مجلس علماء ہند کے جنرل سکریٹری نے کہا کہ وہ اس بل کو ہرگز قبول نہیں کریں گے اور جلد ہی اسکے خلاف ایک منظم تحریک شروع کی جائیگی۔ اسلام ٹائمز۔ آل انڈیا مجلس علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا سید کلب جواد نقوی نے مرکزی حکومت کے ذریعہ پارلیمنٹ میں پیش کئے گئے وقف ترمیمی بل کی مذمت کی ہے نیز اسے وقف ترمیمی بل نہیں بلکہ وقف خاتمہ بل قرار دیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس بل کے 14 سیکشن مکمل طور پر وقف مخالف ہیں اور حکومت اس کا استعمال وقف املاک پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ حکومت وقف پر قبضہ کرنے کی سازش کر رہی ہے جسے ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا۔ مولانا کلب جواد نقوی نے جمعہ کی نماز کے بعد آصفی مسجد میں نامہ نگاروں سے کہا کہ جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) نے پارلیمنٹ میں بل کو جس انداز میں پیش کیا وہ غیر آئینی اور غیر جمہوری تھا۔ انہوں نے کمیٹی کے چیئرمین جگدمبیکا پال پر الزام لگایا کہ وہ متاثرہ فریقوں کی رائے کو نظرانداز کرتے ہوئے غیر متعلقہ افراد کی رائے کو اہمیت دے رہے ہیں۔

مولانا کلب جواد نے سوال اٹھایا کہ اگر حکومت شفافیت چاہتی ہے تو صرف مسلمانوں سے ہی وقف املاک کے دستاویزات کیوں مانگے جارہے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا ہندوستان میں صرف مسلمانوں کا وقف ہے، مندروں کو اس عمل میں کیوں شامل نہیں کیا گیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سرکاری زمین پر ہزاروں مندر بنے ہوئے ہیں، کئی مندر وقف املاک پر بھی بنائے گئے ہیں، تو کیا حکومت ان سے بھی دستاویزات مانگے گی۔ مولانا کلب جواد نے کہا کہ کئی سرکاری عمارتیں وقف اراضی پر بنی ہوئی ہیں، جن کے دستاویزات بھی دستیاب ہیں، تو وہ عمارتیں مسلمانوں کو کب واپس کی جائیں گی۔ سوال اٹھایا گیا کہ اگر حکومت واقعی ملک اور عوام کی بھلائی چاہتی ہے تو صرف مسلمانوں کی وقف املاک پر قبضہ کرنے سے ملک کیسے ترقی کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ دیگر مذاہب کے وقف بھی اربوں روپے کی جائیداد کے مالک ہیں لیکن انہیں اس بل کے دائرے میں کیوں نہیں لایا جا رہا۔ انہوں نے کہا کہ مندروں میں موجود سونے اور چاندی کی بے تحاشہ مقدار کو بھی ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے استعمال کیا جانا چاہیئے۔

مولانا کلب جواد نے کہا کہ وہ اس بل کو ہرگز قبول نہیں کریں گے اور جلد ہی اس کے خلاف ایک منظم تحریک شروع کی جائے گی۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس بل کو روکنے کے لئے تمام اپوزیشن جماعتوں کو متحد ہو کر ووٹ دینا ہوگا۔ انہوں نے بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار اور آندھرا پردیش کے وزیر اعلی چندرا بابو نائیڈو سے اس بل کی مخالفت کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ اگر بہار اور آندھرا پردیش کی حکومتیں اس بل کی مخالفت کرتی ہیں تو اسے پارلیمنٹ میں پاس ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔ مولانا کلب جواد نے کہا کہ اب اپوزیشن صرف واک آؤٹ کرنے سے باز نہیں آئے گی۔ انہوں نے اپوزیشن جماعتوں سے اپیل کی کہ وہ ووٹنگ میں جوش و خروش سے حصہ لیں اور بل کو روکیں۔ اس کے ساتھ مولانا کلب جواد نے اترپردیش کے اقلیتی وزیر کے اس بیان کی بھی مذمت کی، جس میں انہوں نے الزام لگایا تھا کہ وقف ترمیمی بل کی مخالفت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو قبروں کی زمین 5-5 لاکھ روپے میں بیچ رہے ہیں۔

اس الزام کو سفید جھوٹ قرار دیتے ہوئے مولانا کلب جواد نے چیلنج کیا کہ اگر وزیر الزام ثابت نہ کر سکے تو انہیں اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر الزامات ثابت ہو گئے تو میں اپنے تمام عہدوں سے استعفیٰ دینے کو تیار ہوں۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ صرف عہدے اور ذاتی مفاد کے لیے اس بل کی حمایت کر رہے ہیں اور وہ برادری کے غدار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ متروکہ وقف املاک امام زمانہ عج کی ملکیت ہیں اور ان پر قبضے کی سازش کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ وقف املاک کہ اگر

پڑھیں:

مودی سرکار کی ناکام پالیسیوں کا خمیازہ؛ مقبوضہ کشمیر کی معیشت تباہی  کا شکار

مقبوضہ کشمیر میں اقتصادی بحران شدت اختیار کر گیا ہے، جس کی بڑی وجہ بھارتی حکومت کی متنازع و ناکام پالیسیاں اور آرٹیکل 370 کی منسوخی ہے۔

خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد مقبوضہ وادی کی معیشت شدید زوال کا شکار ہوئی ہے، جس سے کشمیری عوام بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ 2019 ء میں آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے بعد سے مواصلاتی بلیک آؤٹ مسلط کیا گیا، جس نے لاکھوں افراد کو بنیادی سہولیات سے محروم کر دیا۔

کشمیر چیمبر آف کامرس کے مطابق زرعی مصنوعات کی ترسیل پر عائد پابندیوں سے معیشت کو 400 ارب روپے کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ اسی طرح بھارتی پالیسیوں نے سیاحت کے شعبے کو بھی شدید نقصان پہنچایا، جس سے 100 کروڑ روپے سے زائد کا خسارہ ہوا ہے۔

علاوہ ازیں تجارتی سرگرمیوں پر پابندیوں کے باعث کشمیری تاجروں کی آمدنی میں 60 فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے جب کہ زرعی مصنوعات پر پابندیاں کسانوں کے لیے معاشی بربادی کا باعث بن گئی ہیں اور وہ شدید مالی بحران کا شکار ہیں۔

تعلیمی اداروں کی بندش نے بھی لاکھوں کشمیری نوجوانوں کے تعلیمی مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ 2019 کے بعد بے روزگاری کی شرح میں 20 فیصد تک اضافہ ہوا، جو خطے میں بڑھتی ہوئی محرومی کی نشاندہی کرتا ہے۔

بھارتی فوج کی مسلسل موجودگی اور نگرانی مقبوضہ وادی کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہے۔

بھارت کی جانب سے مقامی وسائل پر قبضہ اور معیشت پر سخت نگرانی نے وادی کو بدترین اقتصادی عدم استحکام کا شکار کر دیا ہے۔ ان تمام تر مشکلات کے باوجود کشمیری عوام اپنی جدوجہد آزادی سے پیچھے نہیں ہٹے اور ان کا حوصلہ ناقابل تسخیر ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت میں اتنی جرات نہیں کہ وہ سرحدی خلاف ورزی کرے، انوارالحق
  • مودی سرکار کی ناکام پالیسیوں کا خمیازہ؛ مقبوضہ کشمیر کی معیشت تباہی  کا شکار
  • بھارت میں اتنی جرات نہیں کہ وہ سرحدی خلاف ورزی کرے، وزیراعظم آزاد کشمیر
  • پاکستان پر الزام تراشی بھارتی ناکامی و شکست ہے، مولانا امین انصاری
  • پہلگام سانحہ پاکستان پر الزام تراشی بھارتی ناکامی و شکست ہے، مولانا امین انصاری
  • قومی اسمبلی کمیٹی برائے داخلہ میں پاکستان سیٹیزن شپ ایکٹ ترمیمی بل منظور،پاکستانیوں کو شہریت نہیں چھوڑنی پڑے گی،ڈی جی پاسپورٹس
  • قومی اسمبلی کمیٹی برائے داخلہ میں پاکستان سیٹیزن شپ ایکٹ ترمیمی بل منظور
  • آئین پاکستان 90 روز میں جنرل الیکشن کا کہتا ہے کیا وہ کرائے گئے؟
  • ریٹائرڈ ایئر مارشل کو بغاوت سمیت متعدد الزامات میں سزا سنا دی گئی
  • ایئرمارشل جواد سعید کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور بغاوت کے مقدمات میں سزا سنائی گئی ہے.نمائندہ پاک فضائیہ