ب نقا ب /ایم آر ملک
کسی بڑے طوفان کے پھوٹنے کے آثار اور علامات کو بہت کم لوگ دیکھتے ہیں ،سماجی اور سیاسی خاموشی میں گہرا شور بہت کم کانوں کو سنائی دیتا ہے مگر جب برداشت ٹوٹتی ہے تو حشر برپا ہوتا ہے ۔صوابی میں تاریخ ساز جلسہ ،شہر قائد سے لیکر خیبر تک ،وطن عزیز میں شہر شہر سراپا احتجاج افراد کا گھر کی دہلیز پار کرنا ،بے قراری کا اظہار ہے۔ اب یہ سونامی تھمنے والا نہیں ۔لیپ ٹاپ ،پیلی ٹیکسیاں ،سولر لیمپ ،مخصوص طبقہ کیلئے بنائے گئے کالجز کے ناٹک اب اس طوفان کے آگے بند نہیں باندھ سکتے ،راولپنڈی نے بھی موروثیت کے خلاف بغاوت کردی۔ تبدیلی کی خواہش لئے نوجوان انجینئر افتخار چودھری کے شانہ بشانہ آکھڑے ہوئے ، قصر زردار کے مکیں اور رائے ونڈ کے شریفوں نے اپنے طبقہ کے مفادات کے نظام کو بچانے اور مسلط رکھنے کیلئے معاشرے کو تاراج اور اقبال کی دھرتی کے باسیوں پر اپنے دور ِ اقتدارمیں بے رحمانہ معاشی اور سماجی مظالم ڈھائے ،ان کی ڈاکہ زنی اور لوٹ مار نے سرمایہ دارانہ نظام کی غلامی میں سسکتے 26کروڑ بے یارو مدد گار انسانوں کیلئے کچھ نہیں چھوڑا ،باری کا کھیل جاری رکھنے والوں نے مہنگائی کو جان لیوا ،غربت کو اذیت ناک ،بنیادی ضروریات کو نایاب اور استطاعت سے باہر کر دیا ،26کروڑ عوام کی زندگی کو جہنم بنا دیا ،اُن کی ہوس ،اُن کی عادت ،اُن کی خصلت اور کردار بن چکی ہے ۔ان ساڑھے تین سالوں میں فرینڈلی اقتدار میں کرپشن معاشرے کی رگوں اور شریانوں میں زہر بن کر سرائیت کر گئی ،کرپشن کے بغیر کسی صوبائی اور وفاقی ادارہ کے چلنے اور اُس کا وجود اور کار کردگی ممکن نہ رہی ،وطن عزیز کے شہروں میں سینکڑوں محنت کشوں سے ان کا روزگار چھینا گیا اور ان کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ مجرمانہ حکمرانی کو جواز بخشنے کیلئے پنجاب کے حکمرانوں کے ہاتھوں صوبہ پنجاب کے عوام کے حقوق یر غمال ہوگئے ،لاہور کے عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے کیلئے ،شاہرات پر کروڑوں کے کلر اور قذافی اسٹیڈیم پر اربوں کا اسراف مگر لاہور تو کبھی بھی ایک نہیں رہا۔ گلبرگ ،ڈیفنس ،اور پوش آشیانہ اسکیموں کے بیچوں بیچ لاکھوں مفلوک الحال ،بے آسرا ،سماجی و معاشی بے بسی کے شکار محنت کشوں کی زندگیاں اتنی ہی سستی ہیں جتنی چوٹی ،روجھان ،کوٹ سلطان،راجن پور ،خان پور ،صادق آباد کی زندگیاں ، باری کا کھیل جاری رکنے والی عوام پر مسلط دونوں پارٹیاں سیاسی نظریات تک سے عاری ہو گئیں ۔نظریاتی ورکروں کے انقلابی نظریات کو لکشمی دیوی کے چرنوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا دونوں پارٹیوں کے جانثار ورکرز شدید مایوسی ،لاچارگی کے عالم میں اپنی قربانیاں اور جدوجہد اِن کی بے رحم جمہوری منڈی میں نیلامی کیلئے لیکر پھرتے رہے ،سسکتے ،آہ و بکا کرتے رہے مگر سرمائے کے اقتدار میں اُن کی دال نہ گل سکی ،اِن کے جرائم پیشہ وزیر ،مجرم حواری صاحب اقتدار رہے جمہوریت کے نام پر سرمائے کی آمریت میں جبر پوری وحشت کے ساتھ مظلوم عوام کامعاشی ،سماجی اور اقتصادی قتلِ عام کرتا رہا ، چادر چار دیواری کے تقدس کی دھجیاں بکھر گئیں ،بے گناہ خواتین کو پابند سلاسل کرکے ٹارچر کا ہر حربہ قوم نے دیکھا ،ان جمہوری حکمرانوں نے اپنی سول آمریت کی چھتری تلے سرمائے کی جمہوریت میں اپنی طاقت ،اقتدار اور بالا دستی کو قائم رکھا ان کے اعمال وہی رہے ،ان کا استحصال وہی رہا ،باری کا کھیل جاری رکھنے کیلئے اسمبلیاں نورا کشتی کے اکھاڑے بن گئے ، 26ویں آمرانہ ترمیم سے انصاف کے گلے پر چھری چلائی گئی ،ضیا آمریت کی کوکھ سے جنم لینے والے شریف زادے عوام کی غربت ،ذلت ،اذیت ،محرومی ،بے بسی ،مجبوری ،عذابو ں سے بھری زندگی کے زخموں پر تضحیک آمیز ہنسی ہنستے رہے ، میڈیا کے کوٹھوں کا کاروبار عروج پر رہا حتیٰ کہ شریفوں کے راتب پر پلنے والے تارڑ کے منشیوں نے عوامی شعور کو رائے ونڈ کے محلات کی جانب موڑنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور لگارہے ہیں ،اپنے لفظوں سے مکروہ چہروں پر عوامی مسیحائی کا جعلی نقاب لگاکر پیش کررہے ہیں مگر قلم کی قسم تو ربِ ذوالجلال نے کھائی بخدا یہ کسی لٹیرے کیلئے ایک لمپن (غنڈہ گرد )کا کردار نہیں ہو سکتی کسی کا گماشتہ اسے خواہ کسی بھی شکل میں استعمال کرے ،یہ کھیل اب اختتام چاہتا ہے ۔بیروزگاری کے ہاتھوں مفلوج ہوتی زندگی سے تنگ نوجوانوں کے کھولتے ہوئے غیض و غضب نے شریفوں کی قیادت میں باری کے کھیل کو جاری رکھنے کیلئے دکھاوے کے عوامی منصوبہ جات کے ڈھنڈورے کے ظاہری جمود کو اپنی قوت سے پاش پاش کرڈالا ہے۔ عمران کی قیادت میں شریفوں اور زرداریوں کی معاشی پالیسیوں کے خلاف انتقام کی آگ سے بھرے غصے اور نفرت کا اظہار کرتے ہوئے اکثریت متحرک ہوئی ہے ،سسکتی ہوئی انسانیت ،ہزاروں بچوں کی بھوک کی وجہ سے روزانہ اموات ،ادویات کی مہنگائی سے بزرگوں کی قبل از وقت لقمہ اجل بننا ،علاج کے فقدان سے لاکھوں مائوں کا دوران زچگی دم توڑ دینا ،بیروزگاری کی ذلت میں سلگتی جوانیاں ،غربت ننگ اور افلاس کی اندھی کھائی میں گری رعایا ،بجلی ، بنیادی حقوق کی پامالی سے مجروح زندگی پر ہونے والا بے ہودہ سیاسی مجرا اب عوام دیکھنے کے قابل نہیں رہے ،ظلم جبر ،لوٹ مار اور استحصال کرنے والوں کو اب اس زعم سے نکلنا ہوگا کہ ایسا سب کچھ چلتا رہے گا ،زمیں یوں ہی جامد رہے گی ،سورج ،چاند ،ستاروں کی گردش اُن کے اشاروں کی محتاج رہے گی ،نہیں اب ایسا نہیں ہوگا سماج میں رونما ہونے والے مظاہر کے اپنے اصول ہوتے ہیں جن کا اظہار کبھی کبھی غیر معمولی ہوا کرتا ہے ،ماضی کے اندھیروں کی نحیف آوازوں کا شور بعض اوقات زیادہ اس لیے آتا ہے کیونکہ اُس وقت معاشرے میں سیاسی جمود کا ایک ہولناک سناٹا ہوتا ہے لیکن یہ زیادہ عرصہ پر محیط نہیں رہ سکتا ، برداشت جب ٹوٹتی ہے تو حشر برپا ہوتا ہے ،سوچیں بدلتی ہیں ،شناخت بدلتی ہے ،حوصلے اور جراتیں جاگتی ہیں ۔
اِس دھرتی پر جہاں 76برسوں میں ہر آس ٹوٹی ،ہر اُمید پامال ہوئی ،لاتعداد مرتبہ میدانِ کارزار لگے عوام اپنی حقیقی منزل سے محروم رہے ،قیدی نمبر804کی قیادت میں ایک نئے پاکستان کی بنیادیں استوار ہوئی ہیں جہاں محرومیاں ،مجبوریاں ،محتاجیاں ،ذلتیں ہمیشہ کیلئے ختم ہونے والی ہیں، انسانیت سرخرو ہونے والی ہے اور عمران کی قیادت میں ان ذلتوں کے باوجود عوام سچ پر کھڑے ہیں ،منظم ہیں کہ کسی بڑے طوفان کے پھوٹنے کے آثار اور علامات کو بہت کم لوگ محسوس کرتے ہیں ،سیاسی اور سماجی خاموشی میں گہرا شور بہت کم کانوں کو سنائی دیتا ہے مگر جب برداشت ٹوٹتی ہے تو حشر بر پا ہوتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: کی قیادت میں ہوتا ہے بہت کم
پڑھیں:
تعلیمی خودمختاری کیلئے ہارورڈ کی جدوجہد
اسلام ٹائمز: ہارورڈ یونیورسٹی کی ٹرمپ حکومت کے خلاف جدوجہد درحقیقت یونیورسٹی کی طاقت اور سیاسی طاقت کے درمیان بنیادی ٹکراو کا مظہر ہے۔ یہ جدوجہد امریکہ اور دنیا بھر میں اعلی تعلیم کے مستقبل اور تعلیمی آزادی پر گہرے اثرات کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر یونیورسٹیاں سیاسی دباو کے خلاف مزاحمت کر کے اپنی خودمختاری کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو وہ تنقیدی طرز فکر، علم کی پیدائش اور سماجی تبدیلی کے مراکز کے طور پر اپنا کردار ادا کر پائیں گی۔ لیکن اگر یونیورسٹیاں سیاسی دباو کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں تو وہ تسلط پسندانہ نظام کے آلہ کار میں تبدیل ہو جائیں گی جس کے نتیجے میں جمہوریت کمزور اور عدم مساوات اور بے انصافی فروغ پا جائے گی۔ تحریر: علی احمدی
دوسری عالمی جنگ کے بعد کے عشروں میں مارکسزم اور سرمایہ داری کے خلاف نظریات کی جانب محققین کے ممکنہ رجحان کے خوف کے باعث امریکی حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر نے وسیع پیمانے پر یونیورسٹیوں پر پیسہ خرچ کیا۔ اس مالی امداد کا مقصد ایک ایسے "پرامن" اور "کنٹرول شدہ" تعلیمی ماحول کی فراہمی تھی جس میں محققین مخالف نظریات اور مکاتب فکر کے خلاف علمی نظریات متعارف کروا سکیں۔ مثال کے طور پر امریکہ کے معروف فلاسفر نوام چامسکی کے بقول 1960ء اور 1970ء کے عشروں میں MIT کا زیادہ تر بجٹ امریکی وزارت دفاع فراہم کرتی تھی جبکہ یہ بجٹ وصول کرنے والے زیادہ تر محققین ویت نام جنگ کے مخالف تھے۔ یہاں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مالی امداد دراصل محققین کو امریکہ کے سیاسی اور اقتصادی مفادات سے ہمسو کرنے کے لیے انجام پا رہی تھی۔
لیکن چونکہ علمی اداروں اور ماہرین کی ذات میں تنقیدی انداز اور سوالات جنم دینا شامل ہوتا ہے لہذا اس خصوصیت نے ہمیشہ سے سماجی تبدیلیاں اور تحولات پیدا کرنے میں اہم اور مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ 1960ء اور 1970ء کے عشروں میں بھی امریکہ کی مین اسٹریم یونیورسٹیاں جنگ مخالف تحریک کا مرکز بن چکی تھیں اور یونیورسٹی طلبہ اور اساتید جنگ مخالف مظاہروں، دھرنوں اور وسیع احتجاج کے ذریعے ویت نام میں امریکہ کی جارحانہ پالیسیوں کو چیلنج کر رہے تھے۔ اس تحریک کے نتیجے میں نہ صرف ویت نام میں امریکہ کے جنگی جرائم منظرعام پر آئے بلکہ امریکی معاشرے کی رائے عامہ میں جنگ کے خلاف نفرت پیدا ہوئی اور حکومت جنگ ختم کرنے کے لیے شدید عوامی دباو کا شکار ہو گئی۔ اس جنگ مخالف طلبہ تحریک کا واضح اثر حکومتی پالیسیوں پر ظاہر ہوا اور امریکی حکومت ویت نام جنگ ختم کرنے پر مجبور ہو گئی۔
ریگن کا انتقام اور نولبرل ازم کا ظہور
ریگن حکومت نے یونیورسٹیوں میں جنگ مخالف تحریک کی طاقت اور اثرورسوخ کا مشاہدہ کرتے ہوئے یونیورسٹیوں سے انتقام لینے اور ان کا بجٹ بند کر کے اس کی جگہ طلبہ و طالبات کو قرضے دینے کا فیصلہ کیا۔ امریکی حکومت کے اس اقدام نے امریکہ کی اعلی تعلیم کو شدید دھچکہ پہنچایا۔ امریکی حکومت نے اپنے اس اقدام کا جواز نولبرل ازم پر مبنی پالیسیوں کے ذریعے پیش کیا اور دعوی کیا کہ وہ معیشت کے میدان میں مداخلت کم کر کے باہمی مقابلہ بازی کی فضا کو فروغ دینا چاہتی ہے۔ دوسری طرف یونیورسٹیوں کا بجٹ کم ہو جانے کا نتیجہ فیسوں میں بڑھوتری، تعلیمی معیار میں گراوٹ اور نچلے اور درمیانے طبقے کے لیے تعلیمی مواقع کم ہو جانے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ مزید برآں، ریگن حکومت نے یونیورسٹیوں پر دباو ڈال کر امریکہ کے سیاسی اور اقتصادی مفادات سے ہمسو تحقیقات انجام دینے پر زور دیا۔
یوں ریگن حکومت نے یونیورسٹی طلبہ اور محققین کی فکری خودمختاری اور عمل میں آزادی کو محدود کرنے کی کوشش کی۔ ان پالیسیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکومتوں نے یونیورسٹیوں کو تسلط پسندانہ نظام کے آلہ کار میں تبدیل کرنے اور تنقیدی طرز فکر ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔
غزہ اور طلبہ تحریک کا احیاء
غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور اس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر عام شہریوں کا قتل عام امریکہ میں طلبہ تحریکوں کے احیاء کا باعث بنا ہے۔ ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے طلباء اور اساتید نے احتجاجی مظاہروں، دھرنوں اور کانفرنسوں کے ذریعے غزہ میں اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات کی مذمت کی ہے اور امریکی حکومت سے اس جرائم پیشہ رژیم کی حمایت ترک کر دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ میں یہ طلبہ تحریک دنیا بھر کی حریت پسند اور انصاف پسند تحریکوں سے متاثر ہوتے ہوئے ظلم و ستم کے خلاف مزاحمت اور قیام کی علامت بن گئی ہے۔
دوسری طرف امریکی حکومت نے یونیورسٹیوں پر دباو اور دھونس کے ذریعے اس تحریک کو کچلنے کی کوشش کی ہے۔ امریکی یونیورسٹیوں کو بجٹ روک دینے کی دھمکیوں، طلبہ کو نکال باہر کیے جانے اور قانونی پابندیوں کے ذریعے طلبہ تحریک ختم کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ان اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کے سیاسی اور اقتصادی مفادات اور جمہوری اقدار اور آزادی اظہار میں بہت زیادہ فاصلہ پایا جاتا ہے۔
ہارورڈ ٹرمپ آمنے سامنے، یونیورسٹی کی خودمختاری کی جدوجہد
ہارورڈ یونیورسٹی دنیا کی سب سے زیادہ قابل اعتماد اور امیر یونیورسٹی ہے اور اب وہ ٹرمپ حکومت کے خلاف مالی امداد روک دینے پر قانونی کاروائی کر کے حکومتی دباو کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکی ہے۔ اس قانونی کاروائی کا تعلق صرف یونیورسٹی کی خودمختاری اور آزادی اظہار سے ہی نہیں بلکہ اس نے ٹرمپ حکومت کی امتیازی اور آمرانہ پالیسیوں کو بھی چیلنج کیا ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کی ٹرمپ حکومت کے خلاف جدوجہد درحقیقت یونیورسٹی کی طاقت اور سیاسی طاقت کے درمیان بنیادی ٹکراو کا مظہر ہے۔ یہ جدوجہد امریکہ اور دنیا بھر میں اعلی تعلیم کے مستقبل اور تعلیمی آزادی پر گہرے اثرات کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر یونیورسٹیاں سیاسی دباو کے خلاف مزاحمت کر کے اپنی خودمختاری کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو وہ تنقیدی طرز فکر، علم کی پیدائش اور سماجی تبدیلی کے مراکز کے طور پر اپنا کردار ادا کر پائیں گی۔ لیکن اگر یونیورسٹیاں سیاسی دباو کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں تو وہ تسلط پسندانہ نظام کے آلہ کار میں تبدیل ہو جائیں گی جس کے نتیجے میں جمہوریت کمزور اور عدم مساوات اور بے انصافی فروغ پا جائے گی۔ لہذا امریکہ میں یونیورسٹیوں کا موجودہ بحران معاشرے میں اس تعلیمی مرکز کے کردار میں گہری تبدیلی کا شاخسانہ ہے۔ یونیورسٹیاں عالمی سطح پر محققین کے کارخانے اور نرم طاقت کے آلہ کار سے سیاسی اور سماجی قوتوں کے درمیان جنگ کا میدان بن چکی ہیں۔ یہ جنگ امریکی یونیورسٹیوں کی تقدیر کا فیصلہ کرے گی۔