بی جے پی ترقی کے بجائے نام بدلنے میں مصروف ہے، کانگریس
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
کانگریس کی ترجمان نے کہا کہ بی جے پی نے بہنوں اور بیٹیوں کو پیسہ دینے کا وعدہ کیا تھا، یمنا کو صاف کرنے کی بات کی تھی لیکن ان کیلئے سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ اسمبلی حلقوں کے نام کیسے بدلے جائیں۔ اسلام ٹائمز۔ دہلی کے مصطفی آباد اسمبلی حلقے کا نام تبدیل کرنے کی تجویز پر تنازعہ بڑھ گیا ہے۔ بی جے پی کے نو منتخب ایم ایل اے موہن سنگھ بشٹ نے مصطفی آباد کا نام "شیوپوری" یا "شیو وہار" رکھنے کا مطالبہ کیا، جس پر کانگریس کی ترجمان راگنی نائک نے سخت ردعمل ظاہر کیا۔ راگنی نائک نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا "مجھے لگتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران کو دہلی کے عوام نے ایک بڑی ذمہ داری دی ہے"۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی 5 ٹریلین کی معیشت، سب کا ساتھ، سب کا وکاس کے نعرے لگا کر اقتدار میں آئے ہیں لیکن اب وہ ترقی اور خوشحالی کے بجائے نام بدلنے پر فوکس کر رہے ہیں۔
کانگریس کی ترجمان نے مزید کہا کہ بی جے پی نے بہنوں اور بیٹیوں کو پیسہ دینے کا وعدہ کیا تھا، یمنا کو صاف کرنے کی بات کی تھی لیکن ان کے لئے سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ اسمبلی حلقوں کے نام کیسے بدلے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ مصطفی آباد کا نام بدلنے کی بات کر رہے ہیں، کیا لوگوں نے انہیں مصطفی آباد کا نام بدلنے کے لئے اکثریت دی تھی، جن کے نام بڑے اور درشن چھوٹے ہوتے ہیں، وہ ایسی حقیر باتیں کرتے ہیں۔
قبل ازیں موہن سنگھ بشٹ نے علاقے کا نام بدلنے کی تجویز دی تھی اور اس کی جگہ شیوپوری یا شیو وہار کا نام رکھا جانے کا کہا تھا۔ بشٹ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا "ایک طرف 58 فیصد لوگ ہیں، دوسری طرف 42 فیصد، اسمبلی کا نام 42 فیصد لوگوں کی پسند کا نہیں ہو سکتا، یہ 58 فیصد لوگوں کے ساتھ ناانصافی ہے"۔ انہوں نے کہا کہ میں اس اسمبلی حلقہ کا نام اکثریتی لوگوں کے نام پر تبدیل کراؤں گا۔ جیسے ہی اسمبلی کا پہلا اجلاس شروع ہوگا، میں یہ تجویز لاؤں گا کہ مصطفی آباد اسمبلی کا نام بدل کر شیوپوری یا شیو وہار رکھا جائے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مصطفی آباد نے کہا کہ بی جے پی کے نام کا نام
پڑھیں:
ایرانی حملوں سے تباہی غزہ کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں،اسرائیلی شہری
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایران کی جانب سے حیفا میں گذشتہ رات جس رہائشی عمارت کو نشانہ بنایا گیا تھا وہاں اکثر افراد اب بھی صدمے میں ہیں لیکن حکومت کے ایران پر ابتدائی حملوں کی حمایت بھی کرتے ہیں۔ لیکن یہ سب کی رائے نہیں ہے۔
ایک رہائشی اورنا کے مطابق اسرائیل کے ایران پر حملوں کا وقت درست نہیں تھا۔ بی بی سے بات کرتے ہوئے
وہ کہتی ہیں کہ ’حالانکہ یہ اہم ہے کیونکہ وہ (ایران) جوہری ہتھیار بنانا چاہتا ہے لیکن حملوں کا وقت درست نہیں تھا۔
اب بھی ہمارے 20 یرغمالی غزہ میں زندہ ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انھیں بھلا دیا گیا ہے۔ بجائے اس کے کہ ہم زندہ اسرائیلی کی واپسی کے لیے لڑیں، ہم مزید لوگوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔
’اب وقت آ گیا ہے کہ تمام ہتھیار رکھے جائیں اور مذاکرات کیے جائیں بجائے اس کے کہ مزید لوگوں کو ہلاک کیا جائے۔‘
ان کے بیٹے ایلون کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے جمعے کو ایران پر ابتدائی حملوں نے غزہ سے توجہ ہٹا دی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اب غزہ میں اسرائیلی نسل کشی کے باعث تکلیف کا شکار لوگوں کے لیے میری ہمدردی بڑھ رہی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اسرائیلی فوج کو یہ ایران لے کر جانا ٹھیک لگتا ہے۔ وہ انتباہ ایران کو دے رہے ہیں جو وہ غزہ کے لوگوں کو دیا کرتے تھے۔‘
وہ چاہتے ہیں کہ دوسرے ممالک اسرائیل کو اسلحہ دینا بند کریں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ایسے اسرائیلی شہریوں میں اضافہ ہو رہا ہے جو اب اپنی حکومت کے ساتھ نہیں کھڑے۔
یہ اکثریت کا نظریہ نہیں ہے لیکن اسرائیلی حکومت کی کارروائیاں ہم سب کی نمائندگی نہیں کرتی ہیں۔
ہمیں یہاں جتنی تباہی دکھائی دے رہی ہے وہ غزہ میں موجود ملبے کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔‘