صرف ایک ذاتی عقیدے کا اظہار نہیں بلکہ ایک طاقتور پیغام ہے، اور وہ پیغام یہ ہے کہ نئی دہلی کی راہ صرف ہندوتوا کے قدموں کی چاپ سننے کو تیار ہے۔
کیا ہندوستانی سپہ سالار اب صرف ایک عقیدے کا نمائندہ ہے؟ اگر ایسا ہے تو اقلیتوں کو سوچ لینا چاہیے کہ ان کی حفاظت کے دعوے صرف کاغذی تحریر رہ گئے ہیں، کیونکہ وردی پہنے وہ ہاتھ جو ملک کی سرحدوں کے محافظ کہلاتے ہیں، اب شاید صرف ایک مخصوص مذہب کے سامنے جھکنے کے لیے اٹھتے ہیں۔