اسٹیل و المونیم پر ٹیکس بڑھ گیا، امریکا کو امیر بنانے کی ابتدا ہوگئی، ٹرمپ
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسٹیل اور المونیم کی درآمدات پر 25 فی صد ٹیرف عائد کرتے ہوئے بڑے سپلائرز کے لیے استثنیٰ اور ڈیوٹی فری کوٹے کو ختم کر دیا۔
وائس آف امریکا کے مطابق صدر ٹرمپ نے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کے دوران کہا کہ ’یہ ایک بڑی ڈیل اور امریکا کو دوبارہ امیر بنانے کی ابتدا ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: یورپی اشیا پر محصولات عائد کرنے کے اعلان پر صدر ٹرمپ کو یورپی یونین کا انتباہ
ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کے دوران ٹرمپ کی جانب سے محکمہ تجارت کی سربراہی کے لیے نامزد کردہ ارب پتی فنانسر ہاورڈ لٹنک بھی موجود تھے۔
ہاورڈ لٹنک نے کہا کہ آپ وہ صدر ہیں جو امریکی اسٹیل ورکر کے لیے کھڑے ہو رہے ہیں اور میں بہت متاثر اور خوش ہوں جو آپ کے ساتھ کھڑا ہوں۔
انہوں نے ملازمتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ایک لاکھ 20 ہزار ملازمتیں واپس آ سکتی ہیں۔
واضح رہے کہ ایگزیکٹو آرڈر بنیادی طور پر صدر کے دستخطوں سے جاری ہونے والی ایک ایسا دستاویز ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ صدر کس طرح وفاقی حکومت کو منظم کرنا چاہتے ہیں۔ ایگزیکٹو آرڈر وفاقی ایجنسیوں کے لیے ہدایات ہوتی ہیں کہ انہیں کیا کارروائی کرنی ہے۔
مزید پڑھیے: اسرائیل، ’غزہ‘ امریکا کے حوالے کر دیگا، تعمیر نو کے لیے کسی فوجی کی ضرورت نہیں ہوگی، ڈونلڈ ٹرمپ
صدر ٹرمپ کے اعلان سے المونیم کی درآمدات پر ٹیکس کی شرح 10 فی صد سے بڑھ کر 25 فی صد ہو گئی ہے۔ انہوں نے سال 2018 میں اس شعبے کی مدد کے لیے 10 فی صد ٹیرف عائد کیا تھا۔
اب صدر ٹرمپ نے اسٹیل اور المونیم کی لاکھوں ٹن درآمدات پر 25 فی صد ٹیرف دوبارہ عائد کیا ہے۔
ٹرمپ کے اقدمات کے بعد اسٹیل کی درآمدات پر نئے معیارات کا اطلاق بھی ہو جائے گا۔ ان معیارات کے مطابق درآمد ہونے والے اسٹیل اور المونیم کی تیاری اور ڈھلائی وغیرہ شمالی امریکا میں ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ اس شرط سے چین میں پراسیس ہونے والے اسٹیل کی امریکا درآمد کو روکا جاسکے گا۔
حکم نامے میں درآمد شدہ اسٹیل سے تیار کی گئی مصنوعات پر بھی ٹیرف عائد کیے گئے ہیں۔
ٹرمپ کے تجارتی مشیر پیٹر نوارو کا کہنا ہے کہ ان اقدامات سے امریکی اسٹیل اور المونیم پروڈیسرز کو مدد اور امریکا کی معیشت اور قومی سلامتی کو تقویت ملے گی۔
صدر ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ اسٹیل اور المونیم ٹیرف 2.
مزید پڑھیں: امریکا کا کینیڈا پر قبضے کا ارادہ اٹل، ٹرمپ نے اصل وجہ بھی بتادی
نوارو کا کہنا تھا کہ یہ صرف تجارت کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہے کہ امریکا اسٹیل اور المونیم جیسی اہم صنعتوں کے لیے کبھی غیر ملکیوں پر انحصار نہیں کرے گا۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے اتوار کو پہلی بار اسٹیل اور المونیم سے متعلق اقدامات کا ذکر کیا گیا تھا جس پر فوری طور پر رد عمل سامنے آیا تھا۔
پیر کو چین نے صدر ٹرمپ کی جانب سے چینی مصنوعات پر 10 فی صد ٹیرف عائد کرنے کے جواب میں امریکی مصنوعات پر اضافی ٹیکس عائد کیے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسٹیل اور المونیم پر ٹیکس امریکا اور اسٹیل و المونیم ڈونلڈ ٹرمپذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ ایگزیکٹو آرڈر فی صد ٹیرف ٹیرف عائد کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
وائس آف امریکا کی بحالی کا عدالتی حکم، ٹرمپ انتظامیہ کا اقدام ’من مانا اور غیر آئینی‘ قرار
امریکا کی وفاقی عدالت نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت وائس آف امریکا (VOA) اور اس کی ماتحت ایجنسیوں کی بندش کو غیر آئینی اور غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے ادارے کے سینکڑوں معطل صحافیوں کو فوری طور پر بحال کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ڈی سی کی ضلعی عدالت کے جج رائس لیمبرتھ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ حکومت نے یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا (USAGM) جو وائس آف امریکا سمیت کئی بین الاقوامی نشریاتی اداروں کو چلاتی ہے، کو بند کرتے وقت کوئی ’معقول تجزیہ یا جواز‘ پیش نہیں کیا۔ یہ حکومتی اقدام من مانا، غیر شفاف اور آئینی حدود سے متجاوز ہے۔
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کے بعد VOA کے قریباً 1,200 ملازمین کو بغیر کسی وضاحت کے انتظامی رخصت پر بھیج دیا گیا تھا، جن میں قریباً ایک ہزار صحافی شامل تھے۔ اس اقدام کے نتیجے میں ادارہ اپنی 80 سالہ تاریخ میں پہلی بار مکمل طور پر خاموش ہوگیا تھا۔
مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ نے وائس آف امریکا (VOA) کے ملازمین کو تنخواہ کے ساتھ چھٹی پر کیوں بھیجا؟
VOA کی ڈائریکٹر مائیکل ابرامووٹز اور وائٹ ہاؤس بیورو چیف پیٹسی وڈاکوسوارا نے دیگر متاثرہ ملازمین کے ساتھ مل کر عدالت سے رجوع کیا تھا۔ جج نے حکم دیا ہے کہ نہ صرف ان ملازمین کو بحال کیا جائے، بلکہ Radio Free Asia اور Middle East Broadcasting Networks کے فنڈز بھی بحال کیے جائیں تاکہ ادارے اپنی قانونی ذمہ داریاں نبھا سکیں۔
وڈاکوسوارا نے عدالتی فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف ہماری ملازمتوں کا معاملہ نہیں بلکہ آزاد صحافت، آئینی آزادی اور قومی سلامتی کا سوال ہے۔ وائس آف امریکا کی خاموشی عالمی سطح پر معلوماتی خلا پیدا کرتی ہے، جسے ہمارے مخالفین جھوٹ اور پروپیگنڈا سے بھر سکتے ہیں۔ ڈائریکٹر مائیکل ابرامووٹز نے کہا کہ یہ فیصلہ ہماری اس دلیل کی توثیق ہے کہ کسی حکومتی ادارے کو ختم کرنا صرف کانگریس کا اختیار ہے، صدارتی فرمان کے ذریعے نہیں۔
1942 میں نازی پروپیگنڈا کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم ہونے والا VOA آج دنیا کے قریباً 50 زبانوں میں 354 ملین سے زائد افراد تک رسائی رکھتا ہے۔ اسے امریکا کی ’سافٹ پاور‘ کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ USAGM، جسے پہلے براڈکاسٹنگ بورڈ آف گورنرز کہا جاتا تھا، دیگر اداروں کی بھی مالی مدد کرتا ہے۔ جج نے Radio Free Europe/Radio Liberty کو قانونی پیچیدگیوں کے باعث وقتی ریلیف دینے سے معذرت کی، کیونکہ ان کے گرانٹ کی تجدید تاحال زیر التوا ہے۔
مزید پڑھیں: بی بی سی اور وائس آف امریکا پر پابندی عائد
صدر ٹرمپ نے سابق نیوز اینکر اور گورنر کی امیدوار کیری لیک کو VOA سے وابستہ USAGM میں بطور سینیئر مشیر مقرر کیا تھا۔ لیک نے کہا تھا کہ وہ VOA کو انفارمیشن وار کے ہتھیار کے طور پر استعمال کریں گی، اور اس ادارے کو غیر ضروری اور ناقابل اصلاح قرار دیا تھا۔ تاہم اب عدالتی فیصلے نے حکومتی اقدام کو روک دیا ہے، اور صحافیوں کو اپنی اصل ذمہ داریوں کی طرف لوٹنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
امریکی محکمہ انصاف نے تاحال اس فیصلے پر کوئی ردعمل نہیں دیا اور نہ ہی یہ واضح کیا ہے کہ وہ اس کے خلاف اپیل کرے گا یا نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
VOA بحال ٹرمپ صحافی غیر آئینی وائس آف امریکا