فافن کی رپورٹ اور دنیا میں انقلاب
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
میری بات/روہیل اکبر
ایک طرف دنیا آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے بھی آگے کا سفر شروع کرچکی ہے اور ہم ابھی تک فارم 47میں الجھے ہوئے ہیں جسکی وجہ سے انٹرنیٹ چلتا نہیں اور کام ٹھپ پڑے ہیں ۔ہماری ٹیکسٹائل اور دوسری انڈسٹری تو پہلے ہی جواب دے چکی ہے ۔رہی سہی کام کرنی والی فیکٹریاں بھی بند ہوتی جارہی ہیں ۔دنیا میں کیا نئی نئی دریافت ہورہی ہیں اس پر بات کرنے سے پہلے میں فافن کی جرات و بہادری پر سلام پیش کرتا ہوں کہ اتنے سخت ماحول میں انہوں نے دھاندلی زدہ الیکشن پر اپنی مفصل رپورٹ جاری کی۔ سوچنے کی بات ہے کہ جب ہماری عدالتیں آزاد اور خود مختار ہیں تو پھر فارم 47کے تحت نشستیں بیچنے والوں کے خلاف قانون کیوں خاموش ہے ؟ نااہل اور عوام کی جانب سے مسترد شدہ لوگوں میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں ریوڑیوں کی طرح بانٹنے والے آج تک قانون کی گرفت سے باہر کیوں ہیں ؟ ان کانام کیوں کوئی نہیں لے سکتا جب تک ملک میں تمام شعبوں اور اداروں کے متعلق قانون اور انصاف کی فراہمی یکساں نہ ہو تو ملک کی معاشی سیاسی استحکام اور ترقی ناممکن ہے۔ اسی حوالہ سے فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن)نے 8فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد قائم الیکشن ٹربیونلز کی کارکردگی پر بھی اپنی چھٹی رپورٹ جاری کردی جس میں بتایا گیا کہ الیکشن ٹربیونلز نے 30فیصد درخواستوں پر فیصلے سنا دیے جبکہ 70فیصد تاحال زیرالتوا ہیں ۔الیکشن ٹریبونلز نے جنوری 2025میں 11مزید انتخابی درخواستوں کا فیصلہ سنایا کل فیصلوں کی تعداد 112ہوگئی جو مجموعی درخواستوں کا 30 فیصد بنتی ہے ۔ لاہورکے 3 ٹربیونلز نے 9، بہاولپور اور کراچی کے ٹربیونلز نے ایک ، ایک درخواست کا فیصلہ کیا فیصلہ شدہ 11 درخواستوں میں 6 پی ٹی آئی حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی تھیں 4 درخواستیں مسلم لیگ (ن)اور ایک درخواست استحکامِ پاکستان پارٹی کے امیدوار کی تھی ۔تمام 11درخواستیں مسترد کر دی گئیں 2024 کی آخری سہ ماہی میں الیکشن تنازعات کے حل کا عمل تیز ہوا ہے ۔ بلوچستان ہائیکورٹ کی تعطیلات کے باعث جنوری میں درخواستوں کے فیصلوں میں سست روی آئی پنجاب میں قانونی چیلنجز کے بعد انتخابی درخواستوں کے فیصلے کی رفتارمیں بہتری آئی، بلوچستان کے ٹربیونلز نے 51میں سے 41درخواستوں پر فیصلہ سنایا پنجاب کے ٹربیونلز نے 192 میں سے 45 درخواستوں پرفیصلہ دیا۔ سندھ کے ٹربیونلزنے 83 میں سے 17اور خیبر پختونخوا کے ٹربیونلز نے 42میں سے 9درخواستوں کے فیصلے کئے ۔ قومی اسمبلی کی نشستوں سے متعلق 123میں سے 25 درخواستوں پر فیصلہ ہوچکا ہے۔ صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر 248میں سے 87درخواستوں کا فیصلہ سنایا جا چکا ہے۔ سپریم کورٹ میں 38 ٹربیونل فیصلوں کو چیلنج کیا گیا ۔بلوچستان سے 24، پنجاب سے 10اور سندھ سے 4اپیلیں سپریم کورٹ میں دائر ہوئیں جبکہ سپریم کورٹ نے اب تک 3 اپیلوں پر فیصلہ سنایا۔ ایک منظور اور 2مسترد کر دی گئیں۔ 112میں سے 108درخواستیں مسترد 3منظور اور ایک درخواست درخواست گزار کی وفات کے باعث ختم کردی گئی جبکہ بلوچستان اسمبلی کی 3نشستوں پر دوبارہ پولنگ کا حکم دیا گیا ۔یہ تو ہے ہمارا نظام اب آتے ہیں کہ دنیا کہاں سے کہا پہنچ گئی اور ہم کیا کررہے ہیں ۔پچھلے چند دنوں میں ڈیپ سیک انٹرنیشنل اکانومی کا ہلا کررکھ دیا ہے اور OpenAI کے کھربوں ڈالرز کے خواب کو چکنا چور ہو گئے ہیں۔ ChatGPT جیسے طاقتور AI ماڈل کو صرف 1/100 لاگت میں تیار کر لیا ہے۔ میری نظر میں یہ دنیا میں کسی بھی پروڈکٹ کا سب سے بڑا ہارڈ لانچ ہے جس کی سلامی 1500 ارب ڈالرز سے زائد ہے ۔یہ پیشرفت ڈاٹ کام کریش جیسے تاریخی مارکیٹ حادثے کو جنم دے سکتی ہے ۔ڈیپ سیک کا "r1″ ماڈل: GPT کو پیچھے چھوڑنے والا چینی چیلنج ہے۔ یہ نہ صرف GPT سے تیز اور ہوشیار ہے بلکہ کثیرالمقاصد بھی پانچ سال تک AI دنیا کا ایک ہی نعرہ تھا کہ”طاقتور AI کے لیے دیوہیکل وسائل چاہئیں!” ۔کروڑوں ڈالر، ہزاروں ماہرین، فٹ بال گراؤنڈ جتنے ڈیٹا سینٹرزمگر اب یہ نظریہ دھڑام سے گر چکا ہے ۔ اوپن اے آئی نے اربوں خرچ کرکے سپر کمپیوٹرز اور ذہین ترین دماغ جمع کیے تھے مگر اب ایک چینی ماڈل نے اسی ماڈل کو "چائے کے ریٹ” میں پیش کر دیا ہے۔ یہ محض لاگت میں کمی نہیں بلکہ AI کی معاشیات کو الٹ دینے والا دھماکہ ہے تبھی لندن، نیویارک، ہانگ کانگ کے اسٹاک ایکسچینجوں میں زلزلہ آیا ہوا ہے۔ لگتا ہے کہ 2000 کی ڈاٹ کام کریش والی کہانی اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ اس وقت انٹرنیٹ کی دوڑ میں کمپنیوں نے انفراسٹرکچر پر اربوں لْٹا دیے ۔ نتیجہ؟ Webvan جیسی کمپنیاں دیوالیہ اور کھربوں ڈالر کا نقصان کرچکی ہیں ۔ وجہ سادہ تھی کہ رسد نے طلب کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا۔آج AI کی دوڑ اسی راستے پرمگر دس گنا تیزی سے!پنڈتوں کے مطابق AI انڈسٹری کو 600 ارب ڈالر کا ریوینیو چاہیے ۔حقیقت میں کتنا چاہیے؟ صرف 60 ارب ڈالر یہ خلیج نہیں بلکہ خلا ہے اور اب یہ سستا AI ماڈل پورے کاروباری ماڈل کو زمین بوس کر سکتا ہے۔ بڑے ڈیٹا سینٹرز؟ اب بے کار مہنگے ہارڈویئر؟ فضول خرچی اے آئی اسٹاک کی بلند ویلیوایشنز؟ ہوا میں قلعے ڈیپ سیک کی آمد سے پہلے، آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی پوری معیشت "مصنوعی قلت” پر کھڑی تھی "۔صرف امیر ترین ہی AI بنا سکتے ہیں” مگر اب یہ قلت ختم اور بلبلہ پھٹنے کو تیارہے ۔آپ ذرا ٹائم مشین میں جھانکیں تو2000 کے بعد جب انٹرنیٹ بلبلہ پھٹا تب Amazon جیسی کمپنیوں نے حقیقی مسائل حل کیے اب AI کی دنیا میں بھی یہی ہوگا ۔بجائے بڑے ڈیمو کے عملی استعمال اور بجائے بڑے ڈیٹا کے معیاری ڈیٹا، بجائے کلاؤڈ کے مقامی ڈیوائسز پر AI ویب 4 کا جنم ۔ یہ نئی جنریشن ہوگی سستے مگر مؤثر AI ماڈلز مرکزی نظاموں کے بجائے پھیلے ہوئے نیٹ ورکس ڈیٹا کی کوالٹی سے پیدا ہونے والی حقیقی قدر پچھلے 10 دن میں سرمایہ کاروں کی آنکھیں کھلی ہیں ۔مارکیٹ 1500 ارب ڈالرز کا غوطہ کھا چکی ہے ۔سو لگتا ہے کہ یہ بلبلہ ضرور پھٹے گا مگر جیسے 2000 کے بعد حقیقی انٹرنیٹ انقلاب آیا اے آئی بھی اپنی اصل شکل میں ابھرے گا۔قابل عمل، سستا اور سب کی پہنچ میں ٹیکنالوجی کا چکر ہمیشہ یہی رہتا ہے۔ ہائپ کریش پھر حقیقی انقلاب کامیاب وہی ہوگا ،جو خیالی اعدادوشمار پر نہیں روزمرہ کی حقیقی ضرورتوں پر توجہ دے اور اصلی مسائل کا حل پیش کرے ۔اے آئی کی یہ لہر آپ کو یا تو موجوں پر سْوار کرے گی یا پھر چٹان سے ٹکرا دے گی۔ اسی طرح ہماری سیاست بھی ہے جو ایک دم اوپر جاتی ہے اور پھر دھڑام سے نیچے گر جاتی ہے۔ جمہوریت پٹڑی پر آتی ہے، لیکن پھر فافن بتاکر پردہ فاش کردیتی ہے اوپر نیچے ہوتی ہماری جمہوریت اور انٹرنیٹ کی سست اسپیڈ کب تک یونہی چلے گی اس بارے میںکچھ علم نہیں اگر کسی کو ہو تو ہمیں بھی بتا دے۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: کے ٹربیونلز نے درخواستوں پر فیصلہ سنایا ارب ڈالر دنیا میں اے آئی ہے اور کے بعد
پڑھیں:
پاکستان، سعودی عرب معاہدہ دوسرے اسلامی ممالک تک وسعت پا رہا ہے؟
پاکستان اور سعودی عرب نے گزشتہ روز17 ستمبر کو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ایک تاریخ ساز اسٹریٹجک میوچل ڈیفنس ایگریمنٹ معاہدے پر دستخط کیے۔ معاہدے کی اہمیت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کو سعودی عرب پہنچنے پر خصوصی پروٹوکول دیا گیا جو اِس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو سعودی عرب آمد پر دیا گیا تھا۔ سعودی دارالحکومت میں پاکستانی پرچموں کی بہار نظر آئی وہیں پاکستان میں بھی سرکاری عمارتوں پر سعودی پرچم لہرا دیے گئے۔
معاہدے پر پاکستان کی جانب سے وزیراعظم شہباز شریف جبکہ سعودی عرب کی جانب سے ولی عہد محمد بن سلمان نے دستخط کیے۔ معاہدے کی سب سے اہم شق کے مطابق ایک ملک پر جارحیت کو دونوں ملکوں پر جارحیت سمجھا جائے گا۔
سعودی اخبار سعودی گزٹ کے مطابق ’دونوں ممالک مل کر دفاعی تعاون بڑھائیں گے، اور باہمی مشاورت اور عسکری تعاون پر کام کریں گے تاکہ کسی بھی ممکنہ خطرے کی صورت میں مشترکہ جواب دیا جا سکے۔
عرب ٹی وی چینل ’الجزیرہ‘ کے مطابق معاہدے کا مقصد جوائنٹ ڈیٹرنس قائم کرنا ہے کہ اگر کوئی بیرونی خطرہ ہو تو دونوں ممالک مل کر ایسے خطرے کو ناکام بنائیں، یعنی جارحوں کو یہ احساس ہو کہ اب دونوں مل کر جواب دیں گے۔
الجزیرہ نے یہ بھی لکھا کہ یہ معاہدہ صرف ردعمل نہیں بلکہ ایک عرصے سے جاری تعلقات اور مذاکرات کا نتیجہ ہے، اور اسے علاقائی سالمیت، سلامتی اور دو طرفہ مفادات کے تناظر میں دیکھا گیا ہے۔
رائٹرز نے ایک سینئر سعودی اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے درمیان برسوں کی بات نتیجہ ہے اور یہ کسی ملک کے حملے کے فوری ردّعمل کے طور پر نہیں کیا گیا۔ یہ دونوں ملکوں کے درمیان برسوں سے چلے آ رہے تعاون کو ایک ادارے کی شکل دینے کے مترادف ہے۔
پاکستان کے سابق سینئر سفارت کار اعزاز چوہدری نے انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے اس معاہدے کو ایک بڑی پیش رفت قرار دیا اور کہا کہ یہ عرب دنیا میں سلامتی کے نئے رجحان کا مظہر ہے، خاص طور پر ’اگر قطر پر حملہ ہو سکتا ہے تو دوسروں کے لیے بھی خطرہ موجود ہے‘ کے تناظر میں۔
پاکستان کے سابق سینئر سفارتکار عبدالباسط نے ایکس پر اپنے پیغام میں کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ ’کریسنٹ سکیورٹی انیشی ایٹو ‘ کا آغاز ہے۔ اُنہوں نے کہا میری نظر میں یہ معاہدہ بنگلہ دیش اور کچھ دیگر مسلمان ملکوں تک بھی وسعت پائے گا۔
دوحہ حملے کے بعد عرب دنیا جاگ گئی ہے:بریگیڈئر آصف ہارونتھنکرز فورم کے سابق چیئرمین، سی ڈی ایس تھنک ٹینک کے پیٹرن۔اِن۔چیف اور دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈئر آصف ہارون نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدے کا اعلان ہی بہت بڑا قدم ہے۔ اس سے یقیناً اسرائیل خوفزدہ ہوا ہو گا اور امریکا بھی سوچنے پر مجبور ہوا ہو گا۔ کوئی بھی معاہدہ ہونے سے پہلے اُس کی تفصیلات طے ہو چُکی ہوتی ہیں اور ممکنہ طور پر پاکستان نے سعودی عرب کے دفاع کے حوالے سے تفصیلات طے کر لی ہوں گی۔
اہم بات یہ ہے کہ پاکستانی دفاعی ٹیکنالوجی کا زیادہ انحصار چینی ٹیکنالوجی پر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہی ٹیکنالوجی اب سعودی عرب میں ممکنہ طور پر استعمال ہو سکتی ہے۔
برگیڈئر آصف ہارون نے کہا کہ دوحہ پر اسرائیلی حملے کے بعد عرب دنیا جاگ گئی ہے اور عرب دنیا کو یہ احساس ہوا ہے کہ اُن کے وسائل کے بدلے مغربی دنیا اُن کا دفاع نہیں کرے گی جیسا کہ امریکا نے اسرائیل کا ساتھ دے کر ثابت کر دیا۔
دوسرا یہ کہ عرب دنیا کے دفاعی ساز و سامان کا کنٹرول مغربی مُلکوں کے پاس ہے اور وہ اپنی مرضی سے استعمال نہیں کر سکتے۔
ایک طرف دوحہ حملے نے عرب دنیا کی دفاعی حسّاسیت میں اِضافہ کیا دوسری طرف پاکستان نے بھارت کے ساتھ 4 روزہ جنگ میں جس طرح سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے اور جس طرح پوری دنیا نے اِس کا اعتراف کیا ہے، اُس نے دنیا میں پاکستان کی قدر و منزلت کو بڑھا دیا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ ایک ابتدائی قدم ہے اور آہستہ آہستہ دیگر عرب ممالک بھی اِس طرف بڑھیں گے۔
بغیر معاہدہ بھی ہم مکّہ اور مدینہ کی حفاظت کے لیے ہمیشہ تیار ہیں؛ خالد نعیم لودھیلیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) خالد نعیم لودھی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ ایک اچھی اور مثبت پیشرفت ہے۔ یہ 2 برادر مُلکوں کے درمیان ایک معاہدہ ہے۔ مکّہ اور مدینہ کی حفاظت ہمارا طرّہ امتیاز ہے اور ہم نے تو بغیر کسی معاہدے کے بھی اِن مقدّس مقامات کے تحفّظ کی قسم کھا رکھی ہے۔ باقی یہ ہے کہ معاہدہ حسّاس نوعیت کا ہے اور ابھی اِس کی تفصیلات معلوم نہیں۔
یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے حوالے سے بہت اہم ہے، ایمبیسیڈر مسعود خالدپاکستان کے سابق سفارتکار ایمبیسیڈر مسعود خالد نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ معاہدہ ایک اہم اور اچھی پیش رفت ہے۔ فوری طور پر دنیا کے بڑے ملکوں نے اِس پر اپنا زیادہ ردّعمل نہیں دیا صرف بھارت کی طرف سے یہ ری ایکشن آیا ہے کہ ہم ایسی پیش رفت کی توّقع کر رہے تھے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دیرینہ اور قریبی تعلقات ہیں اور ڈیفنس پروڈکشن کے شعبے میں دونوں ملک مل کر بہت کام کر سکتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ سعودی عرب پاکستان میں زراعت اور صنعت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کر سکتا ہے تو یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے حوالے سے بہت اہم ہے لیکن اِس کا علاقائی اور عالمی تناظر آنے والے چند دنوں میں واضح ہو جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں