غزہ جنگ بندی ڈیل پر قائم ہیں، حماس
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 فروری 2025ء) غزہ میں بیالیس روزہ دورانیے کی موجودہ جنگ بندی ڈیل اس وقت خطرے میں پڑ گئی تھی، جب ہفتے کے دن فریقین نے ایک دوسرے پر اس معاہدے کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کیے۔
فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس نے واضح کیا ہے کہ وہ اس معاہدے کو ختم نہیں کرنا چاہتی تاہم اس نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی' دھمکی آمیز زبان‘ کو مسترد کر دیا ہے۔
ان دونوں رہنماؤں نے کہا تھا کہ اگر یرغمالیوں کو رہا نہیں کیا گیا تو جنگ بندی ختم کر دی جائے گی۔حماس کے مطابق وہ اس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے پرعزم ہے، جس میں اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا تبادلے کی صورت میں طے شدہ شیڈول بھی شامل ہے۔
(جاری ہے)
غزہ میں جنگ بندی کی یہ ڈیل مصر، قطر اور امریکہ کی مدد سے گزشتہ ماہ طے پائی تھی۔
قاہرہ میں مصری سکیورٹی حکام کے ساتھ مذاکرات کے دوران حماس کے رہنما خلیل الحیہ نے کہا کہ مصری اور قطری ثالث جنگ بندی کے تسلسل کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے اور فریقین کے درمیان خلا پر کرنے کی کوششیں جاری رکھیں گے۔
حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل پر معاہدے کے مطابق امداد میں نمایاں اضافے کا وعدہ پورا نہ کرنے کا الزام لگایا ہے اور ساتھ ہی کہا ہے کہ وہ تین یرغمالیوں کو اس وقت تک رہا نہیں کریں گے، جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو جاتا۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اس کے جواب میں خبردار کیا کہ اگر یرغمالیوں کو رہا نہ کیا گیا تو ایک ماہ سے رکی ہوئی جنگی کارروائیاں دوبارہ شروع کی جا سکتی ہیں۔
ادھر مصری حکام نے کہا ہے کہ اگر تعمیراتی سامان جمعرات کو غزہ میں داخل ہو جاتا ہے، تو ہفتے کے روز حماس اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر دے گی۔
جنگ بندی پر خدشاتاس جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد کے حوالے سے شکوک اس وقت بڑھ گئے تھے، جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دیے گئے اس بیان پر عرب دنیا کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ فلسطینیوں کو غزہ سے منتقل کر کے اس علاقے کو امریکی کنٹرول میں ایک سیاحتی مقام کے طور پر ترقی دی جا سکتی ہے۔
اب تک حماس نے معاہدے کے تحت 16 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا ہے جبکہ مزید یرغمالیوں کے تبادلے پر مذاکرات جاری ہیں۔
دوحہ میں دوسرے مرحلے کے مذاکرات کے آغاز کی امید تھی، لیکن اسرائیلی ٹیم دو دن بعد واپس چلی گئی، جس سے معاہدے کے مستقبل کے بارے میں مزید خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔
غزہ میں جنگ بندی کے خاتمے کے خدشے نے اسرائیل میں بڑے پیمانے پر احتجاج کو جنم دیا ہے، جہاں مظاہرین حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ معاہدے کو برقرار رکھے تاکہ باقی یرغمالیوں کو بھی بحفاظت واپس لایا جا سکے۔
یہ تنازعہ شروع کیسے ہوا؟غزہ پٹی میں مسلح تنازعہ اس وقت شروع ہوا تھا، جب فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس نے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل میں ایک بڑا دہشت گردانہ حملہ کیا تھا۔
اس حملے میں 1200 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔ اس کے علاوہ حماس کے جنگجو 250 سے زائد افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ پٹی بھی لے گئے تھے۔
اس دہشت گردانہ حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ پٹی میں حماس کے جنگجوؤں کے خلاف فضائی، زمینی اور بحری حملے کرنا شروع کر دیے تھے، جو جنگ بندی ڈیل تک جاری رہے۔
فلسطینی ذرائع کے مطابق اسرائیلی حملوں کی وجہ سے غزہ پٹی میں کم ازکم اڑتالیس ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔
حماس کے زیر انتظام غزہ پٹی میں اسرائیلی کارروائیوں کی وجہ سے تقریباً پوری آبادی بے گھر ہو چکی ہے جبکہ غزہ پٹی کا زیادہ تر علاقہ کھنڈرات میں بدل چکا ہے۔
ع ب / ک م، م م (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے یرغمالیوں کو رہا غزہ پٹی میں حماس کے نے کہا
پڑھیں:
اسرائیل غزہ امن معاہدے کے تحت امداد پنچانے نہیں دے رہا، اقوام متحدہ
اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ غزہ امن معاہدے کے تحت اسرائیل امدادی سامان کے صرف ایک حصے کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دے رہا ہے، جب کہ طے شدہ مقدار کے مطابق روزانہ 600 ٹرکوں کو داخل ہونا چاہیے تھا، مگر اس وقت صرف 145 ٹرکوں کو اجازت دی جا رہی ہے جو مجموعی امداد کا محض 24 فیصد ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل نے غزہ میں امداد کا داخلہ روک دیا، قابض فوجیوں پر حملے میں 2 اہلکار ہلاک
غزہ کی سرکاری میڈیا آفس کے مطابق 10 اکتوبر سے 31 اکتوبر تک 3 ہزار 203 تجارتی اور امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہوئے، جو ضرورت کے مقابلے میں انتہائی کم ہیں۔ غزہ حکام نے اسرائیل کی جانب سے امداد میں رکاوٹوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس صورتحال کی ذمہ داری مکمل طور پر اسرائیلی قبضے پر عائد ہوتی ہے، جو 24 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کی زندگی مزید خطرناک بنا رہا ہے۔
غزہ میں خوراک، پانی، ادویات اور دیگر ضروری اشیا کی شدید قلت برقرار ہے، جبکہ بے گھر خاندانوں کے لیے پناہ گاہیں بھی ناکافی ہیں کیونکہ دو سالہ اسرائیلی بمباری میں رہائشی علاقوں کی بڑی تعداد تباہ ہو چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مصر ’کریم شالوم کراسنگ‘ سے اقوام متحدہ کی امداد غزہ بھیجنے پر رضامند، امریکا کا خیر مقدم
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان کے مطابق امدادی قافلوں کی نقل و حرکت بھی محدود ہو چکی ہے، کیونکہ اسرائیلی حکام نے امداد کے راستوں کو تبدیل کر کے انہیں فِلڈیلفیا کوریڈور اور تنگ ساحلی سڑک تک محدود کر دیا ہے، جو تباہ شدہ اور شدید رش کا شکار ہے۔ اقوامِ متحدہ نے مزید راستے کھولنے کا مطالبہ کیا ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی فوج نے جنگ بندی معاہدے کے باوجود غزہ میں حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران اسرائیلی فضائیہ، توپ خانے اور ٹینکوں نے خان یونس اور جبالیا کے اطراف میں گولہ باری کی، جس میں مزید 5 فلسطینی جاں بحق ہو گئے۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کو مٹانے کے لیے نسل کشی کر رہا ہے، اقوام متحدہ
اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں جنگ بندی کے بعد سے اب تک 222 فلسطینی شہید اور 594 زخمی ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی حکومت کا دعویٰ ہے کہ حملے اس لیے جاری ہیں کہ حماس نے تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشیں واپس نہیں کیں، تاہم حماس کا کہنا ہے کہ علاقے کی شدید تباہی اور بھاری مشینری کی عدم اجازت کے باعث تلاش کا عمل ممکن نہیں ہو پا رہا۔
فلسطینیوں کی جانب سے عالمی برادری خصوصاً امریکی صدر پر زور دیا جا رہا ہے کہ اسرائیل پر دباؤ ڈالا جائے تاکہ امدادی سامان بغیر کسی شرط اور رکاوٹ کے غزہ پہنچ سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اسرائیل اقوام متحدہ امداد بمباری غزہ فلسطین