Express News:
2025-11-03@19:31:41 GMT

ٹرمپ کی نئی صف بندیاں اور پاکستان

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ 12 فروری 2025 کو انکشاف کیا کہ انہوں نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے فون پر طویل بات چیت کی، جس کے نتیجے میں روس نے یوکرین کے ساتھ جنگ کے خاتمے کےلیے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی۔

یہ ایک غیر معمولی پیش رفت ہے کیونکہ اب تک کی صورتحال میں روس اپنی شرائط پر ہی امن قائم کرنے کا خواہاں رہا ہے، جبکہ یوکرین مغربی حمایت پر بھروسہ کرتے ہوئے جنگ کو طول دینے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ ایسے میں ٹرمپ اور پوٹن کے درمیان براہ راست مذاکرات اس تنازع کے مستقبل کے حوالے سے نئے سوالات کو جنم دیتے ہیں۔ یہ فون کال نہ صرف یوکرین کےلیے ایک دھچکا ہے بلکہ اس سے نیٹو کے کردار پر بھی سوال اٹھتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح الفاظ میں یوکرین کی نیٹو میں شمولیت پر شک کا اظہار کیا ہے، جو اس امر کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ امریکہ نیٹو کے ذریعے یوکرین کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کےلیے تیار نہیں ہے۔ یہ بیان امریکا اور یورپی اتحادیوں کے درمیان اختلافات کو بڑھا سکتا ہے، کیونکہ نیٹو ممالک یوکرین کی حمایت جاری رکھنے کے حق میں ہیں۔ 

ڈونلڈ ٹرمپ ہمیشہ سے نیٹو پر امریکا کے بڑھتے ہوئے مالی بوجھ کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ ان کے سابقہ دور صدارت میں بھی نیٹو کے اخراجات میں کمی کی کوشش کی گئی تھی، اور اب جب کہ وہ دوبارہ صدر بن چکے ہیں، ان کی پالیسی ایک بار پھر اسی سمت جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس کا براہ راست اثر یوکرین پر پڑے گا، کیونکہ اگر امریکا نے نیٹو کے ذریعے مکمل تحفظ کی یقین دہانی سے انکار کردیا تو دیگر یورپی ممالک کےلیے یوکرین کی مدد جاری رکھنا مشکل ہوجائے گا۔

روسی صدر پوٹن کی مذاکرات پر آمادگی بظاہر ایک مثبت قدم معلوم ہوتی ہے، مگر اس کے پیچھے روس کے مخصوص اہداف بھی ہوسکتے ہیں۔ روس شاید اس وقت جنگ بندی پر اس لیے آمادہ ہورہا ہے کیونکہ اسے احساس ہوچکا ہے کہ مغربی ممالک کی مسلسل مدد یوکرین کو غیر متوقع طور پر زیادہ دیر تک لڑنے کی صلاحیت دے رہی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پوٹن واقعی امن چاہتے ہیں، یا یہ محض ایک سفارتی چال ہے تاکہ وقتی طور پر جنگ بندی ہو، اور روس خود کو دوبارہ منظم کرسکے؟ 

اسی دوران بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا امریکا کا دورہ بھی عالمی سیاست میں انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ مودی اور ٹرمپ کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے گرمجوش رہے ہیں، اور اب جب کہ ٹرمپ دوبارہ وائٹ ہاؤس میں ہیں، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید مضبوط ہونے کا امکان ہے۔ امریکا، بھارت کو چین کے خلاف ایک اہم اتحادی تصور کرتا ہے، اور اس کے نتیجے میں بھارت کو کئی اقتصادی اور دفاعی فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔ 

یہ صورتحال پاکستان کےلیے خاصی پیچیدہ ہوسکتی ہے۔ بھارت اور امریکا کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت کا براہ راست مطلب یہ ہے کہ واشنگٹن کےلیے پاکستان کی اہمیت کم ہورہی ہے۔ حالیہ برسوں میں بھارت نے خود کو مغربی دنیا کے ایک بڑے اقتصادی اور اسٹرٹیجک پارٹنر کے طور پر منوایا ہے، جبکہ پاکستان اپنی سفارت کاری میں وہ کامیابی حاصل نہیں کرسکا جو اسے عالمی سیاست میں ایک نمایاں مقام دے سکے۔ 

اگر ہم عالمی سطح پر رونما ہونے والے ان واقعات کے تناظر میں پاکستان کے سفارتی مقام کا جائزہ لیں تو صورتِ حال زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔ اب تک کسی بھی پاکستانی اعلیٰ سطح کے رہنما کا امریکی قیادت سے کوئی باضابطہ رابطہ نہیں ہوسکا ہے۔ یہ ایک تشویشناک امر ہے کیونکہ جب دنیا کے بڑے ممالک جیسے روس، یوکرین، چین اور بھارت امریکی پالیسی میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں، تو پاکستان کی عدم موجودگی ایک بڑا سوالیہ نشان پیدا کرتی ہے۔

یہ سوال اہم ہے کہ آیا یہ مسئلہ پاکستان کی بیوروکریسی اور سفارتی پالیسی کی کمزوری ہے یا امریکا کی جانب سے پاکستان کو نظر انداز کرنے کی حکمت عملی کا حصہ؟ اگر ہم سفارتی ناکامی کی بات کریں تو یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں ایک متحرک اور جدید حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ سفارتی تعلقات محض رسمی بیانات سے نہیں بلکہ مسلسل روابط اور مؤثر پالیسی سے مضبوط ہوتے ہیں۔

افغانستان کا معاملہ امریکی خارجہ پالیسی میں ہمیشہ ایک اہم مسئلہ رہا ہے، لیکن حالیہ دنوں میں اس حوالے سے بھی پاکستان کے کردار پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جارہی۔ امریکا کےلیے افغانستان کی صورتحال اب اس طرح اہمیت نہیں رکھتی جیسا کہ ماضی میں تھی، اور شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ براہ راست رابطوں میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ پاکستان کےلیے یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ امریکا، جو ہمیشہ جنوبی ایشیا میں ایک اہم کھلاڑی رہا ہے، اب خطے میں بھارت کو ترجیح دے رہا ہے اور پاکستان کو اپنی پالیسیوں میں شامل کرنے کےلیے زیادہ دلچسپی نہیں دکھا رہا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں فوری اور بنیادی تبدیلیاں کرنا ہوں گی تاکہ وہ اپنی سفارتی حیثیت کو مستحکم کرسکے۔ 

موجودہ صورتحال میں پاکستان کو فوری طور پر اپنی خارجہ پالیسی کے کچھ نکات پر محنت کرنا ہوگی۔

پاکستان کے وزیر خارجہ یا وزیراعظم کو براہ راست امریکی قیادت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کےلیے متحرک ہونا پڑے گا۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ روس، یوکرین، چین اور بھارت کے ساتھ سفارتی طور پر متحرک ہیں، تو پاکستان کےلیے بھی یہ لازمی ہے کہ وہ واشنگٹن سے اپنے تعلقات کو ازسر نو مستحکم کرے۔ 

پاکستان کو صرف اپنی داخلی سیاست تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ عالمی امور میں مؤثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے سفارتی وفود کو زیادہ متحرک اور موثر بنایا جانا چاہیے تاکہ پاکستان کا نقطۂ نظر عالمی سطح پر سنا جاسکے۔ 

اگر امریکا بھارت کو ایک بڑے اقتصادی پارٹنر کے طور پر دیکھ رہا ہے تو پاکستان کو بھی اپنی معیشت کو مستحکم کرنے اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ 

پاکستان کو افغانستان کے حوالے سے اپنی اہمیت منوانی ہوگی۔ اگر امریکا اس معاملے پر پاکستان کو نظر انداز کر رہا ہے، تو اسلام آباد کو اپنی سفارتی حکمت عملی میں ایسی تبدیلیاں کرنی ہوں گی جو اسے خطے میں ناگزیر بنا سکیں۔ 

ڈونلڈ ٹرمپ کی روسی صدر پوٹن کے ساتھ گفتگو، یوکرین جنگ کے مستقبل، نیٹو کی پالیسی اور امریکا بھارت تعلقات سب کچھ عالمی سیاست میں بڑی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کےلیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی پر ازسر نو غور کرے اور عالمی سطح پر اپنی موجودگی کو یقینی بنائے۔ اگر پاکستان فوری اقدامات نہ کرے تو خدشہ ہے کہ امریکا کی نئی پالیسیوں میں پاکستان کےلیے جگہ مزید کم ہوجائے گی، جو مستقبل میں پاکستان کی معیشت، سفارت کاری اور خطے میں اس کے اثر و رسوخ پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اپنی خارجہ پالیسی پاکستان کےلیے میں پاکستان ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کی پاکستان کے پالیسی میں پاکستان کو کہ پاکستان کی پالیسی کے درمیان براہ راست بھارت کو یہ ہے کہ کو اپنی کے ساتھ نیٹو کے رہا ہے

پڑھیں:

امریکا ایٹمی دھماکے نہیں کر رہا، وزیر توانائی نے ٹرمپ کا دعویٰ غلط قرار دیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

واشنگٹن: امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازع بیان کے بعد ایٹمی تجربات کے معاملے پر نئی بحث چھڑ گئی ہے۔

امریکی وزیر توانائی کرس رائٹ نے واضح طور پر کہا ہے کہ واشنگٹن اس وقت کسی بھی قسم کے  ایٹمی دھماکوں کی تیاری نہیں کر رہا۔ رائٹ کے مطابق صدر ٹرمپ کی جانب سے جن تجربات کا حکم دیا گیا ہے، وہ صرف سسٹم ٹیسٹ ہیں، جنہیں نان کریٹیکل یعنی غیر دھماکا خیز تجربات کہا جاتا ہے اور ان کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں کے دیگر حصوں کی کارکردگی کو جانچنا ہے، نہ کہ کسی نئے ایٹمی دھماکے کا مظاہرہ کرنا۔

عالمی خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق فوکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں کرس رائٹ نے واضح کیا کہ یہ تجربات دراصل ہتھیاروں کے میکانزم اور ان کے معاون سسٹمز کی جانچ کے لیے کیے جا رہے ہیں تاکہ یقین دہانی کی جا سکے کہ امریکی ایٹمی ہتھیار مستقبل میں بھی محفوظ اور مؤثر رہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان تجربات کے ذریعے یہ دیکھا جائے گا کہ نئے تیار ہونے والے ہتھیار پرانے ایٹمی نظاموں سے زیادہ بہتر، محفوظ اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہیں یا نہیں۔

کرس رائٹ نے مزید بتایا کہ امریکا اب اپنی سائنسی ترقی اور سپر کمپیوٹنگ کی مدد سے ایسے تجربات کر سکتا ہے جن میں حقیقی دھماکے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم جدید کمپیوٹر سمیولیشنز کے ذریعے بالکل درست انداز میں یہ پیش گوئی کر سکتے ہیں کہ ایٹمی دھماکے کے دوران کیا ہوگا، توانائی کیسے خارج ہوگی اور نئے ڈیزائن کس طرح مختلف نتائج پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ طریقہ ہمیں زیادہ محفوظ اور کم خطرناک تجربات کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

واضح رہے کہ چند روز قبل جنوبی کوریا میں چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات سے کچھ ہی دیر پہلے ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے امریکی فوج کو  33 سال بعد دوبارہ ایٹمی ہتھیاروں کے دھماکے شروع کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ ٹرمپ کے اس بیان نے بین الاقوامی برادری میں تشویش پیدا کر دی تھی کیونکہ امریکا نے آخری بار 1980 کی دہائی میں زیرِ زمین ایٹمی دھماکے کیے تھے۔

جب ٹرمپ سے یہ پوچھا گیا کہ آیا ان کے احکامات میں وہ زیر زمین دھماکے بھی شامل ہیں جو سرد جنگ کے دوران عام تھے، تو انہوں نے اس کا واضح جواب دینے سے گریز کیا اور معاملہ مبہم چھوڑ دیا۔ ان کے اس غیر واضح بیان نے دنیا بھر میں قیاس آرائیاں جنم دیں کہ کیا امریکا ایک نئی ایٹمی دوڑ شروع کرنے جا رہا ہے۔

اب امریکی وزیر توانائی کے تازہ بیان نے ان خدشات کو جزوی طور پر ختم کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فی الحال امریکا کی کوئی ایسی پالیسی نہیں جس کے تحت حقیقی ایٹمی دھماکے کیے جائیں۔ موجودہ تجربات صرف تکنیکی نوعیت کے ہیں، جن کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں کے نظام کی جانچ اور مستقبل کی تیاری ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے ککہ صدر ٹرمپ کے بیانات اکثر سیاسی مقاصد کے لیے دیے جاتے ہیں، جن کا حقیقت سے زیادہ تعلق نہیں ہوتا، لیکن اس بار معاملہ حساس ہے، کیونکہ دنیا پہلے ہی جوہری ہتھیاروں کی بڑھتی ہوئی دوڑ پر فکرمند ہے۔

متعلقہ مضامین

  • وینزویلا صدر کے دن گنے جاچکے، ٹرمپ نے سخت الفاظ میں خبردار کردیا
  • امریکا کو مشرق وسطیٰ میں اپنی مداخلت کو بند کرنا ہوگا، آیت اللہ خامنہ ای
  • وینیزویلا سے جنگ کا امکان کم مگر صدر نکولس مادورو کے دن گنے جاچکے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • امریکا ایٹمی دھماکے نہیں کر رہا، وزیر توانائی نے ٹرمپ کا دعویٰ غلط قرار دیا
  • فلمی ٹرمپ اور امریکا کا زوال
  • امریکا: تارکین وطن کے ویزوں کی حد مقرر: ’سفید فاموں کو ترجیح‘
  • نائیجیریا میں عیسائیوں کا قتل عام نہ رُکا تو فوجی کارروائی کریں گے، ٹرمپ کی دھمکی
  • دہشت گردی پاکستان کےلیے ریڈ لائن ہے، اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، بیرسٹر دانیال چوہدری
  • پینٹاگون کی یوکرین کو ٹوماہاک میزائل دینے کی منظوری
  • پینٹاگون نے یوکرین کو طویل فاصلے تک مار کرنیوالے ٹوماہاک میزائل فراہم کرنےکی منظوری دیدی