کراچی میںبڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
آج کل کراچی میں ٹریفک حادثات میں اضافہ ہوتاجارہاہے۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ ٹریفک پولیس ان حادثات کو روکنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ حالانکہ ایک وقت تھا جب کراچی ٹریفک پولیس کی کارکردگی کے حوالے سے بڑا نام اور مقام تھا۔ لیکن اب ان کی کارکردگی ویسی نہیں رہی ہے جو پہلے تھی۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی میں خوفناک ٹریفک حادثات ہورہے ہیں۔ جنہیں ابھی تک موثر طریقے سے نہیں روکا گیا۔ ٹریفک حادثات کی وجہ یہ ہے کہ ٹریفک پولیس کی کارکردگی متاثر کن نہیں ہے حالانکہ یہی کراچی ٹریفک پولیس کی کارکردگی کچھ سال قبل قابل تقلید تھی۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ شائد اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹریفک پولیس میں نئے آنے والوں کی تربیت اچھی طرح سے نہیں ہورہی ہے یہی وجہ ہے کہ ٹریفک حادثات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ویسے بھی کراچی کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ اس اضافے کی اصل وجہ یہ ہے کہ باہر سے لوگ روزگار کی تلاش میں کراچی آتے ہیں اور پھر یہیں ہوکر رہ جاتے ہیں۔ تاہم یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ کراچی میں مختلف صوبوں سے آنے والے کراچی کی معیشت کی ترقی میں اہم کردار اداکررہے ہیں۔ اگر یہ لوگ کراچی میں موجود نہ ہوں تو بہت حد تک کراچی کی معاشی ترقی متاثر ہوسکتی ہے۔ تاہم یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان لوگوں کی تربیت نہیں ہوتی ہے۔ ان کی اکثریت ہنر مند نہیں ہے‘ لیکن اس کے باوجود کارخانوں کے مالکان انہیں کام پررکھ لیتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ان کی تربیت شروع ہونی چاہیے۔
کراچی پاکستان کا کمرشل وصنعتی حب ہے۔ لاکھوں مزدور جس میں خواتین بھی شامل ہیں۔ کراچی کے مختلف کارخانو ں میں کام کرکے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال رہے ہیں۔ بعض ایسے کارخانے دار بھی ہیں جوانہیں تربیت دے کر ہنر مند بنادیتے ہیں۔ یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ کراچی کے اکثر کارخانے دار غیر ہنر مزدوروں کو ضروری تربیت دے کر انہیں ہنر مند بنادیتے ہیں جبکہ ان کی مزدوری میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ بہرحال بات کراچی میں بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات سے متعلق ہورہی تھی‘ جس کو کراچی پولیس موثر طریقے سے روکنے میں فی الحال کامیاب نظرنہیں آرہی ہے۔ ا سکی ایک وجہ یہ ہے کہ کراچی کے عوام ٹریفک سے متعلق اصولوں پر زیادہ توجہ نہیں دیتے ہیں بلکہ انہیں نظرانداز کرکے اپنی سرمستی سے گاڑیاں چلاتے ہیں جو اور سنگین حادثات کا سبب بنتے ہیں۔
اس لئے کراچی میں بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات کا انسداد سخت سزائوں کے ذریعے ممکن ہے کیونکہ کراچی کے عوام ٹریفک کے اصولوں سے واقف نہیں اس لئے بسااوقات ٹریفک اصول نظرانداز کردیئے جاتے ہیں جو بعد ازاں حادثات کا سبب بنتے ہیں۔
اس پس منظر میں میرا خیال ہے کہ ٹریفک کے قوانین پر سختی سے عمل کرایاجائے‘ بلکہ ہرتین ماہ میں کراچی کے باشعور افراد کے لئے سیمینار منعقد کئے جائیں خصوصیت کے ساتھ خواتین اور نوجوانوں کے لئے جو ٹریفک قوانین کو توڑنے میں دیرنہیں کرتے ‘ایسے عناصر کے لئے سخت رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ ان کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔ ٹریفک قوانین کو توڑنے والوں کو کسی قسم کی رعایت نہیں ملنی چاہیے۔ ان پر بھاری جرمانہ عائد کیا جانا چاہیے۔ کراچی ٹریفک پولیس کو ٹریفک قوانین کو توڑنے والوں کے خلاف سخت رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جس قسم کے ہولناک ٹریفک حادثات ہورہے ہیں اس سے یہ اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے کہ ڈرائیوروں کی موثر تربیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹریفک حادثات روزہ مرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ جس میں بہت سے لوگ مارے جاتے ہیں۔
ویسے بھی کراچی کی آبادی بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے اس کے ساتھ ہی ٹریفک حادثات میں بھی اضافہ ہورہا ہے‘ کیونکہ ڈرائیور حضرات کی ٹریننگ زیادہ موثر نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹریفک حادثات ہورہے ہیں۔ اس سلسلے میں ٹریفک پولیس کو چاہیے کہ وہ ہر ماہ عوام کے لئے ٹریفک سے متعلق سیمینار منعقد کرے تاکہ ٹریفک اصولوں سے متعلق آگہی مل سکے۔
جن ممالک میں ٹریفک سے متعلق آگہی دی جاتی ہے وہاں ٹریفک حادثات کم ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس جن ممالک میں ٹریفک سے متعلق عوام کو آگاہ نہیں کیاجاتاہے وہاں ٹریفک حادثات روزہ مرہ کا معمول بن جاتے ہیں۔
کراچی کیونکہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان سب کا سے بڑا شہرہے۔ یہ شہر صنعتی حب بھی ہے۔ جہاں لاکھوں مزدور روزگار کیلئے آتے ہیں۔ جس کی وجہ سے کراچی کی معیشت کا پہیہ چلتارہتاہے۔ نیز کراچی میں مزدوروں کو اپنا بہتر شہری بنانے کیلئے انہیں ضرور ی تربیت بھی دی جانی چاہیے۔ تاکہ وہ زیادہ مستند ہوکر کام کریں۔ ویسے بھی کراچی کے کارخانے دار مزدوروں کو زیادہ سے زیادہ تربیت دے کر انہیں اپنے پیروں پر کھڑا کررہے ہیں۔ یہ ایک احسن روایت ہے۔ اگرمزدور کام کے معاملات میں خودکفیل ہے تو زیادہ پیداوار میںاپنا حصہ ڈال سکتاہے۔ ذرا سوچئے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ٹریفک سے متعلق ٹریفک حادثات وجہ یہ ہے کہ کی کارکردگی ٹریفک پولیس کراچی میں میں ٹریفک کراچی کی جاتے ہیں کہ کراچی کراچی کے نہیں ہے کے لئے
پڑھیں:
کراچی میں تاوان کی غرض سے اغوا کی گئی بچی کس طرح بازیاب ہوئی؟
کراچی کے علاقے خواجہ اجمیر نگری پولیس کی بروقت کارروائی سے اغواء ہونے والی 3 سالہ بچی 24 گھنٹوں میں بازیاب ہو گئی، مرکزی ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق تھانہ خواجہ اجمیر نگری کی حدود میں پیش آنے والے ایک افسوسناک واقعے میں 3 سالہ کمسن بچی ریحانہ کو 23 جولائی کو شاہنواز بھٹو کالونی سے اغوا کیا گیا، جس کی اطلاع اہلِ خانہ نے تھانے میں دی۔
یہ بھی پڑھیں:فوجداری قانون میں ترمیم، خاتون کو اغوا یا بے لباس کرنے والے کو پناہ دینے پر سزائے موت ختم
اس کے بعد پولیس نے خفیہ معلومات کی بنیاد پر فوری کارروائی کرتے ہوئے نہ صرف بچی کو بحفاظت بازیاب کروا لیا بلکہ اغوا میں ملوث مرکزی ملزم کو بھی گرفتار کر لیا۔
ایس ایچ او خواجہ اجمیر نگری سرفراز عرف کمانڈو کی قیادت میں پولیس ٹیم نے جدید ٹیکنیکل ذرائع، مقامی نگرانی اور خفیہ معلومات کی بنیاد پر 24 گھنٹوں کے اندر کامیاب آپریشن کیا۔
پولیس کے مطابق کارروائی نہایت رازداری اور پیشہ ورانہ انداز میں مکمل کی گئی تاکہ کمسن بچی کو کسی بھی قسم کا نقصان نہ پہنچے۔
پولیس ذرائع کے مطابق گرفتار ملزم نے دورانِ تفتیش انکشاف کیا کہ اس کے بھائی کو منگھوپیر پولیس نے تحویل میں لیا تھا جو اب جیل میں ہے۔ بھائی کو ضمانت پر رہا کرنے کے لیے رقم کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے اس نے تاوان حاصل کرنے کی غرض سے بچی کو اغوا کیا۔
یہ بھی پڑھیں:’را‘ کی پشت پناہی سے سرگرم بی ایل اے کے ہاتھوں پنجاب سے تعلق رکھنے والے 10 افراد اغوا
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ابتدائی معلومات کے مطابق ملزم کا تعلق بچی کے خاندان ہی سے ہے اور اس نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے بچی کے والدین کو بلیک میل کرنے کا منصوبہ بنایا تاکہ رقم حاصل کرکے اپنے بھائی کو جیل سے رہا کروا سکے۔
پولیس کے مطابق ملزم سے مزید تفتیش جاری ہے اور امکان ہے کہ اس کارروائی سے وابستہ مزید حقائق جلد منظرِ عام پر آئیں گے۔
یہ جاننے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے کہ ملزم نے جو کہا ہے، آیا بچی کو اغوا کرنے کی اصل وجہ یہی ہے یا اس کے پیچھے کوئی اور مقصد بھی تھا۔
پولیس ذرائع کے مطابق اس نوعیت کے کیس رازداری سے نمٹانے کی کوشش کی جاتی ہے کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ملزمان خوف زدہ ہو کر مغویوں کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کیس میں خاص احتیاط برتی گئی۔ اہلِ خانہ اور اہلِ محلہ سے معلومات اکھٹی کی گئیں، لیکن ساتھ ہی وقت کا بھی خیال رکھا گیا۔ جن پر شک تھا، انہیں حراست میں لیا گیا۔
جب معلوم ہوا کہ ایک رشتہ دار کا بھائی جیل میں ہے تو شک ہوا کہ یہ شخص ملوث ہو سکتا ہے۔ اسے گرفتار کیا گیا، تفتیش شروع کی گئی، تو اس نے سب اُگل دیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اغوا بچی کا اغوا خواجہ اجمیر نگری سندھ پولیس