بیکن ہاؤس جوبلی کیمپس ماڈل اقوام متحدہ کا 6سال بعد آغاز
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
کراچی(اسٹاف رپورٹر) بیکن ہاؤس جوبلی کیمپس ماڈل اقوام متحدہ (ایم یو این) چھ سال کے طویل عرصے کے بعد ایک بار پھر جوش و خروش کے ساتھ منعقد کیا گیا۔ رواں سال اس پروگرام میں نوجوان سفارتکاروں کو اکٹھا گیا، جنہیں عالمی رہنماؤں کی ذمہ داری سونپی گئی، اب وہ اہم عالمی مسائل پر فعال انداز سے مباحثوں میں شرکت اور اہم عالمی مسائل پر مذاکرات کر سکیں گے۔
کراچی بھر سے آنے والے مندوبین کے ہمراہ اس سال ماڈل یونائیٹڈ نیشنز (ایم یو این) میں چھ کمیٹیوں نے حصہ لیا، جن میں سے ہر کمیٹی نے مندوبین کو سفارتکاری، مسائل کو حل کرنے اور اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا منفرد مواقع فراہم کیا۔ ان کمیٹیوں میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی)، انسانی حقوق کونسل (ایچ آر سی)، سیاسی اور جوہری امور (پی این اے)، سماجی، ثقافتی اور انسانی ہمدردی کی کمیٹی (ایس او سی ایچ یو ایم)، اسپیشل پولیٹیکل اینڈ ڈی کولونائزیشن کمیٹی (ایس پی ای سی پی او ایل) اور تخفیف اسلحہ اور بین الاقوامی سلامتی کمیٹی (ڈی آئی ایس ای سی) شامل ہیں۔
مندوبین نے بین الاقوامی امن و سلامتی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، تخفیف اسلحہ اور موسمیاتی تبدیلی جیسے اہم عالمی مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔ ماڈل اقوام متحدہ نوجوان ذہنوں کے لئے ایک غیر معمولی پلیٹ فارم کے طور پر کام کرتا ہے تاکہ وہ بین الاقوامی تعلقات سے متعلق گہری آگہی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے اندر مجمع سے خطاب، مذاکراتی اور قائدانہ صلاحیتوں کو فروغ دے سکیں۔
افتتاحی تقریب میں سرپرست اعلیٰ محترمہ تابندہ رضا نے متاثرکن انداز سے ماڈل اقوام متحدہ (ایم یو این) کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا، ” اقوام متحدہ کی ماڈل کانفرنسز نوجوانوں کو عالمی مسائل سے نمٹنے، تنقیدی سوچ کو فروغ دینے اور اپنی سفارتی صلاحیتوں کو نکھارنے کا ایک منفرد موقع فراہم کرتی ہیں۔ مستقبل کے رہنماؤں کی حیثیت سے، ان کے لئے بین الاقوامی تعلقات کی پیچیدگیوں، تعاون کی اہمیت اور موثر رابطوں کی ضرورت کو سمجھنا ضروری ہے۔
ماڈل اقوام متحدہ کے ذریعے، ہم اپنے نوجوانوں کو سرگرم عالمی شہری بننے کے لئے بااختیار بناتے ہیں، جو مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے تیار ہوں۔”تابندہ رضا نے مزید کہا، ” آج جب ہم یہاں جمع ہو رہے ہیں تو میں آپ سب سے اپیل کرتی ہوں کہ سفارتکاری کے رستے پر چلیں، مختلف طرح کے نقطہ نظر کا جائزہ لیں اور عالمی مسائل کے جدید حل تلاش کرنے میں اشتراک قائم کریں۔ یاد رکھیں، ہماری دنیا کا مستقبل آپ کی پیچیدہ مسائل کو حل کرنے، اختلافات پر قابو پاکر لوگوں کو جوڑنے اور ہمدردی و حکمت کے ساتھ رہنمائی کی صلاحیتوں پر منحصر ہے۔
اس سال تقریب کے انعقاد میں بیکن ہاؤس جوبلی کیمپس کی ہیڈ مسٹریس محترمہ حمیرا خالد نے بھرپور حوصلہ افزائی کی۔ ان کی غیر متزلزل لگن اور جوش و خروش نے ایونٹ کی کامیابی کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔حمیرا خالد کی زیر قیادت نہ صرف مندوبین کو بے پناہ تعاون پیشکش کیا گیا بلکہ انہوں نے بین الاقوامی سفارتکاری میں جذبے اور عزم کی اہمیت پر زور دینے کے ساتھ ذاتی طور پر ٹیم کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ سیکرٹری جنرل اور صدر کی جانب سے انتہائی دلچسپ مباحثوں کے آغاز کی تیاری کی گئی، وہ بلاشبہ بہترین کارکردگی کے وژن کو آگے بڑھائیں گے۔ ان کی قیادت اور ماڈل اقوام متحدہ کی ٹیم کی انتھک کاوشیں کی بدولت خیالات کے حیران کن انداز سے تبادلے کی راہ ہموار ہوگی، کیونکہ مندوبین ان مباحثوں میں ایسے قابل عمل خیالات کو مستقبل کی نئی شکل دیں گے۔
اختتامی تقریب سب کی کامیابیوں کو سراہنے اور حوصلہ افزائی کا شاندار جشن تھا۔ بیکن ہاؤس جوبلی کیمپس- ماڈل اقوام متحدہ (چھٹی بار) میں سفارتکاری کی شاندار واپسی کا وعدہ کیا گیا، جہاں جدت، اشتراک اور پرجوش مباحثے مستقبل کے رہنماؤں کو نمایاں انداز سے دنیا کو روشناس کرائیں گے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ماڈل اقوام متحدہ بین الاقوامی عالمی مسائل کے ساتھ کے لئے
پڑھیں:
اقوام متحدہ کی قرارداد کے بعد ایران کا ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون ختم کرنے کا فیصلہ
تہران: ایران نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) سے تعاون ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ اعلان ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کی جانب سے کیا گیا۔
روسی میڈیا کے مطابق یہ اقدام اس وقت سامنے آیا جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایران پر عائد پابندیوں کو ختم کرنے کی قرارداد مسترد کر دی۔
ایران کا مؤقف ہے کہ یورپی ممالک کی جانب سے نئی پابندیوں کے باعث اب آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون جاری رکھنا ممکن نہیں رہا۔
اگرچہ ایران نے تعاون ختم کرنے کا باضابطہ وقت نہیں بتایا، تاہم ماہرین کے مطابق یہ فیصلہ خطے میں نئی کشیدگی کو جنم دے سکتا ہے۔
واضح رہے کہ جمعہ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرارداد کے حق میں صرف 4 ممالک نے ووٹ دیا، جبکہ 9 ممالک نے مخالفت کی، جس کے بعد قرارداد منظور نہ ہو سکی۔