چیمپئنز ٹرافی 2025 کا کوریج پلان منظر عام پر آگیا
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے 19 فروری سے 9 مارچ تک ہونے والی آئی سی سی مینز چیمپئنز ٹرافی 2025 کے نشریاتی انتظامات کی تفصیلات بیان کر دیں۔
یہ بھی پڑھیں:آئی سی سی ٹیسٹ رینکنگ جاری، نعمان علی پانچویں پوزیشن پر آگئے
ٹورنامنٹ پاکستان اور دبئی بھر میں منعقد کیا جائے گا، جس میں 8 ٹیمیں 19 دنوں سے زائد عرصے کے لیے مدمقابل ہوں گی۔
ایونٹ کا آغاز 19 فروری کو دفاعی چیمپیئن پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان مقابلے سے ہوگا، جس کے بارے میں امید ہے کہ شائقین کو ایک دلچسپ افتتاحی میچ دیکھنے کو ملے گا۔
چیمپیئن شپ کا فائنل 9 مارچ کو شیڈول ہے، جس میں فاتح ٹیم کو شاندار سفید جیکٹ سے نوازا جائے گا۔
دنیا بھر میں شائقین آئی سی سی کے براڈکاسٹ اور آڈیو پارٹنرز کے ذریعے جامع کوریج سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔
یہ بھی پڑھیں:آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کے لیے میچ آفیشلز کا اعلان، امپائرز پینل میں پاکستانی بھی شامل
میچز 80 سے زیادہ خطوں میں ICC.                
      
				
انڈیا میں چیمپیئن شپ نشریات JioStar نشر کرے گا۔ اس دوران انگریزی، ہندی، مراٹھی، بنگالی اور تامل سمیت 9 زبانوں میں کوریج پیش کی جائے گی۔
JioHotstar دیکھنے کے منفرد تجربے کے لیے ملٹی کیمرہ فیڈز کے ساتھ لائیو اسٹریمنگ فراہم کرے گا۔ ٹیلی ویژن کے لیے ایونٹ کو مختلف زبانوں میں اسٹار اسپورٹس اور اسپورٹس 18 چینلز پر کور کیا جائے گا۔
شائقین کی ٹورنامنٹ تک رسائی یقینی بنانے کے لیےJioStar  مقبول میکس ویو فیڈ کے ساتھ ساتھ ایک انڈین سائن لینگویج فیڈ اور آڈیو وضاحتی کمنٹری بھی پیش کرے گا، جس سے شائقین کے لیے موبائل وغیرہ پر ٹورنامنٹ سے تعلق اپ ڈیٹ کیا جائے گا۔
پاکستان میں شائقین پی ٹی وی اور ٹین اسپورٹس پر میچ دیکھ سکتے ہیں، جب کہ مائکو اور تماشا ایپس پر اسٹریمنگ دستیاب ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں:آئی سی سی نے بہترین کرکٹرز آف دی ایئر کا اعلان کردیا
UAE اور MENA میں CricLife MAX اور CricLife MAX2 STARZPLAY پر دستیاب اسٹریمنگ کے ساتھ کوریج فراہم کی جائے گی۔
دیگر اہم نشریاتی شراکت داروں میں برطانیہ میں اسکائی اسپورٹس، یو ایس اے اور کینیڈا میں ولو ٹی وی، کیریبین میں ای ایس پی این کیریبین، آسٹریلیا میں پرائم ویڈیو، اور نیوزی لینڈ میں اسکائی اسپورٹ NZ شامل ہیں۔
جنوبی افریقہ اور سب صحارا افریقہ میں سپر اسپورٹ کوریج فراہم کرے گا۔
بنگلہ دیش کے شائقین ٹافی ایپ کے ذریعے اسٹریمنگ کے ساتھ ناگورک ٹی وی اور ٹی اسپورٹس پر میچ دیکھ سکتے ہیں۔
افغانستان کے میچز اے ٹی این پر دستیاب ہوں گے۔ جب کہ سری لنکا میں شائقین مہاراجہ ٹی وی اور سراسا کے ذریعے کوریج سے لطف اندوز ہوں گے۔ کرکٹ سے محبت کرنے والے ممالک جیسے سری لنکا اور افغانستان میں شائقین بھی ICC.tv کے ذریعے تمام 15 میچز دیکھ سکیں گے۔
یہ بھی پڑھیں:چیمپیئنز ٹرافی کے لیے آئی سی سی کا نیا پرومو جاری، پاکستان اور بھارت کے کونسے کھلاڑی شامل؟
ریڈیو کوریج کے لیے بی بی سی ریڈیو، 5 اسپورٹس ایکسٹرا برطانیہ ٹورنامنٹ اپ ڈیٹ فراہم کرے گا۔ جب کہ آل انڈیا ریڈیو ہندوستان میں کوریج فراہم کرے گا، اور HUM 106.2FM پاکستان میں نشر کرے گا۔
دیگر ریڈیو اسٹیشن جیسے ٹاک 100.3 ایف ایم (یو اے ای)، ریڈیو شادین 92.4 (بنگلہ دیش)، اور لکھندا ریڈیو (سری لنکا) بھی آڈیو کوریج فراہم کریں گے۔
اس عالمی نشریاتی کوشش کا مقصد دنیا بھر کے شائقین کے لیے ICC Men’s Champions Trophy 2025 کو زیادہ سے زیادہ لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کرنا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئی سی سی انڈیا برطانیہ بی بی سی پاکستان چیمپیئز ٹرافی دبئی کوریجذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انڈیا برطانیہ پاکستان چیمپیئز ٹرافی کوریج فراہم کرے گا کوریج فراہم کے ذریعے جائے گا کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
ترقی کی چکا چوند کے پیچھے کا منظر
اللہ بھلا کرے ہمارے ناخداؤں کا، صبح شام ہمیں یقین دلائے رکھتے ہیں کہ ملک ترقی کر رہا ہے، گھبرانا نہیں۔ بلکہ ثبوت کے طور پر کئی دعوے اور مختلف معاشی اشاریے پیش کیے جاتے ہیں کہ لو دیکھ لو، جنگل کا جنگل ہرا ہے لیکن کیا کیجیے۔
زمینی حقائق سے واسطہ پڑتا ہے تو بندۂ مزدور کے اوقات اسی طرح تلخ اور سوہان روح ملتے ہیں۔ ہم عوام کی یہ دہائی کون سنتا ہے لیکن جب ان اعداد وشمار کو مختلف ترتیب سے کوئی عالمی ادارہ مرتب کر کے عوام کی دہائی اور تاثر کی تائید کرے تو اس پر اعتبار کرنا بنتا ہے۔
سالہا سال سے سن، پڑھ اور دیکھ رہے ہیں کہ ترقی کی دوڑ میں ایشیاء تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ جی ڈی پی گروتھ، پیداوار، برآمدات اور ارب پتیوں کی تعداد میں دھڑادھڑ اضافہ ہو رہا ہے۔
ایسے میں معاشی بدحالی کا دھڑکا تو اصولاً نہیں ہونا چاہیے لیکن معروف عالمی ریسرچ ادارے آکسفیم کی ایشیائی ممالک کی ترقی کی بابت تازہ رپورٹ کے مطابق ترقی ہو تو رہی لیکن اس کے ثمرات کا غالب حصہ چند ہاتھوں تک محدود ہے جب کہ عوام کے حصے میں ٹریکل ڈاؤن ایفیکٹ کا لالی پاپ ہی رہتا ہے۔ یقین نہ آئے تو رپورٹ کے چیدہ نکات سنئے اور سر دھنیے…
رپورٹ کا عنوان ہے ’’An Unequal Future‘‘ یعنی ’’غیر مساوی مستقبل‘‘۔ رپورٹ کا خلاصہ یہ کہ اگر ترقی کی یہ رادھا نو من تیل کے ساتھ اسی طرح ناچتی رہی تو پورے ایشیاء میں انصاف، مساوات اور خوشحالی کا خواب بس خواب ہی رہے گا۔
آکسفیم کے مطابق، ایشیاء کے بیشتر ممالک میں دولت اور آمدنی کی تقسیم خطرناک حد تک غیر مساوی ہے۔ بظاہر ترقی کی شرح بلند ہے مگر سماجی انصاف، پائیدار روزگار اور روزمرہ کی پبلک سرورسز کی فراہمی کمزور تر ہو رہی ہے۔
یہ رپورٹ تین بڑے بحرانوں کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہے۔ آمدنی و دولت کی ناہمواری، موسمیاتی تباہ کاری اور ڈیجیٹل خلاء (Digital Divide)۔
رپورٹ کے مطابق ایشیاء کے بڑے ممالک میں امیر ترین 10 فیصد افراد قومی آمدنی کے 60 سے 77 فیصد حصہ کے مالک ہیں۔
بھارت میں ایک فیصد اشرافیہ ملک کی کل دولت کا 40 فیصد جب کہ چین میں 31 فیصد کنٹرول کرتی ہے۔ یہ خوفناک تضاد اس حقیقت کا اظہار ہے کہ معاشی ترقی کے اعداد و شمار اور رنگ برنگے اشاریے عوامی فلاح اور متناسب سماجی ترقی کے مترادف نہیں۔ ترقی کے باوجود 18.9 فیصد آبادی اب بھی روزانہ 3.65 ڈالر سے کم پر گزارا کرتی ہے اور 50 کروڑ سے زائد لوگ غربت یا اس کے دہانے پر ہیں۔
ٹیکس کا نظام بھی بالعموم غیرمنصفانہ ہے۔ ایشیاء میں اوسطاً ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 19 فیصد ہے جو ترقی یافتہ ممالک (OECD اوسط 34 فیصد) سے کہیں کم ہے۔ نتیجتاً حکومتوں کے پاس تعلیم، صحت اور سماجی تحفظ کے لیے وسائل ناکافی رہتے ہیں۔اے آئی، انٹرنیٹ اور موبائلز فونز کے انقلاب کے باوجود ڈیجیٹل ناہمواری بھی بڑھ رہی ہے۔ شہری علاقوں میں 83 فیصد لوگ آن لائن ہیں جب کہ دیہی علاقوں میں یہ شرح 49 فیصد ہے۔صنفی پیمانے سے جانچیں تو خواتین کی ڈیجیٹل شمولیت مردوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔
ماحولیاتی اعتبار سے بھی عدم مساوات نمایاں ہے۔ جن طبقات کا آلودگی میں حصہ سب سے کم ہے، وہی سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ جنوبی ایشیاء میں امیر ترین 0.1 فیصد افراد ایک عام شہری کے مقابلے میں 70 گنا زیادہ کاربن خارج کرتے ہیں جب کہ غریب ترین 50 فیصد طبقہ ماحولیاتی نقصانات کا سب سے بڑا شکار ہے۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں معاشی نمو کے باوجود معاشی ناہمواری اور سماجی عدم مساوات تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اگرچہ غربت میں گاہے وقتی کمی دیکھی گئی مگر عملاً امیر اور غریب کے درمیان فاصلہ وسیع تر ہو رہا ہے۔ پاکستان میں امیر ترین 10 فیصد افراد قومی آمدنی کا تقریباً 62 فیصد حاصل کرتے ہیں جب کہ نچلے 50 فیصد عوام کے حصے میں صرف 10 فیصد آمدنی آتی ہے۔ یہ معاشی و سماجی ناہمواری وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور اشرافیہ کے ہاتھوں میں طاقت کے ارتکاز کو ظاہر کرتی ہے۔
ٹیکس کا ڈھانچہ اس خلیج کو مزید گہرا کرتا ہے۔ پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب محض 9.5 تا 10 فیصد ہے جو خطے میں سب سے کم ہے۔ یہ مایوس کن شرح پبلک سروسز کے لیے مالی گنجائش کو مزید محدود کر دیتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں زیادہ تر محصولات بالواسطہ ٹیکسوں (پٹرول، بجلی، اشیائے ضروریہ) سے حاصل کیے جاتے ہیں، جس کا بوجھ بالآخر غریب اور متوسط طبقے پر آتا ہے۔
تعلیم اور صحت پر سرکاری خرچ بھی اسی عدم توازن کا تسلسل ہے۔ پاکستان اپنی قومی آمدنی کا صرف 2.2 فیصد تعلیم اور 1.5 فیصد صحت پر خرچ کرتا ہے۔ یہ شرح بنگلہ دیش (تعلیم 2.6÷، صحت 2.4÷) اور نیپال (تعلیم 3.4÷، صحت 2.9÷) سے کم ہے جب کہ جنوبی کوریا جیسے ممالک تعلیم پر 4.8÷ اور صحت پر 5.1÷ خرچ کرتے ہیں۔
ماحولیاتی لحاظ سے پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو کلائمیٹ چینج سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ گزشتہ دہائی میں ماحولیاتی آفات کے باعث 3 کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے اور 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان ہوا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا عالمی آلودگی میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد اگرچہ کچھ کم ہوئی، تاہم رپورٹ کے مطابق 22 فیصد آبادی اب بھی روزانہ 3.65 ڈالر سے کم پر زندہ ہے اور 50 فیصد سے زیادہ لوگ ایسے ہیں جو معمولی معاشی جھٹکے سے غربت میں جا سکتے ہیں۔
یہ تمام اعداد وشمار چیخ چیخ کر دہائی دے رہے ہیں کہ معاشی ترقی کے افسانوں میں ہم نے مساوات اور ہیومن ڈویلپمنٹ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ پاکستان کے لیے اصل چیلنج صرف معاشی نمو ہی نہیں بلکہ اس نمو کی منصفانہ تقسیم بھی ہے۔ اگروسائل، مواقع اور انصاف کی سمت درست نہ کی گئی تو دولت کے محلوں کے سائے میں غربت کی بستیاں مزید پھیلتی جائیں گی۔ فیصلہ سازوں کوتو شاید سوچنے کی مجبوری نہیں لیکن سماج کو ضرورسوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کیسی ترقی چاہتے ہیں: اشرافیہ کے ایک محدود طبقے کے لیے یا سب کے لیے؟