Daily Ausaf:
2025-07-26@01:34:45 GMT

سرکاری ملازمین کی دوہری شہریت پر پابندی عائد

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)پاکستان کے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکریٹریٹ نے ایک بل کی منظوری دی ہے جس کے تحت سول سرونٹس کو دوہری شہریت رکھنے سے روکا جائے گا، یہ قانون سازی ایسی ہے جس پر قانون سازوں کی مختلف آراء سامنے آئی ہیں۔

اس بل کا باقاعدہ عنوان “سول سرونٹس ترمیمی بل 2024” ہے، جسے حکومتی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر ڈاکٹر افنان اللہ نے 9 ستمبر 2024 کو ایک ذاتی رکن کے طور پر پیش کیا تھا۔ جائزے کے بعد کمیٹی نے اکثریتی ووٹ سے اس بل کی منظوری دی۔

سول سرونٹس ایکٹ 1973 کے سیکشن 5 میں ترمیم کے تحت کسی بھی فرد کو جو غیر ملکی شہریت رکھتا ہو، پاکستان میں سول سرونٹ کے طور پر تعینات ہونے سے روکا جائے گا۔

بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ سرکاری ملازمین جو غیر ملکی شہری سے شادی کریں گے اور حکومت سے پیشگی منظوری حاصل نہیں کریں گے، انہیں عوامی ملازم کی بدسلوکی کا مرتکب سمجھا جائے گا۔

بل کے مقاصد کے بیان میں کہا گیا ہے کہ سول سروس کے عہدوں پر تقرری کے موجودہ طریقہ کار کو سول سرونٹس (تقرری، ترقی اور منتقلی) رولز 1973 کے تحت چلایا جاتا ہے۔ رول 13 کے تحت امیدواروں کو پاکستانی شہری ہونا ضروری ہے، تاہم اسٹیبلشمنٹ ڈویژن استثنائی اجازت دے سکتا ہے۔ تاہم، نئی ترمیم کے تحت یہ استثنا اب لاگو نہیں ہوگا۔

کمیٹی کے اجلاس کے دوران سینیٹر عیمال ولی خان نے کہا کہ دوہری شہریت پر پابندیاں صرف سول سرونٹس تک محدود نہیں ہونی چاہئیں۔ “یہی قانون عدلیہ، دفاعی ایجنسیوں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں پر بھی لاگو ہونا چاہیے،” انہوں نے کہا۔

پی ایم ایل این کی سینیٹر سادیا عباسی نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ وزیرِاعظم کی صوابدید پر چھوڑا جانا چاہیے۔ “وزیرِاعظم نے ابھی اس معاملے پر فیصلہ نہیں کیا، اور ہمیں ان کی ہدایت کا انتظار کرنا چاہیے،” انہوں نے کہا۔

بحث کے دوران حکومت میں دوہری شہریت کے اثرات پر بھی گفتگو ہوئی۔ سینیٹر افنان اللہ نے سوال اٹھایا کہ شہریت ایکٹ جو دوہری شہریت کی اجازت دیتا ہے، سیاستدانوں پر کیوں لاگو نہیں ہوتا؟ وزارت قانون و انصاف کے نمائندے نے جواب دیا کہ سیاستدانوں کے لیے دوہری شہریت پر پابندی لگانا امتیازی ہو گا۔

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے افسران نے کمیٹی کو بریفنگ دی، جس میں بتایا گیا کہ غیر ملکی شہریت رکھنے والے سول سرونٹس کا ڈیٹا اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ اب تک 10 وزارتوں اور محکموں سے جو جوابات آئے ہیں ان کے مطابق کابینہ ڈویژن میں ایک، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں دو، اور کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو میں 16 افسران دوہری شہریت رکھتے ہیں۔

حکومتی ملازمین میں دوہری شہریت کے مسئلے کو پہلے 2018 میں سپریم کورٹ نے اٹھایا تھا، جس میں وفاقی حکومت کو اس معاملے پر پالیسی تیار کرنے کی ہدایت دی تھی۔ اس ہدایت کے بعد، اُس وقت کے وزیرِاعظم نے کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے اپنی سفارشات 29 اکتوبر 2020 کو پیش کی تھیں۔ اس کے بعد تین رکنی سب کمیٹی نے ان سفارشات کا جائزہ لے کر انہیں قانون و انصاف ڈویژن کو بھیجا۔

31 اکتوبر 2024 کو کمیٹی آف سیکریٹریز کے اجلاس میں اس معاملے کو دوبارہ زیرِ غور لایا گیا اور حکومت میں دوہری شہریت کے حوالے سے پالیسی سفارشات تیار کرنے کے لیے ایک اور کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس رپورٹ کو بعد میں قانون و انصاف ڈویژن کے لیے قانونی جانچ کے لیے بھیجا گیا۔

قائمہ کمیٹی نے دیگر قانون سازی کے اقدامات بھی منظور کیے، جن میں اسپیشل ٹیکنالوجی زون اتھارٹی ترمیمی بل بھی شامل ہے، جو وزیرِاعظم کو اتھارٹی کے ارکان کو چار سال کی مدت کے لیے مقرر کرنے کا اختیار دیتا ہے، اور متروکہ جائیداد ترمیمی بل بھی شامل ہے۔

سول سرونٹس کے دوہری شہریت کے بل پر مزید غور کے لیے اب یہ بل سینیٹ میں پیش کیا جائے گا۔
مزیدپڑھیں:امتحانی سرٹیفکیٹس اور تصحیح کی فیسوں میں اضافہ،طلبہ کے لیے بری خبر آگئی

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: دوہری شہریت کے سول سرونٹس جائے گا کے لیے کے تحت

پڑھیں:

اپیلز کورٹ: ٹرمپ کا پیدائشی شہریت ختم کرنے کا صدارتی حکم غیر آئینی قرار

وفاقی اپیلز کورٹ نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیدائشی شہریت (birthright citizenship)  ختم کرنے سے متعلق صدارتی حکم نامے کو آئین سے متصادم قرار دے دیا ہے۔

یو ایس نائنتھ سرکٹ کورٹ آف اپیلز نے 2 کے مقابلے میں ایک جج کے اکثریتی فیصلے سے حکم جاری کیا۔

اگرچہ اس حکم نامے کو پہلے ہی عدالتوں نے معطل کر رکھا تھا، لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ کسی اپیلز کورٹ نے اس صدارتی حکم کے قانونی جواز کا باقاعدہ جائزہ لیا ہے۔

تین رکنی بینچ نے فیصلے میں لکھاکہ’ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ صدارتی حکم نامہ 14ویں آئینی ترمیم کی واضح زبان سے متصادم ہے، جو کہ امریکا میں پیدا ہونے والے اور امریکی دائرہ اختیار میں آنے والے تمام افراد’ کو شہریت دینے کی ضمانت دیتا ہے‘۔

فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے جج پیٹرک بوماتائے، جو کہ ٹرمپ کے نامزد کردہ ہیں، نے کہا کہ ’ریاستوں کے پاس یہ مقدمہ دائر کرنے کا قانونی اختیار (standing) ہی نہیں تھا‘۔

پس منظر: صدارتی حکم اور اس کے خلاف مقدمات

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارت کے پہلے ہی دن 20 جنوری کو یہ صدارتی حکم نامہ جاری کیا تھا، جس کے بعد متعدد ریاستوں اور شہری حقوق کی تنظیموں نے عدالت میں اسے چیلنج کیا۔

14ویں آئینی ترمیم 1868 میں خانہ جنگی کے بعد منظور کی گئی تھی، جس کا مقصد امریکا میں پیدا ہونے والے تمام افراد کو شہریت دینا تھا،چاہے ان کے والدین غلام رہے ہوں یا غیر شہری۔

لیکن ٹرمپ انتظامیہ کا مؤقف رہا کہ اس ترمیم کی تنگ تشریح ہونی چاہیے، اور اگر بچے کے والدین غیر قانونی تارکین وطن ہوں یا عارضی ویزوں (مثلاً ورک یا اسٹوڈنٹ ویزا) پر ہوں تو ایسے بچوں کو پیدائشی شہریت نہ ملے۔

ٹرمپ، جنہوں نے انتخابی مہم میں امیگریشن کے خلاف سخت مؤقف اپنایا تھا، اس پیدائشی حق کو ختم کرنے کا وعدہ کرتے آئے ہیں — حالانکہ قانونی ماہرین نے ہمیشہ اس اقدام پر تحفظات ظاہر کیے۔

ریاستوں کا مؤقف اور قانونی پیش رفت

واشنگٹن، اوریگن، ایریزونا اور الی نوائے نے 21 جنوری کو صدارتی حکم نامے کے خلاف درخواست دائر کی، جس پر فروری میں ابتدائی حکم امتناعی جاری ہوا۔

گزشتہ ماہ ایک علیحدہ مقدمے میں سپریم کورٹ نے ایک محدود فتح ٹرمپ کو دی، جب اس نے فیصلہ دیا کہ ضلع عدالتیں صدر کے خلاف قومی سطح پر حکم امتناعی جاری نہیں کر سکتیں، البتہ اجتماعی مقدمات (class action) میں یہ ممکن ہے۔

اسی بنیاد پر نیو ہیمپشائر کی ایک وفاقی عدالت نے مقدمے کو اجتماعی حیثیت دے دی اور ٹرمپ کے حکم پر دوبارہ ابتدائی حکم امتناعی نافذ کر دیا۔

واشنگٹن کے اٹارنی جنرل کا ردعمل

واشنگٹن کے اٹارنی جنرل نِک براؤن نے اپنے بیان میں کہا کہ عدالت اس بات سے متفق ہے کہ ایک صدر محض قلم کی جنبش سے امریکی شناخت کی تعریف تبدیل نہیں کر سکتا۔

وہ ان بچوں کے حقوق، آزادیاں اور تحفظات ختم نہیں کر سکتا جو ہماری سرزمین پر پیدا ہوئے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • پنجاب حکومت کو گندم کی قیمتیں مقرر کرنے سے متعلق بنائے گئے قانون پر عملدرآمد کا حکم
  • سرینگر میں ٹریبونل کی عوامی ایکشن کمیٹی پر پابندی معاملے کی سماعت یکم اگست سے ہوگی
  • پنجاب حکومت گندم کی قمیتیں مقرر کرنے کے قانون پر عملدرآمد کرے، لاہور ہائیکورٹ
  • لاہورہائیکورٹ کا پنجاب حکومت کو گندم کی قمیتیں مقررکرنے سے متعلق قانون پرعملدرآمد کا حکم
  • کراچی کی تمام شاہراہوں پر پارکنگ فیس لینے پر پابندی عائد، نوٹیفکیشن جاری
  • سرکاری محکموں میں گریڈ 5 سے 15 کی بھرتیوں پر عائد پابندی کے معاملے پر سماعت کیلئے تاریخ مقرر
  • امریکا میں ٹرانس جینڈر کھلاڑیوں پر پابندی سے متعلق اولمپک کمیٹی کا اہم فیصلہ
  • فواد خان کیساتھ فلم عبیر گلال کی ریلیز پر پابندی، وانی کپور نے خاموشی توڑ دی
  • اپیلز کورٹ: ٹرمپ کا پیدائشی شہریت ختم کرنے کا صدارتی حکم غیر آئینی قرار
  • شاپنگ بیگز پر پابندی، سندھ ہائیکورٹ کا عبوری طور پر کام جاری رکھنے کی اجازت دینے سے انکار