Express News:
2025-11-03@01:41:51 GMT

ترس آتا ہے…

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

اپنی نصف صدی کی زندگی میں اس مملکت خداداد میں طرح طرح کی حکومتیں دیکھی ہیں۔ آغاز ضیاء الحق شہید کی مارشل لائی حکمرانی سے ہوا ، سویلین حکمرانی کا مشاہدہ بھی جاری رہا ،بفضل خدا زندگی رہی تو مزید حکومتیں بھی دیکھیں گے۔ ماضی کی ان حکومتوں میں سے کسی سے ہمدردی رہی تو کسی سے سرد مہری ۔ لیکن کوئی ایسا حکمران نہ دیکھا جس پر ترس کھایا جا سکے ۔

مارشل لائی حکمران کا عوامی تعلق نہیں ہوتا ہے، ان کا کوئی حلقہ انتخاب نہیں ہوتا، انھوں نے زور زبردستی سے حکومت حاصل کی ہوتی ہے لیکن سیاسی حکمران عوامی تعلق کا محتاج ہوتا ہے اور جب تک عوام سے اس کا رابطہ رہتا ہے، وہ کامیاب حکمران تصور کیا جاتا ہے ۔

حکمران کے عوامی رابطوں کے کئی ذرایع ہوتے ہیں جن میں وقت کے ساتھ اضافہ بھی ہوتا گیا اور آج تو یہ عالم ہے کہ اگر حکمران چاہے تو وہ اپنے موبائل فون سے ہی ہر وقت عوام سے رابطے میں رہ سکتا ہے۔ ماضی میں سیاسی جلسے جلوسوں کے علاوہ حکمرانوں کے عوام سے رابطے کے ذرایع اخبارات تک محدود تھے جو اب سوشل میڈیا کے طوفان تک پہنچ چکے ہیں جہاں سے عوام کا حال احوال کسی بھی حکمران تک براہ راست پہنچ سکتا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ حکمرانوں کے مسائل عوام سے مختلف ہیں، ان کا مسئلہ روٹی کپڑا مکان نہیں ہے ۔

ہماری موجودہ حکومت کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے، یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ ان کی حکمرانی عوامی نمایندگی کی ترجمان ہے یا بقول گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر کے یہ حکومت عوام کا انتخاب نہیں ہے ،اس بات سے قطع نظرتابڑ توڑ مہنگائی کا جو طوفان برپا تھا، اس میں کسی حد تک کمی ضرور آئی ہے اور ہمارے وزیر اعظم شہباز شریف کی یہ حتی المقدور کوشش ضرور رہی ہے کہ وہ عوام کے لیے کچھ اچھا کر سکیں ۔

وہ ملکوں ملکوں جارہے ہیں لیکن معلوم یہ ہوتاہے کہ سوائے چند ایک دوست ممالک سے قرضہ جات کے علاوہ کوئی بھی ملک پاکستان میں سرمایہ کاری پر تیار نظر نہیں آتا ۔ نہ کوئی نیا کارخانہ لگ رہا ہے اور نہ ہی پہلے موجود کارخانوں کا پہیہ گھوم رہا ہے نہ سرمائے کی حرکت نظر آتی ہے البتہ اگر کوئی حرکت نظر آتی ہے تو وہ ملک سے باہر جانے کی حرکت ہے جسے دیکھیں جس سے بات کریں وہ رخت سفر باندھے بیٹھا ہے ۔ حکمرانوں نے ملکی قوانین میں ایسی ترامیم کر دی ہیں کہ مشہور ومقبول احتساب کا نعرہ دم توڑ چکا ہے اور آج اگر کسی کا احتساب ہورہا ہے تو وہ صرف سیاسی احتساب تک محدود ہو چکا ہے اور عوام یہ بات سمجھ چکے ہیں اور وہ حکمرانوں کے احتسابی اقدامات سے مطمئن نہیں ہیں ۔ یعنی یہ کہا جا سکتا ہے کہ حالات بدل نہیں رہے ہیں بلکہ پہلے سے زیادہ مشکلات ہیں۔

حکمران طبقہ اپنی فلاح کے کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہمارے ’’منتخب ‘‘نمایندے جو اسمبلیوں میں موجود ہیں ، انھوں نے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کر لیا ہے اور اس حمام میں چاہے وہ حکومت میں شامل نمایندے ہوں یا اپوزیشن کے اراکین سب نے ہاں میں ہاں میں ملاتے ہوئے اپنے لیے مراعاتی پیکیج منظور کر لیے ہیں۔ یہ وہ اقدامات ہیں جن کو دیکھ کر عوام نہ صرف کڑھنے پر مجبور ہیں بلکہ ان میں اپنے نمایندوں کے خلاف غصہ مزید بڑھ گیاہے۔

بے حسی کی انتہاء یہ ہے کہ حکومت جب بھی کسی چیز کی قیمت میں اضافہ کرتی ہے تو کہتی ہے کہ عوام متاثر نہیں ہوں گے ۔ ایسی بات کہنے والوں کے دل گردے کی داد دینی پڑتی ہے ۔ ہماری حکومت اپنے اقتدار کی بقاء کے لیے اپنے عوام کی طرف نہیں بلکہ وہ عالمی مالیاتی اداروں اور بڑی طاقتوں کی طرف دیکھتی ہے اور یہ نہیں سوچتی کہ یہ بڑی طاقتیں آپ کو اس وقت تک رکھیں گی جب تک ان کا اپنا دل اور مفاد چاہے گاکیونکہ انھیں معلوم ہے کہ اس حکومت کے قدم اپنی زمین اور اپنے عوام میں نہیں ہیں بلکہ گملے میں ایک اگا ہوا ایک پودا ہے جس کو پانی کہیں اور سے مل رہا ہے۔

یہ ان حالات کی ایک ہلکی اور سرسری سی جھلک ہے جس میں کسی حکمران کو حکومت چلانی ہے اور میاں شہباز شریف اس آزمائش سے گزر رہے ہیں۔ اس ایک سالہ حکمرانی میں صوبائی سطح پر مختلف سیاسی جماعتوں کی نمایندہ حکومتیں قائم ہیں ۔سندھ میں حسب معمول پیپلز پارٹی اور خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف حکمرانی کے مزے لوٹ رہی ہے، بلوچستان کے عوام ہمیشہ کی طرح ایک ملی جلی حکومت کے سپرد ہیں، رہی پنجاب کی حکومت تو پہلی خاتون وزیر اعلیٰ محترمہ مریم نواز اپنے والد کی رہنمائی میں حکمرانی کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں۔حکمرانی کے پہلے تجربے اور خدشات کے باوجود انھوں نے بلاشبہ نے اپنے تما م ناقدین کی امیدوں کے برعکس ایک اچھی حکمرانی کی کوشش کی ہے۔

وہ بہت زیادہ متحرک ہیں اور اس کوشش میں ہیں کہ مسلم لیگ نواز کے لیے پنجاب کے عوام کے دل میں نرم گوشہ قائم کر سکیں ۔وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے صوبہ بھر میں تجاوزات کے خلاف جاری مہم جوئی سے عام آدمی بہت متاثر ہو رہا ہے گو کہ اس مہم سے ٹریفک کے بہاؤ میں بہتری آئے گی لیکن چھوٹے کاروبار جن میں خاص طور پر ریڑھی بان شامل ہیں۔

ان کا روزگار ختم ہو گیا ہے، اس ضمن میں وزیر اعلیٰ کو ذاتی طور پر مداخلت کرنی ہوگی تاکہ غریب کا چولہا جو کہ تجاوزات کی زد میں آکر بجھ چکا ہے، وہ جل پائے۔تجاوزات کے خلاف مہم سے براہ راست عام آدمی متاثر ہوا ہے جس کا لا محالہ اثر حکومت مخالف جذبات کی صورت میں نکلے گا ،بہر حال یہ تو حکمران جانیں اور ان کے افسران جو ایسی مہم جوئیوں کے مشورے دیتے ہیں، ہمارا کام تو زنجیر ہلانے کا ہے اور وہ ہم ہلاتے رہیں گے۔ ترس آتا ہے، ایسی حکمرانی پر ………

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہیں بلکہ عوام سے کے عوام رہا ہے ہے اور

پڑھیں:

حکومت نے نوجوانوں کا روزگار چھینا اور ملک کی دولت دوستوں کو دے دی، پرینکا گاندھی

کانگریس لیڈر نے کہا کہ مودی حکومت نے عوام کے حصے کی دولت چند سرمایہ دار دوستوں کو سونپ دی ہے، جو صنعتیں ملک کی تھیں، جن سے کروڑوں لوگوں کو روزگار ملتا تھا، وہ سب بیچ دی گئیں۔ اسلام ٹائمز۔ بِہار اسمبلی انتخابات کی مہم کے دوران کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے ہفتہ کو بیگو سرائے کے بچھواڑا اسمبلی حلقے میں ایک پرجوش عوامی جلسے سے خطاب کیا۔ انہوں نے کانگریس امیدوار شیو پرکاش غریب داس کے حق میں ووٹ دینے کی اپیل کی اور ریاستی و مرکزی حکومت پر سخت تنقید کی۔ پرینکا گاندھی نے اپنی تقریر میں کہا کہ بہار کے عوام آج ہجرت کے درد میں زندگی گزار رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں کے کسان اپنے لہلہاتے کھیت چھوڑ کر دوسرے صوبوں میں مزدوری کرنے پر مجبور ہیں، مہنگائی عروج پر ہے، ٹیکسوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے اور عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مودی حکومت نے عوام کے حصے کی دولت چند سرمایہ دار دوستوں کو سونپ دی ہے، جو صنعتیں ملک کی تھیں، جن سے کروڑوں لوگوں کو روزگار ملتا تھا، وہ سب بیچ دی گئیں۔ ہر شعبہ ٹھیکے پر دے دیا گیا ہے اور نجکاری کے نام پر عوام کا حق چھین لیا گیا ہے۔ پرینکا گاندھی نے نتیش کمار اور نریندر مودی پر نشانہ لگاتے ہوئے کہا کہ بیس برسوں سے حکومت چلانے کے بعد بھی اب کہہ رہے ہیں کہ ڈیڑھ کروڑ نوکریاں دیں گے۔ جب اتنے سال اقتدار میں تھے تو کیوں نہیں دی؟ ان کے وعدے کھوکھلے ہیں، چھوٹے کاروبار ختم ہو گئے، عوام کا جو کچھ تھا وہ اپنے دوستوں کو بیچ دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ عوام کے دل میں خوف ہے، آج لوگ سوچتے ہیں کہ علاج کہاں کرائیں، بچوں کی پرورش کیسے کریں، بہار میں عورتوں کی حالت بد سے بدتر ہوچکی ہے۔ وہ گھر، کھیت اور خاندان سب کچھ سنبھالتی ہیں، مگر ان کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ پرینکا گاندھی نے کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی ڈبل انجن حکومت کی بات کرتے ہیں مگر آپ کی کوئی سنوائی نہیں ہے، حتیٰ کہ آپ کے وزیر اعلیٰ کی بھی نہیں۔ ساری طاقت دہلی کے ہاتھوں میں ہے اور آپ کی زمینیں کوڑیوں کے دام بیچی جا رہی ہیں۔

انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ تبدیلی لائیں، یہاں کے تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگار بیٹھے ہیں، ایسے لیڈروں سے ہوشیار رہیں جو صرف اپنا چہرہ چمکانے آتے ہیں، پھر ووٹ چوری کر کے چلے جاتے ہیں۔ کانگریس لیڈر نے کہا کہ ملک میں آئی آئی ٹی، آئی آئی ایم اور بڑے ادارے کانگریس نے بنوائے، ہم ماضی میں نہیں جانا چاہتے، مگر یہ حقیقت ہے کہ ترقی کے بڑے قدم کانگریس کے دور میں اٹھائے گئے۔ انہوں نے راہل گاندھی کے ذات پر مبنی مردم شماری اور سماجی انصاف کے مطالبات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم سب کا ترقی میں برابر کا حصہ چاہتے ہیں، تاکہ کوئی طبقہ پیچھے نہ رہ جائے۔

متعلقہ مضامین

  • گلگت بلتستان کا یوم آزادی اور درپیش چیلنجز
  • حکومت نے نوجوانوں کا روزگار چھینا اور ملک کی دولت دوستوں کو دے دی، پرینکا گاندھی
  • پاکستان اور جرمنی جمہوریت، برداشت اور پارلیمانی طرزِ حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں، مریم نواز
  • نادرا نے عوام کیلئے ایک اور سہولت متعارف کروادی
  • پاکستان کسی وڈیرے، جاگیردار، جرنیل، حکمران کا نہیں، حافظ نعیم
  • پیپلزپارٹی نے کراچی کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی‘پی ٹی آئی
  • ڈیم ڈیم ڈیماکریسی (پہلا حصہ)
  • سڑکیں کچے سے بدتر، جرمانے عالمی معیار کے
  • فارم 47 کے حکمران اپنی حکمرانی بچانے میں مصروف ہیں، پشتونخوا میپ
  • وزیراعظم آزاد کشمیر کا اعلان اسلام آباد سے نہیں، کشمیر سے ہوگا، بلاول