امریکہ سے 119 غیرقانونی تارکین امریکی طیارے سے پاناما پہنچ گئے
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
ویب ڈیسک —
پاناما کے صدر نے کہا ہے کہ امریکہ سے بے دخل کیے گئے افراد کی پہلی پرواز ان کے ملک میں پہنچ گئی ہے ، جنہیں یہاں سے ان کے اپنے ملکوں میں بھیج دیا جائے گا۔
امریکہ غیرقانونی تارکین وطن کی واپسی کے لیے پاناما کو ایک منزل کے طور پر استعمال کرے گا ۔
پاناما کے صدر ہوزے رول مولینو نے جمعرات کو اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں بتایا کہ کل امریکی ایئرفورس کی ایک پرواز کے ذریعے دنیا کی مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے 119 افراد پاناما پہنچے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان غیرقانونی تارکین وطن کا تعلق چین، ازبکستان، پاکستان اور افغانستان سمیت کئی دوسرے ملکوں سے ہے۔
انہوں نے بتایا کہ طے شدہ تین پروازوں میں سے یہ پہلی پرواز ہے جن کے ذریعے تقریباً 360 افراد پاناما پہنچائے جائیں گے۔تاہم یہ کوئی زیادہ تعداد نہیں ہے۔
صدر مولینو نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکہ سے جلا وطن کیے گئے افراد کو اپنے ملکوں میں بھیجے جانے سے پہلے ڈیرئین گیپ کے علاقے میں کیمپوں میں رکھا جائے گا۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے پاناما میں صدر ہوزے رول مولینو سے ملاقات کی اور ان سے غیرقانونی تارکین وطن کی بے دخلی میں تعاون اور پاناما کینال پر تبادلہ خیالات کیا۔ 2 فروری 2025
اس سوال کے جواب میں کہ امریکہ سے بے دخل کیے گئے افراد کو اپنے ملکوں کو بھیجے جانے کے لیے پاناما ایک منزل کے طور پر کیوں استعمال ہو رہاہے، پاناما کے نائب وزیر خارجہ کارلوس روز ہرمنڈنز نے کہا کہ اس کے لیے امریکی حکومت نے درخواست کی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بے دخل کیے گئے افراد کو اقوام متحدہ کی تارکین وطن کی ایجنسی کے ذریعے اپنے آبائی ملکوں میں بھجوانے کے اخراجات امریکی حکومت برداشت کرے گی۔
بدھ کے روز پاناما پہنچے والے افراد کے متعلق بتایا گیا ہے کہ انہیں غیرقانونی طور پر امریکی سرحد عبور کرنے کے جرم میں پکڑا گیا تھا اور ان کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے۔
پچھلے ہفتے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے پاناما میں صدر مولینو سے ملاقات کی تھی ، جب کہ اس سے قبل صدر ٹرمپ نے پاناما کینال کا کنٹرول واپس لینے کامطالبہ کیا تھا۔
صدر مولینو نے امریکی وزیر خارجہ سے ڈیرئین گیپ کے علاقے کے ذریعے تارکین وطن کی امریکہ جانے کی کوششوں پر کنٹرول کرنے پر تبادلہ خیالات کیا تھا،اور انہوں نے یہ پیش کش بھی کی تھی کہ ان کا ملک غیرقانونی تارکین وطن کو اپنے ملکوں میں واپس بھجوانے کے لیے ایک پل کے طور پر کام کر سکتا ہے۔
وزیر خارجہ روبیو نے اپنے اس دورے میں تارکین وطن کو قبول کرنے کے حوالے سے گوئٹے مالا اور ایل سلواڈور سے بھی معاہدے کیے ہیں تاکہ امریکہ سے بے دخلی کی رفتار بڑھانے کے لیے اس کا دائرہ وسیع کیا جا سکے۔
پاناما اور کولمبیا کو ملانے والے ڈیرئین گیپ کے ذریعے امریکہ جانے والے غیرقانونی تارکین وطن میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے اور پچھلے سال جنوری کے مقابلے میں اس سال جنوری میں یہ تعداد 90 فی صد کم رہی۔
ایک سال قبل مولینو کے صدر بننے کے بعد سے پاناما نے درجنوں پروازوں کے ذریعے غیرقانونی تارکین وطن کو اپنے ملکوں میں واپس بھجوایا ہے، جس کے اخراجات امریکی حکومت نے برداشت کیے تھے۔
صدر مولینو نے جمعرات کو کہا کہ پاناما بے دخلی سے متعلق امریکی درخواست پر پوری طرح عمل اور تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔
(اس رپورٹ کی معلومات اے پی سے لی گئیں ہیں)
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: غیرقانونی تارکین وطن کیے گئے افراد تارکین وطن کی کہ امریکہ سے صدر مولینو مولینو نے کے ذریعے کے لیے
پڑھیں:
ٹرمپ نے جنگ ٹالنے میں مدد کی، امریکہ بھارت کو مذاکرات کی میز پر لائے: بلاول
واشنگٹن+اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ نمائندہ خصوصی) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ جس طرح صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان بھارت کشیدگی کے دوران جنگ بندی کے لیے حوصلہ افزا کردار ادا کیا، اب انہیں چاہیے کہ وہ دونوں ممالک کو جامع اور بامعنی مذاکرات کی میز پر بھی لانے میں فعال کردار ادا کریں۔ فرانسیسی خبررساں ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے حوالے سے بھارتی حکومت کی ہچکچاہٹ نہ صرف معنی خیز ہے بلکہ خطے میں خطرناک مثال بھی قائم کر رہی ہے۔ بلاول کا کہنا تھا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ دہشت گردی سمیت تمام معاملات پر بات چیت کے لیے تیار ہے، لیکن کشمیر کو ایک بنیادی تنازع کے طور پر مذاکرات کی میز پر لانا ناگزیر ہے۔ چیئرمین پی پی پی نے واضح کیا کہ بھارت کی جارحانہ پالیسی کے باعث خطہ نیو نارمل جیسی صورتحال سے دوچار ہو رہا ہے، جہاں کسی بھی دہشت گرد حملے کے نتیجے میں کوئی بھی ملک جنگ چھیڑ سکتا ہے۔ 1.7ارب افراد کی تقدیرکو غیر ریاستی کرداروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اس غیر یقینی اور غیر متوازن فضا کو معمول کے طور پر قبول کرنا نہ صرف خطرناک ہے بلکہ اسے فوری طور پر ختم کرنا ضروری ہے۔ ٹرمپ دورِ صدارت میں پاکستان امریکہ تعلقات میں بہتری آئی ہے اور دونوں ملکوں کو اس بہتری کو امن کے فروغ کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ دوسری جانب پاکستانی وفد نے امریکی وزارت خارجہ کی انڈر سیکرٹری برائے سیاسی امور، ایلیسن ہوکر سے ایک مفید اور تعمیری ملاقات کی۔ رپورٹ کے مطابق بلاول بھٹو کی قیادت میں وفد نے پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر کے قیام میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سیکرٹری خارجہ مارکو روبیو کے کردار کو سراہا۔ پاکستانی وفد نے اس امید کا اظہار کیا کہ یہ پیشرفت جنوبی ایشیا میں پائیدار امن و استحکام کے لیے مکالمے کی راہ ہموار کرے گی۔ وفد نے بھارت کی بلااشتعال جارحیت، مسلسل اشتعال انگیز بیانات اور سندھ طاس معاہدے کی غیر قانونی معطلی پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ علاوہ ازیں بلاول بھٹو نے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نہیں چاہتا میرے بچے یا بھارتی نوجوان نسل پانی‘ کشمیر یا دہشتگردی پر لڑائی لڑیں۔ پاکستان کشمیر‘ دہشتگردی‘ آبی تنازعات کے حوالے سے بات چیت پر تیار ہے۔ صدر ٹرمپ نے جنگ ٹالنے میں مدد کی۔ اب بھارت کو مذاکرات کی میز پر لائیں۔ پاکستانی سفارتی کمیٹی کے سربراہ اور چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بھارت میں کہیں بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو ثبوت ہو یا نہ ہو اس کا مطلب جنگ سمجھا جاتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پاکستانی وفد نے امریکی قانون سازوں سے ملاقاتیں کیں جس میں انہوں نے خطے میں امن و استحکام کی اہمیت کو اجاگر کیا اور پاکستان بھارت جنگ میں امریکی کردار کو سراہا۔ امریکی وفد میں کانگریس رکن جیک برگمین، ٹام سوزی، ریان زنکے، میکسن واٹرز، ایل گرین، جوناتھن جیکسن، ہینک جانسن، اسٹیسی پلاکٹ، ہنری کیوئلار اور دیگر اراکین شامل تھے۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیرِاعظم شہباز شریف نے اس وفد کو امن کا مشن دیا ہے، اس مشن میں بھارت سے بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنا شامل ہے، جنگ بندی خوش آئند ضرور ہے، لیکن یہ محض ایک آغاز ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ بھارت اور پاکستان، جنوبی ایشیا اور بالواسطہ طور پر پوری دنیا آج اس بحران کے آغاز کے وقت کی نسبت زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مکمل جنگ کی حد آج ہماری تاریخ میں کبھی بھی اتنی کم نہیں رہی۔ بھارت میں کہیں بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے، ثبوت ہو یا نہ ہو، اس کا مطلب جنگ سمجھا جاتا ہے۔ اراکین کانگریس سے ملاقات میں بلاول زرداری نے سندھ طاس معاہدے کی بھارتی کی جانب سے یکطرفہ معطلی کے ممکنہ نتائج سے امریکی قانون سازوں کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کا 24 کروڑ پاکستانیوں کے لیے پانی بند کرنے کا عندیہ ایک وجودی خطرہ ہے۔ اگر بھارت نے یہ اقدام کیا تو یہ جنگ کے اعلان کے مترادف ہو گا۔ چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ امریکا ہمارے اس امن کے مشن میں ہمارا ساتھ دے اور اپنی قوت امن کے پیچھے لگا ئے تو وہ بھارت کو سمجھا سکتا ہے۔ مسائل کو حل کرنا ہے تو بھارت کو ایسی پالیسیوں سے روکا جا ئے جو خطے اور دنیا کے لیے عدم استحکام کا باعث بنیں۔ بعدازاں امریکی کانگریس ارکان نے جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام کے لیے پا کستانی وفد کو اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ علاوہ ازیں امن کے مشن نے امریکی کانگریسی استقبالیہ میں مرکزی حیثیت اختیار کر لی۔ اعلامیہ کے مطابق بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں اعلیٰ سطح وفد نے امریکی قانون سازوں سے ملاقاتیں کیں۔ پاکستان ہاؤس میں پاکستانی سفیر رضوان سعید شیخ کی میزبانی میں عشائیہ دیا۔ پارلیمانی وفد نے عشایئے میں دو جماعتی امریکی قانون سازوں کے گروپ سے ملاقات کی۔ تقریب میں جیگ برگمین ‘ ٹام سوزی‘ ریان زنکے‘ میکسن واٹرز‘ ایل گرین‘ جارج لیٹمیر‘ کلیوفیلڈز، مائیک ٹرنر‘ رائل مور‘ جوناتھن جیکسن‘ ہینک جانسن‘ انیسٹی پلاکٹ‘ ہنری کیوئلار نے شرکت کی۔ بلاول بھٹو نے خطے میں امن و استحکام کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ علاوہ ازیں پاکستانی سفارتی وفد کی پریس کانفرنس کے دوران سینیٹر شیری رحمان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت جنوبی ایشیا میں ایک نیا سٹرٹیجک ’’نیو ایبنارمل‘‘ ترتیب دے رہا ہے۔ یہ نیو ایبنارمل معمول کی حکمت عملی سے بالکل مختلف ہے۔ بھارت علاقائی طاقت بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارت امن کے بجائے کشیدگی سے نظام قائم کرنا چاہتا ہے۔